کھوما تھیئک، منی پور کے چراچاندپور ضلع میں واقع اپنے گاؤں لنگزا واپس لوٹنے کے خیال سے ہی کانپ اٹھتے ہیں۔ پچھلے ۳۰ سال سے لنگزا ہی ۶۴ سال کے اس کسان کا گھر تھا۔ لوگ پیار و محبت اور بھائی چارے کے ساتھ رہتے تھے۔ اسی گاؤں میں انہوں نے اپنے بیٹے ڈیوڈ کی پرورش کی تھی، اسکول بھیجنے کے لیے اس کا لنچ باکس پیک کیا تھا، اور اپنے دھان کے کھیتوں میں سب کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔ اسی گاؤں میں وہ پہلی بار دادا بنے تھے۔ لنگزا ہی کھوما کی پوری دنیا تھی، اور اس دنیا میں وہ اپنی زندگی سے پوری طرح مطمئن تھے۔
حالانکہ، ۲ جولائی ۲۰۲۳ کے بعد سب کچھ بدل گیا۔
وہ ایک ایسا دن تھا، جس نے کھوما کے ذہن سے ان کی زندگی کی تمام خوشنما یادوں کو بے رحمی کے ساتھ مٹا دیا اور انہیں ایسے گہرے زخم دیے جن کے درد سے وہ چاہ کر بھی کبھی آزاد نہیں ہو پائیں گے۔ اس منظر کو یاد کرتے ہوئے وہ ایک لمحہ کے لیے بھی سو نہیں پاتے ہیں۔ ایک ایسا منظر، جس نے ان کا چین و سکون چھین لیا ہے۔ اور وہ منظر ہے ان کے بیٹے کا کٹا ہوا سر، جو لنگزا گاؤں میں داخل ہونے والے راستے پر ہی بانس سے بنے گھیرے پر رکھا ہے۔
کھوما کی آبائی ریاست منی پور، ہندوستان کے شمال مشرقی خطے کا وہ حصہ ہے جہاں ۳ مئی، ۲۰۲۳ سے نسلی تصادم جاری ہے۔ مارچ کے آخر میں، منی پور ہائی کورٹ نے یہاں کی اکثریتی میتیئی برادری کو ’’آدیواسیوں کا درجہ‘‘ دے دیا تھا، جو انہیں اقتصادی فوائد اور سرکاری نوکریوں میں کوٹہ حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے۔ یہ انہیں کوکی آدیواسیوں کی اکثریت والے پہاڑی علاقوں میں زمین خریدنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔ حالانکہ، بعد میں اس فیصلہ پر سپریم کورٹ نے روک لگا دی۔
منی پور کی آبادی میں ۲۸ فیصد کی حصہ داری رکھنے والی کوکی برادری کو شاید یہ لگا کہ مذکورہ فیصلے سے ریاست میں میتیئی برادری کی حالت مزید مضبوط ہوگی، جو پہلے ہی کل آبادی کا ۵۳ فیصد ہیں۔
کوکی برادری کے کچھ لوگوں نے ۳ مئی کو عدالت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے چراچاندپور ضلع میں ایک ریلی نکالی۔
احتجاجی مظاہرے کے بعد، میتیئی کمیونٹی نے چراچاندپور میں واقع اینگلو کوکی وار میموریل گیٹ کو آگ لگا دی – جسے نوآبادیاتی برطانوی راج کے خلاف ۱۹۱۷ میں ہونے والی کوکی بغاوت کی یاد میں بنایا گیا تھا۔ اس واقعہ کی وجہ سے پورے علاقے میں فساد پھیل گیا اور پہلے چار دنوں میں ۶۰ لوگ مارے گئے۔
پھر یہ پوری ریاست میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے لگا، جہاں لوگوں کا بے رحمی سے قتل کیا گیا، ان کے سر کاٹے گئے، اجتماعی عصمت دری کی گئی اور بڑے پیمانے پر لوٹ مار کے واقعات پیش آئے۔ اس فساد میں ابھی تک ۱۹۰ لوگوں کی جانیں گئی ہیں، اور ۶۰ ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں – جن میں زیادہ تر کوکی براری کے لوگ ہیں، جن کا الزام ہے کہ ریاست اور پولیس اس خانہ جنگی میں میتیئی ملی ٹینٹوں کا ساتھ دے رہی ہے۔
دونوں برادریوں کا ایک دوسرے کے اوپر سے اعتماد اٹھ جانے کی وجہ سے انہوں نے دفاعی دستے تیار کر لیے ہیں، جو اپنے اپنے گاؤوں کی پہریداری کر رہے ہیں، ان دشمنوں کے خلاف جو پہلے ان کے پڑوسی ہوا کرتے تھے۔
کھوما کا ۳۳ سالہ بیٹا ڈیوڈ، ۲ جولائی کو کوکی گاؤں لنگزا کی پہریداری پر مامور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ وہاں موجود تھا جب ہتھیاروں سے لیس میتیئی لوگوں نے اچانک ان کے اوپر حملہ کر دیا۔ لنگزا میں اس واقعہ کے پیش آنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ کوکی برادری کے غلبہ والے چراچاندپور ضلع اور میتیئی اکثریت والی امپھال وادی کی سرحد پر واقع ہے۔
ڈیوڈ کو جب یہ محسوس ہوا کہ گاؤں والوں کے پاس اب زیادہ وقت نہیں بچا ہے، تو وہ تیزی سے دوڑتے ہوئے گئے اور لوگوں سے اپنی جان بچا کر بھاگنے کے لیے کہا اور تب تک اُس مسلح بھیڑ کو روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ کھوما بتاتے ہیں، ’’ہم نے جیسے تیسے اپنا کچھ ضروری سامان سمیٹا اور پہاڑوں کے اندرونی علاقوں کی طرف بھاگے، جہاں ہماری برادری کے لوگ اچھی خاصی تعداد میں رہتے ہیں۔ ڈیوڈ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بھی جلد ہی لوٹ آئے گا۔ اس کے پاس اپنا اسکوٹر تھا۔‘‘
ڈیوڈ اور ان کے ساتھ پہریداری کرنے والے دوسرے لوگوں نے ان کی فیملی کو وہاں سے نکل بھاگنے کا پورا موقع دیا۔ لیکن ڈیوڈ خود نہیں بھاگ پائے۔ وہ اپنے اسکوٹر تک پہنچ پاتے، اس سے پہلے ہی انہیں پکڑ لیا گیا۔ مشتعل بھیڑ نے ان کا سر قلم کر دیا اور ان کے جسم کے ٹکڑے کر کے انہیں جلا ڈالا۔
’’میں اُسی دن سے گہرے صدمے میں ہوں،‘‘ کھوما کہتے ہیں، جو اب چراچاندپور ضلع کی دور افتادہ پہاڑیوں میں اپنے بھائی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ’’اکثر آدھی رات کو میری نیند ٹوٹ جاتی ہے اور میں اس منظر کو یاد کر کے کانپنے لگتا ہوں۔ میں ٹھیک سے سو نہیں پا رہا ہوں۔ میں نے ایک تصویر دیکھی تھی، جس میں ایک آدمی میرے بیٹے کے کٹے سر کو لے کر گھوم رہا تھا۔ وہ منظر میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے۔‘‘
پورے منی پور میں کھوما جیسے بے گھر ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ جن جگہوں پر کبھی ان کے گھر ہوا کرتے تھے، آج ان جگہوں کو وہ پہچانتے بھی نہیں ہیں۔ وسائل کی کمی اور خوفناک یادوں سے گھرے، خانہ جنگی کے یہ متاثرین اور بے گھر ہو چکے لوگ آج یا تو اپنے رشتہ داروں کے رحم و کرم پر ہیں یا پھر خیراتی اداروں کے ذریعے چلائے جا رہے ریلیف کیمپوں میں وقت گزار رہے ہیں۔
چراچاندپور ضلع میں ہی لامکا تحصیل کے لنگسیفائی گاؤں کے ریلیف کیمپ میں ۳۵ سالہ بوئشی تھانگ اپنے ۳ سے ۱۲ سال کے چار بچوں کے ساتھ رکی ہوئی ہیں۔ وہ یہاں ۳ مئی کو کانگپوکپی ضلع میں واقع اپنے گاؤں ہاؤ کھانگ چِنگ پر ہوئے حملے کے بعد آئی ہیں۔ ’’میتیئیوں کے پرتشدد مجمع نے پاس کے تین گاؤوں میں آگ لگا دی تھی اور ہمارے گاؤں کی طرف بڑھ رہے تھے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں تھا، اس لیے عورتوں اور بچوں کو پہلے نکلنے کے لیے کہا گیا۔‘‘
ان کے شوہر لالتن تھانگ (۳۴ سالہ) گاؤں کے دوسرے مردوں کے ساتھ رک گئے، جب کہ بوئشی گھنے جنگل کے اندر ایک ناگا گاؤں کی طرف نکل بھاگیں۔ ناگا آدیواسیوں نے انہیں اور ان کے بچوں کو پناہ دی۔ وہاں انہوں نے اپنے شوہر کا انتظار کرتے ہوئے رات گزاری۔
ایک ناگا آدمی نے ان کے گاؤں جا کر یہ معلوم کرنے کی تجویز بھی پیش کی کہ لالتن تھانگ زندہ ہیں یا نہیں۔ لیکن وہ بیچ راستے سے ہی لوٹ آیا۔ اس کے پاس وہ پختہ خبر تھی جس نے بوئشی کے خوف کو بالآخر سچ ثابت کر دیا تھا۔ ان کے شوہر کو پکڑ لیا گیا تھا، اور جسمانی اذیتیں پہنچانے کے بعد آخر میں انہیں زندہ جلا دیا گیا تھا۔ ’’مجھے اتنا وقت بھی نہیں ملا کہ میں ان کی موت کا ماتم کر سکوں اور ان کی آخری رسومات ادا کر سکوں،‘‘ بوئشی کہتی ہیں۔ ’’مجھے اب اپنے بچوں کی جان بچانے کی فکر تھی۔ اگلی صبح ناگا لوگ مجھے ایک کوکی گاؤں تک چھوڑ گئے، جہاں سے میں چراچاندپور آ گئی۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں کبھی گھر لوٹ پاؤں گی۔ ہماری زندگی ہمارے معاش سے زیادہ قیمتی ہے۔‘‘
بوئشی اور ان کے شوہر کے پاس گاؤں میں پانچ ایکڑ دھان کا کھیت تھا، جس سے ان کا گھر چلتا تھا۔ اب وہ خواب میں بھی وہاں واپس جانے کے بارے میں نہیں سوچ سکتی ہیں۔ کوکیوں کے لیے فی الحال چراچاندپور زیادہ محفوظ جگہ ہے، کیوں کہ وہاں آس پاس میتیئی نہیں رہتے ہیں۔ بوئشی نے اپنی پوری زندگی وہیں گزاری جہاں آس پاس میتیئی گاؤں تھے، لیکن اب وہ ان کے ساتھ گھلنے ملنے کی بات سوچ کر بھی کانپ اٹھتی ہیں۔ ’’ہمارے گاؤں کے آس پاس میتیئیوں کے کئی گاؤں ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’بازاروں میں زیادہ تر ان کی ہی دکانیں تھیں اور ہم ان کے گاہک تھے۔ ہمارا باہمی تعلق بہت اچھا تھا۔‘‘
حالانکہ، منی پور میں دونوں برادریوں کے درمیان جو اعتماد تھا وہ آج پوری طرح ٹوٹ چکا ہے۔ امپھال وادی میں رہنے والے میتیئی اور وادی کے کنارے واقع پہاڑی ضلعوں میں رہ رہے کوکی کے درمیان منی پور دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ایک دوسرے کے علاقے میں داخل ہونے کا مطلب موت کو دعوت دینا ہو گیا ہے۔ امپھال کے وہ علاقے جن میں کبھی کوکی آباد تھے آج پوری طرح سے ویران ہیں۔ دوسری طرف کوکی برادری کی اکثریت والے پہاڑی ضلعوں سے میتیئیوں کو بھگایا جا چکا ہے۔
امپھال کے ایک ریلیف کیمپ میں رہ رہیں ۵۰ سالہ ہیمابتی موئیرنگ تھیم یاد کرتی ہیں کہ ان کے شہر موریہہ پر کوکی برادری کی مشتعل بھیڑ کے ذریعے حملہ کیے جانے کے بعد، انہوں نے کیسے اپنے لقوہ زدہ بھائی کے ساتھ بھاگ کر جان بچائی تھی۔ ’’میرے ایک کمرے کے گھر کو بھی پھونک ڈالا گیا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’میرے بھتیجے نے پولیس کو فون کیا۔ ہمیں امید تھی کہ ہمیں زندہ جلا دیے جانے سے پہلے پولیس آ جائے گی۔‘‘
کوکیوں کی مشتعل بھیڑ ہند-میانمار سرحد پر واقع موریہہ شہر میں جمع ہو چکی تھی، لیکن ہیما اپنے بھائی کی جسمانی معذوری کی وجہ سے نکلنے میں لاچار تھیں۔ ’’اس نے مجھ سے اکیلے ہی بھاگ جانے کے لیے کہا، لیکن اگر میں ایسا کرتی تو خود کو کبھی معاف نہیں کر پاتی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
ہیما کے شوہر کی ایک حادثہ میں موت کے بعد سے، گزشتہ ۱۰ سالوں سے یہ تینوں ایک ساتھ رہ رہے تھے، اور کسی ایک کو مرنے کے لیے چھوڑ دینے کا متبادل ان کے پاس نہیں تھا۔ جو بھی انجام ہونا تھا، وہ تینوں کے لیے ایک جیسا ہونا تھا۔
پولیس جب پہنچی، تب ہیما اور ان کے بھتیجے نے اپنے جلتے ہوئے گھر کو پار کرتے ہوئے انہیں اٹھا کر پولیس کی گاڑی تک پہنچایا۔ پولیس کی گاڑی نے ہی تینوں کو موریہہ سے ۱۱۰ کلومیٹر دور امپھال بحفاظت پہنچا دیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’تب سے میں اس ریلیف کیمپ میں ہی ہوں۔ میرا بھتیجہ اور بھائی ہمارے ایک رشتہ دار کے ساتھ ہیں۔‘‘
ہیما، موریہہ میں پنساری کی دکان چلاتی تھیں، اور اب زندہ رہنے کے لیے دوسروں کی مدد کے لیے محتاج ہو گئی ہیں۔ وہ ایک ڈورمیٹری نما کمرے میں ۲۰ انجان عورتوں کے ساتھ سوتی ہیں۔ انہیں اجتماعی باورچی خانہ میں تیار کھانا ملتا ہے اور خیرات میں ملے کپڑے پہننے پڑتے ہیں۔ ’’یہ سب ایک برا تجربہ ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’شوہر کی موت کے بعد بھی میں کبھی تنگی میں نہیں رہی۔ میں نے اپنا اور اپنے بھائی کا ہمیشہ اچھا خیال رکھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان حالات میں ہمیں کتنے دنوں تک زندگی بسر کرنی ہوگی۔‘‘
منی پور کے لوگ اپنا گھر، روزگار اور عزیزوں کو گنوانے کے بعد آہستہ آہستہ معمول کی زندگی کی طرف لوٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کھوما پہلے بھی اپنے عزیزوں کی موت کا غم برداشت کر چکے ہیں، لیکن ڈیوڈ کی موت کو بھلانا ان کے لیے آسان نہیں ہے۔ تقریباً ۳۰ سال پہلے ان کی دو سال کی بیٹی کی حیضہ سے موت ہو گئی تھی۔ ان کی بیوی بھی ۲۵ سال پہلے کینسر کی بیماری سے چل بسی تھیں۔ لیکن ڈیوڈ کی موت نے ان کی زندگی میں ایک ایسا خلاء پیدا کر دیا ہے، جسے شاید کبھی بھرا نہیں جا سکے گا۔ آخرکار، وہ نوجوان ہی ان کی زندگی کا سہارا تھا۔
کھوما نے اکیلے اپنے دَم پر ڈیوڈ کی پرورش کی تھی۔ اسکول کی پیرنٹ- ٹیچر میٹنگوں میں وہی جاتے تھے۔ ہائی اسکول کے بعد انہوں نے ہی ڈیوڈ کو صلاح دی تھی کہ اسے کس کالج میں داخلہ کی کوشش کرنی چاہیے۔ ڈیوڈ جب شادی کرنا چاہتے تھے، تو یہ بات انہوں نے سب سے پہلے اپنے والد کھوما کو ہی بتائی تھی۔
ایک دوسرے کے ساتھ سالوں سال بسر کرنے کے بعد ان کی فیملی پھر سے بڑھنے لگی تھی۔ تین سال پہلے ڈیوڈ نے شادی کر لی تھی اور ایک سال بعد ایک بچے کے والد بھی بن گئے تھے۔ کھوما نے سوچا تھا کہ گھر کے بزرگ کی حیثیت سے وہ اپنے پوتے کے ساتھ کھیلیں گے اور اس کی پرورش کرنے میں فیملی کی مدد کریں گے۔ لیکن یہ سب ہونے سے پہلے ہی ان کی فیملی دوبارہ بکھر گئی۔ ڈیوڈ کی بیوی اپنے بچے کے ساتھ ایک دوسرے گاؤں میں اپنی ماں کے گھر رہ رہی ہیں، اور کھوما اپنے بھائی کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کے پاس اب صرف یادیں بچی ہیں۔ کچھ اچھی یادوں کو وہ سنبھال کر رکھنا چاہتے ہیں۔ اور، کچھ یادوں سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جانا چاہتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز