’’میں سنہرا بارڈر لگاؤں گی اور اس میں کچھ چُنّٹیں (پلیٹس) ڈالوں گی۔ ہم آستین پر کچھ ٹکڑے بھی جوڑ سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے مزید ۳۰ روپے لگیں گے۔‘‘
شاردا مکوانا اپنے گاہکوں سے عام طور پر ایسی باتیں کرتی رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ساڑی کے ساتھ چھوٹا بلاؤز (لو-بلاؤز) پہننے والی کچھ عورتیں آستین کی لمبائی، فیتہ کی قسم اور ڈوریوں سے جڑے لٹکن کے وزن کے بارے میں خاص فرمائشیں کرتی ہیں۔ شاردا اپنے ہنر پر فخر کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میں کپڑے سے پھول بھی بنا سکتی ہوں اور انہیں سجاوٹ کے طور پر جوڑ سکتی ہوں،‘‘ اور پھر وہ ہمیں دکھاتی ہیں کہ وہ یہ کام کیسے کرتی ہیں۔
شاردا اور ان جیسے دوسری مقامی ساڑی بلاؤز والے درزی کشل گڑھ کی عورتوں کے پسندیدہ فیشن صلاح کار ہیں۔ آخر تقریباً تمام نوجوان لڑکیوں اور سبھی عمر کی ساڑی پہننے والی خواتین کو ۸۰ سینٹی میٹر والے کپڑے کی ضرورت تو ہوتی ہی ہے۔
ایسے پدرانہ معاشرہ میں جہاں عورتوں کی عوامی جگہوں پر کوئی آواز نہیں ہے اور جہاں پیدائش کے وقت جنسی تناسب فی ۱۰۰۰ مردوں پر ۸۷۹ خواتین (نیشنل فیملی ہیلتھ سروے، این ایف ایچ ایس - ۵ ) ہے، وہاں اپنے کپڑوں کے بارے میں عورتوں کی اپنی پسند کچھ حد تک خوشی کی وجہ تو ہے۔
راجستھان کے بانسواڑہ ضلع کا یہ چھوٹا سا شہر سلائی کی دکانوں سے بھرا ہوا ہے۔ مردوں کے درزی دو طرح کے ہیں۔ شرٹ اور پینٹ کی سلائی کرنے والے اور دولہے کے لیے کرتا اور سردیوں میں کوٹ جیسا شادی کا جوڑا بنانے کے لیے۔ دونوں ہی قسم کے کپڑوں کے بارے میں کوئی خاص گفتگو نہیں ہوتی۔ ان کے چنندہ رنگ کبھی کبھی ہلکے گلابی یا لال رنگ سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔
دوسری طرف ساڑی بلاؤز کی سلائی کرنے والے درزیوں کی دکانیں ہر طرف رنگوں سے سجی ہیں، گھومتی ہوئی لٹکنیں، چمکدار گوٹے (سونے اور چاندی کی کناری) اور بکھرے ہوئے رنگین کپڑوں کے ٹکڑے نظر آتے ہیں۔ شاردا (۳۶) کا چہرہ چمک رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’آپ کو کچھ ہفتے بعد آنا چاہیے جب شادیوں کا موسم شروع ہوگا۔ تب میں بہت مصروف رہوں گی۔‘‘ انہیں ڈر لگتا ہے تو بس برسات کے دنوں سے، کیوں کہ تب کوئی باہر نہیں نکلتا اور ان کا کاروبار رک جاتا ہے۔
شاردا کا اندازہ ہے کہ ۱۰۶۶۶ کی آبادی والے اس چھوٹے سے شہر (مردم شماری ۲۰۱۱) میں کم از کم ۵۰۰-۴۰۰ بلاؤز سلنے والے درزی ہوں گے۔ حالانکہ، تین لاکھ سے زیادہ لوگوں کی آبادی والی کشل گڑھ تحصیل بانسواڑہ ضلع میں سب سے بڑی ہے اور ان کے گاہک ۲۵ کلومیٹر دور سے بھی پہنچتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے گاہک اُکالا، باؤڑی پاڑہ، سروا، رام گڑھ اور دیگر بہت سے گاؤوں سے آتے ہیں۔ ایک بار جب وہ میرے پاس آ جاتے ہیں، تو پھر کہیں اور نہیں جاتے۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے مزید بتاتی ہیں کہ ان کے گاہک کپڑوں، عام زندگی، اپنی صحت اور بچوں کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
جب انہوں نے کام کی شروعات کی تھی، تو ۷۰۰۰ روپے میں ایک سنگر مشین خریدی تھی اور دو سال بعد ساڑی کے پیکو (کناری) جیسے چھوٹے کاموں کے لیے ایک سیکنڈ ہینڈ اوشا سلائی مشین خرید لی، جس کام کے لیے وہ فی ساڑی ۱۰ روپے لیتی ہیں۔ وہ پیٹی کوٹ اور پٹیالہ سوٹ (شلوار قمیض) بھی سلتی ہیں اور ۶۰ روپے سے لے کر ۲۵۰ روپے کا محنتانہ لیتی ہیں۔
شاردا ایک بیوٹیشین کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ دکان کے پیچھے ایک حجام کی کرسی، ایک بڑا آئینہ اور میک اپ کے سامان رکھے ہوئے ہیں۔ خوبصورتی بڑھانے کے اس کام میں وہ بھنویں بنانے سے لے کر، جسم کے غیر ضروری بال ہٹانے، بلیچ کرنے اور چھوٹے بچوں، خاص کر شور مچانے والے بچوں کے بال تک کاٹتی ہیں۔ ان سبھی کے لیے وہ تقریباً ۳۰ سے ۹۰ روپے تک محنتانہ لیتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’عورتیں فیشیل کے لیے بڑے پارلروں میں چلی جاتی ہیں۔‘‘
شاردا کو ڈھونڈنے کے لیے آپ کو کشل گڑھ کے مرکزی بازار میں جانا ہوگا۔ یہاں ایک سے زیادہ بس اسٹینڈ ہیں، جہاں سے ہر دن تقریباً ۴۰ بسیں مہاجرین کو لے کر گجرات اور مدھیہ پردیش روانہ ہوتی ہیں۔ بانسواڑہ ضلع سے بہت سے لوگ مہاجرت کرتے ہیں، کیوں کہ یہاں صرف بارش پر منحصر کھیتی ہوتی ہے اور معاش کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔
شہر کے پانچال محلہ میں ایک تنگ گلی کے آخر میں پوہا اور جلیبی جیسے صبح کے ناشتے بیچنے والی مٹھائی کی چھوٹی دکانوں کے مصروف بازار کو پار کر کے، شاردا کی ایک کمرے کی سلائی کی دکان اور ان کا بیوٹی پارلر آتا ہے۔
آٹھ سال پہلے شاردا کے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا۔ وہ ایک ٹیکسی ڈرائیور تھے اور لیور کے عارضہ میں مبتلا تھے، جس نے آخرکار ان کی جان لے لی۔ شاردا اور ان کے بچے سسرال والوں اور ان کے دیور کی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں۔
شاردا کے مطابق، ایک ناگہانی ملاقات سے ان کی زندگی ہی بدل گئی۔ ’’میں آنگن واڑی میں ایک میڈم سے ملی، جنہوں نے بتایا کہ ’سَکھی سینٹر‘ میں جو چاہے سیکھ سکتے ہیں۔‘‘ یہ سینٹر (مرکز) ایک غیر منافع بخش پہل ہے۔ یہ ایسی جگہ پر تھا جہاں عورتیں روزگار پانے لائق ہنر سیکھ سکتی تھیں۔ وقت اپنے حساب سے طے کیا جا سکتا تھا اور جب ان کے گھر کے کام ختم ہو جاتے، تو وہ وہاں چلی جاتی تھیں۔ کچھ دن وہ ایک گھنٹہ یا آدھا دن تک وہاں گزارتی تھیں۔ سینٹر ہر اسٹوڈنٹ سے ۲۵۰ روپے ماہانہ فیس لیتا تھا۔
سکھی سینٹر کی احسان مند شاردا بتاتی ہیں، ’’مجھے سلائی کا کام اچھا لگا اور ہمیں بہت اچھی طرح سے سکھایا بھی گیا تھا۔‘‘ انہوں نے بلاؤز کے علاوہ اور بھی بہت کچھ سیکھنا چاہا۔ ’’میں نے ان سے کہا، آپ جو بھی سکھا سکتے ہیں مجھے سکھائیں اور ۱۵ دنوں میں، میں نے اس میں مہارت حاصل کر لی!‘‘ نئے ہنر سے لیس صنعت کار شاردا نے چار سال پہلے خود کا بزنس کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’اپنی خود کی کمائی کا الگ ہی مزہ ہے۔‘‘ تین بچوں کی ماں شاردا روزمرہ کے اخراجات کے لیے اپنے سسرال والوں پر منحصر نہیں رہنا چاہتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں اپنے پیروں پر کھڑی ہونا چاہتی ہوں۔‘‘
ان کی بڑی بیٹی شیوانی (۲۰) بانسواڑہ کے ایک کالج میں نرس کی پڑھائی کر رہی ہے۔ تقریباً ۱۷ سال کی ہرشتا اور ۱۲ سال کا یوراج دونوں کشل گڑھ کے ایک اسکول میں پڑھتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے بچوں نے ہائر سیکنڈری کے لیے سرکاری اسکول کو ترجیح دی اور ۱۱ویں جماعت میں آنے کے بعد پرائیویٹ اسکول سے نکل گئے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’پرائیویٹ اسکولوں میں ٹیچر اکثر بدلتے رہتے ہیں۔‘‘
شاردا کی شادی ۱۶ سال کی عمر میں ہوئی تھی اور جب ان کی سب سے بڑی بیٹی اسی عمر میں پہنچی، تو ماں اس کے لیے کچھ سال اور انتظار کرنا چاہتی تھی، مگر کسی نے بھی جوان بیوہ عورت کی نہیں سنی۔ آج وہ اور ان کی بیٹی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کاغذ پر ہوئی اس شادی کو ردّ کرایا جائے، تاکہ ان کی نوعمر لڑکی آزادی سے زندگی بسر کر سکے۔
جب شاردا کی بغل والی دکان خالی ہوئی، تو انہوں نے اپنی دوست کو اپنی سلائی کی دکان کھولنے کے لیے راضی کیا۔ ان کی سہیلی بھی انہی کی طرح بچوں کی واحد سرپرست ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’حالانکہ، ہر مہینے کمائی الگ الگ ہوتی ہے، لیکن مجھے اچھا لگتا ہے کہ میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہوں۔‘‘
مترجم: قمر صدیقی