روبیل شیخ اور انل خان ڈرائیونگ کر رہے ہیں…لیکن وہ زمین کے آس پاس بھی نہیں ہیں۔ وہ زمین سے تقریباً ۸۰ ڈگری کی عمودی خط پر تقریباً ۲۰ فٹ اوپر ہیں۔ اگرتلہ کے میلے میں ایک بڑا ہجوم ان کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ روبیل اور انل کار کی کھڑکیوں سے اپنے ہاتھ لہراتے ہیں۔
وہ موت کے کنویں میں اپنا کرتب دکھا رہے ہیں۔ وہ دیواروں (اسٹیج کے کناروں) پر ایک کار اور موٹر سائیکلوں کو عمودی طور پر چلاتے ہوئے کئی اسٹنٹ پیش کر رہے ہیں۔
کھیل کے مظاہرے کو ۱۰ منٹ کے شوز میں منقسیم کر کے گھنٹوں تک جاری رکھا جاتا ہے۔ کنویں کی طرح کا یہ ڈھانچہ لکڑی کے تختوں سے بنا ہوا ہوتا ہے اور انہیں میلے میں کھڑا کرنے میں کئی دن لگتے ہیں۔ گاڑی چلانے والے زیادہ تر ڈرائیور بھی اسٹیج کو ترتیب دینے میں شامل ہوتے ہیں، کیونکہ اسٹیج کی بناوٹ شو اور خود سواروں کی حفاظت کے لیے اہم ہوتی ہے۔
’موت کا کنواں‘ کے نام سے مشہور یہ کھیل، اکتوبر ۲۰۲۳ میں تریپورہ کے اگرتلہ میں درگا پوجا کے میلے کی ایک اہم کشش ہے۔ میلے کے دیگر کھیلوں میں ہنڈولا، میری گو راؤنڈ، ٹوائے ٹرینیں شامل ہیں۔
اسٹنٹ مین روبیل کہتے ہیں، ’’ہم دیوار پر کوئی بھی کار چلا سکتے ہیں، لیکن ماروتی ۸۰۰ کو چلانا آسان ہے کیونکہ اس کی کھڑکیاں چوڑی ہوتی ہیں اور [مظاہرے کے دوران] اس سے باہر نکلنا آسان ہوتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ چار یامہا آر ایکس ۱۳۵ بائک بھی استعمال کرتے ہیں۔ ’’ہم پرانی بائک استعمال کرتے ہیں، مگر ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جاتی ہے۔‘‘
روبیل کا تعلق مغربی بنگال کے ضلع مالدہ سے ہے، اور وہ گروپ کے سربراہ اور گاڑیوں کے مالک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ان موٹر سائیکلوں کا استعمال ۱۰ سال سے زیادہ عرصے سے کر رہے ہیں، لیکن، ’’باقاعدگی سے ان کی سروسنگ اور دیکھ بھال بھی کی جاتی ہے۔‘‘
یہ کھیل دیہی علاقوں کے نوجوان لڑکوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہ بتاتے ہوئے کہ وہ اس کھیل میں کیسے شامل ہوئے، جھارکھنڈ کے گوڈا ضلع سے تعلق رکھنے والے محمد جگا انصاری بتاتے ہیں، ’’بچپن میں جب اس طرح کے میلے میرے شہر میں لگتے تھے، تو مجھے یہ کھیل پسند آتا تھا،‘‘ اور اسی وجہ سے کم عمری میں ہی وہ ایک سرکس میں شامل ہو گئے تھے، اور شروع شروع میں چھوٹے موٹے کاموں میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ انصاری (۲۹) کہتے ہیں، ’’آہستہ آہستہ میں نے اسٹنٹ سیکھنا شروع کر دیا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’مجھے یہ کام اس لیے اچھا لگتا تھا، کیونکہ اس کی وجہ سے میں نے بہت سی جگہوں کا سفر کیا ہے۔‘‘
بہار کے نوادہ ضلع کے وارث علی گنج گاؤں کے رہنے والے پنکج کمار نے بھی یہ کام کم عمری میں ہی شروع کر دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے دسویں جماعت کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی اور گاڑی چلانا سیکھنا شروع کردیا تھا۔‘‘
انصاری اور پنکج کی طرح دوسرے ڈرائیور اور اسٹیج تیار کرنے والے ہندوستان کے الگ الگ علاقوں سے آتے ہیں اور گروپ کے ساتھ مختلف میلوں میں سفر کرتے ہیں۔ وہ عموماً میلوں سے ملحق خیموں میں رہتے ہیں، جہاں ان کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ روبیل اور انصاری جیسے کچھ لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ سفر کرتے ہیں، جب کہ پنکج کام نہ ہونے کی صورت میں گھر واپس لوٹ جاتے ہیں۔
موت کا کنواں بنانے کا کام کنویں جیسا ڈھانچہ کھڑا کرنے سے شروع ہوتا ہے۔ روبیل کہتے ہیں، ’’اسے کھڑا کرنے میں ۳ سے ۶ دن لگتے ہیں، لیکن اس بار ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں تھا، اس لیے اسے تین دن میں مکمل کرنا پڑا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ اگر ان کے پاس زیادہ وقت ہوتا ہے تو وہ اسے آرام سے تیار کرتے ہیں۔
آخرکار، شو کا وقت ہو چکا ہے۔ شام کے تقریباً ۷ بجے ہیں۔ اگرتلہ میں بھیڑ ٹکٹ خریدنے کے لیے قطار میں لگنا شروع ہو گئی ہے۔ ٹکٹ کی قیمت ۷۰ روپے ہے، لیکن بچوں کے لیے یہ مفت ہے۔ ہر پرفارمنس کا دورانیہ ۱۰ منٹ کا ہوتا ہے، جس میں کم از کم چار افراد دو کاروں اور دو موٹر سائیکلوں پر کرتب دکھاتے ہیں۔ وہ ایک رات میں کم از کم ۳۰ دفعہ پرفارم کرتے ہیں اور درمیان میں ۱۵ سے ۲۰ منٹ کا وقفہ لیتے ہیں۔
اگرتلہ کے اس میلے میں یہ شو اتنا مقبول ہوا کہ انہوں نے اپنے پانچ دن کے شو میں مزید دو دنوں کا اضافہ کر دیا۔
انصاری کہتے ہیں، ’’ہماری یومیہ اجرت ۶۰۰ سے ۷۰۰ روپے تک ہوتی ہے، لیکن شو کے دوران لوگ ہمیں جو کچھ دیتے ہیں وہ ہماری آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہوتا ہے۔‘‘ مہینہ اچھا رہا، تو کئی بار اپنے ایکٹ کے ذریعہ وہ ۲۵ ہزار روپے تک کما لیتے ہیں۔
روبیل بتاتے ہیں کہ یہ شو پورے سال نہیں کیا جا سکتا۔ ’’برسات کے موسم میں شو کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘‘ جب یہ کام نہیں ہوتا، تو وہ کھیتی کرنے کے لیے اپنے گاؤں واپس لوٹ جاتے ہیں۔
پنکج اسٹنٹ کے خطرات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں خطروں سے نہیں ڈرتا۔ اگر آپ کو ڈر نہیں لگتا، تو ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔‘‘ گروپ کے لوگ بتاتے ہیں کہ جب سے وہ اس کام میں ہیں، تب سے کوئی جان لیوا حادثہ پیش نہیں آیا ہے۔
روبیل کہتے ہیں، ’’جب ہم پرفارم کرتے ہیں، تو بھیڑ کو خوش ہوتے دیکھنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘
مترجم: شفیق عالم