بنجر سطح مرتفع پر واقع ایک درگاہ نے مالگاؤں کے لوگوں کی اچھی خدمت کی ہے۔ مہاراشٹر کے ستارا ضلع میں واقع یہ درگاہ کئی صدیوں سے لوگوں کے لیے سہارا رہی ہے۔
اسکولی بچے درگاہ سے ملحق درخت کے نیچے اپنا ہوم ورک مکمل کرتے ہیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں داخلی دروازے پر سول سروس کے مسابقتی امتحانات کی تیاری کرتے ہیں۔ یہاں شدید گرمی کے موسم میں ٹھنڈی ہوا چلتی ہے۔ سامنے کی کھلی جگہ پر پولیس فورس میں شامل ہونے کے خواہاں نوجوان فٹنس کی سخت ٹریننگ کرتے ہیں۔
پندرہ ایکڑ سے زیادہ زمین کے مالک، گاؤں کے ایک کسان ۷۶ سالہ ونائک جادھو کہتے ہیں، ’’میرے دادا بھی اس [درگاہ] کی کہانیاں سناتے تھے۔ تصور کریں کہ یہ کتنی پرانی ہوگی۔ ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر اس کی دیکھ ریکھ کی ہے۔ یہ پرامن بقائے باہمی کی علامت رہی ہے۔‘‘
لیکن، ستمبر ۲۰۲۳ میں حالات بدل گئے۔ مالگاؤں میں عقیدت کی نگاہ سے دیکھی جانے والی درگاہ نے ایک ئنی معنویت اختیار کر لی – نوجوانوں کے ایک چھوٹے لیکن پرشور گروپ نے دعویٰ کیا کہ یہ ناجائز طریقے سے قبضہ کی گئی زمین پر بنی ہے۔ ہندوتوا گروپوں کے ایک اتحاد نے انہیں مشتعل کیا تھا۔
مالگاؤں کے ان ہندوؤں نے جن کی عمر ۲۰ سے ۲۵ سال کے درمیان ہے، ضلع انتظامیہ کو خط لکھ کر ’’غیر قانونی تجاوزات‘‘ کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ ان میں سے کچھ نے مزار سے ملحق پانی کے ٹینک کو پہلے ہی توڑ دیا تھا۔ ان کے خط میں لکھا گیا تھا کہ ’’مسلم کمیونٹی اپنے ارد گرد کی سرکاری اراضی پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔‘‘ اور مزید یہ کہ ’’مزار گرام پنچایت کی مرضی کے خلاف بنایا گیا ہے۔‘‘
تاہم، جب مزار کو منہدم کرنے کی آوازیں بلند ہوئیں، تو گاؤں والوں نے صحیح سمت میں قدم بڑھایا۔ ’’مزار کا ذکر ۱۹۱۸ کے نقشوں میں بھی ملتا ہے،‘‘ جادھو نے کاغذ کے ایک پرانے ٹکڑے کو احتیاط سے کھولتے ہوئے کہا۔ ’’گاؤں میں بہت سے مذہبی مقامات ہیں جو آزادی سے پہلے موجود تھے۔ ہم ان سب کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے پرامن ماحول میں پروان چڑھیں۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں: ’’دھرما دھرما مدھے بھاندن لاون آپن پُڑھے ناہیں، ماگے جانر [لوگوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنا ہی ہمیں پیچھے لے جائے گا]۔‘‘
ہندوتوا ممبران کی جانب سے درگاہ کو منہدم کرنے کے مطالبہ کے بعد دونوں برادریوں کے بزرگ افراد مالگاؤں میں جمع ہوئے اور اس مطالبہ کے خلاف ایک خط جاری کیا۔ خط میں واضح طور پر کہا گیا کہ یہ مطالبہ اکثریت کے خیالات کی نمائندگی نہیں کرتا۔ مختلف ذات برادریوں کے دو سو مسلمانوں اور ہندوؤں نے اس پر دستخط کیے۔ اور فی الحال کے لیے وہ مزار کو بچانے میں کامیاب ہو گئے۔
ایک بڑا چیلنج کافی تگ و دو کے بعد حاصل اس امن کو برقرار رکھنا ہے۔
*****
مالگاؤں ایک نادر مثال ہے جہاں گاؤں نے تفرقہ انگیز عناصر کا مقابلہ کیا اور مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایک یادگار کی حفاظت کی۔
پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران مہاراشٹر میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اور زیادہ تر معاملوں میں مجرم قانون کی گرفت سے باہر ہیں – اس کی بڑی وجہ پولیس کی بے عملی اور اکثریتی طبقہ کی خاموشی ہے۔
سال ۲۰۱۹ کے ریاستی انتخابات کے بعد ڈھائی سال تک ہندوستان کی امیر ترین ریاست میں تین سیاسی جماعتوں – شیو سینا، کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی – کے اتحاد کی حکومت رہی، جس کی قیادت سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے کی تھی۔
تاہم، جون ۲۰۲۲ میں ریاست میں اس وقت ایک بار پھر اقتدار کی تبدیلی ہوئی جب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے شیوسینا کے ۴۰ اراکین اسمبلی کا شکار کر کے اتحاد کا تختہ پلٹ کر نئی حکومت تشکیل دی۔ اس کے بعد سے بنیاد پرست ہندو گروپس اکٹھا ہوئے ہیں اور پوری ریاست میں درجنوں ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے معاشی بائیکاٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ ریاست کے ماحول کو کشیدہ کرنے کی ایک منظم کوشش ہے اور مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر حملے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ستارا میں مقیم ایک سماجی کارکن منہاج سید کا کہنا ہے کہ پولرائزیشن کے اس منصوبہ پر برسوں سے کام چل رہا ہے، لیکن ۲۰۲۲ کے بعد اس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ ’’درگاہوں یا مقبروں جیسی یادگاریں، جن کی حفاظت اور دیکھ بھال گاؤں کے ہندو اور مسلمان دونوں کرتے ہیں، حملے کی زد میں ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ایجنڈہ مشترکہ ثقافت کو نشانہ بنانے کا ہے۔‘‘
فروری ۲۰۲۳ میں انتہا پسند ہندوؤں کے ایک گروپ نے کولہا پور کے وشال گڑھ قصبے میں حضرت پیر ملک ریحان شاہ کی درگاہ پر ایک راکٹ چھوڑا تھا۔ یہ واقعہ پولیس کی موجودگی میں پیش آیا تھا۔
ستمبر ۲۰۲۳ میں ایک بنیاد پرست تنظیم ہندو ایکتا، جس کی سربراہی بی جے پی کے وکرم پاواسکر کر رہے تھے، کے اراکین نے ستارا کے گاؤں پوسے ساولی میں ایک مسجد پر قاتلانہ حملہ کیا جو واٹس ایپ پر وائرل غیرثابت شدہ اسکرین شاٹس کے جواب میں تھا۔ پرامن طریقے سے نماز ادا کرنے والے تقریباً ۱۰ سے ۱۲ مسلمانوں پر ٹائلوں، لاٹھیوں اور لوہے کی سلاخوں سے حملہ کیا گیا، ان میں سے ایک زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گیا۔ پڑھیں: نفرت کی آگ میں جلتا ہندو-مسلم بھائی چارہ
فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ ’سَلوکھا سمپرک گَٹ‘ نے دسمبر ۲۰۲۳ میں ایک کتابچہ شائع کیا تھا، جس میں صرف ستارا ضلع میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر ایسے ۱۳ حملوں کی دستاویز سازی کی گئی ہے۔ حملوں کی نوعیت مقبرے کو تباہ کرنے سے لے کر مسجد کے اوپر زعفرانی جھنڈا لہرانے تک تھی، تاکہ فرقہ وارانہ کشیدگی میں مزید اضافہ ہو۔
کتابچہ کے مطابق صرف ۲۰۲۲ میں مہاراشٹر میں فسادات کے ۸۲۱۸ سے زیادہ واقعات درج کیے گئے، جن میں ۹۵۰۰ سے زیادہ شہری متاثر ہوئے۔ یہ ایک سال میں ہر روز ۲۳ فسادات کے واقعات کا حیران کن اوسط ہے۔
جب ۵۳ سالہ شمس الدین سید جون ۲۰۲۳ کی ایک صبح ستارا ضلع کے اپنے گاؤں کونڈوے کی مسجد تک گئے، تو گویا ان کی دل کی دھڑکن رک گئی۔ ایک زعفرانی جھنڈا جس پر کالے رنگ سے ’جے شری رام‘ لکھا ہوا تھا، مسجد کی مینار پر دیدہ دلیری سے لہرا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر سید گھبرا گئے۔ انہوں نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی اور صورتحال پر قابو پانے کی گزارش کی۔ لیکن اس وقت بھی جب پولیس تنگ گلی میں کھڑی جھنڈا اتارے جانے کا منظر دیکھ رہی تھی، تب بھی انہیں امن و امان کے بحران کا خدشہ لاحق تھا۔
’’ایک مسلمان لڑکے نے کچھ دنوں پہلے ٹیپو سلطان پر ایک اسٹیٹس اپ لوڈ کیا تھا،‘‘ مسجد کے متولی شمس الدین سید نے بتایا۔ ’’ہندوتوا گروپوں کو ۱۸ویں صدی کے مسلم حکمراں کی تعریف پسند نہیں تھی، اس لیے وہ گاؤں کی مسجد کی بے حرمتی کر کے اس کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔‘‘
ٹیپو سلطان پر اسٹیٹس اپ لوڈ کرنے والے ۲۰ سالہ نوجوان سہیل پٹھان کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہو گیا: ’’مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں نے ایک انسٹاگرام اسٹوری کے ذریعہ اپنے گھر والوں کو خطرے میں ڈال دیا۔‘‘
ان کے پوسٹ کے چند گھنٹے بعد بنیاد پرست ہندوؤں کا ایک گروپ ان کے ایک کمرے کی نیم روشن جھونپڑی میں اتر آیا اور انہیں تھپڑ مارے۔ ’’ہم نے جوابی کارروائی نہیں کی کیونکہ اس سے حالات مزید بگڑ جاتے،‘‘ سہیل کہتے ہیں۔ ’’لیکن یہ تو صرف ایک انسٹاگرام اسٹوری تھی۔ انہیں مسلمانوں پر حملہ کرنے کا کوئی نہ کوئی جواز چاہیے۔‘‘
جس رات سہیل کو تھپڑ مارا گیا، پولیس نے مداخلت کی اور ان پر مقدمہ درج کیا۔ انہیں رات ایک تھانے میں گزارنی پڑی، اور اب مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں ضلعی عدالت میں ان پر مقدمہ چل رہا ہے۔ انہیں تھپڑ مارنے والے آزاد ہیں۔
سہیل کی والدہ، ۴۶ سالہ شہناز کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان کئی نسلوں سے ستارا میں مقیم ہے، لیکن انہیں کبھی اس قسم کی منافرت یا اپنی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی نگرانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ’’میرے والدین اور دادا دادی نے تقسیم کے دوران ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ہم ایک سیکولر آئین پر یقین رکھتے تھے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ یہ میری زمین ہے، یہ میرا گاؤں ہے، یہ میرا گھر ہے۔ لیکن جب میرے بچے کام پر جاتے ہیں، تو میں ان کے لیے خوف محسوس کرتی ہوں۔‘‘
سہیل ایک گیراج میں کام کرتے ہیں اور ان کے ۲۴ سالہ بڑے بھائی آفتاب ویلڈر ہیں۔ ان کے کنبے کی کفالت کی ذمہ داری ان دونوں پر ہی ہے، جو مہینے میں تقریباً ۱۵ ہزار روپے کما لیتے ہیں۔ سہیل کے خلاف اس فضول کے مقدمے میں ضمانت اور وکیل کی فیس میں ان کی دو ماہ کی آمدنی ضائع ہو گئی۔ ’’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کیسے رہتے ہیں،‘‘ شہناز اپنے چھوٹے سے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، جہاں آفتاب کی ویلڈنگ مشین دیوار سے لگی رکھی ہوئی ہے اور جس کا پینٹ جھڑ رہا ہے۔ ’’ہم عدالتی مقدمہ پر پیسہ خرچ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ گاؤں کی امن کمیٹی حرکت میں آئی اور معاملے کو ٹھنڈا کیا۔‘‘
کونڈوے کے کسان اور امن کمیٹی کے ایک سینئر رکن، ۷۱سالہ مدھوکر نِمبالکر کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۴ میں اپنے قیام کے بعد سے یہ پہلا موقع تھا جب کمیٹی کو مداخلت کرنی پڑی۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم نے اس مسجد میں ایک میٹنگ کی جہاں زعفرانی جھنڈا لہرایا گیا تھا۔ دونوں برادریوں نے حالات کو مزید خراب نہ ہونے دینے کا عزم کیا ہے۔‘‘
نِمبالکر کا کہنا ہے کہ یہ میٹنگ مسجد میں ایک خاص وجہ سے کی گئی تھی۔ ’’اس کے سامنے کی کھلی جگہ طویل عرصے سے ہندو شادیوں کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’خیال یہ تھا کہ لوگوں کو یاد دلایا جائے کہ ہم نے ان تمام سالوں میں کس طرح زندگی گزاری ہے۔‘‘
*****
۲۲ جنوری، ۲۰۲۴ کو ایودھیا میں رام للا مندر کا افتتاح ہوا۔ نومبر ۲۰۱۹ میں سپریم کورٹ نے اپنے متفقہ فیصلے میں ایودھیا کی متنازع زمین کو مندر کی تعمیر کے لیے دے دیا تھا۔ یہ مندر بابری مسجد کے مقام پر تعمیر کی گئی ہے، جسے وشو ہندو پریشد کی قیادت میں بنیاد پرست ہندو گروپوں نے چار دہائیوں قبل منہدم کر دیا تھا۔
اس کے بعد سے بابری مسجد کا انہدام ہندوستان میں مذہبی پولرائزیشن کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔
حالانکہ سپریم کورٹ کے ججوں نے بابری مسجد کے انہدام کو غیر آئینی قرار دیا تھا، لیکن مندر کی تعمیر کے لیے اراضی کی حوالگی کے ان کے حکم نے مجرموں کو انعام اور حوصلہ بخشا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس فیصلہ سے بنیاد پرست گروہوں کو میڈیا کی نظر سے باہر دور دراز کے گاؤوں میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کے لیے طاقت ملی ہے۔
منہاج سید کا کہنا ہے کہ ۱۹۴۷ میں آزادی کے وقت تمام برادریوں میں مذہبی مقامات کے حوالے سے حسب سابق حالت کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ ’’سپریم کورٹ کے فیصلہ نے اسے تبدیل کر دیا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’کیونکہ یہ بابری پر نہیں رکا۔ ہندو گروہ اب دوسری مساجد کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
ستارا کے وردھنگڑ گاؤں کے ایک درزی ۶۹ سالہ حسین شِکلگر اپنے گاؤں، ضلع اور ریاست میں معاندانہ رجحانات کے در آنے کے بعد واضح نسلی تقسیم دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’نوجوان نسل کی مکمل طور پر ذہن سازی کی چکی ہے۔ میری عمر کے لوگ پرانے دنوں کو یاد کرتے ہیں۔ میں نے بابری مسجد کے انہدام کے بعد کا پولرائزیشن دیکھا ہے۔ وہ ہمارے آج کے کشیدہ ماحول کی طرح نہیں تھا۔ میں ۱۹۹۲ میں اس گاؤں کا سرپنچ منتخب ہوا تھا۔ آج میں ایک دوسرے درجے کا شہری محسوس کر رہا ہوں۔‘‘
شِکلگر کا بیان خاص طور پر اس لیے بھی ضرر رساں ہے کیونکہ ان کے گاؤں نے برسوں سے مذہبی تکثیریت کو اپنایا ہے۔ فورٹ وردھنگڑ کے دامن میں واقع یہ گاؤں پورے مہاراشٹر کے عقیدت مندوں کے لیے ایک زیارت گاہ ہے۔ گاؤں کی پہاڑی کے جنگلاتی علاقہ میں پانچ مقبرے اور مندر ہیں جو ایک دوسرے کے نسبتاً قریب ہیں، جہاں ہندو اور مسلمان ساتھ ساتھ عبادت کرتے ہیں۔ دونوں برادریوں نے مل کر ان مقامات کو برقرار رکھا ہے، یا انہوں نے جولائی ۲۰۲۳ تک ایسا کیا تھا۔
جب سے جون ۲۰۲۳ میں ’’نامعلوم افراد‘‘ نے پیر داع المَلک کے مقبرے، جہاں مسلمان باقاعدگی سے عبادت کیا کرتے تھے، کی توڑ پھوڑ کی تھی اس کے بعد سے وردھنگڑ میں صرف چار عبادت گاہیں ہیں۔ اگلے مہینے محکمہ جنگلات نے قبر کو غیرقانونی قرار دے کر مکمل طور پر زمیں دوز کر دیا۔ مسلمان حیران ہیں کہ پانچ عبادت گاہوں میں سے صرف اس ڈھانچہ کو کیوں منہدم کیا گیا۔
’’یہ گاؤں کے مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی ایک کوشش تھی،‘‘ وردھنگڑ کے رہائشی ۲۱ سالہ طالب علم محمد سعد کہتے ہیں۔ ’’اسی دوران مجھے ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے لیے نشانہ بنایا گیا۔‘‘
سعد کے کزن، جو چند گھنٹے کے فاصلہ پر واقع پونے میں رہتے ہیں، نے ۱۷ویں صدی کے حکمراں اورنگ زیب کی ایک انسٹاگرام پوسٹ اپ لوڈ کی تھی۔ اس پوسٹ سے ناراض ہو کر ہندوتوا گروپس کے ارکان اسی رات سعد کی دہلیز پر اتر آئے اور انہیں گھسیٹ کر گھر سے باہر لے گئے، اور انہیں ’’اورنگ زیب کی اولاد‘‘ کہتے ہوئے لوہے کی سلاخوں اور ہاکی اسٹکس سے ان کی پٹائی کی۔
سعد نے سر کی چوٹوں، ٹوٹی ہوئی ٹانگ اور گال کی ٹوٹی ہوئی ہڈی کے ساتھ اگلے ۱۵ دن ہسپتال میں گزارے۔ اگلے کچھ دنوں تک انہیں خون کی الٹی ہوتی رہی۔ آج بھی انہیں تنہا سفر کرنا مشکل لگتا ہے۔ ’’مجھے لگتا ہے کہ مجھے دوبارہ نشانہ بنایا جا سکتا ہے،‘‘ وہ اعتراف کرتے ہیں۔ ’’میں اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز نہیں کر سکتا۔‘‘
سعد بیچلر آف کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ ایک ذہین اور مخلص طالب علم ہیں جنہوں نے ۱۲ویں جماعت کے بورڈ کے امتحانات میں ۹۳ فیصد نمبر حاصل کیے تھے۔ لیکن حالیہ مہینوں میں ان کی مصیبتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ’’ہسپتال میں داخل ہونے کے تین دن بعد میرے چچا کو دل کا دورہ پڑا اور وہ انتقال کر گئے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’وہ ۷۵ سال کے تھے، لیکن ٓصحت مند تھے۔ انہیں دل کا کوئی عارضہ نہیں تھا۔ واضح طور پر یہ دورہ تناؤ کی وجہ سے پڑا تھا۔ میں انہیں بھول نہیں سکتا۔‘‘
اس واقعہ کے بعد سے ہی مسلمانوں نے اپنوں کے درمیان رہنا شروع کر دیا ہے، اب وہ ہندوؤں کے ساتھ گھل مل نہیں رہے ہیں۔ گاؤں کے مزاج میں تبدیلی رونما ہو گئی ہے۔ پرانی دوستیاں تناؤ کا شکار ہیں، رشتے ختم ہو گئے ہیں۔
شِکلگر کہتے ہیں کہ معاملہ صرف انہی دونوں واقعات تک محدود نہیں ہے۔ احساس بے گانگی روزمرہ کی چیزوں میں بھی عیاں ہے۔
’’میں ایک درزی ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں نے پوری زندگی سبھی گاؤں والوں کے کے کپڑوں کی سلائی کی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں، میرے ہندو گاہک مجھے چھوڑ گئے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ آیا یہ نفرت کی وجہ سے ہے یا ان کے ساتھیوں کے دباؤ کی وجہ سے۔‘‘
یہاں تک کہ زبان بھی بدل گئی ہے، وہ مزید کہتے ہیں۔ ’’مجھے یاد نہیں ہے کہ ’لانڈیا‘ کا لفظ کب سنا تھا،‘‘ مسلمانوں کے لیے استعمال کی جانے والی پھبتیوں کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔ ’’ان دنوں، ہم اکثر سنتے ہیں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے سے ملنا جلنا چھوڑ دیا ہے۔‘‘
وردھنگڑ کوئی استثنا نہیں ہے مغربی مہاراشٹرا کا وہ خطہ جس میں ستارا ضلع واقع ہے، فرقہ وارانہ کشیدگی نے گاؤوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کر دیا ہے اور تہواروں اور شادی کی تقریبات کا رخ بدل دیا ہے۔
شکلگر کا کہنا ہے کہ وہ وردھنگڑ میں ہندو گنیش تہوار کے موقع پر سب سے آگے رہتے تھے، جب کہ بہت سے ہندو عرس میں شرکت کرتے تھے، جو صوفی بزرگ معین الدین چشتی کی برسی کے موقع پر ہر سال منعقد کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ گاؤں میں شادی ایک مشترکہ معاملہ ہوتی تھی۔ ’’اب وہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے،‘‘ وہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ’’ایک وقت تھا جب رام نومی میں مسجد کے پاس سے گزرتے وقت احتراماً موسیقی بند ہو جاتی تھی۔ اب ہمیں پریشان کرنے کے لیے آواز بلند کر دی جاتی ہے۔‘‘
اس کے باوجود دونوں برادریوں کے ایک بڑے طبقے کا خیال ہے کہ ابھی بھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ہے، اور مذاہب کے درمیان نااتفاقی پیدا کرنے والے ہجوم اکثریت کے مفادات کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔ مالگاؤں سے تعلق رکھنے والے جادھو کہتے ہیں، ’’وہ شور مچاتے ہیں، انہیں ریاست کی حمایت حاصل ہے، اس لیے ایسا لگتا ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ زیادہ تر لوگ بغیر کسی تنازعہ کے اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اس لیے ہندو ان کے خلاف کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں۔ اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
جادھو کا خیال ہے کہ مالگاؤں میں جو کچھ ہوا، وہ پورے مہاراشٹر کے لیے نہیں تو کم از کم ستارا کے باقی حصوں کے لیے مثال ہو سکتا ہے۔ ’’ہندو جب درگاہ کو بچانے کے لیے آگے آئے، تو بنیاد پرست عناصر بیک فٹ پر چلے گئے،‘‘ وہ زور دے کر کہتے ہیں۔ ’’مذہبی تکثیریت کو بچانے کی ذمہ داری ہم پر ہے، مسلمانوں پر نہیں۔ ہماری خاموشی سماج دشمن عناصر کو حوصلہ بخشتی ہے۔ ‘‘
مترجم: شفیق عالم