’’اوسوب ووٹ ٹوٹ چھاڑو۔ سندھیا ناماِر آگے انیک کاج گو… [کیا ووٹ شوٹ! اندھیرا پھیلنے سے پہلے ایک ہزار کام پڑے ہیں کرنے کو…] اگر آپ یہ بو برداشت کر سکتی ہیں تو یہاں آ کر ہمارے پاس بیٹھیں،‘‘ مالتی مال اپنے بغل کی خالی جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ وہ مجھے خواتین کے ایک گروپ میں شامل ہونے کی دعوت دے رہی ہیں، جو گرمی اور گرد و غبار سے بے نیاز پیاز کے ایک بڑے ڈھیر کے پاس بیٹھ کر کام کر رہی ہیں۔ میں تقریباً ایک ہفتہ سے اس گاؤں کا دورہ کر رہی ہوں اور ان خواتین کا سائے کی طرح تعاقب کرتے ہوئے ان سے آنے والے انتخابات سے متعلق سوالات کر رہی ہوں۔
یہ اپریل کے شروعاتی دن ہیں۔ مغربی بنگال کے مرشد آباد کے اس حصہ میں درجہ حرارت ہر روز ۴۱ ڈگری سیلسیس تک پہنچ جاتا ہے۔ شام کے ۵ بجے بھی مال پہاڑیہ کی اس جھونپڑی میں شدید گرمی ہے۔ آس پاس جو چند درخت ہیں، ان پر ایک پتہ تک نہیں ہلتا۔ تازہ پیاز کی بھاری اور تیز بو ہوا میں تیرتی رہتی ہے۔
خواتین اپنے عارضی گھروں سے بمشکل ۵۰ میٹر کے فاصلہ پر ایک کھلی جگہ پر رکھے پیاز کے ڈھیر کے گرد نیم دائرے کی شکل میں بیٹھی ہیں۔ وہ درانتی کی مدد سے پیاز کی گانٹھوں کو پتوں سے الگ کرنے میں مصروف ہیں۔ دوپہر کی تیز گرمی کچے پیاز کے بخارات کے ساتھ مل کر ان کے چہروں پر ایک چمک چھوڑ رہی ہے، ایک ایسی چمک جو صرف سخت محنت سے ہی پیدا ہو سکتی ہے۔
’’یہ ہمارا دیس [آبائی گاؤں] نہیں ہے۔ پچھلے سات یا آٹھ سالوں سے ہم یہاں آ رہے ہیں،‘‘ ساٹھ سال کی عمر پار کر چکیں مالتی کہتی ہیں۔ وہ اور اس گروپ میں شامل دیگر خواتین مال پہاڑیہ آدیواسی برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس برادری کو ریاست میں سرکاری طور پر درج فہرست قبائل کے زمرے میں رکھا گیا ہے اور انہیں سب سے زیادہ کمزور قبائلی گروہوں میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے۔
’’ہمارے گاؤں گواس کالیکاپور میں ہمارے لیے کوئی کام نہیں ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ مرشد آباد ضلع کے رانی نگر بلاک ۱ میں گواس کے ۳۰ سے زیادہ کنبے فی الحال بِیشور پُوکور گاؤں کے کنارے کھڑی عارضی جھونپڑیوں کے جھرمٹ میں قیام پذیر ہیں اور مقامی کھیتوں میں کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ ۷ مئی کو ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے انہیں اپنے گاؤں واپس جانا تھا۔ گواس کالیکا پور بیشور پوکور گاؤں سے تقریباً ۶۰ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔
رانی نگر ۱ بلاک سے بیلڈانگا ۱ بلاک میں مال پہاڑیوں کے موجودہ ٹھکانے تک ان کی بین التعلقہ دائرہ نما مہاجرت ضلع میں مزدوروں کی ہجرت کی غیرمعمولی نوعیت کی نشاندہی کرتی ہے۔
مال پہاڑیہ آدیواسی مغربی بنگال کے کئی اضلاع میں بکھرے ہوئے ہیں۔ صرف مرشد آباد ان میں ان کے ۱۴۰۶۴ کنبے آباد ہیں۔ ’’ہماری برادری اپنے اصل وطن کا سراغ راج محل کی پہاڑیوں کے آس پاس کے علاقوں میں لگاتی ہے۔ ہمارے لوگ جھارکھنڈ [جہاں راج محل کی پہاڑیاں واقع ہیں] اور مغربی بنگال کے مختلف علاقوں میں مہاجرت کر گئے،‘‘ جھارکھنڈ کے دمکا سے تعلق رکھنے والے ایک اسکالر اور برادری کے کارکن رام جیون اہاری کہتے ہیں۔
رام جیون تصدیق کرتے ہیں کہ مغربی بنگال کے برعکس جھارکھنڈ میں مال پہاڑیوں کو خصوصی طور پر کمزور قبائلی گروپ (پی وی ٹی جی) کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ ’’مختلف ریاستوں میں ایک ہی برادری کی مختلف حیثیت اس برادری کی پسماندگی پر ہر حکومت کے علاحدہ موقف کی عکاسی کرتی ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
’’یہاں کھیتوں میں کام کرنے کے لیے ہماری ضرورت ہے،‘‘ مالتی وضاحت کرتی ہیں کہ وہ گھر سے دور ان بستیوں میں کیوں رہتی ہیں۔ ’’بوائی اور کٹائی کے دوران ہم روزانہ ۲۵۰ روپے کماتے ہیں۔‘‘ کبھی کبھی انہیں کسی فیاض کسان سے تازہ فصل کا ایک قلیل حصہ بھی مل جاتا ہے، جیسا کہ وہ بتاتی ہیں۔
مرشد آباد میں مقامی زرعی مزدوروں کی شدید کمی ہے، کیونکہ ضلع سے بڑی تعداد میں اجرتی مزدور کام کی تلاش میں باہر چلے جاتے ہیں۔ آدیواسی کسان اس کمی کو کچھ حد تک پورا کر دیتے ہیں۔ بیلڈانگا ۱ بلاک کے زرعی مزدور یومیہ ۶۰۰ روپے تک کا مطالبہ کرتے ہیں، جبکہ بین التعلقہ مہاجر آدیواسی مزدور (جو عموماً خواتین ہوتی ہیں) اس اجرت کے نصف پر کام کرتے ہیں۔
’’جب کھیتوں سے نکال کر پیاز کو گاؤں میں لایا جاتا ہے، تو ہم اگلے مرحلہ کا کام کرتے ہیں،‘‘ دبلی پتلی نوجوان پیاز کاٹنے والی ۱۹ سالہ انجلی مال وضاحت کرتی ہیں۔
وہ پیاز کو پَھڑیا (بیچولیوں) کو فروخت کرنے اور ریاست میں اور ریاست سے باہر کے دور دراز مقامات تک بھیجنے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ ’’ہم درانتی کی مدد سے پیاز کی گانٹھوں کو پتوں سے الگ کر کے ڈھیلے چھلکوں، مٹی اور جڑوں کو پھینک دیتے ہیں۔ پھر پیاز جمع کر کے بوریوں میں بھرتے ہیں،‘‘ انجلی اپنی بات جاری رکھتی ہیں۔ ۴۰ کلو گرام کی ایک بوری کے عوض انہیں ۲۰ روپے ملتے ہیں۔ ’’ہم جتنا زیادہ کام کرتے ہیں، اتنا ہی کماتے ہیں۔ لہذا، ہم ہر وقت کام کرتے ہیں۔ یہ کھیتوں میں کام کرنے سے الگ ہے،‘‘ جہاں کام کے گھنٹے پہے سے طے ہوتے ہیں۔
سدن مونڈل، سریش مونڈل، دھونو مونڈل اور راکھوہوری بسواس، سبھی کی عمر ۵۰ سال کے قریب ہے اور یہ بیشور پوکور کے کچھ ایسے کسانوں میں سے ہیں جو آدیواسیوں کو کام پر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زرعی مزدوروں کی ضرورت، ’’تھوڑے تھوڑے وقفہ پر‘‘ سال بھر رہتی ہے۔ فصل کے موسم میں ان کی مانگ عروج پر ہوتی ہے۔ کسانوں نے ہمیں بتایا کہ زیادہ تر مال پہاڑیہ اور سنتھال آدیواسی خواتین ان علاقوں کے گاؤوں میں کام کرنے آتی ہیں۔ کسان اس پر متفق نظر آتے ہیں: ’’ان کے بغیر ہم کاشتکاری جاری نہیں رکھ سکیں گے۔‘‘
یہ واقعی محنت طلب کام ہے۔ ’’ہمیں بمشکل تمام دوپہر کا کھانا پکانے کا وقت ملتا ہے…‘‘ یہ کہتے ہوئے مالتی کے ہاتھ پیاز کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ ’’بیلا ہوئے جائے…کوَنوموتے دوتو چال پھُوٹیے نی۔ کھابار-دابوریر انیک دام گو [کھانا کھانے میں بہت دیر ہو جاتی ہے۔ ہم جلدی سے کسی طرح تھوڑا سا چاول ابال لیتے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء بہت مہنگی ہیں]۔‘‘ جب دن کا کام پورا ہو جاتا ہے، تو خواتین کو گھر کے کاموں میں لگنا پڑتا ہے، جن میں غسل کرنے سے پہلے جھاڑو لگانا، صفائی کرنا اور پھر رات کے کھانے کا انتظام کرنا شامل ہیں۔
’’ہم ہمیشہ کمزوری محسوس کرتے ہیں،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ حالیہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس-۵) میں اس کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ یہ سروے اس ضلع کی تمام خواتین اور بچوں میں خون کی کمی کی بڑھتی ہوئی سطح کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہاں ۵ سال سے کم عمر کے ۴۰ فیصد بچوں کو نشوونما سے متعلق مسائل کا سامنا ہے۔
کیا انہیں اپنا راشن یہاں نہیں ملتا؟
’’نہیں، ہمارے راشن کارڈ ہمارے گاؤں کے لیے ہیں۔ ہمارے گھر والے ہمارا راشن حاصل کرتے ہیں۔ جب ہم گھر جاتے ہیں، تو اپنے ساتھ کچھ اناج واپس لاتے ہیں،‘‘ مالتی بتاتی ہیں۔ وہ عوامی تقسیم کے نظام (پی ڈی ایس) کے تحت ملنے والی اشیائے خوردنی کا حوالہ دے رہی ہیں، جس کی وہ حقدار ہیں۔ ’’ہم کوشش کرتے ہیں کہ یہاں کچھ نہ خریدیں اور جس قدر ممکن ہو سکے بچا کر اپنے گھروالوں کو واپس بھیجیں،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔
ان خواتین کو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ ون نیشن ون راشن کارڈ (او این او آر سی) جیسی ملک گیر خوراک کی سلامتی کی اسکیمیں ان جیسے اندرونی مہاجروں کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ ’’اس کے بارے میں ہمیں کبھی کسی نے نہیں بتایا۔ ہم پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ ہمیں کیسے پتہ چلے گا؟‘‘ مالتی پوچھتی ہیں۔
انجلی کہتی ہیں، ’’میں کبھی اسکول نہیں گئی۔ جب میری والدہ کی موت ہوئی، اس وقت میں صرف پانچ سال کی تھی۔ والد نے ہم تین بیٹیوں کوچھوڑ دیا۔ ہمارے پڑوسیوں نے ہماری پرورش کی۔‘‘ تینوں بہنوں نے کم عمری میں ہی زرعی مزدور کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا اور نوعمری میں ہی ان کی شادی بھی ہو گئی۔ ۱۹ سالہ انجلی تین سال کی انکیتا کی ماں ہیں۔ ’’میں نے کبھی پڑھائی نہیں کی۔ کسی نہ کسی طرح صرف نام سوئی [دستخط] کرنا سیکھ لیا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ برادری کے زیادہ تر بچوں نے اسکول جانا چھوڑ دیا ہے۔ ان کی نسل کے بہت سے لوگ ان پڑھ ہیں۔
’’میں نہیں چاہتی کہ میری بیٹی کا حال مجھ جیسا ہی ہو۔ میں چاہتی ہوں کہ اگلے سال اس کا داخلہ اسکول میں کروا دوں، ورنہ وہ کچھ نہیں سیکھے گی۔‘‘ ان کے لہجہ سے ان کی تشویش عیاں ہوتی ہے۔
کون سا اسکول؟ بِیشور پوکور پرائمری اسکول؟
’’نہیں، ہمارے بچے یہاں اسکول نہیں جاتے۔ چھوٹے بچے بھی کیھچوری اسکول [آنگن واڑی] نہیں جاتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ حق تعلیم قانون (آر ٹی ای) کے باوجود برادری کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک اور بھید بھاؤ انجلی کے الفاظ میں پوشیدہ ہیں۔ ’’زیادہ تر بچے جنہیں آپ یہاں دیکھ رہی ہیں، وہ اسکول نہیں جاتے۔ ان میں سے کچھ کے نام گواس کالیکاپور کے اسکول میں درج ہیں۔ لیکن وہ ہماری مدد کے لیے یہاں آتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی کلاسیں چھوٹ جاتی ہیں۔‘‘
سال ۲۰۲۲ کے ایک مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مال پہاڑیوں میں عموماً اور خواتین میں خصوصاً خواندگی کی شرح بالترتیب ۱۰ء۴۹ فیصد اور ۵۰ء۳۶ فیصد کے ساتھ خطرناک حد تک کم ہے۔ مغربی بنگال کے آدیواسیوں کی خواندگی کی شرح مردوں میں ۱۷ء۶۸ فیصد اور خواتین میں ۷۱ء۴۷ فیصد ہے۔
