معاشرے کی پسماندہ برادریوں کے لیے فوٹوگرافی ہمیشہ ان کی پہنچ سے دور رہی ہے، کیوں کہ مہنگا ہونے کے سبب کیمرہ ان کے لیے ایک نایاب چیز ہے۔ ان کی زندگی کے اسی المیہ کو سمجھاتے ہوئے میں ان کے اس خواب کو پورا کرنا، اور گزشتہ کئی نسلوں سے ظلم کے شکار محروم طبقوں – خاص کر دلتوں، ماہی گیروں، ٹرانس کمیونٹی، اقلیتی مسلم برادریوں اور دوسرے کمزور طبقوں کی اس نئی نسل کو فوٹوگرافی کا ہنر سکھانا چاہتا تھا۔

میں اپنے شاگردوں سے ان کی خود کی کہانی سنانے کی امید کرتا تھا، جس کے بارے میں دنیا بہت کم جانتی ہے۔ ان ورکشاپوں میں وہ ان چیزوں کی فوٹوگرافی کرتے ہیں جو ان کے روزمرہ کے معمول میں شامل ہیں۔ یہ ان کی اپنی کہانیاں ہیں، اور ان کے دل کے بہت قریب ہیں۔ انہیں اپنے ہاتھوں میں کیمرہ پکڑے تصویریں لینے میں بہت مزہ آتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ یہ کام کرتے رہیں اور تصویروں کے فریم اور زاویوں کے بارے میں بعد میں سوچیں۔

ان تصویروں میں ان کی زندگی جھانکتی ہے، اس لیے یہ خاص ہیں۔

جب وہ ان تصویروں کو مجھے دکھاتے ہیں، تب میں ان بچوں سے ان تصویروں کی سیاست پر گفتگو کرتا ہوں اور ان کو سمجھاتا ہوں کہ یہ تصویریں حالات کے بارے میں کیا کہتی ہیں۔ ورکشاپ ختم ہو جانے کے بعد یہ بچے بڑے سماجی و سیاسی امور سے واقف ہو جاتے ہیں۔

Left: Maga akka showing the photos she took to a fishermen at Nagapattinam beach.
PHOTO • M. Palani Kumar
Right: Hairu Nisha taking pictures in Kosasthalaiyar river near Chennai.
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: مگا اکّا، ناگ پٹینم ساحل پر ایک ماہی گیر کی کھینچی تصویروں کو دکھا رہی ہیں۔ دائیں: چنئی کے قریب کوسس تلیار ندی میں تصویریں لیتی ہوئی ہائیرو نشاں

M. Palani Kumar taking a photography class with students of Dr. Ambedkar Pagutharivu Padasalai in Vyasarpadi, Chennai.
PHOTO • Nandha Kumar

چنئی کے ویاسرپاڑی میں واقع ڈاکٹر امبیڈکر پگوت ریوو پڈسالئی میں اپنے شاگردوں کی فوٹوگرافی کی کلاس لیتے ہوئے ایم پلنی کمار

زیادہ تر تصویریں قریب سے لی گئی ہیں اور انہیں قریب سے لے پانا اس لیے ممکن ہو پایا ہے کہ یہ ان کی فیملی اور گھروں کی تصویریں ہیں۔ باہر کا کوئی آدمی ہوتا، تو ان کے ساتھ دوری بنانی پڑتی۔ لیکن یہاں ایسی بات نہیں ہے، کیوں کہ تصویر لینے والوں نے لوگوں کے ساتھ پہلے سے ہی اعتماد کا رشتہ قائم کر لیا ہے۔

یکساں ذہنیت والے کچھ لوگوں کی مدد سے میں نے ان شاگردوں کے لیے کیمرے خریدے۔ ڈی ایس ایل آر کیمرے پر ہاتھ آزمانا انہیں پیشہ ور طور پر مدد کرے گا۔

ان طلباء نے جو کام کیے ہیں ان میں سے کچھ کام ’ری فریمڈ – نارتھ چنئی تھرو دی لینس آف ینگ ریزیڈنٹ [نوجوان باشندوں کی نظر سے شمالی چنئی کی تصویر]‘ نام کی تھیم کے تحت کیے گئے ہیں۔ اس تھیم کا مقصد شمالی چنئی کی بنی بنائی شبیہ کو توڑ کر سماج کو اس کے حقیقی اور اندرونی سچ سے روبرو کرانا ہے۔ باہر سے آئے کسی عام آدمی کے لیے شمالی چنئی صنعتی گہما گہمی کا بڑا مرکز ہے۔

تقریباً ۱۶ سے ۲۱ سال کی عمر کے بارہ نوجوان شرکاء، جو مدورئی کے منج میڈو کے صفائی مزدوروں کے بچے ہیں، میرے ساتھ اس دس روزہ ورکشاپ میں شامل ہوئے تھے۔ یہ پسماندہ طبقوں سے آئے بچوں کے لیے منعقد کی گئی ایسی پہلی ورکشاپ تھی۔ اس میں طلباء کو ان حالات اور سماجی رویوں سے پہلی بار روبرو ہونے کا موقع ملا، جس میں ان کے والدین کو کام کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے یہ محسوس کیا کہ انہیں دنیا کی اپنی کہانیاں سنانے کی ضرورت ہے۔

تین مہینے کی ایک ایسی ہی ورکشاپ میں نے اوڈیشہ کے گنجم میں سات اور تمل ناڈو کے ناگ پٹینم میں آٹھ خواتین ماہی گیروں کے لیے منعقد کی تھی۔ گنجم ایک ایسا علاقہ ہے جو لگاتار سمندری کٹاؤ سے متاثر رہا ہے۔ ناگ پٹینم ایک ساحل سمندر ہے جہاں کام کرنے والوں میں بڑی تعداد ان مہاجر مزدوروں اور ماہی گیروں کی ہے جو یہاں سری لنکائی بحریہ کے دستوں سے لگاتار حملوں کے شکار رہے ہیں۔

ان ورکشاپوں میں لی گئی تصویروں میں ارد گرد کی دنیا کے چیلنجز نظر آتے ہیں۔

Fisherwomen in Nagapattinam (left) and Ganjam (right) during a photography class with Palani
PHOTO • Ny Shajan
Fisherwomen in Nagapattinam (left) and Ganjam (right) during a photography class with Palani.
PHOTO • Satya Sainath

فوٹوگرافی کی کلاس کے دوران پلنی کے ساتھ ناگ پٹینم (بائیں) اور گنجم (دائیں) کی ماہی گیر خواتین

سی ایچ پرتیما، ۲۲
دکشن فاؤنڈیشن کی فیلڈ اسٹاف
پوڈم پیٹا، گنجم، اوڈیشہ

ان تصویروں نے مجھے اپنی برادری کے کاموں کا احترام کرنا سکھایا اور آس پاس کے لوگوں کے ساتھ قریبی تعلقات بنانے میں میری مدد کی۔

میری پسندیدہ تصویروں میں یہ تصویر بھی شامل ہے جس میں کچھ بچے کھیل کھیل میں ایک کشتی کو ساحل کے کنارے دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں نے پہلی بار یہ محسوس کیا کہ وقت کے کسی خاص لمحہ کو قید کرنے کے لیے فوٹوگرافی کتنا طاقتور ذریعہ ہے۔

میں نے اپنی ماہی گیر برادری کے ایک آدمی کی تصویر لی، جو سمندری کٹاؤ کے سبب مسمار ہوئے اپنے گھر سے بچے ہوئے سامانوں کو نکالنے میں مصروف دکھائی دے رہا ہے۔ یہ تصویر ماحولیاتی تبدیلی کے سبب پسماندہ طبقوں کو درپیش چیلنجز کو نمایاں کرتی ہے، اور مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں یہ تصویر لے پائی۔

جب میں نے پہلی بار اپنے ہاتھ میں کیمرہ پکڑا تھا، تو مجھے یقین نہیں تھا کہ میں اسے چلا پاؤں گی۔ مجھے لگا کہ مجھے کوئی بھاری بھرکم مشین دے دی گئی ہے۔ یہ پوری طرح سے ایک نیا تجربہ تھا۔ حالانکہ، میں اپنے موبائل سے شوقیہ تصویریں کھینچتی رہتی تھی، لیکن اس ورکشاپ نے میرے اندر اپنے سبجیکٹ کے ساتھ تال میل قائم کرنے اور تصویروں کے ذریعے ان کی کہانیاں سنانے کے ہنر کی بنیاد ڈالی۔ میں فوٹوگرافی کے بنیادی اصولوں کے بارے میں بیشک الجھن کی شکار تھی، لیکن فیلڈ ورکشاپ کے دوران کیمرے سے متعلق عملی تجربات نے میرے لیے چیزوں کو آسان کر دیا، اور میں نے ورکشاپ میں سیکھے گئے اصولوں کو حقیقی دنیا میں آزمانا سیکھ لیا۔

Fishermen in Podampeta cleaning their nets at the landing center.
PHOTO • Ch. Pratima

مچھلیوں کو اتارنے والی جگہ پر اپنے جال کی صفائی کرتے پوڈم پیٹا کے ماہی گیر

Fishermen getting ready to use the nets to fish in Ganjam district, Odisha.
PHOTO • Ch. Pratima

اوڈیشہ کے گنجم ضلع میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے جال پھینکنے کی تیاری میں ماہی گیر

At an auction of the mackeral fish at the Arjipally fish harbour in Odisha
PHOTO • Ch. Pratima

اوڈیشہ کے ارجی پلّی فش ہاربر میں میکیرل مچھلی کی نیلامی کا منظر

In Podampeta, a house damaged due to sea erosion is no longer livable.
PHOTO • Ch. Pratima

پوڈم پیٹا میں سمندری کٹاؤ کے سبب ٹوٹا ہوا ایک مکان، جو اب رہنے لائق نہیں رہ گیا ہے

A student from Podampeta village walks home from school. The route has been damaged due to years of relentless erosion by the sea; the entire village has also migrated due to this.
PHOTO • Ch. Pratima

پوڈم پیٹا گاؤں میں اسکول سے گھر لوٹتی ایک بچی۔ گزشتہ برسوں میں بار بار ہوئے سمندری کٹاؤ نے اس راستے کو اتنا خراب کر دیا ہے کہ گاؤں کی پوری آبادی کو یہاں سے نقل مکانی کرنی پڑی

Constant erosion by the sea has damaged the houses
PHOTO • Ch. Pratima

سمندر کے ذریعے لگاتار ہونے والے کٹاؤ نے گھروں کو بری طرح تباہ کر دیا ہے

Ongoing erosion in Arjipally village of Odisha's Ganjam district.
PHOTO • Ch. Pratima

موجودہ کٹاؤ کا سامنا کر رہا اوڈیشہ کے گنجم ضلع کا ارجی پلّی گاؤں

Auti looks at the remains of a home in Podampeta village
PHOTO • Ch. Pratima

پوڈم پیٹا گاؤں میں ایک ٹوٹے ہوئے گھر کے ملبوں کو دیکھتیں اؤتی

*****

پی اندرا، ۲۲
بی ایس سی فزکس کی طالبہ، ڈاکٹر امبیڈکر ایوننگ ایجوکیشن سنٹر
ارپالیَم، مدروئی، تمل ناڈو

’’فوٹوگرافی میں اپنے آپ کو درج کرو، اپنے ارد گرد کی دنیا کو اور کاموں میں مصروف آس پاس کے اپنے سبھی لوگوں کو بھی درج کرو۔‘‘

مجھے کیمرہ سونپتے ہوئے پلنی انّا نے یہی الفاظ کہے تھے۔ یہاں آ کر میں ایک رومانس سے بھر گئی، کیوں کہ پہلے تو میرے والد نے ورکشاپ میں شامل ہونے کی اجازت دینے سے منع کردیا تھا، اور انہیں راضی کرنے کے لیے مجھے ان کو تھوڑا منانا بھی پڑا۔ بعد میں تو وہ میری فوٹوگرافی کا ایک کردار بھی بنے۔

میں صفائی ملازمین کے درمیان رہی۔ میرے والد کی طرح وہ لوگ بھی اپنے پدرانہ معاش کی جال میں پھنسے ہوئے تھے، اور اس کی بنیادی وجہ ظلم و ستم پر مبنی ذات کا نظام ہے۔ ورکشاپ میں شامل ہونے سے پہلے مجھے ان لوگوں کے کام اور چیلنجز کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا، جب کہ میرے والد بھی ان میں سے ایک تھے۔ مجھے صرف ایک ہی بات کہی جاتی تھی کہ مجھے محنت کرکے پڑھنا چاہیے، تاکہ میں ایک سرکاری نوکری حاصل کر سکوں، اور کسی بھی قیمت پر صفائی مزدور نہ بنوں۔ ہمارے اسکول کے ٹیچر ہم سے یہی کہتے تھے۔

آخرکار میں اپنے والد کے کام کو اس وقت ٹھیک سے سمجھ پائی، جب ان کے کام کو اپنی فوٹوگرافی کے ذریعے نمایاں کرنے کے ارادے سے میں دو تین دن ان کے ساتھ گئی۔ میں نے بہت قریب سے دیکھا کہ کیسے صفائی ملازمین کو ناموافق حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دستانوں اور بوٹ کے بغیر گھریلو کوڑا کرکٹ اور زہریلی گندگیوں کی صفائی کرنی پڑتی ہے۔ ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ٹھیک چھ بجے تک اپنے کام پر حاضر ہو جائیں، اور دو چار منٹ کی تاخیر سے پہنچنے پر بھی وہ ٹھیکہ دار اور عہدیدار، جن کے ماتحت وہ کام کرتے ہیں، ان سے غیر انسانی طریقے سے پیش آتے ہیں۔

میرے کیمرے نے مجھے اپنی ہی زندگی کے بارے میں وہ سب دکھایا جنہیں میں اپنی آنکھوں سے دیکھنے میں ناکام رہی تھی۔ اس نظریہ سے دیکھا جائے، تو یہ میری تیسری آنکھ کے کھلنے جیسا تجربہ تھا۔ جب میں نے اپنے والد کی تصویریں کھینچیں، تو انہوں نے مجھ سے اپنی زندگی اور کاموں کی جدوجہد کی کہانیاں ساجھا کیں اور مجھے بتایا کہ کیسے وہ اپنی کم عمری میں ہی اس کام کی گرفت میں پھنس گئے۔ ایسی بات چیت نے ہمارے آپسی تعلقات کو ایک مضبوطی عطا کی۔

یہ ورکشاپ ہم سب کی زندگیوں کا ایک اہم فیصلہ کن موڑ تھا۔

Residents at home Komas palayam, Madurai
PHOTO • P. Indra

مدورئی کے کومس پالیَم کے باشندے اپنے گھر میں

Pandi, P. Indra's father was forced to take up sanitation work at 13 years as his parents couldn't afford to educate him – they were sanitation workers too. Workers like him suffer from skin diseases and other health issues due to the lack of proper gloves and boots
PHOTO • P. Indra

پی اندرا کے والد پانڈی کو ۱۳ سال کی عمر سے ہی صفائی ملازم کے طور پر کام کرنے کو مجبور ہونا پڑا تھا، کیوں کہ ان کے والدین ان کی تعلیم کا خرچ اٹھا پانے کے قابل نہیں تھے۔ وہ خود بھی صفائی مزدور تھے۔ دستانوں اور بوٹوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ان کی طرح یہ کام کرنے والے دوسرے مزدوروں کو بھی جلد سے متعلق امراض کے علاوہ کئی دوسری بیماریوں سے گزرنا پڑتا ہے

Pandi cleaning public toilets without safety gear. His earning ensure that his children get an education; today they pursuing their Bachelors.
PHOTO • P. Indra

مناسب حفاظتی ساز و سامان کے بغیر عوامی بیت الخلاء کی صفائی کرتے ہوئے پانڈی۔ ان کو اتنی آمدنی ہو جاتی ہے کہ ان کے بچے اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں؛ آج وہ اپنے گریجویشن کی پڑھائی مکمل کر رہے ہیں

Kaleshwari is a daughter and wife of a sanitation worker. She says that education is the only means to release her children from this vicious cycle
PHOTO • P. Indra

کالیشوری صفائی ملازمین کی اولاد رہی ہیں اور ان کے شوہر بھی ایک صفائی ملازم ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ صرف تعلیم یافتہ ہونے کے بعد ہی ان کے بچے اس سماجی غلامی سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں

*****

سُگنتی مانی کویل، ۲۷
ماہی گیر خاتون
ناگ پٹینم، تمل ناڈو

کیمرے نے میرے سوچنے کا نظریہ بدل دیا۔ ہاتھ میں کیمرہ لینے کے بعد میں ایک الگ قسم کی آزادی محسوس کرتی ہوں۔ میں ایک نئی خود اعتمادی سے بھر جاتی ہوں۔ یہ مجھے اپنے جیسے بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے اور بات چیت کرنے کا موقع عطا کرتا ہے۔ حالانکہ، میں اپنی پوری زندگی ناگ پٹینم میں ہی رہی، لیکن پہلی بار میں بندرگاہ پر ایک کیمرے کے ساتھ گئی تھی۔

میں نے تصویروں میں اپنے ۶۰ سالہ والد مانی کویل کو قید کیا، جو پانچ سال کی عمر سے مچھلی پکڑنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ سمندر کے کھارے پانی سے لگاتار بھیگے رہنے کی وجہ سے ان کے پیروں کے انگوٹھے سُنّ پڑ چکے ہیں۔ اب ان میں بہت کم خون کی روانی ہوتی ہے، لیکن ہماری ضروریات پوری کرنے کے لیے وہ آج بھی روزانہ مچھلیاں پکڑنے جاتے ہیں۔

پوپتی امّاں (۵۶ سالہ) بنیادی طور پر ویلّو پلّم کی ہیں۔ سال ۲۰۰۲ میں اپنے شوہر کے سری لنکائی بحریہ کے دستوں کے ذریعے مارے جانے کے بعد سے ہی وہ گزر بسر کے لیے مچھلی خریدنے اور بیچنے کا کام کرنے لگیں۔ دوسری ماہی گیر خاتون جن کی میں نے فوٹو لی وہ تنگمّل تھیں، جن کے شوہر کو جوڑوں کا درد ہے اور ان کے بچے اسکول جاتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے ناگ پٹینم کی سڑکوں پر مچھلی بیچنا شروع کیا۔ پلنگلّی میڈو کی ماہی گیر خواتین مہین جالوں (پران ٹریپ) کے استعمال سے، اور سمندر سے – دونوں طریقوں سے مچھلی پکڑتی ہیں۔ میں نے دونوں ہی معاش کو نمایاں کرنے کی کوشش کی۔

ماہی گیروں کے گاؤں میں پیدا ہونے کے باوجود، ایک خاص عمر کے بعد میں شاید ہی کبھی سمندر کے کنارے گئی تھی۔ جب میں نے ان کی تصویریں کھینچنی شروع کیں، تب میں اپنی برادری اور ان کی جدوجہد سے آشنا ہوئی جن سے ہمارا روز کا واسطہ ہے۔

اس ورکشاپ میں شامل ہونا میری زندگی کا ایک بڑا موقع تھا۔

In Velappam, Nagapattinam, Sakthivel and Vijay pull the nets that were placed to trap prawns.
PHOTO • Suganthi Manickavel

ناگ پٹینم کے ویلپّم میں شکتی ویل اور وجے اُس جال کو کھینچ رہے ہیں جسے جھینگا پکڑنے کے لیے ڈالا گیا تھا

Kodiselvi relaxes on the shore in Vanavanmahadevi after collecting prawns from her nets.
PHOTO • Suganthi Manickavel

اپنے جال سے جھینگے جمع کرنے کے بعد ون ون مہادیوی کے سمندری ساحل پر آرام کرتی ہوئیں کوڈی سیلوی

Arumugam and Kuppamal thoroughly check the net for prawns at Vanavanmahadevi in Nagapattinam.
PHOTO • Suganthi Manickavel

ناگ پٹینم کے ون ون مہادیوی میں جال سے ایک ایک جھینگا چنتے ہوئے اروموگم اور کُپّمل

Indira Gandhi (in focus) ready to pull the prawn nets.
PHOTO • Suganthi Manickavel

جھینگے کی جال کھینچے کے لیے تیار اندرا گاندھی (فوکس میں)

In Avarikadu, Kesavan prepares to throw the nets in the canal.
PHOTO • Suganthi Manickavel

اوَری کاڈو میں نہر میں جال پھینکنے کی تیاری کرتے ہوئے کیشوَن

When sardines are in season, many fishermen are required for a successful catch
PHOTO • Suganthi Manickavel

جب سارڈن مچھلیوں کا موسم آتا ہے تب زیادہ مقدار میں ان کو پکڑنے کے لیے بڑی تعداد میں ماہی گیروں کی ضرورت پڑتی ہے

*****

لکشمی ایم، ۴۲
ماہی گیر خاتون
ترومُلّئی وسل، ناگ پٹینم، تمل ناڈو

ماہی گیر خواتین کو ٹریننگ دینے کے مقصد سے جب فوٹوگرافر پلنی ماہی گیروں کے گاؤں ترومُلّئی وسل آئے، تب ہم یہ سوچ کر بہت گھبرائے ہوئے تھے کہ کیسے اور کس کی فوٹوگرافی کریں گے۔ لیکن جیسے ہی ہم نے اپنے ہاتھ میں کیمرہ پکڑا، ہماری ساری گھبراہٹ دور ہو گئی، اور ہم ایک نئی توانائی اور خود اعتمادی سے بھر گئے۔

پہلے دن جب ہم آسمان، سمندری ساحل اور اس کے آس پاس کی تصویریں لینے کناروں پر پہنچے، تب ہمیں گاؤں کے پردھان نے روکا بھی۔ ان کا سوال تھا کہ ہم سب کیا کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہماری درخواستوں کو ٹھکرا دیا اور ہمیں تصویریں لینے سے منع کر دیا۔ جب ہم دوسرے گاؤں چِنّ کُٹّی گئے، تو سب سے پہلے ہم نے وہاں کے پردھان سے پیشگی اجازت لے لی، تاکہ ہمارے کام میں ایسی کوئی رکاوٹ نہ آئے۔

پلنی ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں دھندلی تصویروں کو دوبارہ شوٹ کرنا چاہیے۔ اس سے ہمیں اپنی غلطیوں کو سمجھنے اور انہیں ٹھیک کرنے میں مدد ملتی ہے۔ میں نے یہ سیکھا کہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ یا کام نہیں کرنا چاہیے۔ یہ نئی معلومات سے بھرا تجربہ تھا۔

*****

نور نشاں کے، ۱۷
بی ووک ڈیجیٹل جرنلزم، لویولا کالج
ترووٹّریور، شمالی چنئی، تمل ناڈو

جب میرے ہاتھ میں پہلی بار کیمرہ دیا گیا تھا، تب میں نے یہ بالکل نہیں سوچا تھا کہ اس سے کوئی بڑی تبدیلی آئے گی۔ لیکن آج میں یقین سے یہ کہہ سکتی ہوں کہ میری زندگی اب دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے – فوٹوگرافی کرنے سے پہلے کی زندگی اور اس کے بعد کی زندگی۔ میں نے بہت چھوٹی عمر میں ہی اپنے والد کو کھو دیا تھا اور تب سے میری ماں ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔

لینس کے ذریعے پلنی انّا نے میرا تعارف ایک ایسی دنیا سے کرایا، جو میرے لیے بالکل نئی اور الگ تھی۔ میری سمجھ میں یہ بات بھی آئی کہ جو تصویریں ہم کھینچتے ہیں وہ صرف تصویریں نہیں، بلکہ دستاویز ہیں، جن سے ہم نا انصافی اور غیر برابری کے خلاف سوال کر سکتے ہیں۔

وہ ہم سے اکثر ایک بات کہتے ہیں، ’’فوٹوگرافی میں یقین رکھو، یہ آپ کی تمام ضروریات کو پورا کرے گی۔‘‘ میں نے محسوس کیا کہ یہ سچ ہے، اور اب میں اپنی ماں کی مدد کرنے کے قابل ہوں، جو اب کئی بار کام کے سلسلے میں باہر نہیں جا پاتی ہیں۔

Industrial pollutants at the Ennore port near Chennai makes it unfit for human lives. Despite these conditions, children are training to become sportspersons.
PHOTO • Noor Nisha K.

چنئی کے قریب اینور بندرگاہ میں پھیلی صنعتی آلودگیوں نے آب و ہوا کو انسانی زندگی کے لیے مشکل بنا دیا ہے۔ ایسے حالات کے باوجود بچے یہاں کھیل کی ٹریننگ لے رہے ہیں

Young sportspersons from the community must train close to the industrial plants spewing toxic gases everyday.
PHOTO • Noor Nisha K.

برادری کے نوجوان کھلاڑیوں کو ہر روز زہریلی گیس اگلنے والے ان صنعتی پلانٹوں کے پاس ہی ٹریننگ کرنی پڑتی ہے

*****

ایس نندنی، ۱۷
ایم او پی ویشنو کالج فار ویمن کی صحافت کی طالبہ
ویاسرپاڑی، شمالی چنئی، تمل ناڈو

فوٹوگرافی کے لیے میرے سب سے پہلے سبجیکٹ وہ بچے تھے جو میرے گھر کے قریب کھیل رہے تھے۔ میں نے کھیلنے کے وقت ان کے چہروں پر جو خوشی تھی اسے کیمرے میں قید کیا۔ میں نے سیکھا کہ کیمرے کی آنکھوں سے دنیا کیسے دیکھی جا سکتی ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات بھی آئی کہ مناظر کی زبان کو بہت آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔

کئی بار جب آپ تصویروں کی تلاش میں بھٹک رہے ہوتے ہیں، تو آپ کا سامنا کسی ایسی چیز سے ہو جاتا ہے جس کی آپ نے امید بھی نہیں کی تھی۔ فوٹوگرافی مجھے خوشیوں سے بھر دیتی ہے – ایسی خوشیاں جو آپ کے لیے بالکل جانی پہچانی اور اپنی ہوں۔

ایک بار، جب میں ڈاکٹر امبیڈکر پگوت ریوو پڈسالئی میں پڑھتی تھی، ہمیں ڈاکٹر امبیڈکر میموریل گھمانے کے لیے لے جایا گیا۔ اس سفر میں تصویروں نے مجھ سے بات چیت کی۔ پلنی انّا نے ایک صفائی مزدور کی موت کے واقعہ اور صدمے میں ڈوبے اس کی فیملی کو اپنی تصویروں کے ذریعے دکھایا تھا۔ اس صفائی مزدور کی فیملی کے ممبران کی تصویروں میں ان کی محرومیوں، غموں اور کبھی پورا نہیں ہو سکنے والے نقصان کی کہانیاں تھیں۔ ان کہانیوں کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جب ہم ان سے وہاں ملے، تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے ہمارا حوصلہ بڑھایا کہ ہمارے اندر بھی ایسی تصویریں لینے کی قابلیت ہے۔

جب انہوں نے ورکشاپ میں کلاس لینی شروع کی، تو اسکولی دورے پر ہونے کے سبب میں حاضر نہیں ہو پائی۔ لیکن میرے واپس لوٹنے کے بعد انہوں نے مجھے الگ سے سکھایا اور فوٹوگرافی کرنے کے لیے میری حوصلہ افزائی کی۔ مجھے تو اس کی بھی بنیادی معلومات نہیں تھی کہ ایک کیمرہ کیسے کام کرتا ہے، لیکن پلنی انّا نے مجھے سکھایا۔ انہوں نے فوٹوگرافی کے لیے اپنا موضوع تلاش کرنے کے بارے میں بھی ہماری رہنمائی کی۔ میں نے اس سفر میں کئی نئے نظریات اور تجربات سیکھے۔

فوٹوگرافی سے متعلق اپنے تجربات کی وجہ سے ہی میں نے صحافت کو اپنا مستقل پیشہ بنانے کا فیصلہ کیا۔

An aerial view of Vyasarpadi, a neighbourhood in north Chennai
PHOTO • S. Nandhini

شمالی چنئی میں آباد ویاسرپاڑی کا ایک ہوائی منظر

A portrait of Babasaheb Ambedkar at Nandhini’s home
PHOTO • S. Nandhini

نندنی کے گھر میں لگی بابا صاحب امبیڈکر کی ایک تصویر

Students of Dr. Ambedkar Pagutharivu Padasalai in Chennai
PHOTO • S. Nandhini

چنئی کے ڈاکٹر امبیڈکر پگوت ریوو پڈسالئی کے طلباء

At the Dr. Ambedkar Pagutharivu Padasalai, enthusiastic students receive mentorship from dedicated community coaches
PHOTO • S. Nandhini

ڈاکٹر امبیڈکر پگوت ریوو پڈسالئی کے محنتی اور پرجوش طلباء اپنے وفادار اساتذہ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں

Children playing kabaddi
PHOTO • S. Nandhini

کبڈی کھیلتے بچے

The winning team after a football match
PHOTO • S. Nandhini

فٹبال میچ کے بعد فاتح ٹیم

These birds often remind me of how my entire community was caged by society. I believe that teachings of our leaders and our ideology will break us free from these cages,' says Nandhini (photographer).
PHOTO • S. Nandhini

’یہ پرندے مجھے اکثر یہ یاد دلاتے ہیں کہ کیسے میری پوری برادری کو اس سماج میں قید رکھا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے لیڈروں نے ہمیں جو سکھایا ہے اور ہم نے اپنے اندر جو نظریہ پیدا کیا ہے، وہی ہمیں ان پنجروں سے آزادی دلائیں گے،‘ نندنی (فوٹوگرافر) کہتی ہیں

*****

وی ونودنی، ۱۹
بیچلرز آف کمپیوٹر ایپلی کیشن کی طالبہ
ویاسرپاڑی، شمالی چنئی، تمل ناڈو

