ستر سالہ بلدیو کور ان باقیات میں سے بڑے احتیاط سے اپنا راستہ تلاش کر رہی تھیں، جو کبھی ان کا گھر تھا، اور جسے ان کے کھیت میں بنایا گیا تھا۔ کمروں کی جو دیواریں ابھی تک کھڑی تھیں ان میں بڑی بڑی شگافیں پڑچکی تھیں۔
’’وہ رات جب بارش کی بوندیں اور اولے چھت سے ٹکرا رہے تھے، وہ رات ہم نے جاگ کر گزاری تھی۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے،‘‘ سوتی شلوار قمیض میں ملبوس، سر کو دوپٹہ سے ڈھانپے سفید بالوں والی بلدیو کہتی ہیں۔ ’’پھر صبح کو، جب چھت سے پانی ٹپکنے لگا تو ہم سب باہر کی طرف بھاگے۔‘‘
بلدیو کی چھوٹی بہو، ۲۶ سالہ امن دیپ کور کہتی ہیں کہ جیسے ہی سورج نکلا گھر ڈھہنے لگا۔ ’’ سارے پاسے کار ہی پاٹ گیا [ہمارے ارد گرد کے تمام گھر ڈھے گئے]،‘‘ بلدیو کے بڑے بیٹے ۳۵ سالہ بلجندر سنگھ نے بتایا۔
تین بچوں سمیت سات افراد پر مشتمل بلدیو کی فیملی نے اس سے قبل کبھی بھی ایسی تباہی نہیں دیکھی تھی۔ مارچ ۲۰۲۳ کے آخر میں ہونے والی بے وقت بارش اور ژالہ باری نے شری مکتسر صاحب ضلع کے گِدّڑباہا بلاک میں واقع ان کے گاؤں بلائی آنا میں فصلوں اور گھروں کو نقصان پہنچایا تھا۔ جنوب مغربی پنجاب کا یہ علاقہ جنوب میں راجستھان اور مشرق میں ہریانہ کی سرحد سے متصل ہے۔
تین دن تک جاری رہنے والی بارش اور ژالہ باری نے بلجندر کو پریشان کر دیا تھا۔ فیملی کی ۵ ایکڑ زمین کے علاوہ انہوں نے ۱۰ ایکڑ زمیں لیز پر لی تھی، جس کے لیے انہوں نے ایک آڑھتی (زرعی پیداوار کے ایجنٹ) سے ۵ء۶ لاکھ روپے قرض لیے تھے۔ گندم کی فصل کے بغیر نہ تو گھر والوں کا گزارہ ممکن تھا اور نہ ہی قرض کی ادائیگی کا کوئی دوسرا ذریعہ تھا۔
’’وہ فصل جو تیار ہونا شروع ہو چکی تھی سب سے پہلے ژالہ باری سے برباد ہوئی۔ پھر جب بارش ہوئی تو سارا کھیت کئی دنوں تک پانی میں ڈوبا رہا۔ پانی نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، لہٰذا فصل اس میں سڑتی رہی،‘‘ بلجندر بتاتے ہیں۔ ’’اب بھی ۱۵ ایکڑ زمین پر فصل گری پڑی ہے،‘‘ یہ باتیں بلجندر نے اپریل کے وسط میں کہی تھیں۔
اس علاقے میں گندم ایک ربیع فصل ہے جس کی بوائی اکتوبر اور دسمبر کے درمیان کی جاتی ہے۔ فروری اور مارچ کے مہینے اس کے دانوں کی نشوونما کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ اس دوران دانے اسٹارچ اور پروٹین جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
ہندوستانی محکمہ موسمیات، چنڈی گڑھ، کے مطابق ۲۴ اور ۳۰ مارچ کے درمیان پنجاب میں ۸ء۳۳ ملی میٹر بارش ہوئی تھی۔ جبکہ عام طور پر مارچ میں یہاں ۲ء۲۲ ملی میٹر ماہانہ بارش ہوتی ہے۔ پنجاب اگریکلچر یونیورسٹی، لدھیانہ کے ذریعے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق صرف ۲۴ مارچ کو تقریباً ۳۰ ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔
حالانکہ بلجندر کو معلوم تھا کہ بے موسم بارش اور ژالہ باری ان کی فصل کے لیے تباہ کن ہیں، لیکن ان کے اہل خانہ کے ذریعہ کئی برسوں میں تعمیر شدہ مکان کو پہنچنے والا نقصان ان کے لیے ایک اضافی سانحہ تھا۔
’’میں جب بھی باہر سے آتی ہوں، تو محض اپنے گھر کو دیکھ کر میں فکرمند ہو جاتی ہوں۔ جی گبروندا ہے [میرا دل گھبراتا ہے]،‘‘ بلدیو کور کہتی ہیں۔
اس فیملی نے اپنے زرعی نقصان کا تخمینہ ۶ لاکھ روپے سے زیادہ لگایا تھا۔ پہلے جہاں ایک ایکڑ سے ۶۰ من (ایک من ۳۷ کلو کے برابر ہوتا ہے) گندم کی پیداوار ہوتی تھی، وہ اب محض ۲۰ من فی ایکڑ رہ گئی تھی۔ گھر کی تعمیر نو ایک اضافی خرچ تھا، اور موسم گرما کے شروع ہونے کی وجہ سے اس تعمیر کی فوری ضرورت تھی۔
’’ کُدرت کرکے [یہ سب قدرت کی وجہ سے ہے]،‘‘ بلجندر کہتے ہیں۔
بلائی آنا گاؤں سے تعلق رکھنے والے بھارتیہ کسان یونین (ایکتا-اُگراہاں) کے کارکن ۶۴ سالہ گربھکت سنگھ کہتے ہیں کہ موسم کی متلون مزاجی کسانوں کے لیے خوف کا باعث تھی۔ ’’یہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اگر حکومت دوسری فصلوں کے لیے کوئی شرح طے کر دیتی، تو ہم دھان جیسی پانی والی فصلوں کی بجائے ان فصلوں کو بھی اگاتے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
کسان یونینوں کی چھتری تنظیم سمیکت کسان مورچہ کے اہم مطالبات میں سے ایک مطالبہ تمام فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی یقین دہانی کرنے والے قانون کا نفاذ ہے۔ پنجاب میں کسان یونینوں نے مارچ ۲۰۲۳ میں دہلی میں اس طرح کے قانون کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
گربھکت کے سب سے چھوٹے بیٹے لکھویندر سنگھ نے بتایا کہ ان کی فصل کے ساتھ گندم کے ڈنٹھل سے تیار ہونے والے مویشیوں کے خشک چارے ’توری‘ (بھوسا) کو بھی نقصان پہنچا۔ گربھکت سنگھ کی فیملی کو ۶ سے ۷ لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ان پر بھی آڑھتیوں کے ۷ لاکھ روپے کا قرض ہے۔ یہ قرض انہوں نے فی ۱۰۰ روپے پر ۵ء۱ روپے فی فصل سیزن کی شرح سود پر لیا ہے۔ بینک کا پہلے سے ۱۲ لاکھ روپے کا ایک قرض ہے، جسے ۹ فیصد کی شرح سود پر پشتینی زمین رہن رکھنے کے بعد لیا گیا تھا۔
انہوں نے ربیع کی فصل سے حاصل ہونے والی آمدنی سے کچھ بقایا جات کی ادائیگی کی امید کی تھی، لیکن اب یہ ناممکن تھا۔ گربھکت نے کہا کہ ’’اولے پیندو بیر [بیر] کے برابر تھے۔‘‘
*****
جب پاری نے اپریل ۲۰۲۳ میں بوٹر بکھوا گاؤں کے ۲۸ سالہ بوٹا سنگھ سے ملاقات کی تو وہ بے وقت اور زیادہ بارش کے ذریعہ خود پر مسلط کردہ شدید بے خوابی سے نمٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔
شری مکتسر صاحب ضلع کے گدّڑباہا بلاک کے اس کسان کے پاس سات ایکڑ پشتینی زمین ہے اور انہوں نے گندم کی کاشت کے لیے مزید ۳۸ ایکڑ لیز پر لے رکھی ہے۔ اب گاؤں کی کم از کم ۲۰۰ ایکڑ نشیبی کھیتوں کے ساتھ یہ ۴۵ ایکڑ زمیں بھی زیر آب آچکی تھی۔ بوٹا سنگھ پر ۱۸ لاکھ روپے کا قرض تھا، جسے انہوں نے ایک آڑھتی سے فی ۱۰۰ روپے ۵ء۱ روپے کی شرح سود پر لیا تھا۔
ان کی فیملی کے چھ افراد بشمول ان کے والدین، بیوی اور دو بچوں کا انحصار ان کی زرعی آمدنی پر ہے۔
انہوں نے کہا، ’’ہمیں امید تھی کہ جب دن گرم ہو جائیں گے تو کھیت بھی خشک ہو جائیں گے، اور ہم فصل کاٹ لیں گے۔‘‘ مکینیکل ہارویسٹر کو نمی والے کھیتوں میں نہیں چلایا جا سکتا۔ تاہم، جب تک کھیت سوکھتے، زیادہ تر فصل تباہ ہو چکی تھی۔
زمیں پر گری ہوئی فصل کاٹنا بھی زیادہ مہنگا ہے۔ کھڑی فصل کی مکینیکل ہارویسٹر سے کٹائی کا کرایہ ۱۳۰۰ روپے فی ایکڑ ہے اور گری فصل کی کٹائی کا کرایہ ۲۰۰۰ فی ایکڑ ہے۔
ان مشکلات نے بوٹا کو شب بیداری پر مجبور رکھا۔ ۱۷ اپریل کو وہ گِدّڑباہا میں ایک ڈاکٹر کے پاس گئے جس نے بتایا کہ انہیں ہائی بلڈ پریشر ہے اور انہیں دوا تجویز کی۔
خطے کے کسانوں میں ’تناؤ‘ اور ’ڈپریشن‘ جیسے الفاظ عام تھے۔
’’ ڈپریشن تو پیندا ہی ہے۔ اپ سیٹ والا کام ہوندا ہے [لوگ افسردہ اور پریشان ہوجاتے ہیں]،‘‘ اپنے ۶ ایکٹر کھیت سے پمپ کے ذریعہ پانی نکالتے ہوئے بوٹر بکھوا گاؤں کے ۴۰ سالہ گرپال سنگھ کہتے ہیں۔ گرپال کا کہنا ہے کہ اگر وہ کھیتی کے ہر چھ ماہ کے سیزن کے بعد کچھ بچت کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے، تو ان کی ذہنی صحت کا متاثر ہونا فطری ہے۔
پنجاب میں کسانوں کی خودکشی کے متاثرین کنبوں کی مدد کے لیے کسان مزدور خود کشی پیڑت پریوار کمیٹی کا قیام کرنے والی ۲۷ سالہ کارکن کرن جیت کور نے بتایا کہ کسانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو تناؤ کا سامنا ہے۔ ’’چھوٹے کسان، جو ۵ ایکڑ سے زیادہ زمین کے مالک نہیں ہیں ان کے لیے فصل کی ناکامی کا مطلب ہے مکمل تباہی۔ چونکہ ایسے کسانوں اور ان کے اہل خانہ کو قرضوں پر سود ادا کرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، اس سے ان کی ذہنی صحت پر شدید اثر پڑتا ہے۔ اسی لیے ہم کسانوں میں خودکشی دیکھتے ہیں۔‘‘ کرن جیت نے کہا کہ کسانوں اور ان کے کنبوں کے لیے ذہنی صحت کی نگہداشت کی ضرورت ہے، تاکہ انہیں منشیات کی علت یا سخت اقدامات کی طرف راغب ہونے سے روکا جا سکے۔
کچھ کسانوں نے گزشتہ فصلوں میں بھی موسم کی متلون مزاجی کا تجربہ کیا تھا۔ بوٹا نے کہا کہ ستمبر ۲۰۲۲ میں بے وقت بارش کی وجہ سے دھان کی کٹائی بہت مشکل سے ہوئی تھی۔ گزشتہ ربیع کا موسم بہت گرم تھا جس کی وجہ سے گندم کے دانے سکڑ گئے تھے۔
موجودہ سیزن کے لیے انہوں نے کہا، ’’ واڈی دی آس کٹ ہے [فصل کی کٹائی کی امید کم ہے]۔ اگر ہم آنے والے دنوں میں اس کی کٹائی کا انتظام کر بھی لیں تو بھی کوئی اسے نہیں خریدے گا کیونکہ تب تک اناج کالا ہو جائے گا۔‘‘
پنجاب اگریکلچر یونیورسٹی میں پرنسپل سائنسداں (زرعی موسمیات) ڈاکٹر پربھیہ جوت کور سدھو نے کہا کہ فروری اور مارچ میں معمول یا اس سے کم درجہ حرارت کو گندم کے دانے کے لیے اچھا سمجھا جاتا ہے۔
اگرچہ ۲۰۲۲ کے ربیع کے سیزن میں زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے گندم کی پیداوار میں کمی دیکھی گئی، لیکن مارچ اور اپریل ۲۰۲۳ میں بارش کے ساتھ ساتھ ۳۰ سے ۴۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوائیں دوبارہ پیداوار میں کمی کا باعث بنیں۔ ’’جب تیز رفتار ہواؤں کے ساتھ بارش ہوتی ہے، تو گندم کے پودے گر جاتے ہیں، اس عمل کو ’لاجنگ‘ کہا جاتا ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے ساتھ پودے واپس کھڑے ہو جاتے ہیں، لیکن اپریل میں ایسا نہیں ہو سکا،‘‘ ڈاکٹر سدھو نے کہا۔ ’’یہی وجہ ہے کہ اناج کے دانے پوری طرح سے تیار نہیں ہو پائے، اور اپریل میں کٹائی نہیں ہو سکی۔ یہ ایک بار پھر گندم کی کم پیداوار کا باعث بنی۔ پنجاب کے کچھ اضلاع میں جہاں بارش تو ہوئی لیکن ہوا نہیں چلی وہاں پیداوار قدرے بہتر رہی۔‘‘
ڈاکٹر سدھو کے مطابق مارچ کے اواخر میں ہونے والی بے وقت بارش کو موسم کے شدید ترین واقعے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
تقریباً ۲۰ سے ۲۵ کوئنٹل فی ایکڑ کی متوقع پیداوار کے مقابلے میں بوٹا کو مئی تک ۲۰ من (یا ۴ء۷ کوئنٹل) گندم کی پیداوار حاصل ہوئی۔ گربھکت سنگھ کی پیداوار ۲۰ من سے ۴۰ من فی ایکڑ کے درمیان رہی، جب کہ بلجندر سنگھ نے ۲۵ سے ۲۸ من فی ایکڑ تک پیداوار حاصل کی۔
فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کے ذریعہ طے کردہ ۲۱۲۵ روپے کی کم از کم امدادی قیمت کے بر خلاف اناج کے معیار کے لحاظ سے بوٹا کو ۱۴۰۰ روپے فی کوئنٹل سے ۲۰۰۰ روپے فی کوئنٹل کے حساب سے قیمت ملی۔ گربھکت اور بلجندر نے اپنی پیداوار ایم ایس پی پر فروخت کی۔
ایسا بارشوں کی وجہ سے فصل کو ہونے والے نقصان کے بعد صارفین کے امور، خوراک اور عوامی تقسیم کی وزارت کی طرف سے مقرر کردہ ’قدر میں تخفیف‘ کے بعد کیا گیا تھا۔ ٹوٹے اور سکڑے دانوں کے لیے یہ تخفیف ۳۱ء۵ روپے سے ۸۷ء۳۱ روپے فی کوئنٹل کے درمیان تھی۔ اس کے علاوہ چمک کھو چکے دانوں پر ۳۱ء۵ روپے فی کوئنٹل کی کٹوتی کی گئی تھی۔
پنجاب حکومت نے ان کسانوں کے کے لیے ۱۵۰۰۰ روپے فی ایکڑ امداد کا اعلان کیا، جن کی فصلوں کو کم از کم ۷۵ فیصد کا نقصان ہوا تھا۔ فصل کے ۳۳ سے ۷۵ فیصد کے درمیان نقصان کے لیے کسانوں کو فی ایکڑ ۶۸۰۰ روپے دیے گئے۔
بوٹا نے معاوضے کے طور پر حکومت کی جانب سے ۲ لاکھ روپے حاصل کیے۔ ’’یہ ایک سست عمل ہے۔ مجھے ابھی تک پورا معاوضہ نہیں ملا ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔ ان کے بقول انہیں ۷ لاکھ روپے کا معاوضہ ملنا چاہیے تاکہ وہ اپنا قرض ادا کرسکیں۔
گربھکت اور بلجندر کو ابھی تک کوئی معاوضہ نہیں ملا تھا۔
بوٹر بکوھا گاؤں میں ۱۵ ایکڑ زمین کے مالک ۶۴ سالہ بلدیو سنگھ نے بھی ۹ ایکڑ زمین لیز پر لینے کے لیے ایک آڑھتی سے ۵ لاکھ روپے کا قرض لیا تھا۔ انہوں نے روزانہ ۱۵ لیٹر ڈیزل جلا کر پمپ کی مدد سے تقریباً ایک ماہ تک اپنے کھیتوں سے پانی نکالا۔
طویل عرصے تک پانی کے جماؤ کی وجہ سے بلدیو سنگھ کے گندم کے کھیت سڑتی ہوئی فصل اور پھپھوندی کی وجہ سے سیاہ اور بھورے ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہل چلانے سے بدبو نکلے گی جس سے لوگ بیمار ہو جائیں گے۔
’’ ماتم ورگا ماحول سی [گھر میں ماتم جیسا ماحول ہے]،‘‘ بلدیو اپنی ۱۰ رکنی فیملی کے بارے میں کہتے ہیں۔ فصل کٹائی کا تہوار بیساکھی جو نئے سال کے آغاز کی علامت ہے، بغیر کسی جشن کے گزر گیا۔
فصل کے نقصان سے بلدیو کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ خود اپنی جڑوں سے اکھڑ گئے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں زمین کو اس طرح نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے بچے تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکریاں تلاش کر رہے ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ حالات کسانوں کو اپنی جان لینے یا ملک چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔
فی الحال بلدیو سنگھ نے اپنے قریبی رشتہ دار کسانوں سے مدد کے لیے رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے ان سے اپنے مویشیوں کو کھلانے کے لیے توری ، اور اپنی فیملی کے لیے اناج لیا ہے۔
انہوں نے کہا، ’’ہم صرف نام کے زمیندار ہیں۔‘‘
مترجم: شفیق عالم