میں پانچ یا چھ سال کی لڑکیوں کو اپنی ماؤں اور دادیوں کو پیاز لانے اور بانس کی ٹوکریوں میں جمع کرنے میں مدد کرتے دیکھ رہی ہوں۔ دو نوعمر لڑکے ٹوکریوں سے پیاز لے کر پلاسٹک کی بڑی بوریوں میں بھر رہے ہیں۔ کام کی تقسیم عمر، جنس اور کام کے لیے درکار جسمانی طاقت سے مطابقت رکھتی نظر آ رہی ہے۔ ’’جوَتو ہات، توَتو بوستا، توَتو ٹاکا [زیادہ ہاتھ، زیادہ بوریاں، زیادہ پیسے]،‘‘ انجلی میری الجھن دور کرتی ہیں۔
انجلی پہلی بار لوک سبھا انتخابات میں ووٹ ڈالنے جا رہی ہیں۔ ’’میں نے گرام پنچایت انتخابات میں ووٹ ڈالے ہیں۔ لیکن بڑے الیکشن کے لیے پہلی بار ووٹ دوں گی!‘‘ وہ مسکراتی ہیں، ’’میں جاؤں گی۔ اس بستی میں ہم سب ووٹ ڈالنے اپنے گاؤں جائیں گے۔ ورنہ وہ ہمیں بھول جائیں گے…‘‘
کیا آپ اپنے بچوں کے لیے تعلیم کا مطالبہ کریں گی؟
’’کس سے مطالبہ کریں؟‘‘ انجلی چند لمحے کے توقف کے بعد اپنے سوال کا جواب دیتی ہیں۔ ’’یہاں [بیشور پوکور میں] ہمارے ووٹ نہیں ہیں۔ لہذا، یہاں کسی کو ہماری پرواہ نہیں ہے۔ اور ہم پورے سال وہاں [گواس میں] نہیں رہتے اس لیے وہاں کے معاملات میں بھی ہمارا عمل دخل کم ہی رہتا ہے۔ آمار نا اِیکھانیر، نہ اُوکھانیر [ہم نہ یہاں کے ہیں، نہ وہاں کے]۔
وہ کہتی ہیں کہ انہیں اس بات کی زیادہ جانکاری نہیں ہے کہ الیکشن کے دوران امیدواروں سے کیا امید رکھی جائے۔ ’’میں چاہتی ہوں کہ جب انکیتا پانچ سال کی ہو جائے تو اسے اسکول میں داخل کرا دوں اور میں اس کے ساتھ اپنے گاؤں میں ہی رہنا چاہتی ہوں۔ میں یہاں واپس نہیں آنا چاہتی۔ لیکن کون جانتا ہے؟‘‘ وہ آہ بھرتی ہیں۔
’’ہم کام کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے،‘‘ انجلی کے شکوک کی بازگشت ایک اور نوعمر ماں، ۱۹ سالہ مدھومیتا مال کی باتوں میں سنائی دیتی ہے۔ ’’ہمارے بچے ہماری طرح ہی رہیں گے اگر انہیں اسکولوں نہیں بھیجا گیا،‘‘ وہ تکلیف دہ یقین کے ساتھ پیشین گوئی کرتی ہیں۔ نوجوان مائیں ریاست کی طرف سے جاری کردہ آشرم ہاسٹل یا سکشا شری جیسی خصوصی اسکیموں یا مرکز کے ذریعہ چلائے جانے والے ایکلویہ ماڈل ڈے بورڈنگ اسکول (ای ایم ڈی بی ایس)، جن کا مقصد آدیواسی بچوں میں تعلیم کو فروغ دینا ہے، سے بے خبر ہیں۔
بہرام پور پارلیمانی حلقہ، جس کے تحت بیشور پوکور گاؤں آتا ہے، پر ۱۹۹۹ سے کانگریس پارٹی کا قبضہ ہے، لیکن اس نے قبائلی بچوں کی تعلیم کے لیے بہت کم کام کیا ہے۔ اب ۲۰۲۴ کے ان کے انتخابی منشور میں غریبوں، خاص طور پر درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لیے ہر بلاک میں رہائشی اسکولوں کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لیکن ان خواتین کو اس کی کچھ جانکاری نہیں ہے۔
’’اگر کوئی ہمیں ان کے بارے میں نہیں بتائے گا تو ہم کبھی نہیں جان پائیں گے،‘‘ مدھومیتا کہتی ہیں۔
’’دیدی، ہمارے پاس ووٹر آئی ڈی کارڈ، آدھار کارڈ، جاب کارڈ، سواستھیہ ساتھی بیمہ کارڈ، راشن کارڈ، تمام کارڈز موجود ہیں،‘‘ ۱۹ سالہ سونامونی مال کہتی ہیں۔ وہ ایک اور کم عمر ماں ہیں جو اپنے دو بچوں کو اسکول میں داخل کرانے کے لیے بے چین ہیں۔ ’’میں ووٹ دیتی، لیکن اس بار میرا نام ووٹر لسٹ میں نہیں ہے۔‘‘
’’ووٹ دیئے آبار کی لابھ ہوبے؟ [اگر آپ ووٹ دیں گے تو آپ کو کیا فائدہ ہوگا؟] میں برسوں سے ووٹ دیتی آ رہی ہوں،‘‘ ۷۰ سال کی عمر کی سابتری مال (تبدیل شدہ نام)، خواتین کے درمیان قہقہ لگاتے ہوئے کہتی ہیں۔
’’مجھے ایک ہزار روپے کی ضعیف العمری پنشن کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا۔ ہمارے گاؤں میں کوئی کام نہیں ہے، لیکن ہمارے ووٹ وہاں ہیں،‘‘ ستر سالہ خاتون کہتی ہیں۔ ’’تین سالوں سے، انہوں نے ہمیں ہمارے گاؤں میں ایک شو دینار کاج نہیں دیا،‘‘ سابتری شکایت کرتی ہیں۔ ان کا مطلب ہے ’۱۰۰ دن کا کام‘ جیسا کہ منریگا اسکیم کو مقامی طور پر جانا جاتا ہے۔
پردھان منتری آواس یوجنا اسکیم کا حوالہ دیتے ہوئے انجلی کہتی ہیں، ’’حکومت نے میرے کنبے کو ایک مکان دیا ہے، لیکن میں اس میں نہیں رہ سکتی کیونکہ ہمارے پاس وہاں کوئی کام نہیں ہے۔ اگر ہمارے پاس ایک شو دینار کاج ہوتا تو میں یہاں نہ آتی،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔
اس بے زمین برادری کے انتہائی محدود ذریعہ معاش کے اختیارات نے ان میں سے بہتوں کو دور دراز مقامات پر ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ساوتری ہمیں بتاتی ہیں کہ گواس کالیکاپور کے زیادہ تر نوجوان کام کی تلاش میں بنگلورو یا کیرالہ تک جاتے ہیں۔ ایک خاص عمر کے بعد مرد اپنے گاؤں کے نزدیک ہی کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن وہاں زرعی مزدوری بہت زیادہ نہیں ہے۔ بہت سے لوگ اپنے بلاک، رانی نگر ۱ میں اینٹ بھٹوں پر کام کر کے پیسے کماتے ہیں۔
’’جو خواتین اینٹ بھٹوں پر کام نہیں کرنا چاہتیں وہ چھوٹے بچوں کے ساتھ دوسرے گاؤں چلی جاتی ہیں،‘‘ سابتری بتاتی ہیں۔ ’’میں اس عمر میں بھٹے پر کام نہیں کر سکتی۔ پیٹ بھرنے کے لیے، میں یہاں آنے لگی ہوں۔ ہمارے کیمپ میں مجھ جیسی بوڑھیوں کے پاس چند بکریاں بھی ہیں۔ میں انہیں چرانے کے لیے لے جاتی ہوں،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ جب بھی ان کے گروپ میں سے کسی کے لیے ممکن ہوسکتا ہے، تو وہ ’’گواس جا کر اناج لے کر آتا ہے۔ ہم غریب ہیں، ہم کچھ بھی نہیں خرید سکتے۔‘‘
پیاز کا سیزن ختم ہونے کے بعد کیا ہوتا ہے؟ کیا وہ گواس واپس جائیں گے؟
انجلی کہتی ہیں، ’’پیاز کو کاٹ کر پیک کرنے کے بعد تل، جوٹ اور تھوڑا کھورار دھان [خشک موسم میں کاشت کیا جانے والا دھان] کی بوائی کا وقت ہوتا ہے۔‘‘ درحقیقت سال کے اس وقت سے جون کے وسط تک زرعی مزدوروں کی مانگ میں اضافہ کے ساتھ ’’زیادہ سے زیادہ آدیواسی بشمول بچے فوری نقد رقم حاصل کرنے کے لیے اپنی برادری کی ان بستیوں میں چلے آتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
دو فصلوں کے وقفہ کے دوران زرعی مزدوری میں مندی کا دور ہوتا ہے جس میں کام کی کمی ہوتی ہے، نوجوان کھیت مزدور وضاحت کرتی ہیں۔ لیکن گھومنتو مہاجر مزدوروں کے برعکس وہ اپنے آبائی گاؤں واپس نہیں لوٹتے۔ ’’ہمیں جب بھی موقع ملتا ہے ہم جوگاریر کاج کرتے ہیں، ٹھیکے کاج کرتے ہیں [معماروں کے مددگار کے طور پر ٹھیکے پر کام کرتے ہیں]۔ ہم نے یہ جھونپڑیاں بنائی ہیں اور یہیں رہ رہے ہیں۔ ہر جھونپڑی کے لیے ہم زمین مالک کو ۲۵۰ روپے ماہانہ ادا کرتے ہیں،‘‘ انجلی کہتی ہیں۔
"یہاں کبھی کوئی ہمیں پوچھنے نہیں آتا۔ کوئی لیڈر نہیں، کوئی بھی نہیں… آپ جا کر خود دیکھ لیں،‘‘ ساوتری کہتی ہیں۔
میں جھونپڑی کی طرف جانے کے لیے ایک تنگ کچی سڑک سے گزرتی ہوں۔ ۱۴ سالہ سونالی میری گائیڈ ہیں۔ وہ ۲۰ لیٹر والی بالٹی میں پانی بھر کر اپنی جھونپڑی میں واپس جا رہی ہیں۔ ’’میں تالاب میں نہانے گئی تھی اور اس بالٹی کو بھر لیا ہے۔ ہماری بستی میں پانی نہیں ہے۔ تالاب گندا ہے۔ لیکن ہم کر ہی کیا سکتے ہیں؟‘‘ وہ جس آبی ذخیرے کا حوالہ دے رہی ہیں وہ بستی سے تقریباً ۲۰۰ میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں مانسون کے موسم میں جوٹ کے کٹے ہوئے تنوں سے ریشوں کو الگ کرنے کے لیے اسے سڑایا جاتا ہے۔ بیکٹیریا اور کیمیکلز سے متاثر یہ پانی انسانوں کے لیے نقصاندہ ہے۔
’’یہ ہمارا گھر ہے۔ میں یہاں بابا کے ساتھ رہتی ہوں،‘‘ وہ خشک کپڑے تبدیل کرنے کے لیے جھونپڑی میں داخل ہوتے ہوئے کہتی ہیں۔ میں باہر انتظار کرتی ہوں۔ بانس کی ٹہنیوں سے جوٹ کے تنوں کو ڈھیلے ڈھالے طریقے سے باندھ کر بنائے گئے کمرے کی اندرونی دیوار کو مٹی اور گوبر سے لیپا گیا ہے، جو بمشکل کسی طرح کی رازداری فراہم کرتی ہے۔ بانس کے ٹکڑوں اور ترپال کی چادروں سے ڈھکی ہوئی چھت بانس کی ایک شہتیر کے سہارے کھڑی ہے۔
’’آپ اندر آنا چاہتی ہیں؟‘‘ سونالی نے اپنے بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے شرماتے ہوئے پوچھا۔ ڈھلتے ہوئے دن کی روشنی میں دو کھمبوں کے درمیان ۱۰ جمع ۱۰ فٹ کی جھونپڑی کے اندر کا حصہ خالی نظر آتا ہے۔ ’’ماں میرے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ گواس میں رہتی ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ان کی والدہ رانی نگر ۱ بلاک کے اینٹ بھٹوں میں سے ایک میں کام کرتی ہیں۔
’’مجھے اپنا گھر بہت یاد آتا ہے۔ میری خالہ بھی اپنی بیٹیوں کے ساتھ یہاں آئی ہیں۔ میں رات کو ان کے ساتھ ہی سوتی ہوں،‘‘ سونالی کہتی ہیں، جنہیں کھیتوں میں کام کرنے کے لیے ۸ویں کے بعد اسکول چھوڑنا پڑا تھا۔
جب سونالی تالاب میں دھلے کپڑوں کو سوکھنے کے لیے ٹانگنے جاتی ہیں، تو میں جھونپڑی کے اندر نظر دوڑاتی ہوں۔ کونے میں ایک عارضی بینچ پر چند برتن پڑے ہیں، چاول اور دیگر ضروری اشیاء کو چوہوں سے بچانے کے لیے سخت ڈھکن والی پلاسٹک کی بالٹی میں رکھا گیا ہے۔ مختلف سائز کے پلاسٹک کے پانی کے چند ڈبے اور کچے فرش پر بنا ہوا مٹی کا ایک چولہا کھانا پکانے کی جگہ کی نشاندہی کرتا ہے۔
کچھ کپڑے ادھر ادھر لٹکے ہوئے ہیں، دوسرے کونے میں دیوار کے ساتھ ایک آئینہ اور کنگھی اٹکائی گئی ہے، لپٹی ہوئی پلاسٹک کی چٹائی، ایک مچھر دانی اور ایک پرانا کمبل – یہ تمام چیزیں ایک دیوار سے دوسری دیوار پر ترچھے رکھے بانس کے سہارے رکھی ہوئی ہیں۔ یقیناً سخت محنت یہاں کامیابی کی کلید نہیں ہے۔ ایک چیز جس کی یہاں فراونی ہے اور جو ایک باپ اور اس کی ایک نوعمر بیٹی کی محنت کی گواہی دے رہی ہے، وہ ہے فرش پر پڑے اور چھتوں سے لٹکتے پیاز۔
’’آئیے میں آپ کو اپنا ٹائلٹ (بیت الخلاء) دکھاتی ہوں،‘‘ آگے بڑھتے ہوتے ہوئے سونالی کہتی ہیں۔ میں ان کے پیچھے چلتی ہوں، اور چند جھونپڑیوں کو عبور کرنے کے بعد، بستی کے ایک کونے میں ایک ۳۲ فٹ کے تنگ گلیارے تک پہنچ جاتی ہوں۔ ایک کھلی ہوئی ۴ جمع ۴ فٹ کی جگہ جو اناج رکھنے والی سلی ہوئی پلاسٹک کی بوریوں سے گھری ہوئی ہے، جو ان کے ’ٹائلٹ‘ کی دیوار بناتی ہے۔ ’’یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم پیشاب کرتے ہیں اور یہاں سے تھوڑی دور کھلی جگہوں کو رفع حاجت کے لیے استعمال کرتے ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ جیسے ہی میں قدم آگے بڑھانے کی کوشش کرتی ہوں، وہ مجھے متنبہ کرتی ہیں کہ مزید آگے نہ بڑھوں کیونکہ ایسا نہ ہو کہ میرا پاؤں پاخانہ پر پڑ جائے۔
بستی میں صفائی کا فقدان مجھے مشن نرمل بنگلہ کے رنگین تصویری پیغامات کی یاد دلاتا ہے، جسے میں نے اس مال پہاڑیہ بستی میں آتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ پوسٹر فخریہ انداز میں ریاستی حکومت کے صفائی کے منصوبے کے ساتھ ساتھ ماڈّا کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک گرام پنچایت ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔
’’حیض کے دوران بہت مشکل پیش آتی ہے۔ ہمیں اکثر انفیکشن ہو جاتے ہیں۔ ہم پانی کے بغیر کیسے کام چلا سکتے ہیں؟ اور تالاب کا پانی گندگی اور کیچڑ سے بھرا ہوا ہے،‘‘ سونالی شرم اور ہچکچاہٹ کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہتی ہیں۔
آپ پینے کا پانی کہاں سے لاتے ہیں؟
’’ہم ایک [نجی] پانی سپلائر سے پانی خریدتے ہیں۔ وہ ۲۰ لیٹر کے جار کو دوبارہ بھرنے کے لیے ۱۰ روپے وصول کرتا ہے۔ وہ شام کو آتا ہے اور مین روڈ پر انتظار کرتا ہے۔ ہمیں ان بڑے جاروں کو اپنی جھونپڑیوں تک لے کر آنا پڑتا ہے۔‘‘
’’کیا آپ میری دوست سے ملیں گی؟‘‘ انہوں نے اچانک خوشی سے پوچھا۔ ’’یہ پائل ہے۔ یہ مجھ سے بڑی ہے۔ لیکن ہم دوست ہیں۔‘‘ سونالی اپنی ۱۸ سالہ نوبیاہتا دوست سے ملواتی ہیں، جو اپنی جھونپڑی کے کھانا پکانے والے حصہ میں زمین پر بیٹھی رات کا کھانا بنا رہی تھیں۔ پائل مال کے شوہر بنگلور میں تعمیراتی مقامات پر بطور مہاجر مزدور کام کرتے ہیں۔
’’میں آتی جاتی رہتی ہوں۔ میری ساس یہیں رہتی ہیں،‘‘ پائل بتاتی ہیں۔ ’’گواس میں تنہائی محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے میں یہاں آ کر ان کے ساتھ رہتی ہوں۔ میرے شوہر کو باہر گئے کافی عرصہ گزر چکا ہے۔ معلوم نہیں وہ کب واپس آئیں گے۔ شاید انتخابات کے لیے واپس آئیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ سونالی نے انکشاف کیا کہ پائل پانچ ماہ کی حاملہ ہیں۔ پائل شرما جاتی ہیں۔
کیا آپ کو یہاں دوائیں اور سپلیمنٹس ملتے ہیں؟
’’ہاں، مجھے ایک آشا دیدی سے آئرن کی گولیاں ملتی ہیں،‘‘ وہ جواب دیتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’میری ساس مجھے [آئی سی ڈی ایس] سنٹر لے گئی تھیں۔ انہوں نے مجھے کچھ دوائیں دیں۔ میرے پاؤں اکثر سوج جاتے ہیں اور ان میں بہت درد رہتا ہے۔ یہاں چیک اپ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ پیاز کا کام ختم ہونے کے بعد میں واپس گواس چلی جاؤں گی۔‘‘
کسی ہنگامی طبی صورت حال کے لیے خواتین یہاں سے ۳ کلومیٹر کی دوری پر واقع بیلڈانگا قصبہ کا رخ کرتی ہیں۔ عام ادویات اور ابتدائی طبی امداد کے لیے انہیں بستی سے تقریباً ایک کلومیٹر دور مکرم پور بازار جانا پڑتا ہے۔ پائل اور سونالی دونوں کے گھروالوں کے پاس سواستھیہ ساتھی کارڈز ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہیں ’’ہنگامی حالات میں علاج کروانے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
جب ہم بات کر رہے ہوتے ہیں، تو بستی کے بچے ہمارے ارد گرد بھاگتے رہتے ہیں۔ انکیتا اور ملن، دونوں ۳ سال کے ہیں، اور دیب راج ۶ سال کا ہے۔ وہ ہمیں اپنے کھلونے دکھاتے ہیں – جدت کی جادوئی طاقت کے ساتھ ان چھوٹے جادوگروں کے ہاتھ سے تیار کردہ جگاڑ کے کھلونے۔ ’’ہمارے پاس یہاں ٹی وی نہیں ہے۔ میں کبھی کبھی اپنے بابا کے موبائل پر گیم کھیلتا ہوں۔ مجھے کارٹون یاد آتے ہیں،‘‘ نیلے اور سفید ارجنٹینا کی فٹ بال ٹی شرٹ میں ملبوس دیب راج نے اپنی شکایت درج کرائی۔
بستی کے تمام بچے سوء تغذیہ کے شکار نظر آتے ہیں۔ ’’وہ ہمیشہ بخار اور پیٹ کے مسائل میں مبتلا رہتے ہیں،‘‘ پائل کہتی ہیں۔ ’’اور مچھر ایک الگ مسئلہ ہیں،‘‘ سونالی اضافہ کرتی ہیں۔ ’’ایک بار جب ہم مچھردانی میں داخل ہو جاتے ہیں، تو پھر باہر نہیں نکلتے خواہ ہمارے سروں پر قیامت ٹوٹ پڑے۔‘‘ دونوں دوست ہنس پڑتی ہیں۔ مدھومیتا ان کی ہنسی میں شامل ہو جاتی ہیں۔
میں ایک بار پھر ان سے انتخابات کے بارے میں پوچھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ ’’ہم جائیں گے. لیکن آپ کو معلوم ہے، یہاں کوئی ہم سے ملنے نہیں آتا۔ ہم اس لیے جاتے ہیں کیونکہ ہمارے بزرگ سمجھتے ہیں کہ ووٹنگ اہم ہے،‘‘ مدھومیتا کھل کر بولتی ہیں۔ یہ ووٹ ڈالنے کا ان کا پہلا موقع ہے۔ پائل کا نام ابھی تک ووٹر لسٹ میں شامل نہیں ہوا ہے، کیونکہ وہ ابھی ابھی ۱۸ سال کی ہوئی ہیں۔ ’’چار سال بعد میں ان جیسی ہو جاؤں گی،‘‘ سونالی نے مزید کہا۔ ’’پھر میں بھی ووٹ دوں گی۔ لیکن ان کے برعکس میں اتنی جلدی شادی نہیں کروں گی۔‘‘ قہقہوں کا ایک اور دور شروع ہو جاتا ہے۔
جیسے ہی میں بستی سے نکلنے لگتی ہوں، ان جوان عورتوں کی ہنسی، بچوں کی چنچل چیخیں مدھم پڑ جاتی ہیں، اور پیاز کاٹنے والی عورتوں کی تیز آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ انہوں نے دن بھر کا کام مکمل کر لیا ہے۔
’’کیا آپ کی بستی میں کوئی ہے جو آپ کی مال پہاڑیہ زبان بولتا ہو؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔
’’تھوڑی ہڑیا [خمیر شدہ چاولوں سے بنی روایتی شراب] اور بھوجیا لے آئیے۔ میں آپ کو پہاڑیہ میں ایک گیت سناوں گی،‘‘ بھانو مال چھیڑتے ہوئے کہتی ہیں۔ ۶۵ سالہ بیوہ زرعی مزدور اپنی زبان میں چند سطریں سناتی ہیں اور پھر ذرا اپنائیت کے ساتھ اضافہ کرتی ہیں، ’’اگر آپ ہماری زبان سننا چاہتی ہیں تو آپ گواس آ جائیں۔‘‘
’’کیا آپ بھی پہاڑیہ بولتی ہو؟‘‘ میں انجلی کی طرف متوجہ ہوتی ہوں، جو اپنی زبان کے بارے میں یہ غیر معمولی سوال سن کر قدرے حیرت زدہ ہو جاتی ہیں۔ ’’ہماری زبان؟ نہیں، ہماری بھاشا میں صرف گواس کے بوڑھے ہی بولتے ہیں۔ یہاں لوگ ہم پر ہنستے ہیں۔ ہم اپنی زبان بھول چکے ہیں۔ ہم صرف بنگلہ بولتے ہیں۔‘‘
انجلی بستی کی طرف چلتے ہوئے باقی خواتین میں شامل ہوکر کہتی ہیں، ’’گواس میں ہمارا اپنا گھر ہے اور سب کچھ ہے، اور یہاں ہمارے پاس کام ہے۔ آگے بھات… ووٹ، بھاسا سب تار پورے [پہلے کھانا، پھر ووٹ، زبان اور باقی سب کچھ]۔‘‘
مترجم: شفیق عالم