پاروتی کو آخری بار منریگا کے تحت پچھلے سال مئی کے مہینہ میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ اور وہ کام بھی صرف پانچ دنوں تک چلا تھا۔
اُس دوران پاروتی (وہ صرف اپنے پہلے نام کا استعمال کرتی ہیں) نے اپنے گاؤں گور مدھوکر شاہ پور میں ایک سڑک کو برابر کرنے کا کام کیا تھا۔ تقریباً ۴۵ سال کی پاروتی، جاٹو برادری (درج فہرست ذات) سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کو حکومت کی طرف سے منریگا کے تحت سال بھر میں ۱۰۰ دنوں کا مقررہ کام بھی نہیں ملتا۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم اپنا آدھا پیٹ بھر کر زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
سال ۲۰۲۰ میں حکومت نے انہیں دوبارہ مایوس کیا، جب ان کی پردھان منتری آواس یوجنا کی درخواست ردّ کر دی گئی۔ لیکن گھر بنانے کے لیے وہ مزید انتظار نہیں کر سکتی تھیں۔ اس لیے، تھک ہار کر انہوں نے اور ان کے شوہر چھوٹے لال نے دو کمرے کا پختہ مکان بنانے کے لیے، رشتہ داروں سے ۹۰ ہزار روپے قرض لیے۔
پاروتی اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’اب اگر کوئی ووٹ مانگنے آتا ہے، تو میں ان سے پوچھتی ہوں کہ میرا نام آواس یوجنا کے مستفیدین کی فہرست میں کیوں نہیں ہے، جب کہ ووٹر لسٹ میں موجود ہے؟‘‘ پاروتی کے شوہر بھی پہلے منریگا میں ہی کام کرتے تھے، لیکن پانچ سال پہلے لقوہ (فالج) مارنے کے بعد سے وہ دوبارہ کام پر نہیں جا سکے۔ اب وہ کبھی کبھی شہر کی ایک مزدور منڈی میں جاتے ہیں، جہاں کام ملنے پر ان کی ۵۰۰-۴۰۰ روپے کی کمائی ہو جاتی ہے۔
منریگا کے تحت گاؤں دیہات کے غیر ہنرمند مزدوروں کو ۱۰۰ دنوں کے روزگار کی گارنٹی ملتی ہے۔ لیکن وارانسی کے گاؤوں میں لوگوں کی شکایت ہے کہ پچھلے دو بار کی پردھانی، یعنی دو بار کے سرپنچ کے دفتر یا یوں کہیں کہ پچھلے ۱۰ سال سے انہیں سالانہ صرف ۲۵-۲۰ دنوں کا کام ہی ملتا ہے۔
پاروتی اب اُس قرض کے بوجھ سے دبی ہیں، جسے لینے کی انہیں ضرورت نہیں تھی۔ حکومت سے کوئی مدد نہ ملنے کے سبب انہیں ٹھاکروں کے کھیتوں میں مزدوری کرنی پڑتی ہے۔ کٹائی اور بوائی کے موسم میں تقریباً ۱۵ دنوں کے کام کے لیے انہیں مزدوری کے طور پر ۱۰ کلو اناج ملتا ہے۔
راجا تالاب تحصیل کے گور مدھوکر شاہ پور گاؤں میں، بنیادی طور پر درج فہرست ذات اور دیگر پس ماندہ ذاتوں سے تعلق رکھنے والی برادریوں کے تقریباً ۱۲۰۰ گھر ہیں۔ یہ لوگ اپنی فیملی کی کفالت کرنے کے لیے چھوٹی سی زمین پر کھیتی کرتے ہیں، اور اس کے علاوہ مزدوری کرنا ان کا بنیادی پیشہ ہے۔
گور مدھوکر شاہ پور گاؤں، وارانسی شہر سے تقریباً ۲۰ کلومیٹر دور ہے اور وارانسی لوک سبھا حلقہ کے تحت آتا ہے۔ یہاں سے وزیر اعظم نریندر مودی لوک سبھا میں اپنی تیسری مدت کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے یہاں سے ۲۰۱۴ اور ۲۰۱۹ میں جیت حاصل کی تھی۔
یہاں الیکشن یکم جون کو ہے اور لوگوں کی سب سے زیادہ نظریں وارانسی کی اس سیٹ پر جمی رہتی ہیں۔ ’ہر دل میں مودی‘ لکھے ہوئے زعفرانی پوسٹر ہر چوک چوراہے پر لگے ہوئے ہیں۔ ہر رکشے اور اسٹریٹ لیمپ پر پوسٹر چپکائے گئے ہیں۔ مودی جیسے بڑے امیدوار کی تقریر اور نو تعمیر رام مندر میں ان کے رول کی مدح سرائی کرنے والی باتیں آٹو پرلگے اسپیکروں پر جگہ جگہ سنائی دے جاتی ہیں۔
لیکن یہاں گور مدھوکر شاہ پور میں کوئی تشہیری مہم یا پوسٹر نظر نہیں آتا ہے۔ اس بستی میں ایک ہنومان مندر ہے، جس کے ٹھیک سامنے آیودھیا میں رام مندر کا افتتاح کرنے والی مودی کی ایک تصویر لگائی گئی ہے۔
حالانکہ، پاروتی کو بی ایس پی کا نیلا پرچم پسند ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حکومت میں اپنی پانچ رکنی فیملی کی کفالت کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ آخر ریاست نے غریب لوگوں کی مدد کے لیے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا۔ ’’سرکار نے تو سب کا آدھار کارڈ جاری کیا ہے اور ان کے پاس تو ہر کسی کے بارے میں معلومات ہے، تو پھر وہ کیوں پتہ نہیں لگا سکتے ہیں کہ کون غریب ہے اور کون نہیں؟‘‘
رینو دیوی منریگا مزدور یونین کی رابطہ کار ہیں اور کہتی ہیں کہ منریگا کا کام گھٹتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی کے پوسٹر وارانسی پارلیمانی حلقہ کے ہر گاؤں اور شہر میں لگے ہوئے ہیں، جہاں سے وہ تیسری بار الیکشن لڑ رہے ہیں۔
دیہی روزگار گارنٹی اسکیم کے تحت کام میں آئی کمی کی تصدیق منریگا مزدور یونین کی رینو دیوی کرتی ہیں۔ انہوں نے پاری کو بتایا، ’’سال ۲۰۱۹ سے منریگا اسکیم میں کچھ خاص کام نہیں آ رہا ہے۔ پہلے جب ہم گاؤں والوں کی طرف سے کام کے لیے درخواست لکھتے تھے، تو کئی ہفتے کا کام مل جاتا تھا، لیکن اب سال میں مشکل سے ایک ہفتہ کا کام مل پاتا ہے۔‘‘
اگر صرف سال ۲۰۲۱ کی بات کی جائے، تو منریگا مزدور یونین کے مقامی رضاکاروں نے وارانسی میں بلاک سطح کے اہلکاروں کو ۲۴ خطوط لکھ کر الگ الگ گاؤوں میں کام تقسیم کرنے کی درخواست کی۔
اور اسی سال کے جون مہینہ میں جیرا دیوی کو آخری بار منریگا کا کام ملا تھا۔
جیرا دیوی (۴۵)، گور مدھوکر شاہ پور گاؤں کی اسی بستی میں رہتی ہیں۔ وہ ایک دہاڑی مزدور ہیں اور پردھان منتری غریب کلیان یوجنا سے ملا ایک جھولا (کپڑے کا تھیلا) نکالتی ہیں، جس پر وزیر اعظم مودی کی تصویر ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس میں اسکیم سے متعلق ان کے ضروری کاغذات رکھے ہیں، جس نے انہیں نظر انداز کر رکھا ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’جہاں تک مودی کی بات ہے، تو مجھے سب سے پہلے وہ ہیلی کاپٹر ڈھونڈنا ہوگا، جس میں وہ آتے جاتے ہیں۔‘‘
جیرا کا کہنا ہے کہ پردھان منتری آواس یوجنا گرامین کے تحت ملنے والے گھر کے عوض، مقامی پردھان نے ان سے ۱۰ ہزار روپے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس بابت انہوں نے وارانسی کے ڈسٹرکٹ کلکٹر کو ایک شکایتی خط بھی لکھا، لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ وہ اپنے گھر کے اندر ایک چھپّر کی چھت کے نیچے بیٹھی ہوئی ہیں۔ ہمیں اپنا گھر دکھاتے ہوئے کہتی ہیں، ’’دیکھو، میرے گھر کی دیواریں بوریوں اور پوسٹروں سے بنی ہوئی ہیں!‘‘
اس دہاڑی مزدور کو منریگا کے کام میں کمی کافی نقصان پہنچا رہی ہے۔ ان کی فیملی کے پاس ایک ایکڑ کے دسویں حصے سے بھی کم زمین ہے۔ ان کا بیٹا شیوم اور ان کے شوہر رام لال مزدوری کے عوض ملنے والی اپنی کمائی پر منحصر ہیں، لیکن اب جیرا کی عمر چالیس پار کر چکی ہے، اس لیے انہیں کام کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میرے سر اور بدن میں بہت تیز درد رہتا ہے، اسی وجہ سے میں اب مزید مٹی اٹھانے کا کام نہیں کر سکتی [کئی بار منریگا میں مٹی اٹھانے کا کام بھی ہوتا ہے]۔‘‘
اس فیملی کا تعلق بِند/ملاح برادری سے ہے، جو اتر پردیش میں دیگر پس ماندہ طبقہ (او بی سی) کے تحت درج ہے۔ ان کے شوہر اب کام نہیں کرتے ہیں اور ان کا بیٹا دیکھ نہیں پاتا ہے۔ بیٹے کو پہلے پنشن ملتی تھی، لیکن پچھلے سال سے پنشن ملنی بھی بند ہو گئی ہے۔
اُس دن زرعی مزدوری کے عوض ملے لہسن کے ڈنٹھل کا ایک گچھا پکڑ کر جیرا دیوی نے ہمارے رپورٹر اور آس پاس کے لوگوں سے کہا، ’’میں اس خاتون کو ووٹ دوں گی، جو ہم جیسے لوگوں کی مدد کرتی ہیں – اور وہ ہیں مایاوتی!‘‘
ان کا یہ اعلان اس انتخابی حلقہ میں ایک بڑا قدم ہے۔
لیکن، جیرا اور پاروتی اکیلی نہیں ہیں۔ اسی گاؤں کے ایک دوسرے دہاڑی مزدور اشوک کہتے ہیں، ’’میں نے ابھی تک یہ طے نہیں کیا ہے کہ کسے ووٹ دینا ہے۔ لیکن، ہم مودی جی کے کام سے خوش نہیں ہیں۔‘‘
ان کی بیوی سنیتا کو حال ہی میں منریگا کے تحت تین دن اور پچھلے سال (۲۰۲۳) پانچ دن کا کام ملا تھا۔ دونوں میاں بیوی اپنے تین بچوں – ۱۴ سالہ سنجنا، ۱۲ سالہ رنجنا اور ۱۰ سالہ راجن – کے ساتھ گور مدھوکر شاہ پور میں رہتے ہیں۔
اشوک (وہ صرف پہلا نام استعمال کرتے ہیں) کسی زمانے میں قیمتی بنارسی ساڑیوں کے بُنکر ہوا کرتے تھے۔ لیکن ان کی کمائی فیملی کے بڑھتے ممبران کے لیے کافی نہیں تھی۔ بُنائی چھوڑنے کے بعد وہ وارانسی شہر میں کنسٹرکشن سائٹس اور مزدور منڈی میں کام کرتے ہیں۔ انہیں مہینہ میں ۲۵-۲۰ دنوں کا کام مل جاتا ہے۔ انہیں ایک دن کی مزدوری کے عوض ۵۰۰ روپے ملتے ہیں۔ اپنی ہریجن بستی سے باہر نکلتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’ہم کسی طرح اپنا پیٹ پال رہے ہیں۔‘‘ وہ مٹی کے برتنوں اور لال جھنڈوں کو پار کرتے ہوئے مزدور منڈی کی طرف جا رہے ہیں۔
وارانسی ضلع کے رکھونا گاؤں میں لوگوں کے گھر کے باہر نیلے رنگ کے اسٹیکر چپکے ہوئے ہیں، جس پر لکھا ہے: ’’میں ہوں مودی کا پریوار۔‘‘ سنتھارا دیوی کے گھر میں چارپائی پر مودی اور اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کا ایک پوسٹر پڑا ہوا ہے، جس میں ’’ڈبل انجن کی سرکار‘‘ کے طور پر ان کی حصولیابیاں بیان کی گئی ہیں۔
وہ مٹی کے فرش پر بیٹھ کر رودراکش کی ایک مالا بنا رہی ہیں۔ ان کے معمولی سے گھر میں چاروں طرف مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔ چھپّر والی چھت چھ رکنی فیملی کو سخت گرمی کی دھوپ سے بچا رہی ہے۔ وہ ہمارے رپورٹر سے کہتی ہیں، ’’ہمارے پاس نہ تو کھیتی کے لیے زمین ہے اور نہ ہی کوئی باغ۔ اگر ہم کام نہیں کریں گے، تو اپنا پیٹ کیسے بھریں گے؟‘‘
وہ منریگا مزدور کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔ انہیں پچھلے سال اگست (۲۰۲۳) میں ایک تالاب کی کھدائی کے دوران آٹھ دن کا کام ملا تھا۔ منریگا سے مناسب کمائی نہ ہونے کی وجہ سے، اپنی فیملی کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے سنتھارا جیسی عورتوں کو کم اجرت والے دوسرے کام کرنے پڑ رہے ہیں۔ رودراکش کی ملا بنا کر وہ کچھ مہینوں میں دو سے پانچ ہزار روپے تک کی کمائی کر لیتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ہمیں فی درجن رودراکش کی مالا پر تقریباً ۲۵ روپے ملتے ہیں۔ تھوک فروش مالا بنانے کے لیے ہمیں ایک بار میں ۲۰ سے ۲۵ کلو رودراکش کے دانے دیتا ہے۔‘‘
سنتھارا کی پڑوسن، ۵۰ سالہ مُنکا دیوی بھی پچھلے سال سے منریگا کے کام کا انتظار کر رہی ہیں۔ وہ انتظار کر رہی ہیں کہ کب روزگار معاون کام کا اعلان کرے گا۔ مُنکا کے شوہر کے نام پر ڈیڑھ بیگھہ زمین ہے اور اس زمین پر وہ سبزیاں اُگا کر بیچتی ہیں، اور دوسرے کے کھیتوں میں کام بھی کرتی ہیں۔ فیملی کی بنیادی ضروریات کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’اس سے میری فیملی کو کم از کم نمک تیل تو مل جاتا ہے۔‘‘
کھیولی گاؤں میں شکنتلا نے اس بار ووٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’چونکہ سرکار نے ہمیں کوئی روزگار نہیں دیا، اس لیے میں کسی کو ووٹ نہیں دوں گی۔‘‘ شکنتلا اس گاؤں کی اُن ۱۲ خواتین میں سے ہیں جن کے نام لگاتار کام کرنے والے روزگار کارڈ ہولڈروں کی فہرست سے ہٹا دیے گئے ہیں۔ یہ غلطی فرضی منریگا مزدوروں کا نام ہٹاتے وقت ہوئی تھی۔
کھیولی کی ایک دوسری خاتون مزدور شیلا کہتی ہیں، ’’مودی نے ہم سے منریگا کا کام چھین لیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں کم از کم دو مہینے کا مسلسل کام اور ۸۰۰ روپے یومیہ مزدوری ملے۔‘‘ شکنتلا کہتی ہیں، ’’مفت راشن کی اسکیم کے تحت گیہوں اور چاول کے علاوہ دالیں، نمک اور تیل بھی دیا جانا چاہیے۔‘‘
نندی (مقدس بیل) کی پتھر کی مورتیاں، ان کے آنگن کی خوبصورتی بڑھا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’انہیں چمکانے میں میرے ہاتھ زخمی ہو جاتے ہیں، لیکن اس کے لیے ہمیں ہر مورتی پر ۱۵۰ سے ۲۰۰ روپے ملتے ہیں۔‘‘ یہ کام کرتے کرتے ان کی انگلیاں سوج گئی ہیں، لیکن ان کے جیسی عورتوں کے لیے، جنہیں منریگا کے تحت مسلسل کام نہیں مل رہا ہے، اور متبادل ہی کتنے بچے ہیں۔
مترجم: قمر صدیقی