شیام لال کشیپ کی موت کے بعد ان کے اہل خانہ کو مقامی لوگوں کے ذریعہ بلیک میل کیا گیا۔
ارّاکوٹ گاؤں کے رہنے والے اس ۲۰ سالہ دہاڑی مزدور نے مئی ۲۰۲۳ میں خود کشی کر لی تھی۔ بیوہ ہو چکیں ان کی بیوی مارتھا (۲۰ سالہ) اس وقت حمل سے تھیں۔
’’یہ خود کشی کا معاملہ تھا۔ لاش کو سب سے قریب کے ہسپتال لے جایا گیا تھا، جو یہاں سے تقریباً ۱۵ کلومیٹر دور ہے،‘‘ شیام لال کی بھابھی سُکمیتی کشیَپ (۳۰ سالہ) بتاتی ہیں۔ وہ ارّاکوٹ گاؤں میں ایک بنجر زمین کے کنارے بنی اپنی چھوٹی سی جھونپڑی کے باہر بیٹھی ہیں۔ ’’پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا کہ ان کی موت میں کسی اور کا ہاتھ نہیں تھا۔‘‘
اُس دن، شیام لال کے کچھ رشتہ دار سرکاری اسپتال سے اُن کی لاش واپس لینے کا انتظار کر رہے تھے تاکہ اسے اپنے گاؤں لے جا سکیں۔ اُدھر گاؤں میں فیملی کے دیگر لوگ ان کی تدفین کا انتظام کرنے میں مصروف تھے۔ ان کے اس طرح چلے جانے سے گھر والوں کو کافی صدمہ پہنچا تھا۔
اسی دوران کچھ مقامی لوگوں نے شیام لال کی فیملی کو بتایا کہ وہ گاؤں میں ان کی آخری رسومات تبھی ادا کرنے دیں گے، جب وہ اپنا مذہب چھوڑ کر ہندو مذہب قبول کر لیں۔
فیملی کے لوگ مزدوری کرکے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔ اس کے علاوہ، چھتیس گڑھ کے بستر ضلع میں ان کے پاس تین ایکڑ زمین بھی ہے، جس پر وہ اپنے استعمال کے لیے چاول اُگاتے ہیں۔ لیکن، ان کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ شیام لال تھے جو کڑی محنت و مزدوری کرکے ہر مہینے تقریباً ۳۰۰۰ روپے کما کر گھر لاتے تھے۔
سُکمیتی کو لگتا ہے کہ شیام لال نے یہ قدم شاید اس لیے اٹھایا، کیوں کہ وہ اس بات کو لے کر فکرمند تھے کہ اتنی غریبی میں وہ اپنے بچے کی پرورش کیسے کر پائیں گے۔ ’’انہوں نے [خود کشی کے بارے میں] کوئی تحریر بھی نہیں چھوڑی تھی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
فیملی کا تعلق ماڈیا قبیلہ سے ہے، جو چھتیس گڑھ میں عیسائیوں کی دو فیصدی آبادی میں شامل ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ بستر خطہ میں رہتے ہیں، جو ریاست کے جنوبی حصے میں پڑتا ہے۔
اسی سال مئی کے دوسرے ہفتے میں ایک دن شیام لال کشیپ اچانک غائب ہو گئے۔ گھر کے لوگ کافی پریشان ہوئے اور انہیں بستر کے جنگلات میں رات بھر ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہے۔
اگلی صبح، گھر سے تھوڑی دور ان کی لاش ایک درخت سے لٹکی ہوئی ملی۔ ’’ہم کافی حیران و پریشان اور صدمے میں تھے۔ ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا،‘‘ سُکمیتی یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں۔
ارّاکوٹ تقریباً ۲۵۰۰ کی آبادی والا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ ’’ایسے موقعوں پر گاؤں والوں سے آپ کو یہی امید رہتی ہے کہ وہ آپ کا ڈھارس بندھائیں گے،‘‘ سُکمیتی کہتی ہیں۔
لیکن، فیملی کے ساتھ کچھ اُلٹا ہی سلوک کیا گیا، انہیں ڈرایا دھمکایا گیا – گاؤں کے رسوخ دار لوگوں نے دائیں بازو کے قائدین کے ساتھ مل کر اُن کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے فرمان جاری کر دیا کہ گاؤں میں شیام لال کی تدفین صرف ایک ہی شرط پر ہو سکتی ہے: فیملی کو عیسائی مذہب چھوڑ کر ہندو مذہب اپنانا ہوگا اور ان کی آخری رسومات ہندو مذہب کے مطابق ادا کرنی ہوگی۔
یہاں عیسائی مذہب کے مطابق تدفین کی اجازت اب نہیں ہے۔
سُکمیتی بتاتی ہیں کہ اُن کی فیملی تقریباً ۴۰ برسوں سے عیسائی مذہب پر عمل کرتی آ رہی ہے۔ ’’اب یہی ہماری زندگی کا طریقہ ہے،‘‘ وہ اپنے دروازے پر لگے صلیب کے نشان (کراس) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’ہم پابندی سے عبادت کرتے ہیں، اور اس سے ہمیں مشکلوں کا سامنا کرنے کی طاقت ملتی ہے۔ آپ ایک جھٹکے میں اپنا مذہب کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟‘‘
دائیں بازو کے حامیوں نے صدمے میں مبتلا اس فیملی کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور ان سے کہا کہ وہ اُس سیمیٹری (عیسائی قبرستان) میں نہیں جا سکتے جہاں وہ گزشتہ کئی سالوں سے اپنے عزیزوں کی تدفین کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سُکمیتی کہتی ہیں، ’’ایک خاص مذہب کو ماننے کی وجہ سے ہمیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن آپ اپنی پسند کے کسی بھی مذہب کو ماننے کے لیے آزاد ہیں۔ خبروں میں تو میں نے یہی پڑھا ہے۔‘‘
یہی نہیں، ’’انہوں نے ہمیں اپنے گھر کے پچھلے حصے میں بھی شیام لال کی تدفین کی اجازت نہیں دی،‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں۔ ’’اُن کی دادی کو ہم نے وہیں دفن کیا تھا۔ ہم تو یہی سوچ رہے تھے کہ دونوں ایک دوسرے کے بغل میں ابدی نیند سوئیں گے۔ لیکن ہمیں اس سے بھی روک دیا گیا کیوں کہ ہم نے اپنا مذہب تبدیل کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔‘‘
شیام لال کی فیملی کا تعلق ماڈیا قبیلہ سے ہے اور یہ لوگ عیسائی مذہب کو مانتے ہیں۔ ان کی موت کے بعد، گاؤں کے رسوخ دار لوگوں نے فرمان جاری کر دیا کہ گاؤں میں شیام لال کی تدفین صرف ایک ہی شرط پر ہو سکتی ہے: فیملی کو عیسائی مذہب چھوڑ کر ہندو مذہب اپنانا ہوگا اور ان کی آخری رسومات ہندو مذہب کے مطابق ادا کرنی ہوگی
ہندو جماعتوں کے ذریعے آدیواسی عیسائیوں کے ساتھ جس قسم کا معاندانہ سلوک کیا جاتا ہے وہ چھتیس گڑھ میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن، بستر میں چھتیس گڑھ عیسائی فورم کے نائب صدر رتنیش بنجامن کا کہنا ہے کہ کسی کی موت کے بعد اس کے اہل خانہ کو بلیک میل کرنے یا دھمکی دینے کا واقعہ اب بہت تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔
دائیں بازو کی جماعتیں اُن خاندانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں، جنہوں نے اپنے عزیزوں کو کھو دیا ہے۔ اور ان پر ظلم کرنے والوں میں غیر عیسائی آدیواسی بھی شامل ہیں۔ ایک گرام سبھا نے تو باقاعدہ ایک قرارداد پاس کرکے عیسائیوں کو گاؤں کی سرحد کے اندر تدفین سے منع کر دیا تھا۔
آخرکار، شیام لال کی لاش کو گاؤں میں لانے کی بجائے سیدھے ضلع کی راجدھانی جگدل پور لے جا کر دفن کیا گیا، جو کہ ارّاکوٹ سے ۴۰ کلومیٹر دور ہے۔ سُکمیتی کہتی ہیں، ’’تدفین سے پہلے ہمیں اپنے عزیز کے بچھڑنے کا ماتم کرنے کی مہلت ملنی چاہیے تھی۔‘‘
شیام لال کی آخری رسومات اتنی تیزی سے ادا کر دی گئی کہ یہ محض ایک خانہ پُری ہو کر رہ گئی تھی۔ فیملی کے لوگوں کا کہنا ہے، ’’ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم نے انہیں ٹھیک سے وداع نہیں کیا۔‘‘
شیام لال کی موت کے بعد گاؤں میں پیدا ہوا تناؤ اُس وقت کئی گنا بڑھ گیا جب ان کے گھر والوں نے ہندو مذہب کو اپنانے سے انکار کر دیا۔ صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے پولیس بلانی پڑی۔ بدقسمتی سے، پولیس بھی اسی نتیجہ پر پہنچی کہ گاؤں میں امن تبھی بحال ہو سکتا ہے جب اکثریتی طبقہ کے مطالبات کو مان لیا جائے۔
بنجامن کہتے ہیں، ’’اس طرح کے معاملے کووڈ کے بعد دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اُس سے پہلے، دائیں بازو کے لوگ عیسائیوں کو الگ الگ طریقے سے ہندو بنانے کی کوشش تو کرتے تھے، لیکن کسی کی موت ہو جانے پر اس کا پورا احترام کیا جاتا تھا۔ اب، وہ بات نہیں رہی۔‘‘
*****
بَستر کا علاقہ معدنیاتی ذخائر سے مالا مال ہے، لیکن یہاں کے باشندوں کا شمار ہندوستان کے سب سے غریب لوگوں میں ہوتا ہے۔ ریاست کے زیادہ تر آدیواسی دیہی علاقوں میں رہتے ہیں، جن میں سے تقریباً ۴۰ فیصد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے کو مجبور ہے۔
یہ خطہ ۱۹۸۰ کی دہائی سے ہی مسلح تصادم کا شکار ہے۔ ماؤ نواز شر پسندوں، یا اسلحہ بردار گوریلاؤں کا دعویٰ ہے کہ وہ آدیواسی برادریوں کے حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور جنگلات کی حفاظت کر رہے ہیں، کیوں کہ ریاست اور امیر کارپوریشنز اُن پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس مسلح تصادم کی وجہ سے، گزشتہ ۲۵ سالوں کے دوران ہزاروں لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ ریاست میں پچھلے ۱۵ سالوں سے زیر اقتدار بی جی پی حکومت کو ۲۰۱۸ کے انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس انتخاب میں کانگریس کو بَستر سمیت سات ضلعوں پر مشتمل بَستر خطہ کی ۱۲ میں سے ۱۱ سیٹوں پر جیت حاصل ہوئی تھی۔
اب، چھتیس گھڑھ میں جلد ہی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، لہٰذا دائیں بازو کی جماعتیں ماحول کو اپنے حق میں کرنے کے لیے زمین پر اتر کر کام کر رہی ہیں، تاکہ ریاست کے اقتدار پر دوبارہ قبضہ کیا جا سکے۔
بَستر میں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ایک سینئر لیڈر روی برہمچاری بتاتے ہیں کہ وی ایچ پی اور بجرنگ دَل نے گزشتہ ڈیڑھ سالوں میں ایسے ۷۰ معاملوں کو درج کیا ہے، جہاں ہندوؤں نے قبائلی عیسائیوں کو اپنے عزیزوں کی آخری رسومات ادا کرنے سے روکا اور ان کے لیے مشکلیں پیدا کیں۔ ’’عیسائی مشنریز (مبلغین) غریبوں کو اپنے جال میں پھنسانے اور ان کی ناخواندگی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم گھر واپسی [ہندو مذہب میں واپس لانا] کراتے ہیں۔ ہمارا کام ہندوؤں کو بیدار کرنا ہے۔ جن لوگوں کو ہماری بات ’سمجھ‘ میں آ چکی ہے، وہ قبائلی عیسائیوں کو گاؤں کے اندر تدفین کرنے سے روک دیتے ہیں۔‘‘
ارّاکوٹ سے تھوڑا فاصلہ پر ایک اور گاؤں ناگلسر ہے، جہاں بجرنگ دَل والوں نے عیسائی مذہب کو ماننے والی ایک قبائلی فیملی کو بہت زیادہ ہراساں کیا۔
پانڈو رام ناگ (۳۲) کی دادی آیتی کا اگست ۲۰۲۲ میں انتقال ہو گیا تھا۔ وہ ۶۵ سال کی تھیں، لیکن بیمار ہونے کی وجہ سے ان کی پرسکون موت ہوئی۔ لیکن، ان کی تدفین پرسکون نہیں طریقے سے نہیں ہو پائی۔
’’جب ہم ان کو قبرستان لے کر جا رہے تھے، تو بجرنگ دل والوں کے ساتھ گاؤں کے کچھ لوگوں نے ہمیں دھکے دینے شروع کر دیے۔ ہم نے اپنا توازن کھو دیا اور میری دادی کی لاش گرتے گرتے بچی۔ ان لوگوں نے لاش کے نیچے کی دری کو بھی کھینچنے کی کوشش کی تھی۔ ہمارے ساتھ یہ سب اس لیے ہوا کیوں کہ ہم نے ہندو مذہب قبول کرنے سے منع کر دیا تھا،‘‘ ناگ بتاتے ہیں، جن کا تعلق دُھروا قبیلہ سے ہے۔
فیملی نے ہار نہیں مانی۔ ناگ اکثریتی برادری کے دباؤ کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں ہوئے۔ ’’ہمارے پاس تین ایکڑ کھیت ہے اور ہم اس پر کچھ بھی کرنے کے لیے آزاد ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم نے دادی کی تدفین وہیں کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔‘‘
بجرنگ دل کے لوگوں کو آخرکار پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس کے بعد تدفین میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں آئی۔ تب بھی، لوگوں کو یہی لگا تھا کہ وہ آیتی کو عزت و احترام کے ساتھ وداع نہیں کر سکے۔ ’’کیا کسی کی آخری رسومات کے وقت امن کی امید رکھنا غلط ہے؟‘‘ وہ سوال کرتے ہیں۔ ’’ہاں، ہم وہ لڑائی جیت گئے۔ لیکن ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے اس ماحول میں بڑے ہوں۔ اُس دن گاؤں کے سرپرستوں نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا۔‘‘
*****
خوف کا یہ عالم ہے کہ جو لوگ دائیں بازو کی جماعتوں سے اتفاق نہیں کرتے، وہ بھی کھل کر سامنے آنے کو تیار نہیں ہیں۔
اسی سال مئی میں، جگدل پور سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور واقع بَستر ضلع کے الوا گاؤں میں کوشا (۶۰ سالہ) کی بیوی ویئر کا انتقال ہو گیا تھا۔ اُس دن وہ اپنی چھوٹی سی جھونپڑی میں بیٹے دتّو رام پویم (۲۳ سالہ) کے ہمراہ بیوی کی لاش کے بغل میں بیٹھے ہوئے تھے۔
تبھی اچانک کچھ لوگ ان کے گھر میں گھس گئے اور انہیں پیٹنا شروع کر دیا۔ ’’گاؤں کے کسی بھی آدمی نے انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی،‘‘ دتّو رام کہتے ہیں۔ ’’ہم نے تمام عمر یہیں پر زندگی گزاری ہے۔ گاؤں کے کسی بھی آدمی میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ہمارا ساتھ دے سکے۔‘‘
اس عیسائی فیملی کا تعلق ماڈیا قبیلہ سے ہے، جنہوں نے اپنا مذہب چھوڑ کر ہندو مذہب قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بجرنگ دل کے ممبران سمیت ہندو افراد کے اس گروپ نے اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا کہ ویئر کی کفن شدہ لاش گھر کے اندر ہی موجود ہے۔ انہوں نے دونوں باپ بیٹے کو اتنا پیٹا کہ کوشا بیہوش ہو گئے اور انہیں ایک ہفتہ کے لیے ہسپتال میں داخل کرانا پڑا تھا۔
’’میں نے اپنی زندگی میں اتنی بے چارگی پہلے کبھی محسوس نہیں کی ہے،‘‘ کوشا کہتے ہیں۔ ’’میری بیوی کا انتقال ہو گیا تھا اور میں اپنے بیٹے کے ساتھ اس کا ماتم بھی نہیں کر سکتا تھا۔‘‘
بنجامن کہتے ہیں کہ غیر بی جے پی حکومت کے ذریعے اقلیتوں کی حفاظت کرنے کا دعویٰ غلط ہے، کیوں کہ ۲۰۱۸ میں کانگریس کی حکومت بننے کے بعد بھی بَستر میں عیسائیوں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔
اُن کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے دتّو رام کو بھی جگدل پور جانا پڑا تھا۔ ’’ہم نے ۳۵۰۰ روپے میں ایک پک اَپ ٹرک کرایے پر لیا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’ہم لوگ مزدوری کرتے ہیں۔ کسی اچھے مہینہ میں ہی ہم اتنا پیسہ کما پاتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ بھلے ہی پریشان کن تھا، لیکن حیران کن بالکل بھی نہیں تھا۔ ’’یہ واقعہ بلا وجہ پیش نہیں آیا تھا۔ ہم لوگوں کو کافی دنوں سے کہا جا رہا تھا کہ اگر عیسائی مذہب کو ماننا ہے، تو ہمیں یہ گاؤں چھوڑنا پڑے گا،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
قبائلی عیسائیوں کو حاشیہ پر دھکیلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ’’ہمیں اب گاؤں کے مشترکہ کنویں سے پانی بھرنے کی بھی اجازت نہیں ہے،‘‘ کوشا کہتے ہیں۔ ’’ہمیں چوری چھپے پانی لانا پڑتا ہے۔‘‘
بَستر کے دوسرے علاقوں سے بھی ایسی خبریں آتی رہتی ہیں۔ دسمبر ۲۰۲۲ میں، نارائن پور ضلع میں ۲۰۰ سے زیادہ قبائلی عیسائیوں کو ان کے گاؤں سے نکال دیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد سینکڑوں مقامی باشندے ضلع کلکٹر کے دفتر کے باہر دھرنے پر بیٹھ گئے، جنہوں نے دائیں بازو کے ہندوتوا گروپوں کی شہ پر خود کو پریشان کیے جانے کے خلاف احتجاج کرنا شروع کر دیا تھا۔
مظاہرین نے کلکٹر کو ایک مکتوب سونپا، جس میں اکیلے دسمبر ۲۰۲۲ کے مہینے میں عیسائی اقلیتوں پر ہوئے درجنوں حملے کا ذکر تھا۔
اُدھر ارّاکوٹ میں، سُکمیتی بتاتی ہیں کہ لوگوں کو پڑوسی گاؤں میں ایک شادی کی تقریب میں جانے سے صرف اس لیے روک دیا گیا، کیوں کہ وہ شادی ایک عیسائی فیملی کی تھی: ’’مجبوراً، انہوں نے مہمانوں کے لیے جو کھانا بنایا تھا اسے پھینکنا پڑا کیوں کہ شادی کی اُس تقریب میں کوئی پہنچ ہی نہیں پایا تھا۔‘‘
آئین (دفعہ ۲۵) بھلے ہی ’’آزادی ضمیر اور آزاد پیشہ، مذہب کو ماننے اور اس کی تبلیغ کرنے‘‘ کی بات کہتا ہو، لیکن قبائلی عیسائیوں کو معاندانہ سلوک اور دھمکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سُکمیتی کہتی ہیں، ’’حالت تو یہ ہو گئی ہے کہ عیسائی فیملی میں کسی کی موت ہو جانے پر ہم اس کا ماتم کرنے کی بجائے خوف و ہراس میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ہمیں اس کی آخری رسومات ادا کرنے کی فکر ستانے لگتی ہے۔ یہ کیسی موت ہے؟‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز