جون ۲۰۲۳ کے وسط میں عظیم شیخ اورنگ آباد میں ڈویژنل کمشنر کے دفتر کے سامنے پانچ دنوں تک بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہے۔
شدید گرمی کے باوجود، ۲۶ سالہ عظیم نے پانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں لیا۔ ہڑتال کے آخر میں وہ کمزور ہو گئے تھے، تھکے ہوئے تھے اور انہیں چکر آ رہے تھے۔ یہاں تک کہ انہیں سیدھے چل پانے میں بھی مشکل ہو رہی تھی۔
ان کا مطالبہ کیا تھا؟ وہ بس پولیس کے پاس شکایت درج کروانا چاہتے تھے۔ لیکن اورنگ آباد سے تقریباً ۸۰ کلومیٹر دور جالنہ ضلع میں موجود ان کے گاؤں کے پاس مقامی پولیس اسٹیشن نے شکایت درج نہیں کی۔
پچھلے سال ۱۹ مئی، ۲۰۲۳ کو مراٹھا برادری سے تعلق رکھنے والے سوناونے فیملی کے ممبران رات ۱۱ بجے عظیم کے گھر میں داخل ہوئے اور ان کے اہل خانہ کو لاٹھیوں پتھروں سے پیٹا۔ اس میں ان کے بھائی اور والدین زخمی ہو گئے تھے۔ انہوں نے پاری کو بتایا، ’’میری بوڑھی ماں کو اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ یہ حملہ انتہائی بے رحمی سے کیا گیا تھا۔ انہوں نے گھر سے ڈیڑھ لاکھ روپے سے زیادہ کے زیورات اور نقدی بھی چرا لیے۔‘‘
اس رپورٹر نے نتن سوناونے سے رابطہ کیا، جن کے اوپر عظیم کا الزام ہے کہ وہ بھیڑ کا حصہ تھے۔ سوناونے نے اس موضوع پر بات کرنے سے منع کر دیا اور کہا، ’’مجھے واقعہ کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔‘‘
عظیم کا گھر ان کے آٹھ ایکڑ کھیت پر بنا ہوا ہے، جو وسط مہاراشٹر کے بھوکردن تعلقہ میں ان کے گاؤں پلس کھیڑا مُرتڈ سے تقریباً دو کلومیٹر دور ہے۔
وہ کہتے ہیں، ’’یہاں رات میں سناٹا اور خاموشی رہتی ہے۔ ہم مدد کے لیے کسی کو فون بھی نہیں کر پائے۔‘‘
عظیم کو شک ہے کہ یہ حملہ کاروباری دشمنی کے سبب کیا گیا تھا۔ گاؤں میں یہ دو ہی خاندان ہیں جو جے سی بی مشین چلاتے ہیں۔ عظیم بتاتے ہیں، ’’پاس میں ایک [جوئی] باندھ ہے۔ گاؤں کے کسانوں کو اچھی فصل کے لیے آبی علاقہ [کیچمنٹ ایریا]ٗ سے گاد لا کر اپنی زمین پر پھیلانا پڑتا ہے۔ ہمارا کام کسانوں کے لیے گاد (تلچھٹ) کھودنا ہوتا ہے۔‘‘
دونوں خاندان گاد نکالنے کے لیے کسانوں سے ۸۰ روپے فی گھنٹہ لیتے ہیں۔ عظیم کہتے ہیں، ’’جب میں نے اپنی اجرت گھٹا کر ۷۰ روپے کر دی، تو مجھے زیادہ کام ملنا شروع ہو گیا۔ اس کے بعد مجھے دھمکی دی گئی، اور جب میں نے اپنا ریٹ نہیں بڑھایا، تو انہوں نے میرے گھر پر حملہ کر دیا۔ انہوں نے سامنے کھڑی جے سی بی مشین میں بھی توڑ پھوڑ کی۔‘‘
اگلی صبح عظیم بھوکردن کے پولیس اسٹیشن گئے، جس تعلقہ میں ان کا گاؤں پڑتا ہے۔ مگر پولیس نے ایف آئی آر (پہلی اطلاعاتی رپورٹ) درج کرنے سے منع کر دیا۔ وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، اس کی بجائے ’’پولیس نے مجھے دھمکی دی۔ انہوں نے کہا کہ اس فیملی کے خلاف شکایت کرنے پر میں مصیبت میں پڑ جاؤں گا۔ وہ سیاسی طور پر طاقتور لوگ ہیں۔‘‘
عظیم کے مطابق، جب انہوں نے زور دے کر کہا کہ ان کی شکایت آفیشل طور پر درج کی جائے، تو پولیس نے انہیں وارننگ دی کہ دوسرا فریق ان کے خلاف کئی شکایتیں درج کرا دے گا اور انہیں گاؤں سے بے دخل کر دے گا۔
وہ پوچھتے ہیں، ’’ ہی کسلی لا اینڈ آرڈر [یہ کیسا قانون اور نظم و نسق ہے]؟ یہ منصوبہ بند طریقے سے کیا گیا حملہ تھا، جہاں ۳۰-۲۵ لوگ میرے گھر میں داخل ہوئے اور تباہی مچا دی۔ یہ دردناک اور خوفناک تھا۔‘‘
عظیم کے لیے یہ اصول کا، ان کی عزت نفس کا معاملہ تھا۔ یہ خیال کہ مراٹھا فیملی آسانی سے بچ جائے گی، انہیں راس نہیں آیا اور اس لیے ’’میں پیچھے نہیں ہٹا۔ میں نے پولیس اسٹیشن میں اپنی شکایت کرنا تب تک جاری رکھا، جب تک وہ ایف آئی آر درج کرنے کے لیے راضی نہیں ہو گئے۔‘‘
جب پولیس آخر میں مانی، تو انہوں نے عظیم سے کہا کہ ایف آئی آر میں تمام تفصیلات نہیں ہوں گی۔ اسے ہلکا کیا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں، ’’پولیس نے اس حصہ کو شامل کرنے سے منع کر دیا، جس میں انہوں نے ہماری نقدی اور زیورات چرائے تھے۔ یہ مجھے منظور نہیں تھا۔‘‘
تب وہ گرام پنچایت میں گئے اور گاؤں کے اہم لوگوں کے سامنے معاملہ رکھا۔ عظیم کی فیملی کئی نسلوں سے گاؤں میں رہ رہی تھی۔ انہیں اس بات کا پورا یقین تھا کہ گاؤں والے ان کی حمایت کریں گے۔ وہ کہتے ہیں، ’’گاؤں میں لوگوں کے ساتھ میرے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ مجھے یقین تھا کہ لوگ میری حمایت کریں گے۔‘‘
عظیم نے پوری تفصیل کے ساتھ اپنا معاملہ لکھا اور گاؤں سے متحد ہو کر اس پر دستخط کرنے کی اپیل کی۔ وہ کیس کو آگے بڑھانا چاہتے تھے اور اسے اورنگ آباد کے ڈویژنل کمشنر (ڈی سی) کے سامنے رکھنا چاہتے تھے، جو پورے مراٹھواڑہ علاقے کو دیکھتے ہیں۔
خط پر صرف ۲۰ لوگوں نے دستخط کیے – اور ان میں سبھی مسلم تھے۔ ’’کچھ لوگوں نے ذاتی طور پر مجھ سے کہا کہ وہ میرے ساتھ ہیں، مگر وہ کھلے عام حمایت دینے سے ڈر گئے تھے۔‘‘
یہ وہ لمحہ تھا، جب گاؤں کے بھائی چارے کی حقیقت سامنے آ گئی۔ عظیم کہتے ہیں، ’’میں نے نہیں سوچا تھا کہ گاؤں فرقہ وارانہ بنیاد پر اتنا بٹا ہوا ہوگا۔‘‘ بہت سے ہندو اس معاملے پر کھل کر بات کرنے کو تیار نہیں تھے، اور جو تیار ہوئے انہوں نے حمایت نہ دینے کے پیچھے مذہبی بنیاد ہونے یا کسی قسم کے تناؤ سے ہی انکار کر دیا۔
ہندو کسانوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ انتقام کے ڈر سے کوئی فیصلہ نہیں لے سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالات سنگین ہیں اور وہ کسی معاملے میں نہیں پھنسنا چاہتے۔
تقریباً ۲۰ سال سے گاؤں کے سرپنچ بھگوان سوناونے (۶۵) کا کہنا تھا کہ تب فرقہ وارانہ تناؤ تھا، لیکن اب حالات معمول پر ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’بیشک، جب دو مذاہب سے جڑے خاندان اس طرح جھگڑے میں پڑیں گے، تو اس کا اثر پورے گاؤں پر پڑے گا ہی۔‘‘
سوناونے خود بھی مراٹھا ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس معاملے میں عظیم کی کوئی غلطی نہیں تھی۔ لیکن گاؤں کے لوگوں نے اپنے کام سے کام رکھنا پسند کیا اور اس معاملے میں شامل نہیں ہوئے۔ آخری بار ہمارے گاؤں میں ہندو مسلم تنازع ۱۵ سال پہلے ہوا تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’فی الحال اب تک امن کی فضا برقرار تھی۔‘‘
پلس کھیڑا مُرتڈ گاؤں شاید جالنہ ضلع کے بقیہ حصوں اور یہاں تک کہ ریاست مہاراشٹر کی بھی مثال ہے، جہاں اب فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگڑ چکی ہے۔
پچھلے سال ۲۶ مارچ، ۲۰۲۳ کو مذہبی دانشور سید ذاکر کھجمیا جالنہ ضلع میں واقع اپنے گاؤں انوا کی مسجد میں خاموشی سے قرآن پڑھ رہے تھے۔ ذاکر (۲۶) نے پولیس کو بتایا کہ ’’اسی وقت تین انجان نقاب پوش مسجد میں آئے اور مجھے جے شری رام کا نعرہ لگانے کو کہا۔ جب میں نے ایسا کرنے سے منع کر دیا، تو انہوں نے میرے سینے پر لاتیں ماریں، مجھے پیٹا اور یہاں تک کہ میری داڑھی کھینچی۔‘‘
ان کی گواہی کے مطابق، چہرے پر نقاب لگائے ان لوگوں نے انہیں تب تک پیٹا، جب تک وہ بیہوش نہیں ہو گئے، اور ان کی داڑھی کاٹ دی۔ فی الحال یہاں سے ۱۰۰ کلومیٹر دور، اورنگ آباد کے ایک اسپتال میں ان کا علاج چل رہا ہے۔
ان کے ساتھ جو ہوا، وہ کوئی اکیلا واقعہ نہیں ہے۔ پڑوسی گاؤں کے مکھیا عبدالستار کہتے ہیں کہ یہاں کافی تناؤ ہے۔ انہوں نے بتایا، ’’پولیس نے مسلم برادری کو اعتماد میں لینے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔ ایسے واقعات کی زیادہ رپورٹنگ نہیں ہوتی، لیکن اب یہ ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہو گئے ہیں۔‘‘
جالنہ پولیس نے ۱۹ جون، ۲۰۲۳ کو ایک چھوٹے کسان کے بیٹے اور ۱۸ سال کے توفیق باگوان پر ۱۷ویں صدی کے مغل حکمراں اورنگ زیب کی تصویر اپ لوڈ کر کے ’’مذہبی جذبات کو جان بوجھ کر ٹھیس پہنچانے کے غلط ارادے‘‘ کا الزام لگایا۔
اس کے بڑے بھائی ۲۶ سال کے شفیق کہتے ہیں کہ ان کے گاؤں حسن آباد میں دائیں بازو کے لوگوں نے توفیق کی اسٹوری کے اسکرین شاٹ لیے اور پولیس اسٹیشن چلے گئے۔ شفیق کہتے ہیں، ’’پولیس نے توفیق کے فون کو یہ کہہ کر ضبط کر لیا کہ وہ جانچ کریں گے کہ تصویر کس نے اپ لوڈ کی تھی۔ میرا بھائی ابھی صرف ۱۸ سال کا ہے۔ وہ ڈرا ہوا ہے اور پریشان ہے۔‘‘
حسن آباد بھوکردن تعلقہ کا ہی گاؤں ہے، جہاں عظیم کا بھی گاؤں واقع ہے۔ سوشل میڈیا پوسٹ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں پولیس کا تعاون اور رویہ اس خطرناک حملے کے معاملے کے بالکل برعکس رہا، جس کا سامنا عظیم نے کیا تھا۔
جب پولیس نے عظیم سے کہا کہ وہ ایف آئی آر کو ہلکا کرے گی، تب انہوں نے گاؤں کے ۲۰ مسلمانوں کے دستخط والے خط کو اورنگ آباد کے ڈی سی کے سامنے پیش کیا۔ گاؤں کے کچھ مسلم کسانوں نے ان کے ساتھ بھوک ہڑتال میں بھی حصہ لیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’لگتا ہے کہ ہماری کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ ہم انتظامیہ کو نظر ہی نہیں آتے ہیں۔‘‘
پانچ دن بعد ڈی سی عظیم اور دوسرے مظاہرین سے ملے اور انہیں کارروائی کا بھروسہ دلایا۔ انہوں نے انہیں جالنہ کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) سے ملنے کو کہا۔
اورنگ آباد میں احتجاجی مظاہرہ کے بعد عظیم جالنہ میں ایس پی سے ملے اور اپنا وہی خط انہیں دیا، جس میں ان پر ہوئے حملے کا ذکر تھا۔ ایس پی نے بھوکردن پولیس اسٹیشن سے بات کی اور معاملے میں کارروائی کرنے کو کہا۔
آخرکار، ۱۴ جولائی کو بھوکردن پولیس نے تقریباً دو مہینے بعد ان کی شکایت درج کی۔ اس ایف آئی آر میں ۱۹ لوگوں کو نامزد کیا گیا تھا، جس میں نتن بھی شامل ہیں۔ الزامات میں غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونا، فساد کرنا، خطرناک اسلحوں سے چوٹ پہنچانا، ۵۰ یا اس سے زیادہ روپے کا نقصان پہنچانا اور مجرمانہ دھمکی شامل ہیں۔
حالانکہ، گھر سے زیورات اور پیسوں کی چوی والا حصہ تب بھی ایف آئی آر میں درج نہیں کیا گیا۔
عظیم کہتے ہیں، ’’اصولاً میری شکایت ٹھیک سے درج نہ کرنے کے لیے پولیس افسروں پر کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ مگر اس کی امید کرنا تو بہت زیادہ ہے۔ اگر اس قسم کے جرم کا ملزم کوئی مسلمان ہوتا، تو کہانی بالکل الگ ہوتی۔‘‘
اس اسٹوری کے رپورٹر نے بھوکردن پولیس اسٹیشن کے پولیس انسپکٹر سے بار بار کال کرنے اور بات کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
مترجم: محمد قمر تبریز