’’لے دے وے جُتّی مینوں،
مُکستری کڑھائی والی،
پیراں وِچّ میرے
چنّاں
جچوگی پائی باہلی۔‘‘
’’میرے لیے جوتی خریدو،
جس پر مُکستر کی کشیدہ کاری ہو،
میرے محبوب میرے پیروں میں
یہ بڑی خوبصورت دکھائی دیں گی۔‘‘
ہنس راج سوتی کے موٹے دھاگے پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہیں۔ دھاگے سے سخت چمڑے کی سلائی کرنے کے لیے تجربہ کار ہنس راج اسٹیل کی نکیلی سوئی استعمال کرتے ہیں۔ پنجابی جوتی کی ہاتھ سے سلائی کے لیے وہ بڑی مہارت سے تقریباً ۴۰۰ مرتبہ سوئی کو چمڑے کے اندر-باہر کرتے ہیں۔ جب بھی وہ سوئی چمڑے سے گزارتے ہیں تو ایک ’ہوں‘ کی بھاری آواز خاموشی کو توڑتی ہے۔
پنجاب کے شری مکتسر صاحب ضلع کے روپانا گاؤں میں ہنس راج واحد کاریگر ہیں جو روایتی طریقے سے یہ جوتیاں بناتے ہیں۔
’’زیادہ تر لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ پنجابی جوتی کیسے بنتی ہے اور اسے کون بناتا ہے۔ ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ اسے مشینوں سے بنایا جاتا ہے۔ لیکن اس کی تیاری سے لے کر سلائی تک، سب کچھ ہاتھ سے کیا جاتا ہے،‘‘ ۶۳ سالہ کاریگر کہتے ہیں جو تقریباً نصف صدی سے جوتیاں بنا رہے ہیں۔ ’’آپ جہاں کہیں بھی جائیں، مکتسر، ملوٹ، گدرباہا یا پٹیالہ، کوئی بھی میری طرح باریکی سے جوتی نہیں بنا سکتا،‘‘ ہنس راج حقیقت پسندانہ انداز میں کہتے ہیں۔
وہ روزانہ صبح ۷ بجے اپنی کرایے کی ورکشاپ کے دروازے کے قریب فرش پر پچھے روئی کے گدے پر بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ ورکشاپ کی دیواروں کا کچھ حصہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے پنجابی جوتیوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ ایک جوڑی جوتی کی قیمت ۴۰۰ سے ۱۶۰۰ روپے کے درمیان ہوتی ہے، اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کام سے تقریباً ۱۰ ہزار روپے ماہانہ کما سکتے ہیں۔
بوسیدہ دیوار سے ٹیک لگا کر وہ اگلے ۱۲ گھنٹے تک ہاتھ سے جوتیاں بناتے ہیں۔ دیوار کی وہ جگہ جہاں وہ اپنی تھکی ہوئی پیٹھ ٹکاتے ہیں، وہاں سے پلاسٹر ادھڑ گئی ہے اور اینٹیں دکھائی دے رہی ہیں۔ ’’جسم میں درد ہوتا ہے، خاص طور پر پیروں میں،‘‘ ہنس راج اپنے گھٹنوں کے جوڑوں کی مالش کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گرمیوں میں ’’پسینے کی وجہ سے پیٹھ پر دانے نکل آتے ہیں، جن سے درد ہوتا ہے۔‘‘
ہنس راج نے اس دستکاری کی تربیت ۱۵ سال کی عمر میں اپنے والد سے حاصل کی تھی۔ ’’میں گھر سے باہر رہنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔ کسی دن سیکھنے بیٹھ جاتا تھا، کسی دن نہیں بیٹھتا تھا۔‘‘ لیکن جیسے جیسے وہ بڑے ہوئے کام کرنے کا دباؤ بھی بڑھتا گیا، اور اسی طرح بیٹھنے کے اوقات میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔
ملی جلی پنجابی اور ہندی میں بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’اس کام میں باریکی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ ہنس راج برسوں سے بغیر چشمے کے کام کر رہے ہیں، ’’لیکن اب میں اپنی بینائی میں تبدیلی محسوس کر رہا ہوں۔ اگر بہت دیر تک کام کرتا ہوں تو آنکھوں میں تناؤ محسوس ہوتا ہے۔ مجھے ہر چیز دو دو نظر آتی ہے۔‘‘
کام کے دوران عام دنوں میں وہ چائے پیتے ہیں اور اپنے ریڈیو پر خبریں، گانے اور کرکٹ کی کمنٹری سنتے ہیں۔ ان کا پسندیدہ پروگرام ’’فرمائشی پروگرام‘‘ ہے، جہاں سامعین کی فرمائش پر ہندی اور پنجابی کے پرانے نغمے چلائے جاتے ہیں۔ انہوں نے خود کبھی کسی گانے کی فرمائش کے لیے ریڈیو اسٹیشن کو فون نہیں کیا کہ ’’مجھے نمبر سمجھ نہیں آتے اور نہ میں ڈائل کرسکتا ہوں۔‘‘
ہنس راج کبھی اسکول نہیں گئے، لیکن اپنے گاؤں سے باہر نئے مقامات کی تلاش میں انہیں بہت خوشی ملتی ہے، خاص طور پر اپنے دوست اور پڑوسی گاؤں کے ایک بابا کے ہمراہ: ’’ہر سال ہم ایک دورہ کرتے ہیں۔ ان کے پاس اپنی کار ہے، اور وہ اکثر مجھے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ایک یا دو اور لوگوں کے ساتھ ہم نے ہریانہ اور راجستھان میں الور اور بیکانیر کے مقامات کا دورہ کیا ہے۔‘‘
*****
شام کے ۴ بج چکے ہیں، اور روپانا گاؤں وسط نومبر کی گرم دھوپ کی چمک میں نہا رہا ہے۔ ہنس راج کے ایک پابند گاہک اپنے دوست کے ساتھ پنجابی جوتیوں کا جوڑا بنوانے آئے ہیں۔ ’’کیا آپ کل تک ان کے لیے ایک جوتی بنا سکتے ہیں؟‘‘ وہ ہنس راج سے دریافت کرتے یں۔ دوست بہت دور ہریانہ کے ٹوہانہ سے آئے ہیں جو یہاں سے ۱۷۵ کلومیٹر دور ہے۔
ہنس راج مسکراتے ہوئے دوستانہ انداز میں گاہک کی درخواست کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں، ’’یار، یہ کل تک ممکن نہیں ہے۔‘‘ تاہم گاہک بضد ہیں: ’’مکتسر پنجابی جوتیوں کے لیے مشہور ہے۔‘‘ اور پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر کہتے ہیں، ’’شہر میں جوتیوں کی ہزاروں دکانیں ہیں۔ لیکن یہاں روپانا میں صرف یہی ہیں جو ہاتھ سے جوتیاں بناتے ہیں۔ ہم ان کے کام سے واقف ہیں۔‘‘
گاہک ہمیں بتاتے ہیں کہ دیوالی تک پوری دکان جوتیوں سے بھری پڑی تھی۔ ایک ماہ بعد نومبر میں صرف ۱۴ جوڑی باقی رہ گئی ہیں۔ وہ کون سی چیز ہے جو ہنس راج کی جوتیوں کو اتنی خاص بناتی ہے؟ ’’یہ جو جوتیاں بناتے ہیں وہ بیچ میں سپاٹ ہوتی ہیں،‘‘ گاہک دیوار سے لٹکی جوتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’فرق [ کاریگر کے] ہاتھوں میں ہوتا ہے۔‘‘
ہنس راج تنہا کام نہیں کرتے۔ وہ کچھ جوتیاں یہاں سے ۱۲ کلومیٹر دور اپنے آبائی گاؤں، کُھنن خورد کے ایک ہنر مند کاریگر سنت رام سے بھی بنواتے ہیں۔ دیوالی یا دھان کے سیزن میں، جب مانگ زیادہ ہوتی ہے، تو وہ اپنے کام کو آؤٹ سورس کرتے ہیں اور ایک جوڑی کی سلائی کے لیے ۸۰ روپے ادا کرتے ہیں۔
جوتیاں بنانے والے ماہر کاریگر ہنس راج ہمیں کام اور کاریگری کے درمیان فرق بتاتے ہیں: ’’میں ہمیشہ جوتی کے پنا [اوپری حصے] کو سول کی نوک سے سلائی کرتا ہوں۔ یہ جوتی کی سلائی کا سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ جو شخص اس کام کو بخوبی انجام دیتا ہے وہی ایک مستری [ کاریگر] ہے، ورنہ نہیں ہے۔‘‘
یہ کوئی ایسا ہنر نہیں تھا جسے انہوں نے آسانی سے سیکھا تھا۔ ’’میں شروع شروع میں دھاگے سے جوتی کی سلائی کرنے میں اچھا نہیں تھا،‘‘ ہنس راج یاد کرتے ہیں، ’’لیکن جب میں نے اسے سیکھنے کا عزم کر لیا تو دو ماہ میں مہارت حاصل کر لی۔ باقی کی مہارت وقت کے ساتھ حاصل کی، پہلے اپنے والد سے پوچھ کر، اور بعد میں ان کا مشاہدہ کر کے،‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں۔
برسوں کے تجربے کے بعد انہوں نے اس کام میں جدت پیدا کی ہے، اور جوتی کے دونوں کناروں پر چمڑے کی چھوٹی پٹیوں کو جوڑنے کی ایک تکنیک شامل کی ہے۔ وہ جوتی کے تمام جوڑوں کو بڑی باریکی سے جوڑتے ہیں۔ ’’یہ چھوٹی چھوٹی پٹیاں جوتی کو مضبوطی فراہم کرتی ہیں۔ جوتیاں ٹوٹ پھوٹ سے زیادہ محفوظ ہو جاتی ہیں،‘‘ وہ تفصیل سے بتاتے ہیں۔
*****
ہنس راج اپنے کنبے کے چار افراد (جس میں ان کی بیوی، ویرپال کور، اور دو بیٹے اور ایک بیٹی، جو اب سبھی شادی شدہ ہیں اور خود ماں باپ بن چکے ہیں) کے ساتھ تقریباً ۱۸ سال قبل کھنن خورد سے روپانا آ گئے تھے۔ اس وقت ان کے بڑے بیٹے، جو اب ۳۶ سال کے ہیں، نے یہاں گاؤں کی پیپر مل میں کام کرنا شروع کیا تھا۔
ہنس راج بتاتے ہیں، ’’کھنن خورد میں زیادہ تر [دلت] گھرانے اپنے گھروں سے جوتیاں بنانے کا کام کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ نئی نسل نے اس ہنر کو نہیں سیکھا۔ اور جو یہ کام جانتے تھے، وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔‘‘
آج، ان کے پرانے گاؤں میں صرف تین کاریگر ہیں، جو اب بھی پنجابی جوتیوں کی دستکاری کے فن سے وابستہ ہیں اور ان سبھی کا تعلق رام داسی چمار (ریاست میں درج فہرست ذات کے طور پر درج) برادری سے ہے، جب کہ روپانا میں ہنس راج تنہا کاریگر ہیں۔
’’ہمیں کھنن خورد میں اپنے بچوں کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا تھا، اس لیے ہم نے وہاں اپنی جائیداد بیچی اور یہاں خرید لی،‘‘ ویرپال کور پرعزم اور پرامید انداز میں کہتی ہیں۔ وہ روانی سے ہندی بولتی ہیں، جو ان کے پڑوس کی ملی جلی آبادی کا نتیجہ ہے۔ یہاں اتر پردیش اور بہار کے تارکین وطن بھی آباد ہیں، جن میں سے اکثر پیپر مل میں کام کرتے ہیں اور آس پاس کے علاقے میں کرایے کے کمروں میں رہتے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ہنس راج کی فیملی نے نقل مکانی کی ہو۔ ہنس راج کہتے ہیں، ’’میرے والد نارنول [ہریانہ] سے پنجاب آ کر جوتیاں بنانے لگے تھے۔‘‘
شری مکتسر صاحب ضلع میں واقع گرو نانک کالج آف گرلز کے ۲۰۱۷ کے ایک مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جوتی بنانے والے ہزاروں کنبے ۱۹۵۰ کی دہائی میں راجستھان سے پنجاب منتقل ہوئے تھے۔ ہنس راج کا آبائی گاؤں نارنول میں ہریانہ اور راجستھان کی سرحد پر واقع ہے۔
*****
ہنس راج بتاتے ہیں، ’’جب میں نے یہ کام شروع کیا تھا، تب ایک جوڑی کی قیمت صرف ۳۰ روپے ہوتی تھی۔ اب ایک مکمل کڑھائی والی جوتی کی قیمت ۲۵۰۰ روپے سے زیادہ ہو سکتی ہے۔‘‘
اپنی ورکشاپ میں چمڑے کے چھوٹے اور بڑے بکھرے ہوئے ٹکڑوں میں سے، ہنس راج ہمیں دو قسم کے چمڑے دکھاتے ہیں: ایک گائے کا اور دوسرا بھینس کا۔ ’’بھینس کے چمڑے تلے (سول) کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اور گائے کے چمڑے جوتیوں کے اوپری نصف حصے کے لیے ہوتے ہیں،‘‘ اس دستکاری کی ریڑھ کی ہڈی رہے اس خام مال کو اپنے ہاتھوں سے جھاڑتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔
ٹین شدہ (صاف کیے ہوئے) گاوٴ چرم ہاتھ میں اٹھا کر وہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ آیا ہم کو جانوروں کی کھال چھونے میں کوئی دقت تو نہیں ہے؟ جب ہم اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں، تو وہ نہ صرف ٹین شدہ چمڑے کو بلکہ دوسری طرح کے چمڑوں کو بھی دکھاتے ہیں۔ بھینس کا چمڑا کاغذ کے ۸۰ صفحوں کی طرح موٹا محسوس ہوتا ہے، جبکہ گائے کا چمڑا پتلا ہوتا ہے، شاید کاغذ کے تقریباً ۱۰ صفحوں کے برابر۔ ساخت کے لحاظ سے بھینس کا چمڑا ہموار اور سخت محسوس ہوتا، جبکہ گائے کا چمڑا گرچہ قدرے کھردرا ہوتاہے، لیکن زیادہ لچک دار اور موڑنے میں آسان ہوتا ہے۔
چمڑے (جوتی کا سب اہم خام مال) کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور جوتیوں اور چپلوں (جنہیں وہ ’’بوٹ چپل‘‘ کہتے ہیں) کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھا ہے۔ اس وجہ سے اس پیشے کو اپنانے کے خواہشمند لوگوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔
ہنس راج اپنے اوزاروں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ جوتی کو شکل دینے کے لیے وہ رَمبی (کٹر) کا استعمال چمڑے کو تراشنے اور کھرچنے کے لیے کرتے ہیں؛ مورگا (لکڑی کا ہتھوڑا) کو اسے سخت ہونے تک پیٹنے کے لیے استعمال میں لاتے ہیں۔ لکڑی کا مورگا اور ہرن کی سینگ ان کے والد کی ملکیت تھے۔ ہرن کی سینگ کا استعمال وہ جوتی کے نوک کو شکل دینے کے لیے کرتے ہیں، کیونکہ اسے صرف ہاتھوں سے ٹھیک کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ٹین شدہ چمڑا حاصل کرنے کے لیے انہیں اپنے گاؤں سے ۱۷۰ کلومیٹر دور جالندھر میں جوتیوں کی منڈی تک کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ منڈی (ہول سیل مارکیٹ) تک پہنچنے کے لیے وہ موگا کی بس لیتے ہیں اور پھر موگا سے جالندھر کے لیے دوسری بس سےسفر کرتے ہیں۔ ان کے ایک طرف کے سفر کا خرچ ۲۰۰ روپے زیادہ ہوتا ہے۔
جالندھر کا ان کا حالیہ دورہ دیوالی سے دو ماہ قبل ہوا تھا، جب انہوں نے ۲۰ ہزار روپے میں ۱۵۰ کلو گرام ٹین شدہ چمڑا حاصل کیا تھا۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا انہیں چمڑے کی نقل و حمل میں کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ’’پریشانی ٹین شدہ چمڑے سے زیادہ بغیر ٹین شدہ چمڑے کی نقل و حمل کو لے کر پیش آتی ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
چمڑے کے مطلوبہ معیار کو احتیاط سے منتخب کرنے کے لیے وہ منڈی کا دورہ کرتے ہیں۔ تاجر ان چمڑوں کو قریبی شہر مکتسر تک پہنچانے کا انتظام کرتے ہیں، جہاں سے وہ اسے اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’بس سے اتنا بھاری سامان اکیلے لے جانا ویسے بھی ممکن نہیں ہے۔‘‘
وقت گزرنے کے ساتھ جوتی بنانے کا مواد بھی بدلتا گیا ہے۔ مَلوٹ میں گرو روی داس کالونی کے راج کمار اور مہندر کمار جیسے نوجوان کاریگر کہتے ہیں کہ مصنوعی چمڑے جیسے ریکسین اور مائیکرو سیلولر شیٹ اب زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔ راج اور مہندر، دونوں کی عمریں چالیس کی دہائی کے اوائل میں ہیں اور دونوں دلت جاٹو برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
مہندر بتاتے ہیں، ’’جہاں ایک مائیکرو شیٹ کی قیمت ۱۳۰ روپے فی کلوگرام ہوتی ہے، وہیں گائے کے چمڑے کی قیمت اب ۱۶۰ روپے سے لے کر ۲۰۰ روپے فی کلوگرام سے زیادہ ہوتی ہے۔‘‘ اب کہا جا رہے کہ چمڑا علاقے میں ایک نایاب چیز بن گیا ہے۔ ’’پہلے یہ کالونی ٹینریز (جہاں چمڑے کی صفائی ہوتی ہے) سے بھری ہوئی تھی اور بغیر ٹین شدہ چمڑے کی بدبو ہوا میں بھری رہتی تھی۔ لیکن جیسے جیسے بستی بڑھتی گئی ٹینریز بند ہوتی گئیں،‘‘ راج کہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ نوجوان اب اس پیشے میں شامل ہونے کے خواہشمند نہیں ہیں، اور صرف کم آمدنی ہی اس کی واحد وجہ نہیں ہے۔ مہندر کہتے ہیں، ’’بدبو کپڑوں میں سما جاتی ہے، اور بعض اوقات دوست بھی ہاتھ نہیں ملاتے۔‘‘
ہنس راج کہتے ہیں، ’’میرے اپنے گھر کے بچے جوتیاں نہیں بناتے ہیں۔ میرے بیٹے اس ہنر کو سیکھنے کے لیے کبھی دکان میں نہیں گئے، تو وہ کیسے سیکھ پاتے؟ اس ہنر کو جاننے والی اب ہماری آخری نسل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میں مزید پانچ سال یہ کام کرسکوں، میرے بعد اور کون کرے گا؟‘‘ وہ اداسی بھرے لہجے میں کہتے ہیں۔
رات کے کھانے کے لیے سبزیاں کاٹتی ہوئی ویرپال کور کہتی ہیں، ’’صرف جوتیاں بنا کر گھر تعمیر کرنا ناممکن ہے۔ تقریباً دو سال قبل اس فیملی نے ایک پکا مکان تعمیر کروایا ہے، جس کے لیے ان کے بڑے بیٹے نے پیپر مل سے لون لیا تھا۔
ہنس راج اپنی بیوی کو چھیڑتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں نے اسے کڑھائی (کشیدہ کاری) سیکھنے کو کہا تھا، لیکن اس نے نہیں سیکھی۔‘‘ ان کی شادی کو ۳۸ سال ہوچکے ہیں۔ ’’مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی،‘‘ ویرپال جواب دیتی ہیں۔ اپنی ساس سے جو کچھ سیکھا اس کی بنیاد پر، وہ زری کے دھاگے سے گھر میں ایک گھنٹے میں ایک جوڑی جوتی کی کڑھائی کر لیتی ہیں۔
ہنس راج اپنا مکان اپنے بڑے بیٹے کی تین رکنی فیملی کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ اس میں دو کمرے، ایک باورچی خانہ، ایک ڈرائنگ روم اور ایک آؤٹ ڈور ٹوائلٹ ہے۔ کمروں اور ہال کی دیواروں پر بی آر امبیڈکر اور سنت روی داس کی تصاویر آویزاں ہیں۔ سنت روی داس کی اسی طرح کی تصویر ہنس راج کی ورکشاپ میں نظر آتی ہے۔
’’پچھلے ۱۰-۱۵ سالوں میں لوگوں نے پھر سے جوتیاں پہننا شروع کر دی ہیں،‘‘ ویرپال کہتی ہیں، ’’اس سے پہلے بہت سے لوگوں نے کاریگروں کو آرڈر دینا بند کر دیا تھا۔‘‘
اس دوران ہنس راج زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے تھے اور جب کبھی کوئی خریدار آتا تھا، تو ایک یا دو دن کے اندر جوتیاں تیار کر دیتے تھے۔
ویرپال کہتی ہیں، ’’اب کالج جانے والے لڑکے اور لڑکیاں ان جوتیوں میں زیادہ دلچسپی دکھاتے ہیں۔‘‘
یہاں سے گاہک لدھیانہ، راجستھان، گجرات اور اتر پردیش سمیت مختلف مقامات پر جوتیاں لے کر گئے ہیں۔ ہنس راج کو اپنا آخری بڑا آرڈر یاد ہے، جس میں ایک مل مزدور نے پنجابی جوتیوں کے آٹھ جوڑے تیار کرنے کا آرڈر دیا تھا۔ مل مزدور نے انہیں اترپردیش میں اپنے رشتہ داروں کے لیے خریدا تھا۔
چونکہ ان کے موجودہ مقام پر اس دستکاری کی مسلسل مانگ ہے، اس لیے ’’میرا ہر دن میرے لیے دیوالی کی طرح ہے،‘‘ ہنس راج خوش ہوکر کہتے ہیں۔
نومبر ۲۰۲۳ میں اس اسٹوری کی رپورٹنگ کے چند ہفتوں بعد ہنس راج کو جزوی دورہ پڑا تھا۔ اب وہ صحت یاب ہو رہے ہیں۔
اس اسٹوری کو مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) کی فیلوشپ سے تعاون حاصل ہے۔
مترجم: شفیق عالم