میں اپنے ارد گرد کے علاقوں کو برسوں سے جانتی ہوں، لیکن جب میں نے انہیں اپنے کیمرے کے ذریعے دیکھا، تو مجھے ان میں ایک نیاپن نظر آیا۔ ’’تصویریں آپ کے سبجیکٹ کی زندگی کو بیان کرنے کے قابل ہونی چاہئیں،‘‘ پلنی انّا کہتے ہیں۔ جب وہ اپنے تجربات کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں، تو آپ ان کی آنکھوں میں صاف دیکھ سکتے ہیں کہ فوٹوگرافی، کہانیوں اور لوگوں سے انہیں کتنا پیار ہے۔ ان سے متعلقہ میری یادگاروں میں مجھے سب سے عزیز وہ ہے جس میں وہ بٹن والے فون سے اپنی ماہی گیر ماں کی تصویر لے رہے ہیں۔

میں نے اپنی پہلی تصویر دیوالی کے موقع پر اپنے پڑوسی کی لی تھی۔ وہ ایک خاندانی تصویر تھی، جو بہت اچھی آئی تھی۔ اس کے بعد میں کہانیوں اور لوگوں کے تجربات کی بنیاد پر اپنے شہر کو کیمرے میں قید کرنے لگی۔

فوٹوگرافی سیکھے بغیر مجھے اپنے آپ سے ملنے کا موقع نہیں ملا ہوتا۔

*****

پی پونکوڈی
ماہی گیر خاتون
سیروتور، ناگ پٹینم، تمل ناڈو

میری شادی کو ۱۴ سال ہو گئے۔ اس کے بعد سے ہی میں اپنے خود کے گاؤں کے سمندری ساحل پر نہیں گئی ہوں۔ لیکن میرے کیمرے نے سمندر سے میری دوبارہ ملاقات کرا دی۔ میں نے مچھلی پکڑنے سے متعلق طور طریقے اور کشتیوں کو دھکیل کر سمندر میں لے جانے کی سرگرمیوں کے علاوہ، برادری میں خواتین کے تعاون کو بیان کرنے والی تصویریں لیں۔

کسی کو ایک تصویر کے لیے صرف کلک کرنا سکھانا بہت آسان ہے، لیکن ایک فوٹوگرافر کو تصویروں کے ذریعے کہانے کہنے کا ہنر سکھانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ پلنی ہمیں وہی ہنر سکھاتے ہیں۔ وہ ہمیں فوٹوگرافی کرنے سے پہلے سبجیکٹ کے ساتھ رابطہ قائم کرنا سکھاتے ہیں۔ لوگوں کی تصویریں کھینچ کر میں اپنے اندر ایک نئی خود اعتمادی محسوس کر رہی ہوں۔

میں نے ماہی گیر برادری کے ذریعے اختیار کیے جانے والے الگ الگ پیشوں کو اپنی فوٹوگرافی کا موضوع بنایا، جن میں مچھلی بیچنے، ان کی صفائی کرنے اور ان کی نیلامی کرنے جیسے کام شامل ہیں۔ اس موقع نے مجھے اپنی برادری کی ان خواتین کی زندگی کو قریب سے دیکھنے سمجھنے میں مدد کی، جو گھوم گھوم کر مچھلی بیچنے کا کام کرتی ہیں۔ اس کام میں انہیں مچھلیوں سے بھری ایک بھاری ٹوکری اپنے سر پر اٹھا کر گھومنا پڑتا ہے۔

کُپّو سوامی پر میری فوٹو اسٹوری میں مجھے ان کی زندگی کے بارے میں جاننے کا موقع ملا کہ جب وہ سرحدی سمندر میں مچھلیاں پکڑ رہے تھے، تب کیسے سری لنکائی بحریہ نے گولی داغ دی تھی۔ اس کے بعد سے ہی ان کے ہاتھ پیر کام نہیں کرتے ہیں اور نہ وہ بول پاتے ہیں۔

میں جب ان سے ملنے گئی، تو میں نے ان کو اپنا روز کا کام – مثلاً کپڑاً دھوتے، باغبانی اور صاف صفائی کرتے وقت غور سے دیکھا۔ تب مجھے ان کی روزمرہ کی مشکلات کا اندازہ ہوا۔ وہ اپنے ہی ہاتھ پیر پر بھروسہ نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن وہ مجھ سے ایسے پیش آ رہے تھے کہ اپنا کام خود کرنے میں انہیں سب سے زیادہ خوشی حاصل ہوتی ہے۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کہ ان کی معذوری باہر کی دنیا اور ان کے درمیان کھڑی سب سے اونچی دیوار تھی۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ کئی بار وہ اپنے اندر ایک خلاء محسوس کرتے ہیں، جو انہیں مر جانے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔

میں نے سارڈن پکڑنے والے ماہی گیروں پر ایک فوٹو سیریز کی تھی۔ سارڈن مچھلیاں سینکڑوں کی تعداد میں پکڑی جاتی ہیں، اس لیے ان کو سمندر سے نکال کر ساحل تک لانا اور جال سے انہیں ایک ایک کر کے نکالنا ایک چنوتی بھرا کام ہے۔ میں نے تصویروں کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی تھی کہ انہیں جال سے چن چن کر نکالنے اور برف کے بکسے میں جمع کرنے تک کیسے مرد اور عورتیں ایک ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔

ماہی گیروں کی برادری سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک خاتون فوٹوگرافر کے طور پر ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج ایسے سوالوں کا پوچھا جانا ہے، جیسے ’آپ ان کی تصویر کیوں کھینچ رہی ہیں؟ عورتیں فوٹوگرافی جیسے کام کیوں کرتی ہیں؟‘

پلنی انّا ان سبھی ماہی گیر خواتین کے لیے ایک بڑی طاقت ہیں، جو اب اپنی شناخت ایک فوٹوگرافر کے طور پر بنانے کے لیے ڈٹی ہوئی ہیں۔

V. Kuppusamy, 67, was shot by the Sri Lankan Navy while he was out fishing on his kattumaram.
PHOTO • P. Poonkodi

وی کُپّو سوامی (۶۷ سالہ) کو سری لنکائی بحریہ کے جوانوں نے اس وقت گولی مار دی تھی، جب وہ اپنے کٹّومارم پر مچھلیاں پکڑ رہے تھے

*****

Taken on Palani Studio's opening day, the three pillars of Palani's life in photography: Kavitha Muralitharan, Ezhil anna and P. Sainath. The studio aims to train young people from socially and economically backward communities.
PHOTO • Mohamed Mubharakh A

پلنی کے اسٹوڈیو کے افتتاح کے موقع پر فوٹوگرافی کی دنیا میں ان کے سفر کے تین ستون: کویتا مرلی دھرن، یہلل انّا اور پی سائی ناتھ۔ اسٹوڈیو کا مقصد سماجی و مالی اعتبار سے پسماندہ برادریوں کے نوجوانوں کو ٹریننگ دینا ہے

Palani's friends at his studio's opening day. The studio has produced 3 journalism students and 30 photographers all over Tamil Nadu.
PHOTO • Mohamed Mubharakh A

اسٹوڈیو کے افتتاح کے دن موجود پلنی کے دوست۔ اس اسٹوڈیو سے سیکھ کر نکلے تین طلباء آج صحافی ہیں اور تمل ناڈو کے الگ الگ علاقوں کے ۳۰ طلباء فوٹوگرافی کرتے ہیں

پلنی اسٹوڈیو ہر سال ایسی دو ورکشاپ کا اہتمام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جس میں طلباء کو فوٹوگرافی کی ٹریننگ دی جائے گی۔ دونوں ورکشاپوں میں ۱۰-۱۰ طلباء شامل ہوں گے۔ ورکشاپ ختم ہونے کے بعد سبھی شرکاء کو چھ مہینے کی مدت میں اپنی کہانیاں درج کرنے کے لیے مالی مدد بھی دی جائے گی۔ ورکشاپ کا اہتمام کرنے اور اس کے کاموں کا جائزہ لینے کے لیے تجربہ کار فوٹوگرافروں اور صحافیوں کو مدعو کیا جائے گا۔ ان تصویروں کی بعد میں نمائش بھی لگائی جائے گی۔

مترجم: محمد قمر تبریز

M. Palani Kumar

ଏମ୍‌. ପାଲାନି କୁମାର ‘ପିପୁଲ୍‌ସ ଆର୍କାଇଭ୍‌ ଅଫ୍‌ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆ’ର ଷ୍ଟାଫ୍‌ ଫଟୋଗ୍ରାଫର । ସେ ଅବହେଳିତ ଓ ଦରିଦ୍ର କର୍ମଜୀବୀ ମହିଳାଙ୍କ ଜୀବନୀକୁ ନେଇ ଆଲେଖ୍ୟ ପ୍ରସ୍ତୁତ କରିବାରେ ରୁଚି ରଖନ୍ତି। ପାଲାନି ୨୦୨୧ରେ ଆମ୍ପ୍ଲିଫାଇ ଗ୍ରାଣ୍ଟ ଏବଂ ୨୦୨୦ରେ ସମ୍ୟକ ଦୃଷ୍ଟି ଓ ଫଟୋ ସାଉଥ ଏସିଆ ଗ୍ରାଣ୍ଟ ପ୍ରାପ୍ତ କରିଥିଲେ। ସେ ପ୍ରଥମ ଦୟାନିତା ସିଂ - ପରୀ ଡକ୍ୟୁମେଣ୍ଟାରୀ ଫଟୋଗ୍ରାଫୀ ପୁରସ୍କାର ୨୦୨୨ ପାଇଥିଲେ। ପାଲାନୀ ହେଉଛନ୍ତି ‘କାକୁସ୍‌’(ଶୌଚାଳୟ), ତାମିଲ୍ ଭାଷାର ଏକ ପ୍ରାମାଣିକ ଚଳଚ୍ଚିତ୍ରର ସିନେମାଟୋଗ୍ରାଫର, ଯାହାକି ତାମିଲ୍‌ନାଡ଼ୁରେ ହାତରେ ମଇଳା ସଫା କରାଯିବାର ପ୍ରଥାକୁ ଲୋକଲୋଚନକୁ ଆଣିଥିଲା।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ M. Palani Kumar
Translator : Qamar Siddique

କମର ସିଦ୍ଦିକି ପିପୁଲ୍ସ ଆରକାଇଭ ଅଫ୍ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆର ଅନୁବାଦ ସମ୍ପାଦକ l ସେ ଦିଲ୍ଲୀ ରେ ରହୁଥିବା ଜଣେ ସାମ୍ବାଦିକ l

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Qamar Siddique