’’اپنے شاگردوں سے بے پناہ محبت اور انہیں پوری طرح قبول کرنا۔ ایک ٹیچر کے طور پر میں نے یہی سیکھا ہے!‘‘
میدھا ٹینگشے اپنی بات انتہائی نرمی سے لیکن پوری مضبوطی کے ساتھ رکھتی ہیں۔ وہ اسپیشل ایجوکیٹر (خاص معلمہ) ہیں اور ’سادھنا ولیج‘ کے بانی ممبران میں سے ایک ہیں۔ اس ولیج میں الگ الگ عمر اور الگ الگ دماغی صلاحیتوں کے حامل ۳۰ سے زائد افراد رہتے ہیں جنہیں تھوڑے بہت آرٹ، میوزک اور ڈانس کے ساتھ ساتھ زندگی کے بنیادی ہنر سکھائے جاتے ہیں۔
سادھنا ولیج، پونے ضلع کے مُلشی بلاک میں واقع ہے۔ یہ دماغی طور سے معذور بالغوں کا ایک رہائشی ادارہ ہے، جہاں طلباء کو ’وشیش متر‘ (خاص دوست) کہا جاتا ہے۔ صحافت کی تربیت حاصل کر چکیں میدھا تائی خود کو یہاں رہنے والے ۱۰ بچوں کی ’گرہ ماتا‘ کہتی ہیں – یعنی ’’ایک ایسی ماں جو ٹیچر بھی ہیں۔‘‘
پونے میں سماعت سے محروم بچوں کے لیے چلائے جا رہے دھائری اسکول کی خاص معلمہ ستیہ بھاما الہٹ کا بھی یہی ماننا ہے۔ ’’رہائشی اسکول میں ہم جیسے ٹیچر بچوں کے ماں باپ کا رول بھی ادا کرتے ہیں۔ ہم اپنے طلباء کو گھر کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتے۔‘‘ کچھ لڑکیوں کو ’پھوگڑی‘ سکھاتے ہوئے وہ پاری سے بات کر رہی ہیں۔ پھوگڑی ایک روایتی کھیل ہے، اور اُس دن ناگ پنچمی بھی، جو ساون کے پانچویں دن منائی جاتی ہے۔ دھائری ایک پرائمری اسکول ہے جس میں پڑھنے والے ۴۰ طلباء وہیں رہتے ہیں اور ۱۲ بچے دن میں پڑھائی کرنے کے لیے آتے ہیں۔ یہ بچے مہاراشٹر، کرناٹک، دہلی، مغربی بنگال اور راجستھان جیسے مقامات سے یہاں آئے ہیں۔
ستیہ بھاما پاری کو بتاتی ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو اس اسکول میں بھیجنا چاہتے ہیں، کیوں کہ انہوں نے یہاں سے فارغ ہونے طلباء سے سہولیات اور ٹیچروں کے بارے میں اچھی باتیں سنی ہیں۔ فیس نہ ہونے اور یہاں رہائش کا انتظام ہونے کی وجہ سے یہ لوگوں کو متوجہ کرتا ہے۔ ساڑھے چار سال کی عمر تک کے بچے بھی یہاں آ سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اسکول میں داخلہ لینے کے لیے صرف سماعت سے معذور بچوں کے والدین ہی نہیں آتے۔ ستیہ بھاما بتاتی ہیں، ’’جو بچے سن سکتے ہیں ان کے والدین بھی یہاں داخلہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ انہیں اسکول پسند آتا ہے۔ ہمیں انہیں لوٹانا پڑتا ہے۔‘‘
معذوری کے شکار لوگوں کو پڑھانے والے اساتذہ کو ’اسپیشل ایجوکیٹر‘ کہتے ہیں، جو طلباء کو اس طرح پڑھاتے ہیں کہ ان کی الگ الگ شناخت، معذوری اور خاص ضروریات کو پورا کر کے انہیں خود کفیل بنایا جا سکے۔ ان میں سے زیادہ تر ٹیچروں کا ماننا ہے کہ یہ مخصوص اساتذہ تکنیکوں اور طریقوں سے کہیں الگ چیز ہیں۔ یہ ایک استاد اور شاگرد کے درمیان اعتماد اور تعلقات پر قائم ہے۔
سال ۱۹-۲۰۱۸ میں پہلی کلاس سے ۱۲ویں تک مخصوص ضرورت والے ۳۰۰۴۶۷ بچوں کا داخلہ ہوا تھا۔ مہاراشٹر میں خاص ضرورت والے بچوں کے لیے ۱۶۰۰ اسکول ہیں۔ معذوری کے شکار بچوں کے لیے سال ۲۰۱۸ میں بنی سرکاری پالیسی کے تحت، ان بچوں کو تعلیم حاصل کرنے میں مدد کے لیے ہر اسکول میں کم از کم ایک اسپیشل ایجوکیٹر کی ترقی کرنے کا ہدف طے کیا گیا۔ مگر میدھا تائی کے مطابق، ۹۶ گاؤوں والے پورے ملشی بلاک میں ۲۰۱۸ میں صرف نو مخصوص اساتذہ ہی تعینات کیے گئے تھے۔
معذوری کے شکار بچوں کے ٹیچر اپنے طلباء کو اس طرح پڑھاتے ہیں کہ ان کی الگ الگ شناخت، معذوری اور خاص ضروریات کو پورا کر کے انہیں خود کفیل بنایا جا سکے
*****
ایک اسپیشل ایجوکیٹر کو پڑھانے کا خاص ہنر بھی چاہیے ہوتا ہے۔ یہ آسان نہیں ہوتا، ’’اوپر سے تب، جب طالب علم آپ کے والدین کی عمر کے ہوں،‘‘ وردھا کے ۲۶ سالہ سماجی کارکن راہل وان کھیڑے کہتے ہیں، جو پچھلے سال سے یہاں ہیں۔ وردھا کی ہی ان کی ساتھی ٹیچر ۲۷ سالہ کانچن یہ شنکر طلباء کو پانچ سال سے پڑھا رہی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ان طلباء نے انہیں خوش رہنا سکھایا ہے۔
بیس سال کے کنال گورجر کا بایاں ہاتھ معذوری کا شکار ہے اور انہیں چیزوں کو سمجھنے میں پریشانی ہوتی ہے۔ سماجی کارکن ۳۴ سالہ میوری گائکواڑ اور ان کے ساتھیوں نے ان کے اور ساتھ مخصوص بچوں کے لیے کلاسیں چلائیں۔ پونے کے پاس ہڈشی کے کالیکر واڑی کے دیورائی مرکز میں اپنے ٹیچروں کے بارے میں کنال نے بتایا، ’’انہوں نے مجھے گانے اور پہاڑے سکھائے اور ورزش کرنا سکھایا۔ ہات اسے کرائیچے، مگ اسے، مگ تسے [ہاتھوں کو اس طرح ہلائیں اور پھر اُس طرح]۔‘‘
میوری، کاتکری آدیواسی بچوں کے ساتھ بھی کام کرتی ہیں اور لائبریری چلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس رول کے لیے ان بچوں کے ساتھ پیار اور استقلال کا جذبہ بہت ضروری ہے۔ میوری کسان اور سماجی کارکن بھی ہیں۔ معذوری کے شکار بچوں کے ساتھ ان کا پیار اور لگن ہی تھا، جس نے انہیں دیورائی مرکز میں ٹیچر کا رول نبھانے کو آمادہ کیا۔
سنگیتا کالیکر کے بیٹے سوہم کو مرگی کے دورے آتے ہیں اور وہی اس کی واحد ٹیچر رہی ہیں۔ وہی اسے اٹھنے بیٹھنے سے لے کر بات کرنے تک سب کچھ سکھاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’وہ اب ’آئی، آئی‘ کہہ لیتا ہے۔‘‘ دس سالہ سوہم چابی سے کھیل رہا ہے، اسے زمین سے گرتے دیکھ کر آوازیں نکال رہا ہے۔
پونے میں سماعت سے محروم بچوں کے لیے چلائے جا رہے اسکول میں، جب بھی کلاس میں کوئی بچہ آواز نکالتا ہے تو ٹیچر اسے بولنے کی جانب ایک قدم مانتے ہیں۔ گزشتہ ۲۴ سال سے یہاں کام کر رہی ستیہ بھاما الہٹ بتاتی ہیں کہ ان آوازوں اور اشاروں کو چھوڑ دیں، تو ’’وہ اپنی عمر کے ’عام‘ بچوں سے الگ نہیں ہیں۔‘‘
یہ اسکول ۵۰ سال سے مخصوص ٹیچروں کو ٹریرننگ دے رہے پونے کے سوہرد منڈل انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے سماعت سے محروم بچوں کے لیے شروع کیے گئے ۳۸ اسکولوں میں سے ایک ہے۔ ان ٹیچروں نے یا تو بی ایڈ (سماعت سے محروم) کیا ہے یا ڈپلومہ کورس کی پڑھائی کی ہے اور مخصوص ٹیچر بننے کا فیصلہ کیا۔
چوتھی کلاس کا بلیک بورڈ عمارت، گھوڑے، کتے اور تالاب کی خوبصورت تصویروں سے بھرا پڑا ہے، جسے موہن کانیکر اپنے شاگردوں کو پڑھانا چاہتے ہیں۔ تقریباً ۲۱ سال کا تجربہ لیے ۵۴ سال کے تربیت یافتہ استاد کانیکر ٹوٹل کمیونی کیشن کا طریقہ استعمال کرتے ہوئے پڑھاتے ہیں، جس میں سماعت سے محروم لوگوں کو پڑھاتے وقت بولنے، ہونٹ پڑھنے، اشارہ اور تحریر کا مشترکہ طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے شاگرد ہر اشارہ پر ردعمل دیتے ہیں اور الفاظ کو الگ الگ آوازوں میں دہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان آوازوں سے کانیکر کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے اور وہ پھر ہر بچے کا تلفظ درست کرتے جاتے ہیں۔
ایک اور کلاس میں، ادیتی ساٹھی کی خود کی بولنے میں آنے والی پریشانی ’مرحلہ ۳‘ کی کلاس کے سات طلباء کو پڑھانے کے راستے میں رکاوٹ نہیں پیدا کرتی۔ وہ ۱۹۹۹ سے اسکول میں معاون کے طور پر کام کر رہی ہیں۔
وہ اور ان کے طالب علم اسی ہال میں دوسری کلاس کے ’شور‘ سے پریشان نہیں ہیں، جہاں سنیا زِنے یہاں کے سب سے چھوٹے طلباء کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ ہاسٹل کی یہ ۴۷ سالہ نگراں انہیں رنگوں کے بارے میں سکھا رہی ہیں اور طالب علم رنگوں کی تلاش میں ہال میں آزاد ہو کر دوڑ رہے ہیں۔ ایک نیلا بیگ، ایک لال ساڑی، کالے بال، پیلے پھول…طلباء خوشی سے چیختے ہیں، کچھ آوازیں نکال رہے ہیں، تو کچھ صرف ہاتھوں سے اشارے کر رہے ہیں۔ تربیت یافتہ ٹیچر کے طور پر ان کا اشارتی چہرہ اپنے طلباء سے مخاطب ہے۔
میدھا تائی کہتی ہیں، ’’آج جب معاشرے میں تشدد اور اشتعال بڑھ رہا ہے، تو ہمیں اسکولوں میں ذہانت اور کامیابی کی، تہذیب اور سزا کے اپنے تصورات پر سوال کھڑے کرنے چاہیے۔‘‘ وہ تمام اساتذہ سے مخصوص بچوں کے لیے چلائے جا رہے کم از کم ایک اسکول میں جا کر یہ دیکھنے کی اپیل کرتی ہیں کہ ’’محبت بھرے الفاظ کے ذریعے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘
رپورٹرز اس اسٹوری کی رپورٹنگ کے وقت ملے تعاون کے لیے سوہرد منڈل کی ڈاکٹر انورادھا پھترپھوڑ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز