ٹیمپو مانجھی کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ اس گناہ کی سزا کاٹ رہے ہیں جو انہوں نے کیا ہی نہیں۔

فیملی کا کہنا ہے کہ جہان آباد کورٹ میں معاملہ کی سماعت کے دوران پولیس نے مبینہ طور پر ان کے گھر سے ضبط سامان کو ثبوت کے طور پر پیش کیا تھا، لیکن سامان ان کے گھر سے ہی ضبط ہوا تھا، اس بات کا کوئی پختہ ثبوت نہیں دیا گیا۔

ان کی ۳۵ سالہ بیوی گُنا دیوی کہتی ہیں، ’’ان کو جھوٹا کیس بنا کر پھنسا دیا گیا ہے۔‘‘

ان کے دعوے کو اس حقیقت سے تقویت ملتی ہے کہ معاملہ میں جن پانچ چشم دیدوں کی گواہی پر ٹیمپو مانجھی کو سزا ہوئی، وہ سبھی پولیس والے تھے۔ ٹیمپو کے خلاف شراب بندی اور ایکسائز قانون، ۲۰۱۶ کے تحت درج کیے گئے اس معاملے میں، سماعت کے دوران ایک بھی آزاد گواہ پیش نہیں کیا گیا تھا۔

گُنا دیوی کہتی ہیں، ’’دارو (شراب) گھر کے پیچھے کھیت میں ملی تھی۔ کھیت کس کا ہے، ہم کو نہیں معلوم۔ ہم نے پولیس سے کہا بھی کہ برآمد کی گئی دارو سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘‘ لیکن، ان کی باتوں کا پولیس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ پولیس والوں نے تب ان سے کہا تھا، ’’ تورا گھر کے پیچھے [دارو] ہئَو، تَ تورے نہ ہوتئو [تمہارے گھر کے پیچھے شراب ملی ہے، تو تمہاری ہی ہوگی نا]۔‘‘

ٹیمپو مانجھی کو ۲۰۱۹ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے تین سال بعد، ۲۵ مارچ ۲۰۲۲ کو انہیں گھر میں شراب بنانے اور بیچنے کے الزام میں قصوروار ٹھہراتے ہوئے ۵ سال کی سزا سنا دی گئی اور ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی لگا دیا گیا۔

ٹیمپو مانجھی اور گُنا دیوی اپنے چار بچوں کے ساتھ جہان آباد ضلع کے کیناری گاؤں میں ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں۔ یہ فیملی موسہر برادری سے تعلق رکھتی ہے، اور گاؤں کی موسہر ٹولی میں رہتی ہے۔ سال ۲۰۱۹ میں، ۲۰ مارچ کی صبح جب ٹیمپو مانجھی کے گھر پر چھاپہ ماری کی گئی تھی، تب وہ گھر پر نہیں تھے۔ وہ فصل ڈھونے والی ایک گاڑی پر مزدور کے طور پر کام کیا کرتے تھے اور صبح سویرے کام پر نکل گئے تھے۔

Left: After Tempu Manjhi got convicted, his wife Guna Devi had to take care of their four children.
PHOTO • Umesh Kumar Ray
Right: Tempu used to work as a labourer on a harvest-carrying cart where he used to get Rs.400 a day
PHOTO • Umesh Kumar Ray

بائیں: ٹیمپو کے جیل چلے جانے کے بعد، چاروں بچوں کی پرورش کی ذمہ داری گُنا دیوی پر آ گئی۔ دائیں: ٹیمپو فصل ڈھونے والی ایک گاڑی پر مزدور کے طور پر کام کیا کرتے تھے، اور بدلے میں انہیں ۴۰۰ روپے یومیہ کی مزدوری ملتی تھی

پاری نے جنوری ۲۰۲۳ میں جب اس موسہر ٹولی کا دورہ کیا، تو گُنا دیوی کے علاوہ آس پاس کی عورتیں، مرد اور بچے سردی کی دھوپ سینکنے کے لیے گھروں کے باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس آلودہ بستی میں پھیلی ہوئی گندگی اور اس سے آ رہی بدبو ناقابل برداشت تھی۔

کیناری گاؤں کی کل آبادی ۲۹۸۱ (مردم شماری ۲۰۱۱) ہے۔ ان میں سے ایک تہائی آبادی درج فہرست ذاتوں سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں موسہر بھی شامل ہیں، جنہیں بہار میں مہادلت کے طور پر درج کیا گیا ہے اور ریاست کی سب سے غریب اور حاشیہ کی برادریوں میں ان کا شمار کیا جاتا ہے – جو سماجی اور تعلیمی طور پر ملک کی سب سے آخری قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

انہیں کورٹ کچہری کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہوتی ہے، اس لیے پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ پٹنہ سے نکلنے والی ہندی میگزین ’سبالٹرن‘ کے ایڈیٹر مہندر سمن کہتے ہیں، ’’یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ شراب بندی قانون کے تحت درج ہوئے پہلے ہی معاملے میں قصوروار قرار دیے جانے والے دونوں ملزم بھائیوں کا تعلق موسہر برادری سے تھا۔ اس برادری کے بارے میں منفی باتیں پھیلائی جاتی رہی ہیں، اور برادری انہی وجہوں سے نشانے پر رہتی ہے۔‘‘

سُمن جن موسہر بھائیوں کا ذکر کر رہے ہیں، وہ دہاڑی مزدوری کر کے پیٹ پالنے والے پینٹر مانجھی اور مستان مانجھی ہیں۔ انہیں ہی شراب بندی قانون کے تحت سب سے پہلے قصوروار قرار دیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری مئی ۲۰۱۷ میں ہوئی تھی اور ۴۰ دنوں کے اندر ہی انہیں قصوروار بتاتے ہوئے سزا کے طور پر پانچ سال کی جیل ہوئی اور ایک ایک لاکھ کا جرمانہ بھی لگا دیا گیا۔

برادری سے جڑی سماجی بدگمانیوں کی وجہ سے بھی شراب بندی کے معاملے میں وہ نشانہ بن جاتے ہیں۔ دہائیوں سے موسہر برادری کے ساتھ کام کر رہے سمن کہتے ہیں، ’’وہ [پولیس] جانتے ہیں کہ اگر موسہروں کو گرفتار کریں گے، تو شہریوں کا کوئی گروپ یا سماجی تنظیم ان کی گرفتاری کے خلاف سڑک پر نہیں اترے گی۔‘‘

ٹیمپو کے معاملے میں، بھلے ہی مبینہ طور پر چھاپہ ماری میں ملی شراب ان کے گھر کے باہر سے برآمد ہوئی تھی، پھر بھی انہیں قصوروار ٹھہرا گیا اور پانچ سال کی جیل اور ایک لاکھ روپے کا جرمانہ لگا دیا گیا۔

Left: Advocate Ram Vinay Kumar fought the case of Tempu Manjhi. He said that the seizure list prepared in Tempu Manjhi’s case carried the signatures of two independent witnesses, but their testimonies were not produced.
PHOTO • Umesh Kumar Ray
Right: The Supreme Court has reprimanded the Bihar government many times due to the increased pressure of cases on the courts because of the prohibition law
PHOTO • Umesh Kumar Ray

بائیں: وکیل رام ونے کمار نے ٹیمپو مانجھی کا کیس لڑا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹیمپو مانجھی کے معاملے میں ضبط کیے گئے سامانوں کی جو فہرست بنی تھی اس پر دو آزاد گواہوں کے دستخط تھے، لیکن ان کی گواہی نہیں دلائی گئی۔ دائیں: سپریم کورٹ نے شراب بندی کے معاملوں کے سبب عدالتوں میں زیر التوا معاملوں کا بوجھ بڑھنے کو لے کر بہار سرکار کو کئی بار پھٹکار لگائی ہے

جہان آباد کورٹ کے وکیل رام ونے کمار نے ٹیمپو مانجھی کا کیس لڑا تھا۔ معاملے میں پولیس کے رویے پر بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’ٹیمپو مانجھی کے معاملے میں ضبطی کی جو فہرست بنی تھی اس پر دو گواہوں کے دستخط تھے، لیکن ان کی گواہی نہیں دلائی گئی۔ چھاپہ مارنے والی ٹیم میں شامل پولیس والوں نے ہی گواہ بن کر کورٹ میں گواہی دی۔‘‘

تقریباً ۵۰ سالہ رام ونے کمار گزشتہ ۲۴ سال سے جہان آباد کورٹ میں وکالت کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم نے ٹیمپو مانجھی سے کہا تھا کہ وہ اپنے اہل خانہ سے ڈیفنس وٹنیس [دفاع کرنے والے فریق کے گواہ] کو کورٹ میں لانے کو کہے۔ لیکن، اس کے گھر والوں نے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا، اس لیے ملزم کے دفاع میں ہم کچھ پیش نہیں کر پائے۔‘‘

آزاد گواہوں کو پیش نہ کیے جانے کے سبب موسہر برادری کے ہی رام ورکش مانجھی (بدلا ہوا نام) بھی بڑے قانونی بحران میں پھنس گئے۔ جہان آباد کے گھوسی بلاک کے کانٹا گاؤں کے ٹولہ سیوک کے طور پر کام کرنے والے رام ورکش، موسہر ٹولی کے مہا دلت بچوں کو گاؤں کے اسکول لے جا رہے تھے۔

میٹرک (ہائی اسکول) پاس ۴۵ سالہ رام ورکش ریاست کے محکمہ تعلیم کے تحت ٹولہ سیوک کا کام کرتے ہیں، اور ان کی ذمہ داری ٹولہ کے چھوٹی عمر کے بچوں کو ان کے گھروں سے گاؤں کے سرکاری اسکول تک لے جانے اور وہاں پڑھانے کی ہے۔

رام ورکش اسکول کے پاس پہنچ ہی گئے تھے، جب انہیں چوراہے پر گرفتار کر لیا گیا۔ وہ ۲۹ مارچ، ۲۰۱۹ کو پیش آئے اس واقعہ کے بارے میں بتاتے ہیں، ’’اچانک تقریباً ایک درجن پولیس والے آئے اور ان میں سے ایک نے پیچھے سے میری شرٹ کا کالر پکڑ لیا۔‘‘ پولیس نے ایک گیلن دکھاتے ہوئے کہا کہ ان کے گھر سے ۶ لیٹر شراب ملی ہے اور انہیں اپنے ساتھ تھانے لے گئی۔ (فیملی کے مطابق، پولیس ان کے گھر کبھی آئی ہی نہیں تھی۔)

اس کے بعد، انہیں شکور آباد پولیس اسٹیشن لے جایا گیا اور ان پر شراب بندی قانون کے تحت معاملہ درج کر لیا گیا۔

رام ورکش اس گرفتاری کو پولیس کی دشمنی کا نتیجہ بتاتے ہیں، جو اس دن کے ایک واقعہ کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ ان کے مطابق، اس دن پولیس میرے محلہ میں تھی۔ میں وہاں سے گزر رہا تھا اور پولیس بیچ راستے پر کھڑی تھی۔ انہوں نے ان سے راستہ چھوڑنے کو کہا اور بدلے میں ’’پولیس نے مجھے گندی گالیاں دیں اور مارا بھی۔‘‘ اس واقعہ کے ٹھیک آدھے گھنٹہ بعد ان کو گرفتار کر لیا گیا۔

Left: Ramvriksha Manjhi, 45, is working as a tola sevak in his village
PHOTO • Umesh Kumar Ray
Right: Ramvriksha says that he never made liquor in his house. He claimed that during the raid, he had asked the police to make way for him to go to school, on which the police got infuriated and took this action.
PHOTO • Umesh Kumar Ray

بائیں: رام ورکش مانجھی (۴۵ سالہ) کانٹا گاؤں میں ٹولہ سیوک کے طور پر کام کرتے ہیں۔ دائیں: رام ورکش کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے گھر میں کبھی شراب نہیں بنائی۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چھاپہ ماری کے دوران انہوں نے پولیس والوں سے اسکول جانے کا راستہ چھوڑنے کو کہا تھا، جس سے پولیس والے بھڑک گئے اور انہیں اس معاملے میں پھنسا دیا

رام ورکش کو جب پولیس نے پکڑا تھا، تب چوراہے پر لوگوں کا ہجوم امنڈ پڑا تھا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’جس وقت مجھے پکڑا گیا اُس وقت کافی بھیڑ تھی، لیکن پولیس نے کسی کو گواہ نہیں بنایا، نہ ہی ضبطی کی فہرست پر کسی آزاد شخص کے دستخط کرائے۔‘‘ اس کے برعکس ان کی ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ گرفتاری کے وقت گاؤں والے بھاگ گئے تھے۔

وکیل جتیندر کمار کہتے ہیں، ’’آزاد گواہ ہونے ہی چاہیے، کیوں کہ پولیس والوں کے گواہ بننے سے امتیازی بیان کا خدشہ رہتا ہے۔‘‘ جتیندر، جہان آباد کورٹ میں وکالت کرتے ہیں اور شراب بندی سے جڑے کئی معاملوں کی پیروی کر چکے ہیں۔

جتیندر کہتے ہیں کہ شراب بندی کے معاملے میں چھاپہ ماری کے وقت، چھاپہ ماری کرنے والی ٹیم میں شامل پولیس والوں کو ہی گواہ بنا دیا جاتا ہے۔ وہ اسے انصاف کے اصولوں کے خلاف مانتے ہیں۔

شراب بندی کے بہت سارے معاملوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ چھاپہ ماری کے وقت سینکڑوں لوگوں کا مجمع رہتا ہے۔ جتیندر کے مطابق، ’’اس کے باوجود ریڈ پارٹی [چھاپہ ماری کرنے والی پولیس ٹیم] کے ممبران کو ہی گواہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے گرفتار ہونے والے آدمی کے پاس خود کو بے قصور ثابت کرنے کا موقع کم ہو جاتا ہے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں، ’’ہم لوگوں نے زبانی طور پر عدالت سے کہا ہے کہ چھاپہ ماری کے وقت ضبطی کی ویڈیو گرافی ہونی چاہیے، تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے، لیکن ہماری باتوں کو ترجیح نہیں دی جاتی ہے۔‘‘

بہار میں اپریل ۲۰۱۶ سے شراب بندی قانون نافذ ہے۔ ریاست کے ہر ضلع میں شراب بندی سے جڑے معاملوں کے لیے الگ سے ایکسائز کورٹ ہے، تاکہ ان معاملوں کا فوری نمٹارہ ہو سکے۔

ریاست کے وکیل اور شراب بندی سے جڑے کیس کا سامنا کر رہے تمام متاثرین متفقہ طور پر کہتے ہیں کہ شراب سے جڑے معاملوں کو خاص ترجیح دینے اور فوری نمٹارہ کے دباؤ کی وجہ سے پولیس اکثر ان معاملوں کی جانچ میں ضابطوں کو طاق پر رکھ دیتی ہے۔

Left: Jitendra says that when the police arrive on the scene at a raid, bystanders throng the area. Despite that, members of the raid party [raiding squad composed of police-people] are made witnesses. This greatly reduces the chances of the accused to prove their innocence.
PHOTO • Umesh Kumar Ray
Right: Sanjeev Kumar says that due to the prohibition law, there has been a huge increase in the number of cases in the Jehanabad court
PHOTO • Umesh Kumar Ray

بائیں: جتیندر کہتے ہیں کہ پولیس جب چھاپہ ماری کرتی ہے، تب اس وقت سینکڑوں لوگوں کا مجمع لگ جاتا ہے۔ اس کے باوجود ریڈ پارٹی [چھاپہ ماری کرنے والی پولیس ٹیم] کے ممبران کو ہی گواہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے گرفتار ہونے والے آدمی کے پاس خود کو بے قصور ثابت کرنے کا موقع کم ہو جاتا ہے۔ دائیں: سنجیو کمار کہتے ہیں کہ شراب بندی سے جڑے معاملوں کی وجہ سے جہان آباد کورٹ میں مقدموں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے

عدالتی کارروائیوں کی رپورٹنگ کرنے والی ویب سائٹ لائیو لاء کے مطابق، ۱۱ مئی ۲۰۲۲ تک شراب بندی قانون کے تحت تین لاکھ ۷۸ ہزار ۱۸۶ معاملے درج کیے گئے تھے، جن میں سے ایک لاکھ ۱۶ ہزار ۱۰۳ معاملوں میں سماعت شروع ہوئی، لیکن محض ۴۷۳ معاملوں میں ہی سماعت مکمل ہوئی۔

مارچ ۲۰۲۲ میں، سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس این وی رمنّا نے کہا تھا کہ سبھی عدالتیں شراب بندی سے جڑے ضمانتی معاملوں سے بھری ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے دیگر معاملوں کی کارروائی کافی دھیمی ہو گئی ہے۔

جہان آباد کورٹ میں وکالت کرنے والے سنجیو کمار کہتے ہیں، ’’سرکار نے بہت سے وسائل کو ایکسائز معاملوں کی طرف موڑ دیا ہے اور دوسرے معاملوں میں ترجیح کم کر دی ہے۔‘‘

*****

رام ورکش مانجھی کو ۲۲ دنوں کے بعد جہان آباد کورٹ سے ضمانت مل پائی، لیکن تب سے انہیں عدالت کے لگاتار چکر لگانے پڑ رہے ہیں۔ ہر مہینے محض ۱۱ ہزار روپے کی تنخواہ پانے والے رام ورکش اب تک کورٹ کچہری میں تقریباً ۶۰ ہزار روپے خرچ کر چکے ہیں، اب ان کی اگلی سماعت اگست مہینہ میں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’معاملہ چار سال سے زیر التوا ہے۔ خرچ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔‘‘

ان کے چار بچے – تین بیٹیاں اور ایک بیٹا – ہیں، جن کی عمر سات سے ۲۰ سال کے درمیان ہے۔ سب سے بڑی بیٹی ۲۰ سال کی ہے، اور کورٹ کچہری کے چکر میں فیملی بیٹی کی شادی بھی نہیں کروا پا رہی ہے۔ رام ورکش کہتے ہیں، ’’نہ اسکول جانے کا من کرتا ہے اور نہ پڑھانے میں من لگتا ہے۔ فکرمندی کی وجہ سے پانچ گھنٹے کی جگہ دو گھنٹے ہی سو پا رہے ہیں۔‘‘

گُنا دیوی نے عدالت میں منشی کو ۲۵ ہزار روپے دیے تھے۔ پڑھنے لکھنے سے معذور گُنا کہتی ہیں، ’’ہم کورٹ میں ایک دو بار گئے تھے اور وہاں ایک منشی سے ملے تھے، لیکن وکیل سے کبھی نہیں ملے۔‘‘

Left: Guna Devi says that her husband Tempu Manjhi has been implicated by the police in a made-up case.
PHOTO • Umesh Kumar Ray
Right: After his father was sentenced to five years of imprisonment, 15-year-old Rajkumar had to work as a labourer to feed the family
PHOTO • Umesh Kumar Ray

بائیں: گنا دیوی کہتی ہیں کہ ان کے شوہر ٹیمپو مانجھی کو پولیس نے جھوٹا کیس بنا کر پھنسا دیا ہے۔ دائیں: والد کو پانچ سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد، ۱۵ سالہ راج کمار کو فیملی کا پیٹ پالنے کے لیے مزدوری کرنی پڑی

ٹیمپو کے جیل چلے جانے کے بعد سے، اس بے زمین فیملی کے لیے اپنا پیٹ پالنا مشکل ہو گیا ہے۔ گنا دیوی کو زرعی مزدوری کا کام بوائی اور کٹائی کے سیزن میں ہی مل پاتا ہے۔ ان کے چار بچوں – دو لڑکے اور دو لڑکیاں – ہیں، جن کی عمر ۱۰ سے ۱۵ سال کے درمیان ہے۔

دبلی قد و قامت کے اپنے ۱۵ سالہ بیٹے راج کمار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ مگہی زبان میں کہتی ہیں، ’’ بئوا تنی منی کما ہئی [بابو تھوڑا بہت کما لیتا ہے]۔‘‘ سال ۲۰۱۹ میں والد کے جیل جانے سے پہلے تک راج کمار پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا، لیکن اب اس کی پڑھائی چھوٹ گئی ہے اور فی الحال وہ بازار میں بورا ڈھونے کا کام کرتا ہے، جس کے عوض اسے دن کے ۳۰۰ روپے مل جاتے ہیں۔ مگر یہ کام بھی مشکل سے مل پاتا ہے کیوں کہ وہ نابالغ ہے۔

دوسری طرف، پولیس نے شراب بندی کے ایک دوسرے معاملے میں گُنا دیوی کو بھی ملزم بنا دیا ہے، اور اس کی وجہ سے وہ اپنے گھر میں آج کل چین سے رہ نہیں پاتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ’’گرفتاری سے بچنے کے لیے رات کو بال بچوں کے ساتھ کسی رشتہ دار کے یہاں چلے جاتے ہیں۔ اگر پولیس مجھے بھی پکڑ لے گی، تو میرے چاروں بچوں کا کیا ہوگا۔‘‘

حفاظت کے مدنظر کچھ جگہوں اور لوگوں کے نام بدل دیے گئے ہیں۔

یہ اسٹوری بہار کے ایک ٹریڈ یونینسٹ کی یاد میں دی گئی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے، جن کی زندگی ریاست میں حاشیہ پر پڑی برادریوں کے لیے جدوجہد کرتے گزری تھی۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Umesh Kumar Ray

ଉମେଶ କୁମାର ରାଏ ହେଉଛନ୍ତି ଜଣେ ‘ପରୀ’ ଫେଲୋ (୨୦୨୨)। ସେ ବିହାରେ ରହୁଥିବା ଜଣେ ମୁକ୍ତବୃତ୍ତ ସାମ୍ବାଦିକ ଯେ କି ସମାଜର ଅବହେଳିତ ବର୍ଗଙ୍କ ଉପରେ ଲେଖାଲେଖି କରନ୍ତି।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Umesh Kumar Ray
Editor : Devesh

ଦେବେଶ ଜଣେ କବି, ସାମ୍ବାଦିକ, ଚଳଚ୍ଚିତ୍ର ନିର୍ମାତା ଓ ଅନୁବାଦକ। ସେ ପିପୁଲ୍ସ ଆର୍କାଇଭ୍‌ ଅଫ୍‌ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆରେ ହିନ୍ଦୀ ଭାଷା ସମ୍ପାଦକ ଓ ହିନ୍ଦୀ ଅନୁବାଦ ସମ୍ପାଦକ।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Devesh
Translator : Qamar Siddique

କମର ସିଦ୍ଦିକି ପିପୁଲ୍ସ ଆରକାଇଭ ଅଫ୍ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆର ଅନୁବାଦ ସମ୍ପାଦକ l ସେ ଦିଲ୍ଲୀ ରେ ରହୁଥିବା ଜଣେ ସାମ୍ବାଦିକ l

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Qamar Siddique