’’بھوک کے علاوہ اور کئی دوسری چیزیں ہیں جنہیں شراب پینے کے بعد آسانی سے بھلایا جا سکتا ہے،‘‘ سنگدھوئی گاؤں کے ربیندر بھوئیاں کہتے ہیں۔
عمر کی پانچویں دہائی میں چل رہے بھوئیاں ایک سبر آدیواسی ہیں (جو مغربی بنگال میں ’سَوَر‘ کے طور پر درج ہے)۔ مُنڈا آدیواسی برادری سے تعلق رکھنے والے سبر، ہندوستان کے مشرقی علاقوں میں رہتے ہیں، جہاں انہیں ساؤڑا، سورا، شبر اور سوری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ لودھا سبر زیادہ تر مغربی میدنی پور (غیر منقسم) میں رہتے ہیں، جب کہ کھریا سبر بنیادی طور پر پرولیا، بانکورہ اور مغربی میدنی پور (غیر منقسم) میں آباد ہیں۔
مہاشویتا دیوی نے اپنی کتاب ’دا بُک آف ہنٹر‘ (جو سب سے پہلے بنگلہ میں ’بیادھ کھنڈ‘ کے نام سے ۱۹۹۴ میں شائع ہوئی تھی) میں اس برادری کی شدید غربت اور کسمپرسی کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اب کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ان کی حالت میں کوئی خاطرخواہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔ سال ۲۰۲۰ کی ایک رپورٹ بعنوان لیونگ ورلڈ آف آدیواسیز آف ویسٹ بنگال (مغربی بنگال کے آدیواسیوں کی دنیا) میں کہا گیا ہے، ’’سروے کیے گئے ۶۷ فیصد گاؤوں بھکمری کے شکار پائے گئے۔‘‘
اس برادری پر ۱۸ویں صدی کے دوسرے نصف میں ’کرمنل ٹرائب‘ کا لیبل لگا دیا گیا تھا، لیکن آزادی کے بعد ۱۹۵۲ میں اسے ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا۔ روایتی طور پر شکاری ہونے کے سبب یہ اپنے گزارہ کے لیے جنگل میں جانوروں کے شکار کے علاوہ پھل، پتوں اور قند جمع کرنے پر منحصر ہیں۔ آزادی کے بعد، حکومت نے ان میں سے کچھ لوگوں کو کھیتی کے لیے زمینیں بھی دیں، لیکن یہ زیادہ تر پتھریلی اور بنجر زمینیں تھیں۔ مجبوراً برادری کے زیادہ تر لوگ آج مہاجر مزدور کے طور پر زندگی بسر کرنے کو مجبور ہیں۔ ڈی نوٹیفکیشن کے بعد بھی ان پر لگا داغ مٹا نہیں ہے، اور وہ آج بھی ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگانے والی مقامی پولیس اور فاریسٹ سروس کے رحم و کرم پر جی رہے ہیں۔
آمدنی کے گنے چنے مواقع کے سبب مغربی میدنی پور اور جھاڑ گرام ضلعوں کی سبر برادری کے لیے بھوک سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بھوئیاں کی طرح کئی لوگ اپنی اپنی بھوک کو مارنے کے لیے شراب کا سہارا لیتے ہیں، یا ’’ہم دن میں تینوں وقت پانتا بھات [خمیر والا چاول] کھاتے ہیں۔ ہم اسی کو کھا کر زندہ ہیں،‘‘ تپو وَن گاؤں کے ۵۵ سالہ بنکم ملک کہتے ہیں۔ ملک کا اشارہ عوامی تقسیم کے نظام (پی ڈی ایس) کی طرف ہے، جہاں سے گھر کے ہر ایک ممبر کو ماہانہ پانچ کلو چاول ملتا ہے۔ ’’ہمارے لیے نمک یا تیل تو شاہی چیز بن گئی ہے۔‘‘ وہ اپنے خستہ حال گھر کے سامنے بیٹھ کر پانتا بھات کھا رہے ہیں۔
اپنی معمولی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سبر آدیواسی جنگل کے وسائل پر منحصر ہیں۔ گرمی کے مہینوں – ویشاکھ، جئیشٹ اور مانسون کے مہینے آشاڑھ – میں برادری کے لوگ جنگلی پھل اور قند اکٹھا کرتے ہیں اور چڑیا کے بچوں، سانپوں، گوساپ (بنگال مانیٹر چھپکلی)، مینڈک اور گھونگھے پکڑتے ہیں۔ وہ کھیتوں کے مینڈک، بڑے گھونگھے، چھوٹی مچھلیاں اور کیکڑے کا بھی شکار کرتے ہیں۔
بعد میں شراون، بھادر اور اشون کے مہینوں میں سبر لوگ ندیوں میں مچھلیاں پکڑتے ہیں۔ کارتک، اگہن اور پوش میں برادری کے لوگ اُن دھان کو زمین کھود کر نکالتے ہیں جسے چوہے اپنی بلوں میں جمع کیے رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے، وہ کھیتوں میں ان چوہوں کو بھی پکڑتے ہیں۔ جاڑے کے مہینے ماگھ، اور وسنت کے مہینے پھالگن اور چیتر میں وہ چھوٹے جانوروں کا شکار کرتے ہیں، اور جنگلی پھل اور چاک (شہد کے چھتے) چنتے ہیں۔
حالانکہ، دوسری آدیواسی برادریوں کی طرح سبر آدیواسی بھی جنگلوں میں داخل ہونے سے پہلے اب تھوڑا ڈرنے لگے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنی خوراک کی تلاش میں نکلے بھوکے جنگلی جانور کافی حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ان کے سامنے آنے سے ان کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
جوگا ملک (۵۲ سالہ) مذاقیہ لہجے میں کہتے ہیں، ’’اندھیرا ہونے کے بعد ہم گاؤں سے باہر نہیں نکلتے ہیں، کوئی بہت زیادہ بیمار ہو جائے تو بھی نہیں۔ راستہ دینے کی بات تو دور ہے، ہاتھیوں کے جھنڈ آپ کو دیکھ کر ہلتے تک نہیں ہیں، گویا ان کے پاس گاؤں کے لوگوں کو دکھانے کے لیے اپنا آدھار کارڈ ہے۔‘‘
تقریباً ۶۰ سال کی عمر کے شکرا نائک بھی تپو وَن گاؤں میں ہی رہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہاں ہاتھیوں کی موجودگی ’’بیحد جوکھم بھری ہے۔ ہاتھی جنگل میں کہیں بھی نظر آ جاتے ہیں، اور اکثر وہ خطرناک طریقے سے حملہ آور بھی ہو جاتے ہیں۔ وہ نہ صرف لوگوں پر حملہ کر دیتے ہیں، بلکہ دھان کے کھیتوں، کیلے کے درختوں اور ہمارے گھروں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘
ان کے پڑوسی اور بیناشولی گاؤں میں ہی رہنے والے جتن بھکتا فکرمند لہجے میں کہتے ہیں، ’’اگر ہم جنگل نہیں جائیں گے، تو کھائیں گے کیا؟ صرف پانتا بھات کھاتے کھاتے ہم ہفتوں گزار دیتے ہیں۔‘‘
ناکافی خوراک کے سبب سبر آدیواسی ٹی بی جیسی بیماریوں میں آسانی سے مبتلا ہو جاتے ہیں۔ سارتھی ملک ٹی بی کی مریض ہیں، جو علاج کرانے کے لیے طبی کیمپوں میں جاتی رہی ہیں۔ لیکن اب وہاں نہیں جانا چاہتی ہیں۔ وجہ بتاتے ہوئے بیناشولی گاؤں کی یہ خاتون کہتی ہیں: ’’میں اپنی فیملی میں اکیلی عورت ہوں۔ اگر مجھے اسپتال میں داخل کر لیا گیا تو میرے گھر کے کام کاج کون دیکھے گا؟ جنگل میں میرے شوہر کے ساتھ پتّے کون اکٹھا کرے گا؟‘‘ اور پھر، جانچ کے لیے اسپتال آنے جانے میں بہت پیسے خرچ ہو جاتے ہیں۔ ’’ایک طرف سے جانے یا لوٹنے میں ۵۰ سے ۸۰ روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ خرچ اٹھانا مشکل ہے۔‘‘
سبر کنبوں کی آمدنی کا سب سے بڑا حصہ شال (شوریا روبسٹا) درخت کے پتے اکٹھا کرنے اور انہیں بیچنے سے آتا ہے۔ یہ کافی محنت طلب کام ہے۔ شال کے درخت کی لکڑی بہت سخت اور مضبوط ہوتی ہے اور ہندوستان میں سب سے زیادہ استعمال میں لائی جاتی ہے۔ دلیپ موہنتی کہتے ہیں، ’’اس سال ان پتیوں کی سپلائی میں بہت کمی آئی ہے۔ سبر آدیواسی ہاتھیوں کے ڈر سے اب جنگلوں میں نہیں جانا چاہتے ہیں۔‘‘ دلیپ، اوڈیشہ کے خریدار ہیں اور ان پتیوں کے کاروبار کے سلسلے میں باقاعدگی سے منڈی جاتے ہیں۔
کوندا بھکتا، جو جتن کے پڑوسی ہیں، بھی اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ خطرے سے بھرا کام ہے۔ ’’عام طور پر ہم گروپوں میں جنگل جاتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک کام ہے، اور جنگل سانپوں اور ہاتھیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہم صبح کو تقریباً ۶ بجے جنگل میں جاتے ہیں اور دوپہر تک لوٹ آتے ہیں۔‘‘
پتوں کو اکٹھا کیے جانے کے بعد انہیں سُکھایا جاتا ہے اور تب، ’’ہم اسے ایک سائیکل پر لاد کر نزدیکی ہاٹ میں لے جاتے ہیں، جو ہفتے میں ایک بار سنیچر کے دن لگتی ہے۔ ہاٹ میں اوڈیشہ سے ان پتوں کے خریدار آتے ہیں اور ہزار پتوں کے ایک بنڈل کا ہمیں ۶۰ روپے ادا کرتے ہیں۔ اگر میں ہفتے میں چار بنڈل بیچتا ہوں، تو میں ۲۴۰ روپے کما سکتا ہوں،‘‘ جتن بھکتا بتاتے ہیں۔ ’’یہاں کے زیادہ تر کنبوں کی یہی اوسط آمدنی ہے۔‘‘
ریاست نے پردھان منتری آواس یوجنا (پی ایم اے وائی) کے تحت برادری کے لوگوں کے لیے رہائشی اسکیم کی شروعات کی ہے۔ مگر ۴۰ سالہ سابتری ملک کہتی ہیں، ’’ہم یہاں نہیں رہ سکتے ہیں۔‘‘ اینٹ سیمنٹ اور ایسبسٹس کی چھت والے ان گھروں میں گرمی کے دنوں میں رہنا ناقابل برداشت ہو جاتا ہے، جب یہاں کا اوسط درجہ حرارت ۴۳ ڈگری سیلسیس کو چھونے لگتا ہے۔ ’’مارچ سے جون تک جب گرمی اپنے شباب پر ہوتی ہے، تب ہم یہاں کیسے زندہ رہ سکتے ہیں؟‘‘
بیناشولی اور تپو ون جیسے گاؤوں میں کچھ پرائیویٹ پرائمری اسکول ہیں، جنہیں کاجلا جن کلیان سمیتی (کے جے کے ایس) نام کی ایک غیر سرکاری تنظیم نے قائم کیا ہے۔ یہ غیر سرکاری تنظیم اس علاقے میں سبر برادری کے معیار زندگی کو بہتر کرنے کی سمت میں کام کر رہی ہے۔ یہاں شرح خواندگی ۴۰ فیصد ہے، جو ریاست اور ملک کی سطح سے بہت نیچے ہے۔ تقریباً ایک تہائی آدیواسی بچے سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں داخل نہیں ہوئے ہیں – سال ۲۰۲۰ کی ایک رپورٹ یہ بتاتی ہے۔ رپورٹ میں طلباء کے اسکول نہیں آنے کی وجوہات کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جن میں ذات پر مبنی تفریق، اسکول سے دوری، تعلیمی اخراجات کو برداشت نہیں کر پانا اور روزگار کی گارنٹی کی کمی جیسے اسباب اہم ہیں۔
’’جب برادری کے پاس آمدنی کے معقول ذرائع نہ ہوں، تب بچوں کو اسکول بھیجنا ایک آسائش ہے،‘‘ کے جے ایس کے سربراہ سوپن جانا کہتے ہیں۔
پلّوی سین گپتا کہتی ہیں کہ طبی سہولیات کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ جرمن ڈاکٹروں کے ساتھ کام کرنے والی سین گپتا بتاتی ہیں، ’’ان کے لیے اپنا ایکس رے کرانا بھی مشکل کام ہے، کیوں کہ قریب میں کوئی پرائمری ہیلتھ سنٹر نہیں ہے۔ مجبوراً ان کو روایتی طریقے سے علاج کرنے والوں کی پناہ میں جانا پڑتا ہے۔‘‘ یہ ایک فلاحی تنظیم ہے، جو اس علاقے کے آدیواسیوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کا کام کرتی ہے۔ اس پورے علاقے میں اور یہاں پر، سانپ کا کاٹنا بھی عام بات ہے اور ناکافی طبی سہولیات کے سبب روایتی طبیب یا جھولا چھاپ ڈاکٹر ہی گاؤں والوں کا علاج کرتے ہیں۔
درج فہرست قبائل کی شماریاتی پروفائل ، ۲۰۱۳ کے اعداد و شمار کے مطابق، مغربی بنگال میں سبر آدیواسیوں کی تعداد ۴۰ ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ برادری آج بھی بھکمری کی مار جھیل رہی ہے۔
سال ۲۰۰۴ میں میدنی پور ضلع، جو اب جھاڑ گرام ضلع کہلاتا ہے، میں سبر برادری کے گاؤں میں پانچ لوگوں کی موت ہو گئی۔ یہ سبھی مہینوں سے بھکمری کا سامنا کر رہے تھے۔ اس واقعہ نے ہندوستانی میڈیا میں ہنگامہ برپا کر دیا۔ بیس سال بعد آج بھی بہت کچھ نہیں بدلا ہے۔ آج بھی یہ برادری بھوک سے لڑ رہی ہے۔ آج بھی تعلیم اور طب کی سہولیات سے یہ کوسوں دور ہے۔ چونکہ، ان کی بسیتیاں گھنے جنگلوں میں آباد ہیں، لہٰذا آئے دن انسان اور جانوروں کے درمیان تصادم ہونا ایک عام بات ہے۔
حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے، جب یہاں کے لوگ شراب کو کھانے کا متبادل بتاتے ہوئے چٹکی لیتے ہیں، تو یہ کوئی مذاق میں کہی گئی بات نہیں لگنی چاہیے۔ ربیندر بھوئیاں اس رپورٹر سے پوچھتے ہیں، ’’اگر میرے منہ سے آپ کو شراب کی بو آئے، تو کیا آپ مجھے بھلا برا کہیں گے؟‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز