ایک لڑکے کی طرح پلی بڑھی رمیا پانچویں کلاس سے لڑکی کی شکل میں خود کی پہچان کرنے لگی تھیں۔
’’مڈل اسکول میں مجھے شارٹس پہننے پڑتے تھے اور میرے زانو دکھائی دیتے تھے،‘‘ وہ کہتی ہیں، ’’لڑکوں کے ساتھ بیٹھائے جانے کی وجہ سے مجھے شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔‘‘ اب تقریباً تیس کی ہو چکیں رمیا لال رنگ کی ساڑی پہنتی ہیں اور لمبے بال رکھتی ہیں۔ عورت کی شکل میں انہوں نے خوشی خوشی اپنی پہچان کو اپنا لیا ہے۔
رمیا چینگل پٹّو ضلع کے تیروپورور شہر میں ایک چھوٹے سے امّن (دیوی) مندر کا انتظام و انصرام دیکھتی ہیں۔ ان کی ماں وینگمّا فرش پر ان کے بغل میں ہی بیٹھی ہیں۔ ’’جب وہ [رمّیا کی طرف مخاطب] بڑا ہو رہا تھا، تب اسے چوڑی دار [دو حصے میں بنی عورتوں کی ایک پوشاک]، داونی [آدھی ساڑی] اور کمّل [کرن پھول] پہننا پسند تھا۔ ہم چاہتے تھے کہ وہ لڑکے کی طرح برتاؤ کرے۔ لیکن یہ تو لڑکی بننا چاہتا تھا،‘‘ رمّیا کی ۵۶ سالہ ماں کہتی ہیں۔
چونکہ دیوی کنّی امّا کا مندر فی الحال بند ہے، تو اس خاموشی کا استعمال ہم اس بات چیت کے لیے آرام سے کر سکتے ہیں۔ اس ماں بیٹی کی طرح ایرولر برادری کے لوگ دوپہر میں دیوی کنّی امّا کی پوجا کرنے آتے ہیں۔
رمیا چار بھائی ہیں اور ان کی پرورش اسی ایرولر بستی میں ہوئی ہے۔ ایرولر برادری تمل ناڈو میں چھ خاص طور سے کمزور آدیواسی برادریوں (پی جی ٹی وی) میں شمار ہوتی ہے۔ برادری کے دیگر ممبران کی طرح، ان کے ماں باپ کبھی کبھی کھیتوں، تعمیراتی مقامات اور منریگا (مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم) جیسے مقامات پر یومیہ ۲۵۰ سے ۳۰۰ روپے کی مزدوری پر دہاڑی مزدور کے طور پر کام کیا کرتے تھے۔
’’اُن دنوں لوگ تیروننگئی (ٹرانس خواتین کے لیے تمل لفظ) کے بارے میں زیادہ بیدار نہیں تھے۔ اس لیے جب میں گھر سے باہر نکلتی تھی، تو لوگ پیٹھ پیچھے میرے بارے میں باتیں کیا کرتے تھے،‘‘ رمیا کہتی ہیں۔ ’’وہ کہتے تھے ’وہ لڑکے کی طرح کپڑے پہنتا ہے، لیکن لڑکی جیسا برتاؤ کرتا ہے۔ وہ لڑکا ہے یا لڑکی؟‘ اور اس بات سے مجھے تکلیف پہنچتی تھی۔‘‘
نویں کلاس کے بعد ان کا اسکول چھڑا دیا گیا اور اپنے والدین کی طرح وہ بھی دہاڑی مزدور کا کام کرنے لگیں۔ رمیا دوسروں کے سامنے خود کو لڑکی ہی بتاتی تھیں، اور ان کی ماں بتاتی ہیں کہ انہوں نے رمیا کو بات بات پر ٹوکنا جاری رکھا کہ انہیں ’’لڑکے کی طرح برتاؤ کرنا چاہیے۔‘‘ انہیں اس کی فکر تھی کہ برادری کے دوسرے لوگ رمیا کے اس طور طریقے کو دیکھ کر کیا کہیں گے۔
جب وہ ۲۰ سال کی ہونے والی تھیں، تو انہوں نے گھر والوں سے اپیل کی کہ انہیں گھر چھوڑ کر جانے دیا جائے، تاکہ وہ اپنی مرضی کی زندگی بسر کر سکیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب ان کی ماں اور آنجہانی والد رام چندرن ان کی بات سنجیدگی سے سننے لگے تھے۔ ’’ہمارے چار بیٹے تھے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں بیٹی نہیں ہے، تو اسے بیٹی ہی مان لیتے ہیں،‘‘ وینگمّا کہتی ہیں۔ ’’لڑکا ہو یا لڑکی، آخر ہماری ہی اولاد تھی۔ میں اسے گھر چھوڑ کر کیسے جانے دے سکتی تھی۔‘‘
اور اس طرح رمیا کو گھر کے اندر ہی عورتوں کے کپڑے پہننے کی اجازت دے دی گئی۔ وینگمّا کے من میں ٹرانس خواتین کی ایک جو پرانی شبیہ بنی ہوئی تھی اس سے انہیں ڈر لگتا تھا، اس لیے انہوں نے اپنی بیٹی کو آگاہ کیا، ’’نی کڑئی ایرکوڈادھو،‘‘ جس کا مطلب تھا کہ رمیا کو پیٹ پالنے کے لیے ایک دکان سے دوسری دکان جانے کی ضرورت نہیں۔
’’حالانکہ، اندر سے میں خود کو ایک عورت ہی سمجھتی تھی، لیکن باہر لوگ مجھے ایک مرد ہی سمجھتے رہے، جس کی داڑھی مونچھیں تھیں اور جس کے طور طریقے عورتوں کی طرح تھے،‘‘ رمیا کہتی ہیں۔ سال ۲۰۱۵ میں انہوں نے اپنے بچائے ہوئے سارے پیسے خرچ کر ڈالے اور ایک لاکھ روپے لگا کر جینڈر افرمیشن سرجری (جنسی توثیق کی سرجری) اور لیزر ہیئر ریمووَل (بال نکلوانے کا پروسیس) کروایا۔
تیروپورور سے ۱۲۰ کلومیٹر دور، پڈوچیری کے مہاتما گاندھی میڈیکل کالج اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں جینڈر افرمیشن سرجری کرانے میں انہیں ۵۰ ہزار روپے خرچ کرنے پڑے۔ مہنگا اور دور ہونے کے بعد بھی اس اسپتال کا انتخاب انہوں نے اس لیے کیا، کیوں کہ اس کا نام ان کی ایک دوست نے بتایا تھا۔ تمل ناڈو کے چنندہ سرکاری اسپتالوں میں مفت سرجری کی سہولت موجود ہے۔ اس کے علاوہ، وہاں سے ۵۰ کلومیٹر دور چنئی کے ایک کیلنک میں چہرے پر اُگ آئے بالوں کو ہٹانے کے لیے چھ سے بھی زیادہ سیشن میں کیے گئے علاج پر انہوں نے اضافی ۳۰ ہزار روپے خرچ کیے۔
اس دوران اسپتال میں ان کے ساتھ ایک ایرولا تیروننگئی ولرمتی ان کے ساتھ رہیں۔ سرجری سے کچھ پہلے اسپتال کے بستر پر بیٹھی رمیا نے اپنے اس بڑے فیصلہ کے نتائج کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا۔ انہوں نے ان ٹرانس خواتین کے بارے میں سن رکھا تھا جن کے آپریشن کامیاب نہیں ہو پائے تھے، ’’یا تو ان کے عضو پوری طرح الگ نہیں کیے گئے تھے یا انہیں پیشاب کرنے میں پریشانی ہوتی تھی۔‘‘
بہرحال، ان کا آپریشن کامیاب رہا، اور ’’مجھے لگا کہ میرا دوسرا جنم ہوا ہے،‘‘ رمیا کہتی ہیں۔ ’’اس آپریشن کے بعد ہی میرے والدین نے مجھے رمیا پکارنا شروع کیا۔ اس سے پہلے وہ مجھے پنتی [پچھلے] نام سے بلاتے تھے۔
ان کو لگتا ہے کہ آپریشن کے بعد سے ان کے آس پاس کی عورتوں کا ان کے تئیں نظریہ بدل گیا ہے۔ اب انہیں لگتا ہے کہ میں بھی ان میں سے ایک ہوں اور ’’اب تو وہ جب ہم باہر جاتے ہیں، تو ہمارے ساتھ بیت الخلاء بھی چلی جاتی ہیں،‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں۔ رمیا ۱۴ ممبران پر مشتمل ’کاٹّو ملّی ایرولر پینگل کوڈو‘ نامی خواتین کے ایک سیلف ہیلپ گروپ کی سرپرست بھی ہیں۔
وہ لائسنس شدہ اسنیک کیچر (سانپ پکڑنے والی) ہیں، اور وہ اور ان کے بھائی زہر مخالف دوائیں بنانے کے مقصد سے ایرولر اسنیک کیچر انڈسٹریل کوآپریٹو سوسائٹی کو سانپ کی سپلائی کرنے کا کام کرتے ہیں۔ بغیر مانسون والے چھ مہینوں میں وہ اس کام کے عوض ۳۰۰۰ روپے ہر مہینہ کماتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دہاڑی مزدوری بھی کرتی ہیں۔
پچھلے سال ۵۶ خاندانوں کی ان کی ایرولر برادری کو ایک نئے سرکاری رہائشی علاقے – سیم بکّم سُنّامبو کلوی میں دوبارہ آباد کیا گیا، جو تیروپورور شہر سے پانچ کلومیٹر دور ہے۔ رمیا نے سرکاری اہلکاروں سے مل کر نہ صرف علاقے میں نئے سرے سے بجلی کی سپلائی کو یقینی بنایا، بلکہ شناخت سے متعلق دستاویز بھی بنوانے کا راستہ تیار کر دیا۔
ان کے شہری اور سیاسی رول دن بہ دن مضبوط ہو رہے ہیں۔ پچھلے پنچایت الیکشن کے دوران، ۲۰۲۲ میں انہوں نے اپنی برادری کو ووٹ ڈالنے کا حق دلانے کے لیے احتجاجی مظاہرے کی قیادت کی۔ سیم بکّم پنچایت کے غیر ایرولر ممبران نے ان کے ووٹنگ سے متعلق حقوق کی مخالفت کی تھی۔ ’’اب میری کوشش اپنی بستی کو خصوصی وارڈ کا درجہ دلانے کی ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ انہیں اُس دن کا انتظار ہے جب وہ خود پنچایت انتخاب لڑیں گی اور جیت کر اپنی برادری کی ترقی کریں گی۔ ’’ہر آدمی کو وہ زندگی ملنی چاہیے جو اسے پسند ہے۔‘‘
سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، پوری ریاست میں ایرولر برادری کے ممبران کی تعداد تقریباً دو لاکھ ہے۔ ’’ہمارے لیے لڑکی ہو یا لڑکا یا تیروننگئی ، ہم اسے اپنی اولاد کے طور پر قبول کرتے ہیں اور اسے اچھی سہولیات دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ کچھ حد تک ہمارے خاندانی حالات پر بھی منحصر ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ان کے دوست ستیہ وانی اور سریش جو تیس سال کے ہونے والے ہیں اور ایرولر برادری کے ہی ہیں، ۱۰ سالوں سے شادی شدہ ہیں۔ سال ۲۰۱۳ سے ہی دونوں تیروپورور سے ۱۲ کلومیٹر دور کُنّ پٹّو میں ایک ایرولر بستی میں ترپال سے ڈھکی پھوس کی ایک جھونپڑی میں رہ رہے ہیں۔
بڑے ہوتے ہوئے ٹرانس کے طور پر آرام سے زندگی بسر کر پانے کا کریڈٹ رمیا اپنی برادری اور ولرمتی جیسی دوستوں کو دیتی ہیں۔ رمیا کے گھر کے باہر بیٹھیں دونوں آڈی تیروویڈا جیسے تہواروں کی یادیں شیئر کرتی ہیں کہ انہیں تمل مہینہ آڈی میں کیسے منایا جاتا تھا، اور ماملّ پورم (مہابلی پورم کے نام سے زیادہ مشہور) کے کنارے ایرولر برادری کے سالانہ اجتماع ماسی مگم کو کیسے منعقد کیا جاتا تھا۔ یہ وہ جگہیں ہیں جن کے ساتھ دونوں کا جذباتی رشتہ رہا ہے۔
ان تقریبات میں انہیں ’’لڑکیوں کی پوشاک میں‘‘ رقص پیش کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا، ولرمتی بتاتی ہیں۔ وہ بڑی بے صبری سے آڈی تہوار کا انتظار کرتی تھیں اور ان کو اکثر حیرت ہوتی ہے کہ وہ روزانہ ویسے کپڑے کیوں نہیں پہن سکتی تھیں!
’’ہم ان دنوں کی سہیلیاں ہیں جب ہم پینٹ شرٹ پہنتی تھیں،‘‘ رمیا کہتی ہیں۔ ان کی ملاقات کلاس ۶ کے دوران ہوئی تھی، جب ولرمتی کی ماں کا انتقال ہو گیا تھا اور وہ اپنے والد اور دو بھائی بہنوں کے ساتھ کانچی پورم شہر سے ایڈیان کُپّم آ گئی تھیں۔ یہ تیروپورور شہر کے پاس کی ایک چھوٹی سی ایرولر بستی تھی۔ دونوں اپنے جذبات اور تشویشیں ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتی تھیں، اور انہیں کم عمر میں ہی اپنی مشترکہ خواہشوں کا پتہ لگ گیا تھا۔
*****
اپنی فیملی میں پہلے پیدا ہوئے ’بیٹے‘ کے طور پر ولرمتی کی صنفی شناخت نے ان کے والد کے ساتھ ان کے رشتوں کو تلخ بنا ڈالا تھا۔ نوجوانی کی شروعات میں ہی انہیں اسکول کی پڑھائی چھوڑ دینی پڑی اور وہ ۳۵ کلومیٹر دور رہنے والے تیروننگئی خاندان میں شامل ہونے کے ارادے سے اپنے گھر سے بھاگ گئیں۔ ’’میں دوسری تیروننگئیوں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہنے لگی۔ ہمیں ایک گرو یا امّا نے اپنے آغوش میں لے لیا تھا۔ وہ خود بھی ایک بالغ ٹرانس خاتون تھیں۔‘‘
تین سال تک ولرمتی کا کام مقامی دکانوں میں گھوم گھوم کر لوگوں کو دعا دینے کے عوض ان سے پیسے لینے کا تھا۔ ’’مجھے اسکول کی طرح، اس کام پر روزانہ جانا ہوتا تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ انہیں اپنی پوری کمائی جو ان کے حساب سے لاکھوں میں ہوا کرتی تھی، اپنی گرو کو دے دینی پڑتی تھی۔ اسی دوران انہیں اپنا ایک لاکھ کا وہ قرض بھی چکانا تھا جسے انہوں نے مبینہ طور پر اپنی گرو سے اپنی جینڈر افرمیشن سرجری اور اس سے وابستہ رسم و رواج اور جشن کے لیے لیا تھا۔
چونکہ ولرمتی کو اپنے گھر پیسے بھیجنے اور فیملی سے ملنے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے انہوں نے اس گھر سے باہر نکلنے کے لیے ایک دوسری گرو کی مدد لی۔ جرمانہ کے طور پر انہیں ۵۰ ہزار روپے اُس گرو کو ادا کرنے پڑے، جن کی ٹرانس فیملی کو چھوڑ کر وہ نئے تیروننگئی خاندان میں شامل ہو رہی تھیں۔
’’میں نے اپنے والد سے وعدہ کیا تھا کہ اپنے گھر پیسے بھیجوں گی اور اپنے بھائی بہنوں کی مدد کروں گی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ان کے جیسی کم پڑھی لکھی ٹرانس کے لیے، جو اپنی نوجوانی کے آخرے سرے پر تھی، اور جس کے پاس کام کرنے کے زیادہ مواقع نہیں تھے، پیسے کمانے کے لیے انہیں سیکس ورکر کے طور پر کام کرنا پڑا اور پیسوں کے عوض لوگوں کو دعا دینے کے کام کے لیے شہر کے باہری علاقوں میں ٹرین کا سفر کرنا پڑا۔ ایسے ہی سفر کے دوران ان کی ملاقات راکیش سے ہوئی، جو اس وقت شپنگ یارڈ میں کام کرتے تھے اور تقریباً تیس سال کے تھے۔
پیار میں پڑنے کے بعد اس جوڑے نے رسم و رواج کے ساتھ ایک دوسرے سے شادی کر لی اور ۲۰۲۱ سے ساتھ رہنے لگے۔ تیروپورور میں اچھا گھر نہ مل پانے کی وجہ سے، یا جہاں مکان مالک ان کے ساتھ عزت سے پیش آتا ہو، وہ شروع شروع میں ایڈیان کُپّم میں ولرمتی کے والد ناگپّن کے گھر میں رہنے لگے۔ ناگپّن نے بھلے ہی انہیں اپنے گھر میں جگہ دے دی تھی، لیکن وہ دونوں کو دل سے قبول نہیں کر سکے، اس لیے وہ ان کے گھر کو چھوڑ کر پاس میں ہی ایک کرایے کی جھونپڑی میں رہنے لگے۔
’’میں نے وصول [گھوم گھوم کر پیسے مانگنے کا کام] کے لیے جانا بند کر دیا۔ حالانکہ، تالیاں بجانے کے عوض چند ہزار روپے کما لینے کا کام آسان تھا، لیکن راکیش کو یہ پسند نہیں تھا،‘‘ ولرمتی کہتی ہیں۔ وہ اپنے والد کے ساتھ پاس کے ہی ایک میرج ہال میں کام کرنے لگیں۔ وہ عمارت کے ساتھ ساتھ برتنوں کی صفائی بھی کرتی تھیں، جس کے عوض انہیں روزانہ ۳۰۰ روپے ملتے تھے۔
’’اس نے مجھے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ مجھے اس کی یہ بات اچھی لگی،‘‘ راکیش نے یہ بات اس رپورٹر سے ۲۰۲۲ کے دسمبر میں ملاقات کے وقت کہی۔ اس نے ولرمتی کو اس وقت مالی اور جذباتی سہارا دیا، جب وہ جینڈر افرمیشن سرجری کے بعد بریسٹ انہانسمنٹ کے عمل سے گزر رہی تھیں۔ دونوں نے سرجری اور اس کے بعد کی صحت یابی کے عمل میں ایک لاکھ سے بھی زیادہ روپے خرچ کیے۔ ’’سرجری کے بارے میں سبھی فیصلے میں نے لیے تھے۔ میں نے یہ سب کسی دوسرے کو دیکھ کر نہیں کرایا تھا۔ یہ میری اپنی مرضی تھی، اور میں وہ بننا چاہتی تھی جو میں تھی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
شادی کے بعد، ولرمتی کی سالگرہ پر دونوں کیک خریدنے کے لیے گئے۔ انہیں دیکھتے ہی دکاندار نے ان کی طرف کچھ سکّے بڑھا دیے۔ اسے لگا کہ وہ وصول کے لیے آئی ہیں۔ انہیں برا بھی لگا، لیکن انہوں نے اپنے آنے کی وجہ بتائی۔ تب دکاندار نے ان سے معافی مانگی۔ اُس رات ولرمتی نے اپنے شوہر اور بھائی بہنوں کی موجودگی میں کیک کاٹا اور موج مستی کے ساتھ اپنی یادگار سالگرہ منائی۔ جوڑے نے ولرمتی کے دادا جی سے ملاقات کر کے ان کا بھی آشیرواد لیا۔
دوسری بار، انہیں یاد ہے، دیر سے لوٹنے کے سبب پولیس نے ان کی بائک روک دی تھی۔ انہوں نے پولیس کو تالی [ایک طرح کا منگل سوتر] دکھائی۔ دونوں کے ڈر کے برعکس، پولیس کو انہیں دیکھ کر حیرت ہوئی۔ انہوں نے انہیں مبارکباد دی اور جانے دیا۔
اگست ۲۰۲۴ میں سرکاری نوکری لگ جانے کے بعد راکیش چنئی چلے گئے۔ ’’انہوں نے میرا کال اٹھانا بند کر دیا اور اس کے بعد واپس نہیں لوٹے،‘‘ ولرمتی کہتی ہیں۔ اپنے والد کے کہنے پر وہ راکیش کو تلاش کرنے چنئی بھی گئیں۔
’’راکیش کے والدین نے مجھے سمجھایا کہ میں اسے جانے دوں، تاکہ وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی کر سکے جس سے اس کے بچے ہو سکیں۔ میں نے اس کے ساتھ اپنی شادی رجسٹر نہیں کرائی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ وہ مجھے چھوڑ کر کبھی نہیں جائے گا،‘‘ ولرمتی نے طے کیا ہے کہ اب اس کے لوٹنے کا انتظار نہیں کریں گی، اور چنئی میں اپنے تیروننگئی خاندان کے درمیان لوٹ گئیں۔
ان تکلیفوں کے بعد بھی، انہوں نے کم آمدنی والی برادریوں سے آئیں دو چھوٹی ٹرانس لڑکیوں کی پرورش کرنے کی ذمہ داری لی ہے۔ انہوں نے ان لڑکیوں کو اپنے تیروننگئی خاندان میں گود لے لیا ہے۔ ان میں سے ایک بڑی ہو کر پولیس افسر بننا چاہتی ہے اور ولرمتی کو یقین ہے کہ ان کی مدد سے ایک دن اس کا خواب پورا ہو سکے گا۔
مترجم: محمد قمر تبریز