ہرمن دیپ سنگھ اپنے چاروں طرف بکھری رنگ برنگی پتنگوں کے درمیان کھڑے ہیں۔ وہاں سے کچھ فاصلہ پر، پنجاب اور ہریانہ کے درمیان واقع شمبھو بارڈر پر پولیس نے بڑے بڑے بیریکیڈز لگا رکھے ہیں، تاکہ کسانوں کو دہلی مارچ کرنے سے روکا جا سکے۔
امرتسر سے تعلق رکھنے والے ۱۷ سالہ ہرمن دیپ نے احتجاج کر رہے کسانوں پر آنسو گیس کے گولے گرانے والے ڈرونز کو نیچے اتارنے کے لیے پتنگوں کا استعمال کیا، جو کہ اس حملے کا جواب دینے کا بالکل انوکھا طریقہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں نے اپنی آنکھوں کے ارد گرد ٹوتھ پیسٹ لگا رکھے ہیں، کیوں کہ یہ آنسو گیس کے اثر کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ ہم آگے بڑھیں گے اور اس لڑائی کو ضرور جیتیں گے۔‘‘
ہرمن دیپ پنجاب کے اُن ہزاروں کسانوں اور مزدوروں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے ۱۳ فروری ۲۰۲۴ کو دہلی کی طرف اپنا پر امن مارچ شروع کیا تھا۔ لیکن شمبھو بارڈر پر انہیں پیرا ملٹری، ریپڈ ایکشن فورس (آر اے ایف) کے اہلکاروں، اور پولیس افسران کا سامنا کرنا پڑا۔ کسانوں کو دہلی کے احتجاجی مقام تک پہنچنے سے روکنے کے لیے سڑک پر لوہے کی کیلیں گاڑ دی گئیں اور کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کر دی گئی ہیں۔
جس جگہ پر پہلی بیریکیڈ لگائی گئی ہے، وہاں گُرجنڈ سنگھ خالصہ ایک مجمع سے خطاب کر رہے ہیں اور پانچ بنیادی مطالبات کو دہرا رہے ہیں – یعنی سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کے مطابق کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی گارنٹی، کسانوں اور زرعی مزدوروں کے لیے مکمل قرض معافی، لکھیم پور کھیری قتل عام سے متاثر ہونے والے کسانوں کو انصاف اور گنہگاروں کی گرفتاری، کسانوں اور مزدوروں کے لیے پنشن اسکیم، اور ان کسانوں کے اہل خانہ کو معاوضہ جو ۲۰۲۱-۲۰۲۰ کے احتجاج کے دوران شہید ہوئے تھے۔
سال ۲۱۔۲۰۲۰ میں، ملک بھر کے کسان تین زرعی قوانین – زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ – کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے اکٹھا ہوئے تھے۔ ان قوانین کو ستمبر ۲۰۲۰ میں پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ نومبر ۲۰۲۱ میں حکومت ان قوانین کو منسوخ کرنے کے لیے راضی ہو گئی تھی۔ کسانوں کی اس تحریک سے متعلق پاری کی اسٹوریز پڑھیں: زرعی قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہرے: مکمل کوریج
’’ہم نے اپنا احتجاج کبھی ختم نہیں کیا تھا،‘‘ کرنال کے رہنے والے ۲۲ سالہ گرجنڈ سنگھ خالصہ کہتے ہیں۔ ’’ہم تو بس کچھ دنوں کے لیے رک گئے تھے، کیوں کہ مرکزی حکومت کے ساتھ ہماری میٹنگ چل رہی تھی جس میں مرکزی وزراء نے ہمارے تمام مطالبات کو منظور کر لیا تھا اور انہیں پورا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ہم نے اتنے دنوں تک اس لیے انتظار کیا، کیوں کہ حکومت کے ذریعہ تشکیل کردہ کمیٹی کے ساتھ ہماری بات چیت جاری تھی۔ لیکن دو سال کے بعد، ان میٹنگوں کو اچانک روک دیا گیا اور کمیٹی کو برخاست کر دیا گیا، جس کی وجہ سے ہم دوبارہ احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔‘‘
کسان اور مزدور بڑی تعداد میں سڑک کے سامنے اکٹھا ہو گئے اور سرکاری اہلکاروں کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا دھیان بھٹکانے لگے، تاکہ مظاہرین بارڈر کو پار کر سکیں۔
شمبھو بارڈر پر مظاہرین نے جیسے ہی بیریکیڈز کو توڑنا شروع کیا، دوسری طرف سے پولیس اہلکاروں نے ان کے اوپر آنسو گیس کے گولے برسانے شروع کر دیے، جس کے نتیجہ میں بہت سے لوگ زخمی ہو گئے۔ وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ پولیس مجمع کو تتر بتر کرنے کے لیے ہوا میں آنسو گیس کے گولے داغنے کی بجائے انہیں انفرادی طور پر نشانہ بنا رہی ہے۔ مظاہرین کو وہاں سے بھگانے کے لیے پانی کی بوچھار بھی کی گئی۔ کئی بزرگ کسانوں اور مزدوروں نے اپنی لاٹھیوں سے آنسو گیس کے ان گولوں کو بجھایا۔ ہر گولے کے بجھنے پر مجمع خوشی سے نعرے لگانے لگتا تھا۔
آنسو گیس کے گولوں کو بجھانے والے کسانوں میں سے ایک، امرتسر کے ترپال سنگھ بھی تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہیں، پھر بھی وہ لوگ ہمارے اوپر ربر کی گولیوں، پیلیٹ، پیٹرول بم اور آنسو گیس جیسے ہتھیاروں کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ سڑک تو سبھی کی ہے، ہم تو صرف آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پر امن ہونے کے باوجود ہم پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ فی الحال، ایسا لگتا ہے کہ مجھے شمبھو بارڈر پر قید کر لیا گیا ہے۔‘‘
پچاس سال کے اس کسان کو لگتا ہے کہ حکومت نے انہیں دھوکہ دیا ہے۔ ’’حکومت ایم ایس پی کی گارنٹی نہیں دے رہی ہے، کیوں کہ وہ ان دولت مند کارپوریٹوں کو خوش رکھنا چاہتے ہیں جنہوں نے ان کی پارٹی کو چندہ دیا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ایم ایس پی کی گارنٹی نہ ہونے پر، بڑے کارپوریشنز ان کا استحصال کر سکتے ہیں۔ وہ کسی بھی وقت آ سکتے ہیں، بہت ہی کم قیمت پر ہماری فصلیں خرید سکتے ہیں اور پھر اسے اونچی قیمتوں پر دوسری جگہ بیچ سکتے ہیں۔‘‘ اگر حکومت بڑے کارپوریشنز کا ہزاروں کروڑ کا قرض معاف کر سکتی ہے، تو ترپال سنگھ کا ماننا ہے کہ اسے کسانوں اور مزدوروں کا چند لاکھ یا اس سے کم کا قرض بھی معاف کر دینا چاہیے۔
آنسو گیس کے دھوئیں اور پانی کی بوچھاروں کا سامنا کرنے کے بعد، کئی مظاہرین نے ناکہ بندی کی دوسری پرت کے طور پر سڑکوں پر گاڑی گئی کیلوں کو اکھاڑنے کی کوشش کی۔ تبھی پولیس نے مجمع کے اوپر ربر کی گولیاں برسانی شروع کر دیں، خاص کر ان کی ٹانگوں کو نشانہ بنا کر تاکہ انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جا سکے۔
کچھ ہی منٹوں میں دیکھنے کو ملا کہ زخم کی وجہ سے متعدد کسانوں اور مزدوروں کے خون بہنے لگے ہیں اور انہیں علاج کے لیے خود مختار ڈاکٹروں کے ذریعہ لگائے گئے کیمپوں کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔
’’پچھلے ایک گھنٹہ میں، مجھے ۵۰ زخمیوں کا علاج کرنا پڑا ہے،‘‘ ڈاکٹر مندیپ سنگھ بتاتے ہیں، جو ایسے ہی ایک کیمپ کے انچارج ہیں۔ ’’شمبھو بارڈر پر آنے کے بعد میں نے اتنے مریض دیکھے ہیں کہ اب مجھے ان کی گنتی بھی یاد نہیں،‘‘ ۲۸ سالہ ڈاکٹر کہتے ہیں۔ ہوشیار پور ضلع کے اپنے گاؤں میں، مندیپ ’بابا شری چند جی ہسپتال‘ چلاتے ہیں۔ اس نوجوان ڈاکٹر کا تعلق بھی ایک کاشتکار خاندان سے ہے۔ وہ ۲۰۲۰ میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں بھی شریک ہوئے تھے، جہاں انہوں نے ’یونائٹیڈ سکھ‘ کے نام سے ایک کیمپ لگایا تھا، یہ اقوام متحدہ سے منسلک ایک امدادی اور انسانی راحت کی تنظیم ہے۔
’’مریض ہمارے پاس مختلف قسم کے مسائل لے کر آ رہے ہیں، کسی کو کٹنے کا زخم ہے تو کسی کو گہری چوٹ آئی ہے، اور کئی لوگوں کو سانس لینے میں دشواری پیش آ رہی ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’حکومت کو کسانوں اور ان کی صحت کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہمارا کام تو انہیں منتخب کر کے اقتدار تک پہنچانا ہے، اور ہم یہی کر رہے ہیں،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
گراؤنڈ پر موجود ایک اور ڈاکٹر کا نام ہے دیپکا (۲۵)، جو میڈیکل کیمپ میں مدد کرنے کے لیے ہماچل پردیش کے شملہ سے یہاں آئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’سانس لینے میں تکلیف کے ساتھ ساتھ، لوگوں کو بے چینی اور گھبراہٹ بھی محسوس ہو رہی ہے۔ گھنٹوں تک لگاتار آنسو گیس کے گولوں کی بارش کی وجہ سے وہ پیٹ کے مسائل کی شکایت لے کر آ رہے ہیں۔‘‘
مدد کرنے والوں میں صرف ڈاکٹر ہی نہیں ہیں – بیریکیڈ سے چند میٹر کے فاصلہ پر، کچھ لوگ اپنی ٹرالیاں کھڑی کر کے ہر ایک کے لیے لنگر کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ کئی لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ آئے ہیں۔ گُرپریت سنگھ اپنے چھوٹے بیٹے تیجس ویر کو لے کر آئے ہیں۔ ’’میں اپنے بیٹے کو ساتھ لایا ہوں تاکہ وہ ہماری اس جدوجہد کو اپنی آنکھ سے دیکھ سکے،‘‘ گرپریت کہتے ہیں، جو پٹیالہ سے یہاں آئے ہیں۔ ’’میں اسے یہ سکھانا چاہتا ہوں کہ اپنے حق کے لیے لڑنا کیوں ضروری ہے۔ ہم کسانوں اور مزدوروں کو حکومت کے خلاف اس لیے ایسا کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ وہ ہمارا استحصال کرنے پر بضد ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
احتجاج کے مقام پر چاروں طرف سے انقلابی گیتوں اور نعروں کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ ’’اِکّی دُکّی چک دیانگے، تونڑ چے گوڈا رکھ دیانگے‘‘ [جو دو ٹکے کے لوگ ہیں ان کو اٹھا لیں گے اور ان کی گردن پر اپنا گھٹنہ رکھ دیں گے] نعرہ کے ساتھ لوگ آگے بڑھ رہے ہیں اور دوسروں کو اپنے ساتھ آنے کے لیے متحرک کر رہے ہیں۔
’’میں احتجاج اس لیے کر رہی ہوں کیوں کہ یہ کسانوں کے بنیادی حق کی لڑائی ہے،‘‘ راج کور گل (۴۰) کہتی ہیں۔ چنڈی گڑھ سے تعلق رکھنے والی راج کور کو ہر کوئی جانتا ہے، کیوں کہ ۲۰۲۱ میں چنڈی گڑھ میں کسانوں کے احتجاج کے لیے مشہور مقام، مٹکا چوک پر وہ سب سے آگے تھیں۔
’’ایم سی پی نہ دے کر، حکومت کسانوں کی زندگی کو مشکل بنا رہی ہے۔ صرف اس لیے کہ کارپوریٹ گھرانے پھل پھول سکیں، اور ان لوگوں کا استحصال کیا جائے جو ملک کو کھانا کھلاتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں، ’’لیکن وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز