اسے کفایت شعاری کی عمدہ مثال ہی کہا جائے گا۔ لیکن ۶۵ سالہ نارائن دیسائی اسے اپنے ہنر کی ’موت‘ قرار دیتے ہیں۔ دراصل، بازار کے حقائق کو دیکھتے ہوئے ان کے اس ہنر کا وجود خطرے میں پڑ گیا تھا، جس نے انہیں شہنائی کے ڈیزائن اور اس کے اجزاء میں تبدیلی کرنے کے لیے مجبور کر دیا۔
شہنائی دراصل پھونک سے بجنے والا ایک آلہ موسیقی ہے، جو شادیوں، تہواروں اور مقامی تقریبات میں کافی مقبول ہے۔
دو سال پہلے تک نارائن دیسائی کے ذریعے بنائی گئی ہر ایک شہنائی کے آخری سرے کے اندر ایک پیتلی (پیتل کی) گھنٹی ہوا کرتی تھی۔ روایتی طور پر ہاتھ سے بنائی گئی شہنائی کے اندر یہ گھنٹی، جسے مراٹھی میں ’وٹی‘ کہا جاتا ہے، کو اس سریلے لکڑی کے ساز سے نکلنے والے سُر کی سطح کو بہتر بنانے کے لیے ڈالا جاتا تھا۔ ۱۹۷۰ کی دہائی میں، جب نارائن اپنے کریئر کے سب سے بہتر دور میں تھے، تب ان کے پاس درجنوں کی تعداد میں ایسی گھنٹیاں ہوا کرتی تھیں، جنہیں وہ کرناٹک کے بیلگاوی ضلع کے چکوڑی شہر سے منگوایا کرتے تھے۔
بہرحال، حالیہ برسوں میں دو وجوہات نے انہیں آدھی صدی سے بھی زیادہ عرصے سے چلی آ رہی اس تکنیک میں تبدیلی لانے کے لیے مجبور کر دیا۔ ایک تو پیتل کی قیمتیں بہت تیزی سے بڑھیں اور دوسری چیز یہ ہوئی کہ گاہک بھی ایک اچھی شہنائی کی مناسب قیمت ادا کرنے میں تھوڑی آنا کانی کرنے لگے۔
نارائن کہتے ہیں، ’’لوگوں نے مجھ پر ۴۰۰-۳۰۰ روپے میں ایک شہنائی بیچنے کا دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ صارفین کے اس مطالبہ کو پورا کرنا مشکل تھا، کیوں کہ پیتل کی گھنٹیاں ان دنوں ۵۰۰ روپے کی آتی ہیں۔ ایسے میں نارائن کے ہاتھ سے کئی ممکنہ آرڈر نکل گئے۔ آخرکار، انہوں نے اس کا ایک حل تلاش کر لیا۔ ’’میں نے گاؤں کے میلہ سے پلاسٹک کی تُرہی (ایک قسم کا باجا) خریدی اور اس کے آخری سرے کو کاٹ کر الگ کر دیا۔ اس حصہ میں ڈالی ہوئی گھنٹیاں شہنائی کے اندر کی گھنٹی سے مماثلت رکھتی تھی۔ اس کے بعد پلاسٹک کی بنی گھنٹیوں کو پتیل کی گھنٹیوں کی جگہ شہنائی کے اندر فٹ کر دیا۔
وہ شکایتی لہجے میں کہتے ہیں، ’’اس سے آواز کے معیار پر تو فرق پڑا، لیکن لوگوں کو بھی اب یہی چاہیے۔‘‘ کسی تجربہ کار خریدار کے آنے کی صورت میں وہ اس کو اپنے پاس رکھی وٹی نکال کر دینا نہیں بھولتے۔ پلاسٹک کی بنی متبادل گھنٹی کی قیمت کے طور پر انہیں صرف ۱۰ روپے چکانے پڑتے ہیں۔ البتہ، ان گھنٹیوں کے استعمال کے بعد انہیں اپنے فن کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا احساس ندامت بھی ہوتا ہے۔
حالانکہ، وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ اگر انہوں نے یہ حل تلاش نہیں کیا ہوتا، تو منکا پور میں شہنائی بنانے کا ہنر اب تک ختم ہو چکا ہوتا۔ سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، مہاراشٹر کی سرحد پر واقع شمالی کرناٹک کے اس چھوٹے سے گاؤں کی کل آبادی محض ۸۳۴۶ ہے۔
جہاں تک انہیں یاد ہے، شہنائی کو بیلگاوی کے دیہی علاقوں اور پاس میں واقع مہاراشٹر میں شادیوں اور کُشتی کے مقابلے جیسے مبارک موقعوں پر بجایا جاتا رہا ہے۔ وہ فخر سے کہتے ہیں، ’’آج بھی ہمیں کُشتی کے مقابلوں میں شہنائی بجانے کے لیے بلایا جاتا ہے۔ یہ روایت آج بھی نہیں بدلی ہے۔ شہنائی بجنے سے پہلے دنگل شروع نہیں ہو سکتا۔‘‘
ان کے والد تکا رام کو ۶۰ کی دہائی کے آخر اور ۷۰ کی دہائی کے آغاز میں دور دراز کے خریداروں سے ہر مہینے کم از کم ۱۵ شہنائی بنانے کے آرڈر ملتے تھے۔ اس کے ۵۰ سال بعد، آج نارائن کو ہر مہینے مشکل سے دو ہی شہنائیوں کے آرڈر ملتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اب بازار میں آدھی قیمتوں پر سستے متبادل دستیاب ہیں۔‘‘
نوجوان نسل اب شہنائی جیسے روایتی آلات موسیقی میں کم دلچسپی لیتی ہے۔ نارائن اس کے لیے آرکیسٹرا، میوزک بینڈ اور الیکٹرانک میوزک کے تئیں بڑھتے رجحان کو بھی ذمہ دار مانتے ہیں۔ ان کی وسیع فیملی اور رشتہ داروں میں صرف ان کا ۲۷ سالہ بھانجہ ارجن جاوِر ہی منکا پور کا واحد شہنائی بجانے والا شخص ہے۔ وہیں نارائن، منکا پور کے اکیلے کاریگر ہیں جو ہاتھ سے شہنائی کے علاوہ بانسری بنانے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔
*****
نارائن کبھی اسکول نہیں گئے۔ شہنائی بنانے کے کام میں ان کی ابتدائی تربیت اپنے والد اور دادا دتّوبا کے ساتھ گاؤں کے میلہ میں گھومنے کے دوران شروع ہو گئی تھی۔ دتّوبا اپنے زمانے میں بیلگاوی ضلع کے سب سے بہترین شہنائی بجانے والوں میں سے ایک ہوا کرتے تھے۔ خاندانی پیشہ میں ان کے شامل ہونے کی شروعات یہی مانی جا سکتی ہے کہ جب نارائن صرف ۱۲ سال کے تھے، ’’وہ شہنائی بجاتے تھے اور میں رقص کرتا تھا۔ جب آپ بچے ہوتے ہیں، تو آپ کے اندر کسی بھی ساز کو چھو کر دیکھنے کی ایک فطری خواہش ہوتی ہے کہ یہ کیسے بجتا ہے۔ میرے اندر بھی یہی تجسس تھا۔‘‘ انہوں نے اپنی ہی کوششوں سے شہنائی اور بانسری بجانا سیکھا۔ ’’اگر آپ ان سازوں کو بجانا نہیں سیکھیں گے، تو آپ انہیں کیسے ٹھیک کر پائیں گے؟‘‘ ان کے چیلنج میں ایک مسکراہٹ بھی ہے۔
جب نارائن صرف ۱۸ سال کے تھے، تبھی ان کے والد چل بسے، اپنے ہنر اور وراثت کو بیٹے کے ہاتھوں سونپ کر۔ بعد میں، نارائن نے اس ہنر کو اپنے آنجہانی سسر آنند کینگر کی رہنمائی میں نکھارا، جو خود بھی منکا پور میں شہنائی اور بانسری کے ایک ماہر استاد سمجھے جاتے تھے۔
نارائن کی فیملی کا تعلق ہولار برادری سے ہے۔ درج فہرست ذات میں شامل ہولار برادری کے لوگ روایتی طور پر شہنائی اور ڈفلی یا کھنجری بجانے والے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ دیسائی فیملی کی طرح ان میں سے کچھ آلات موسیقی کو بنانے کا بھی کام کرتے ہیں۔ یہ ہنر بنیادی طور پر مردوں سے منسوب ہے۔ نارائن بتاتے ہیں، ’’شروع سے ہی ہمارے گاؤں میں شہنائی بنانے کا کام صرف مرد کرتے ہیں۔‘‘ ان کی ماں، آنجہانی تارا بائی ایک زرعی مزدور تھیں، جو سال کے اُن چھ مہینوں میں گھر کے سارے کام اکیلے کرتی تھیں، جب فیملی کے مرد شادی یا کشتی کے مقابلے جیسے پروگراموں میں شہنائی بجانے چلے جاتے تھے۔
نارائن کو یاد ہے کہ ان کے اچھے دنوں میں وہ ہر سال تقریباً ۵۰ الگ الگ گاؤوں میں سائیکل سے جاترا پر نکلتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں جنوب کی طرف گوا اور کرناٹک کے بیلگاوی ضلع کے گاؤوں اور مہاراشٹر کے سانگلی اور کولہا پور تک جایا کرتا تھا۔‘‘
شہنائی کی لگاتار گھٹتی مانگ کے باوجود، نارائن آج بھی اپنے ایک کمرے کے گھر سے جڑے ۸ بائی ۸ فٹ کی ورکشاپ میں ساگوان، کھیر، دیودار اور کئی دوسری قسم کی لکڑیوں کی خوشبوؤں کے درمیان روزانہ گھنٹوں گزارتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے یہاں بیٹھنا اس لیے اچھا لگتا ہے، کیوں کہ یہ مجھے میرے بچپن کی یادوں میں واپس لے جاتا ہے۔‘‘ درگا اور ہنومان کی دسیوں سال پرانی تصویروں سے گنّے اور جوار کے سوکھے پتوں سے بنی دیوار ابھی بھی سجی ہوئی ہے۔ ورکشاپ کے بالکل درمیان میں ایک اُمبر یا گولر کا درخت لگا ہے جس کی ٹہنیاں ٹن کی چھت کی سوراخ سے باہر کی طرف نکلی ہوئی ہیں۔
یہی وہ جگہ ہے، جہاں گزشتہ پانچ دہائیوں میں اپنی کاریگری کو نکھارنے میں انہوں نے اپنی زندگی کے ۳۰ ہزار سے بھی زیادہ گھنٹے گزارے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے ۵۰۰۰ سے بھی زیادہ شہنائیاں بنائی ہیں۔ شروعاتی دنوں میں ایک شہنائی بنانے میں انہیں تقریباً چھ گھنٹے کا وقت لگ جاتا تھا، لیکن اب اس کام کو پورا کرنے میں انہیں زیادہ سے زیادہ چار گھنٹے لگتے ہیں۔ ان کے دماغ اور ان کے ہاتھ کی حرکتوں میں جیسے اس عمل کی ایک ایک باریکیاں درج ہیں۔ ’’میں اپنی نیند میں بھی بانسری بنانے کا کام کر سکتا ہوں۔‘‘
سب سے پہلے وہ ساگوان کے ایک لٹھے کو آری کی مدد سے کاٹتے ہیں۔ پہلے وہ اچھے قسم کی کھیر، چندن اور شیشم کا استعمال کرتے تھے۔ ان لکڑیوں سے اچھی آواز نکلتی تھی۔ ’’تیس سال پہلے منکا پور اور آس پاس کے گاؤوں میں یہ درخت بڑی تعداد میں لگے ہوئے تھے۔ اب یہ درخت نایاب ہو گئے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ایک گھن فٹ (مربع فٹ) کھیر لکڑی سے کم از کم پانچ شہنائیاں بن سکتی ہیں۔ پہلے تقریباً ۴۵ منٹ تک وہ رندے کی مدد سے سطح کو چکنا بناتے ہیں۔ ’’اگر اس وقت تھوڑی سی بھی چوک ہو جائے، تو اس سے صحیح دُھن نہیں نکلے گی،‘‘ وہ سمجھاتے ہیں۔
بہرحال، نارائن کو لگتا ہے کہ صرف رندے کا استعمال کرکے وہ لکڑی کو ضرورت کے مطابق چکنا نہیں کر پائے ہیں۔ وہ ورکشاپ میں چاروں طرف اپنی نظریں گھماتے ہیں اور ایک سفید تھیلے کو کھینچ کر باہر نکالتے ہیں۔ تھیلے میں ہاتھ ڈال کر وہ شیشے کی ایک بوتل نکالتے ہیں اور اسے فرش پر پٹخ دیتے ہیں۔ پھر احتیاط سے کانچ کے ایک ٹکڑے کو اٹھاتے ہیں اور دوبارہ لکڑی کی سطح کو چکنا کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اپنے اس ’جگاڑ‘ پر ان کو خود بھی ہنسی آ جاتی ہے۔
ساز کو بنانے کے اگلے مرحلہ میں، لکڑی کو اچھی طرح چکنا کرنے کے بعد اس گول ڈنڈی کے دونوں سروں پر سوراخ بنائے جاتے ہیں۔ اس کے لیے لوہے کی جن سلاخوں کا استعمال کیا جاتا ہے انہیں مراٹھی میں ’گرمٹ‘ کہتے ہیں۔ نارائن ان سلاخوں کو ایک اِمری پر گھس کر تیز کرتے ہیں، جو اسمارٹ فون کے سائز کا ایک کھردرا پتھر ہوتا ہے۔ اس پتھر کو انہوں نے اپنے گھر سے تقریباً دس کلومیٹر دور مہاراشٹر کے اچلکرنجی سے ۲۵۰ روپے میں خریدار ہے۔ وہ خاص طور پر یہ بتانا نہیں بھولتے کہ کام میں آنے والے زیادہ تر دھات کے اوزار انہوں نے خود ہی بنائے ہیں، کیوں کہ سب کچھ بازار میں خریدنا ممکن نہیں ہے۔ وہ بہت احتیاط سے ساز کے دونوں سروں پر گرمٹ سے سوراخ کرتے ہیں۔ معمولی سی کوتاہی بھی ان کی انگلیوں میں چھید کر دینے کے لیے کافی ہے، لیکن انہیں ڈر نہیں لگتا ہے۔ کچھ لمحوں تک ان سوراخوں کو آر پار دیکھ کر پرکھنے کے بعد وہ مطمئن نظر آتے ہیں۔ اب وہ اگلے کام کی طرف بڑھتے ہیں، یعنی سات سُروں (سرگرم) کے سوراخوں کے لیے داغ لگاتے ہیں۔ شہنائی بنانے کے دوران یہ سب سے مشکل کام ہے۔
وہ کہتے ہیں، ’’یہاں تک کہ ایک ملی میٹر کی بھی گڑبڑی ہو گئی، تو پکّا سُر نہیں نکلے گا، اور اسے درست کرنے کی کوئی ترکیب بھی نہیں ہے۔‘‘ چوک سے بچنے کے لیے وہ سُروں کے سوراخوں پر نشان لگانے کے لیے پاور لوموں میں کام آنے والے پلاسٹک پِرن کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ چُلی ، یعنی روایتی انگیٹھی کے پاس جاتے ہیں، جس میں ۱۷ سینٹی میٹر کی تین سلاخوں کو گرم کیا جاتا ہے۔ ’’میں ڈرِیلنگ مشین کا خرچ نہیں اٹھا سکتا، اس لیے یہ روایتی طریقہ آزماتا ہوں۔‘‘ ان سلاخوں کو کام کے لیے استعمال کرنا سیکھنا کوئی آسام کام نہیں تھا۔ ان زخموں کا درد ان کی یادوں میں تازہ ہو جاتا ہے۔ ’’ہم جلنے اور کٹنے جیسے معمولی واقعات کے عادی ہو چکے تھے،‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے تینوں سلاخوں کو گرم کرکے باری باری سے سوراخ بنانے میں ان کا استعمال کرنا بدستور جاری رکھا۔
اس پورے عمل میں تقریباً ۵۰ منٹ لگتے ہیں، اور اس دوران سانس کے ذریعے دھوئیں کی اچھی خاصی مقدار ان کے پھیپھڑوں میں بھر جاتی ہے اور وہ بیچ بیچ میں لگاتار کھانستے بھی رہتے ہیں۔ اس کے باوجود، وہ ایک پل کے لیے بھی نہیں رکتے ہیں۔ ’’اس کام کو تیزی سے کرنا ہوتا ہے، ورنہ یہ سلاخیں فوراً ٹھنڈی ہو جائیں گی اور انہیں دوبارہ گرم کرنے سے دھواں اور زیادہ اٹھے گا۔‘‘
ایک بار جب سُر کے لیے سوراخ بن جاتے ہیں، تب اس کے بعد وہ شہنائی کو دھوتے ہیں۔ وہ فخر کے ساتھ بتاتے ہیں، ’’یہ لکڑی واٹر پروف ہے۔ جب میں کوئی شہنائی بناتا ہوں، تب وہ کم از کم بیس سالوں تک ٹکتی ہے۔‘‘
اس کے بعد، وہ شہنائی کی جِبھالی یا ریڈ کو تراشنے کا کام شروع کرتے ہیں، جس کے لیے وہ ایک بید استعمال کرتے ہیں، جو لمبے دنوں تک چلتی ہے؛ اور اسے مراٹھی زبان میں ’تاڈاچ پان‘ کہا جاتا ہے۔ اس بید کو کم از کم ۲۵-۲۰ دنوں تک سُکھایا جاتا ہے اور ان میں سے سب سے اچھی قسم کی بید کو ۱۵ سینٹی میٹر لمبے سائز میں کاٹ لیا جاتا ہے۔ بید کے ایک درجن ڈنڈے وہ بیلگاوی کے آدی گاؤں سے ۵۰ روپے میں خریدتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’سب سے عمدہ پان (ڈنڈی) کو ڈھونڈ نکالنا کافی چنوتیوں سے بھرا کام ہے۔‘‘
وہ ڈنڈے کو بڑے احتیاط کے ساتھ دو بار بیچ میں سے موڑتے ہیں، تاکہ اسے چار ڈنڈیوں کی شکل دی جا سکے۔ بعد میں ڈنڈے کو ۳۰ منٹ کے لیے پانی میں بھگویا جاتا ہے۔ تیار ہو چکی شہنائی میں یہی دو موڑ ایک دوسرے کے خلاف ارتعاش پیدا کرکے متوقع سُر نکالتے ہیں۔ اس کے بعد، وہ دونوں سروں کی ضرورت کے مطابق چھٹنی کرتے ہیں اور انہیں سوتی دھاگے کی مدد سے خراد کے محور سے باندھ دیا جاتا ہے۔
’’جبھلی لا آکار دینن کٹھین استن [ڈنڈی کو مناسب سائز کا بنانا مشکل کام ہے]،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ان کی جھری دار پیشانی پر لگا لال ٹیکہ پسینے میں گھل کر پھیلنے لگا ہے، لیکن وہ شہنائی کی باریکیوں کو پورا کرنے میں مصروف ہیں۔ دھار دار اوزار سے ان کی انگلی کئی جگہوں پر کٹ پھٹ گئی ہے، لیکن وہ اپنے کام میں اس سے رکاوٹ نہیں آنے دیتے ہیں۔ وہ ہنس پڑتے ہیں، ’’اگر میں ان چھوٹی موٹی باتوں سے گھبرانے لگوں، تو شہنائی کب بناؤں گا؟‘‘ ڈنڈی بالکل ویسی ہی تیار ہو چکی ہے جیسی وہ چاہتے تھے۔ اس لیے نارائن اب اس میں پلاسٹک کی گھنٹیاں جوڑنے لگے ہیں۔ روایتی طور پر ان گھنٹیوں کو پیتل کا بنا ہونا چاہیے تھا، جنہیں شہنائی کے چوڑے سرے پر فٹ کیا جاتا ہے۔
نارائن جو شہنائیاں بناتے ہیں، وہ بنیادی طور پر تین لمبائیوں کی ہوتی ہیں – ۲۲، ۱۸ اور ۹ انچ – جنہیں وہ بالترتیب ۲۰۰۰، ۱۵۰۰ اور ۴۰۰ روپے میں بیچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’۲۲ اور ۱۸ انچ کے لیے آرڈر کم ہی ملتے ہیں۔ پچھلا آرڈر مجھے تقریباً دس سال پہلے ملا تھا۔‘‘
ان کے ہاتھ سے بنائی گئی بانسری کی مانگ میں بھی بھاری کمی آئی ہے۔ ’’لوگ اب لکڑی کی بنی بانسری یہ کہہ کر نہیں خریدتے کہ ان کی قیمت زیادہ ہوتی ہے،‘‘ اس لیے تین سال پہلے انہوں نے بانسری بنانے کے لیے کالی اور نیلی پی وی سی (پولی ونائل کلورائیڈ) کا استعمال کرنا شروع کر دیا۔ پی وی سی کی ایک بانسری ۵۰ روپے میں فروخت ہوتی ہے، جب کہ لکڑی کی بنی بانسری کی قیمت ۱۰۰ روپے سے شروع ہوتی ہے۔ یہ قیمت لکڑی کی قسم اور سائز پر منحصر ہے۔ بہرحال، اپنے کام میں اس طرح کے سمجھوتوں سے نارائن خوش نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’پی وی سی سے بنی بانسری اور لکڑی کی بانسری کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔‘‘
ہاتھ سے بنی ہر ایک شہنائی میں لگی سخت محنت، چُلی سے اٹھنے والے دھوئیں سے سانسوں کی بڑھتی گھڑگھڑاہٹ، ڈنڈی کو جھک کرتراشنے کی وجہ سے پیٹھ میں ہونے والا ناقابل برداشت درد اور ان سب کے بعد لگاتار گھٹتی ہوئی آمدنی وغیرہ وہ اسباب ہیں جس کی وجہ سے نئی نسل اس ہنر کو سیکھنے میں دلچسپی نہیں لے رہی ہے۔ ایسا نارائن کہتے ہیں۔
اگر شہنائی بنانا مشکل کام ہے، تو اس شہنائی سے موسیقی کی دُھن نکالنا بھی مشکل کام ہے۔ سال ۲۰۲۱ میں انہیں کولہاپور کے جوتبا مندر میں شہنائی بجانے کے لیے بلایا گیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں گھنٹے بھر میں ہی لڑکھڑاتے ہوئے گر پڑا اور میری نسوں میں ڈرپ چڑھانی پڑی۔‘‘ اس حادثہ کے بعد انہوں نے شہنائی بجانی چھوڑ دی۔ ’’یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کسی شہنائی بجانے والے کا چہرہ دیکھئے کہ کیسے اپنی ہر پیشکش کے بعد وہ سانس لینے کے لیے ہانپتا ہے، اور آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔‘‘
حالانکہ، شہنائی بنانے کے کام کو چھوڑ دینے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’کلیت سُکھ آہے [یہ ہنر مجھے خوشی دیتا ہے]۔‘‘
*****
کافی دنوں سے نارائن اس سچائی کو سمجھنے لگے ہیں کہ اب وہ معاش کے لیے صرف شہنائی اور بانسری بنانے کے کام پر منحصر نہیں رہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تین دہائی پہلے، انہوں نے اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے رنگ برنگی چکری بنانے کا کام بھی شروع کر دیا تھا۔ ’’گاؤوں کے میلے میں ابھی بھی چکریوں کی اچھی مانگ رہتی ہے کیوں کہ ہر آدمی گیم کھیلنے کے لیے اسمارٹ فون کا خرچ نہیں اٹھا سکتا۔‘‘ دس روپے میں فروخت ہونے والی کاغذ کی بنی یہ معمولی سی چیز لوگوں کی زندگیوں میں خوشیاں بھرتی ہے – اور نارائن کی آمدنی میں معمولی سا اضافہ ہو جاتا ہے، جس کی ان کی فیملی کو بیحد ضرورت بھی ہے۔
آسانی سے بنائی جا سکنے والی چکریوں کے علاوہ، وہ اسپرنگ سے بنے اور دھاگہ کھینچنے سے چلنے والے کھلونے بھی بناتے ہیں۔ کاغذ کی تہہ سے بنے بیسیوں رنگ برنگے پرندے بھی ان کی کاریگری کا بہترین نمونہ ہیں، جو ۱۰ سے ۲۰ روپے میں آرام سے فروخت ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں کبھی کسی آرٹ اسکول نہیں گیا۔ لیکن ایک بار جب میں کاغذ ہاتھ میں لیتا ہوں، تو اس کا کچھ نہ کچھ بنائے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘
کووڈ۔۱۹ وبائی مرض اور اس کی وجہ سے گاؤں کے میلے اور مجمع پر لگی پابندی کے سبب اس کام پر بہت برا اثر پڑا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’دو سالوں تک میں ایک بھی چکری نہیں بیچ پایا۔ میرا کام مارچ ۲۰۲۲ کے بعد ہی دوبارہ شروع ہوا، جب منکا پور میں مہا شیو راتری جاترا پھر سے شروع ہوئی۔‘‘ حالانکہ، ایک بار دل کا دورہ پڑنے کے بعد صحت میں آئی گراوٹ کے سبب ان کے لیے سفر کرنا اب مشکل ہو گیا ہے۔ اپنی چکریاں بیچنے کے لیے انہیں اب ایجنٹوں پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اب ہر چکری کی فروخت پر مجھے ایجنٹ کو تین روپے بطور کمیشن دینا پڑتا ہے۔ میں اس سے بہت خوش نہیں ہوں، لیکن اس سے تھوڑی آمدنی ہو جاتی ہے۔‘‘ وہ مہینہ میں زیادہ سے زیادہ ۵۰۰۰ روپے ہی کما پاتے ہیں۔
تقریباً ۴۵ سال کی ان کی بیوی، سشیلا اینٹ بھٹے پر کام کرتی ہیں اور چکری، شہنائی اور بانسری بنانے میں بھی ان کی مدد کرتی ہیں۔ یہ پیشہ صدیوں سے مردوں کے غلبہ والا رہا ہے۔ نارائن بتاتے ہیں، ’’اگر سشیلا نے میری مدد نہیں کی ہوتی، تو میرا دھندہ برسوں پہلے بند ہو چکا ہوتا۔ فیملی کو چلانے میں اس کا بہت اہم تعاون ہے۔‘‘
انہوں نے فریم میں لگی ایک تصویر ہاتھ میں پکڑ رکھی ہے، جس میں ان کے والد اور دادا جی شہنائی بجا رہے ہیں۔ وہ نرمی کے ساتھ کہتے ہیں، ’’میرے پاس ہنر کے نام پر زیادہ کچھ نہیں ہے۔ میں خاموشی کے ساتھ کسی ایک جگہ پر بیٹھ کر اپنا کام کرنا جانتا ہوں۔ آمہی گیلو مہنجے گیلی کلا [میرے ساتھ یہ ہنر بھی ختم ہو جائے گا]۔‘‘
یہ اسٹوری سنکیت جین کے ذریعے دیہی کاریگروں پر لکھی جا رہی سیریز کا حصہ ہے، اور اسے مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن کا تعاون حاصل ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز