لوکور کوتھا نوہونیبا،
باٹوت نانگول
ناچاچیبا
[لوگوں کی مت سنو،
سڑک کنارے ہل کو مت چمکاؤ]
آسامی زبان کے اس جملہ کا استعمال کسی کام کو درست طریقے سے کرنے کی اہمیت بتانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
کسانوں کے لیے ہل بنانے والے کاریگر حنیف علی کہتے ہیں کہ یہ جملہ ان پر اور کاشتکاری میں استعمال ہونے والے آلات بنانے کے ان کے کام پر نافذ ہوتا ہے۔ وسط آسام کے درانگ ضلع میں، ان کے علاقہ کی تقریباً دو تہائی زمین پر کھیتی ہوتی ہے، اور اس تجربہ کار کاریگر کے پاس زراعت سے متعلق کاموں کے لیے بہت سے آلات ہیں۔
’’میں ہر قسم کے زرعی آلات بناتا ہوں، جیسے نانگول [ہل]، چونگو [بانس کا لیولر]، جوال [جوا]، ہات نائینگلے [ہتھ نکونی]، نائینگلے [نکونی]، ڈھیکی [پیر سے چلائی جانے والی اوکھلی]، ایٹا ماگور [لکڑی کا ہتھوڑا]، ہارپاٹ [بانس کے ڈنڈے سے جڑا لکڑی کا ایک نصف دائرہ کار آلہ، جس کا استعمال سوکھے دھان کے ڈھیر کو اکٹھا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے] اور بہت کچھ،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
وہ اس کام کے لیے کٹہل کے درخت کی لکڑی کا استعمال کرنا پسند کرتے ہیں – جسے یہاں کی بنگالی بولی میں کاٹھول اور آسامی میں کوٹھال کہا جاتا ہے۔ دروازے، کھڑکیاں اور پلنگ بنانے میں اس کی لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ حنیف کا کہنا ہے کہ وہ خریدی ہوئی لکڑی برباد نہیں کر سکتے، اس لیے ہر لٹھے سے جتنا ممکن ہو اتنے آلات بنا لیتے ہیں۔
ہل ایک ایسا آلہ ہے جس پر باریکی سے کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’میں لکڑی پر بنی مارکنگ [نشانوں] سے ایک انچ کی بھی چھوٹ نہیں لے سکتا، نہیں تو پورے درخت کا نقصان ہو سکتا ہے۔‘‘ اندازہ لگاتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ یہ نقصان ۳۰۰-۲۵۰ روپے کے آس پاس بیٹھتا ہے۔
ان کے زیادہ تر گاہک یہاں کے چھوٹے کسان ہیں، جو گھر پر بیل پالتے ہیں۔ وہ اپنی زمین پر کئی فصلیں اگاتے ہیں، اور پھول گوبھی، پتہ گوبھی، بینگن، نول کھول (گانٹھ گوبھی یا کوہل ربی ) مٹر، مرچ، لوکی، کدو، گاجر، کریلا، ٹماٹر اور ککڑی جیسی سبزیاں اگاتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ سرسوں اور دھان کی کھیتی بھی کرتے ہیں۔
’’جس کو بھی ہل کی ضرورت پڑتی ہے، وہ میرے پاس آتا ہے،‘‘ ساٹھ سال سے زیادہ کے ہو چکے حنیف کہتے ہیں۔ وہ پاری کو بتاتے ہیں، ’’تقریباً ۱۵-۱۰ سال پہلے اس علاقہ میں صرف دو ٹریکٹر تھے، اس لیے لوگ اپنی زمین کی جُتائی کے لیے ہلوں پر منحصر تھے۔‘‘
مقدس علی اُن کسانوں میں سے ہیں جو اب بھی کبھی کبھار لکڑی کے ہل کا استعمال کرتے ہیں۔ ’’میں اب بھی ضرورت پڑنے پر اپنے ہل کی مرمت کے لیے حنیف کے پاس جاتا ہوں۔ وہ اکیلے انسان ہیں جو اسے ٹھیک کر پاتے ہیں۔ اپنے والد کی طرح ہی وہ اچھے ہل بنا لیتے ہیں،‘‘ مقدس کہتے ہیں، جن کی عمر ۶۰ سال سے زیادہ ہو چکی ہے۔
حالانکہ، علی کے مطابق انہیں نہیں معلوم کہ وہ آئندہ پھر کبھی ہل کا استعمال کریں گے یا نہیں۔ یہ سمجھاتے ہوئے کہ کام کا بوجھ کم کرنے کے لیے لوگوں نے ٹریکٹر اور پاور ٹلر کا استعمال کرنا کیوں شروع کر دیا ہے، وہ کہتے ہیں، ’’بیلوں کی قیمت کافی زیادہ ہو چکی ہے اور زرعی مزدور آسانی سے ملتے نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ، ٹریکٹر کے مقابلے ہل استعمال کرنے میں زیادہ وقت بھی لگتا ہے۔‘‘
*****
حنیف اپنے خاندان کی دوسری نسل کے کاریگر ہیں؛ جب وہ چھوٹے بچے تھے تب انہوں نے یہ ہنر سیکھا تھا۔ ’’میں بس کچھ دنوں کے لیے ہی اسکول جا پایا تھا۔ میری ماں اور میرے والد کی پڑھائی میں دلچسپی نہیں تھی، اور میں بھی اسکول نہیں جانا چاہتا تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
بہت چھوٹی عمر میں انہوں نے اپنے والد ہولو شیخ کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا تھا، جو کہ ایک مشہور کاریگر تھے۔ ’’بابائے شارا بوستیر جونّے نانگول بنائیتو۔ نانگول بنابر با ٹھیک کوربار جونّے آنگور باریت آئیتو شوب کھیتی اوک [میرے والد گاؤں میں ہر کسی کے لیے ہل بناتے تھے۔ ہر کوئی اپنے ہل بنانے یا مرمت کرانے کے لیے ہمارے گھر آتا تھا]۔‘‘
جب انہوں نے اس کام میں والد کی مدد کرنی شروع کی، تو ان کے والد مارکنگ کرتے تھے – ہل کو بغیر کسی پریشانی کے بنانے کے لیے ان پر درست مارکنگ کی ضرورت پڑتی ہے۔ ’’آپ کو ٹھیک ٹھیک پتہ ہونا چاہیے کہ کس جگہ پر سوراخ بنانی ہے۔ یہ پکا کرنا چاہیے کہ موری کاٹھ [ہل کے مرکزی حصہ] سے بیم صحیح زاویہ پر جڑا ہوا ہے،‘‘ حنیف کہتے ہیں اور لکڑی کے ٹکڑے پر اپنے دائیں ہاتھ سے کام جاری رکھتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ اگر ہل بہت گھماؤدار ہوگا، تو کوئی بھی اسے نہیں خریدے گا کیوں کہ تب مٹی ہل کے کونے پر اٹکے گی، اور بیچ میں فرق پیدا ہونے لگے گا اور کام دھیما ہو جائے گا۔
انہیں اتنی خود اعتمادی حاصل کرنے میں ایک سال لگ گیا کہ اپنے والد سے کہہ سکیں، ’’مجھے معلوم ہے کہ کہاں مارکنگ کرنی ہے۔ فکر مت کیجئے۔‘‘
اس کے بعد، وہ اپنے والد کے ساتھ کام پر جانے لگے، جو ’ہولو مستری‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ان کے والد دکاندار اور ہوئیتیر – بڑھئی گیری، خاص طور پر ہل بنانے میں ماہر کاریگر – کے طور پر کام کرتے تھے۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ کیسے وہ اپنے ذریعہ بنائے گئے آلات لے کر گھر گھر جاتے تھے۔
حنیف چھ رکنی فیملی میں اکلوتے لڑکے تھے۔ عمر کی ڈھلان پر کھڑے اپنے والد کے ساتھ کچھ سال کام کرنے کے بعد، بہنوں کی شادی کی ذمہ داری حنیف پر آ گئی تھی۔ ’’لوگ ہمارا ٹھکانہ جانتے ہی تھے، اور چونکہ میرے والد سبھی آرڈر پورا کرنے کے قابل نہیں تھے، اس لیے میں نے ہل بنانا شروع کر دیا۔‘‘
یہ چار دہائی پہلے کی بات تھی۔ حنیف اب اکیلے رہتے ہیں اور ان کا گھر اور کام کرنے کی جگہ بروآجار گاؤں نمبر ۳ کا ایک کمرہ ہے، جہاں ان کے جیسے تمام بنگالی مسلمان رہتے ہیں۔ یہ علاقہ دلگاؤں اسمبلی حلقہ میں آتا ہے۔ بانس اور پھوس سے بنے ان کے ایک کمرے کے گھر میں چھوٹا سا بستر، اور تھوڑے بہت برتن – چاول پکانے کے لیے پتیلا، ایک پین، اسٹیل کی کچھ پلیٹیں اور ایک گلاس رکھا ہوا ہے۔
وہ گاؤں کے کسانوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’والد اور میرا کام علاقہ کے لوگوں کے لیے اہم ہے۔‘‘ وہ پانچ خاندانوں کے ذریعہ شیئر کے جا رہے ایک آنگن میں بیٹھے ہیں، جو ان کی طرح ہی ایک کمرے کے گھر میں رہتے ہیں۔ دیگر گھروں میں ان کی بہن، ان کے سب سے چھوٹے بیٹے اور بھتیجے رہتے ہیں۔ ان کی بہن لوگوں کے کھیتوں اور ان کے گھروں میں مزدوری کرتی ہیں؛ ان کے بھتیجے اکثر جنوبی ہند کی ریاستوں میں کام کے لیے مہاجرت کرتے ہیں۔
حنیف کے نو بچے ہیں، لیکن کوئی بھی ہل بنانے کے کام میں نہیں لگا ہے، جس کی مانگ گھٹتی جا رہی ہے۔ مقدس علی کے بھتیجے افز الدین کہتے ہیں، ’’آنے والی نسل نہیں پہچان پائے گی کہ روایتی ہل کیسا دکھائی دیتا تھا۔‘‘ افز الدین (۴۸) پیشہ سے کسان ہیں اور ان کے پاس چھ بیگھہ بغیر سینچائی والی زمین ہے۔ تقریباً ۱۵ سال پہلے انہوں نے ہل چلانا بند کر دیا تھا۔
*****
وہ مقامی لوگوں سے اپنے رشتہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’جب میں سائیکل چلاتے ہوئے ان گھروں سے گزرتا ہوں جہاں گھماؤدار شاخوں والے بڑے درخت لگے ہوتے ہیں، تو میں گھر کے مالک سے کہہ دیتا ہوں کہ جب وہ درخت کٹوائیں، تو مجھے اس کی اطلاع دے دیں۔ میں انہیں بتاتا ہوں کہ گھماؤدار اور مضبوط شاخوں سے اچھے ہل بنیں گے۔‘‘
مقامی لکڑی کے تاجر بھی لکڑی کا گھماؤدار ٹکڑا ملنے پر ان سے رابطہ کرتے ہیں۔ انہیں سال (شوریا روبسٹا) ، شیشو (شیشم)، تیتاچاپ (مشیلیا چمپاکا)، شریش (البیزیا لیبیک) یا مقامی طور پر دستیاب دیگر لکڑیوں سے بنے سات فٹ لمبے بیم اور لکڑی کے ۳ ضرب ۲ انچ چوڑے پٹرے کی ضرورت پڑتی ہے۔
’’درخت ۳۰-۲۵ سال پرانا ہونا چاہیے، تبھی ہل، جوا اور نکونی ٹکاؤ ہوگی۔ لکڑی کے لٹھے عام طور پر درخت کے تنے یا مضبوط شاخوں سے حاصل کیے جاتے ہیں۔‘‘ وہ پاری کو درخت کی ایک شاخ دکھاتے ہیں، جسے انہوں نے دو حصوں میں کاٹا ہے۔
جب پاری نے اگست کے وسط میں ان سے ملاقات کی تھی، تو وہ ہل کی باڈی (مرکزی حصہ) تیار کرنے کے لیے لکڑی کے ایک حصہ کو کاٹ رہے تھے۔ ’’اگر میں ہل کی باڈی بنانے کے علاوہ دو ہات نائینگلے [ہتھ نکونی] بنا لوں، تو اس لٹھے سے ۵۰۰-۴۰۰ روپے مزید کما سکتا ہوں،‘‘ وہ ۲۰۰ روپے میں خریدی گئی گھماؤدار لکڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’میں جتنا ہو سکے، ہر لکڑی کے زیادہ سے زیادہ حصوں کا استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ اتنا ہی نہیں، اس کا سائز بھی بالکل ویسا ہونا چاہیے جیسا کسانوں کو درکار ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔ چار دہائی سے زیادہ عرصے سے وہ یہ کام کر رہے ہیں، اور جانتے ہیں کہ جو ہل سب سے زیادہ چلن میں ہوتا ہے اس کا پھال ۱۸ انچ کا اور مرکزی حصہ ۳۳ انچ کا ہوتا ہے۔
ایک بار جب انہیں لکڑی کا صحیح ٹکڑا مل جاتا ہے، تو وہ سورج نکلنے سے پہلے ہی کام شروع کر دیتے ہیں اور کاٹنے، چھیلنے، سائز دینے کے لیے اپنے اوزار پاس میں رکھتے ہیں۔ ان کے پاس دوچار چھینی، بسولا، دو ایک آری، کلہاڑی، رندا، اور زنگ آلودہ کچھ چھڑیں بھی ہیں، جنہیں وہ گھر میں لکڑی کے ایک ریک پر رکھتے ہیں۔
لکڑی کو صحیح طریقے سے کاٹنے کے لیے، وہ آری کے الٹے حصہ کا استعمال کر کے لکڑی پر لائنیں کھینچتے ہیں۔ دوری کی پیمائش وہ اپنے ہاتھ سے کرتے ہیں۔ مارکنگ کے بعد، وہ اپنی ۳۰ سال پرانی کلہاڑی سے لکڑی کے کناروں کو کاٹنے لگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’پھر میں سطح کو برابر کرنے کے لیے بسولے کا استعمال کرتا ہوں۔‘‘ نانگول یا ہل کے پھال کو اس طرح گھماؤدار شکل دینا ہوتا ہے کہ مٹی آسانی سے دونوں طرف بٹ جائے۔
وہ بتاتے ہیں، ’’پھال کا شروعاتی حصہ [ہل کا وہ حصہ جو زمین پر رگڑ کھاتا ہے] تقریباً چھ انچ کا ہوتا ہے، اور نوک دار کونے کی طرف اس کی چوڑائی دھیرے دھیرے گھٹ کر ڈیڑھ سے دو انچ رہ جاتی ہے۔‘‘ اس کی موٹائی ۸ یا ۹ انچ ہونی چاہیے، اور آگے کی طرف دو انچ تک پتلی ہونی چاہیے، جہاں اسے لکڑی میں کیلوں سے ٹھوکا جاتا ہے۔
اس حصہ کو پھال یا پال کہا جاتا ہے اور یہ لوہے کی پتی سے بنا ہوتا ہے، جس کی لمبائی تقریباً ۱۲-۹ انچ ہوتی ہے اور چوڑائی ڈیڑھ سے دو انچ ہوتی ہے۔ اس کے دونوں سرے نوک دار ہوتے ہیں۔ ’’دونوں سرے نوک دار ہوتے ہیں، کیوں کہ اگر ایک سرا بگڑ جائے تو کسان دوسرے سرے کا استعمال کر سکتا ہے۔‘‘ حنیف اپنے گھر سے تقریباً تین کلومیٹر دور واقع بیچی ماری بازار کے مقامی لوہاروں سے لوہے کا کام کراتے ہیں۔
بسولے اور کلہاڑی سے لکڑی کے کناروں کو کاٹنے اور شکل دینے میں کم از کم پانچ گھنٹے لگتے ہیں۔ پھر اسے رندے سے چکنا کیا جاتا ہے۔
جب ہل کی باڈی تیار ہو جاتی ہے تو وہ صحیح جگہ پر نشان بناتے ہیں، جہاں بیم کو بیٹھانا ہوتا ہے۔ حنیف کہتے ہیں، ’’سوراخ کا سائز ایش [لکڑی کے بیم] کے سائز کے جتنا ممکن ہو اتنا برابر ہونا چاہیے، تاکہ جُتائی کرتے وقت وہ ڈھیلا نہ ہو جائے۔ عام طور پر یہ ڈیڑھ یا دو انچ چوڑا ہوتا ہے۔‘‘
ہل کی اونچائی کو ٹھیک سے جمانے کے لیے حنیف بیم کے اوپری سرے کے پاس پانچ سے چھ نشان بناتے ہیں۔ ان کا استعمال کر کے، کسان اپنی ضرورت کے مطابق ہل کو جما لیتے ہیں، تاکہ مٹی کو جتنی گہرائی تک جوتنا چاہیں اتنا جوت سکیں۔
حنیف کے مطابق، آرا مشین سے لکڑی کو کاٹنا مہنگا اور تھکا دینے والا ہے۔ ’’اگر میں ۲۰۰ روپے میں ایک لکڑی خریدتا ہوں، تو کاٹنے والے کو ۱۵۰ روپے اور دینے پڑتے ہیں۔‘‘ ہل کو بنانے میں تقریباً دو دن لگ جاتے ہیں اور یہ زیادہ سے زیادہ ۱۲۰۰ روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
جہاں ایک طرف کچھ لوگ ان سے براہ راست رابطہ کرتے ہیں، وہیں حنیف اپنے سامان بیچنے کے لیے درانگ ضلع کے دو ہفتہ واری بازاروں – لالپول اور بیچی ماری – بھی جاتے ہیں۔ ’’کسان کو ہل اور اس سے جڑے اوزار خریدنے کے لیے تقریباً ۳۵۰۰ سے ۳۷۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں،‘‘ وہ بھاری قیمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے خریدار کم ہو گئے ہیں، اور لوگ ہل کرایے پر لینے دینے لگے ہیں۔ ’’ٹریکٹر نے جُتائی کے روایتی طریقہ کی جگہ لے لی ہے۔‘‘
حالانکہ، حنیف رکنے والے نہیں ہیں۔ اگلی صبح وہ اپنی سائیکل پر ہل کی ایک باڈی اور اس کا ہینڈل لاد رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’جب ٹریکٹر مٹی کو کافی نقصان پہنچا چکے ہوں گے…تو لوگ اپنے ہل بنانے والے کے پاس لوٹ آئیں گے۔‘‘
یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) سے ملی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز