دور افتادہ ملی آما بودھ گاؤں کی عموماً خاموش دوپہر کو چیرتے ہوئے ایک جلوس نکلتا ہے، اور نعرے اور خوشی میں چیخنے کی آوازیں آتی ہیں۔ بیشک یہ اکتوبر کا مہینہ ہے، لیکن یہاں کوئی پوجا وغیرہ نہیں ہو رہی ہے، اور نہ ہی کوئی شامیانہ ہی لگایا گیا ہے۔ اس ’جلوس‘ میں صرف ۱۰-۸ مونپا بچے ہی شامل ہیں، جو ۲ سے ۱۱ سال تک کی عمر کے ہیں۔ چونکہ درگا پوجا کی چھٹیاں ہو چکی ہیں، اس لیے یہ بچے فی الحال اپنے گھروں میں ہی ہیں۔

عام دنوں میں اسکول کی گھنٹی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ان کے کھیلنے کا وقت ہے۔ دو پرائیویٹ اسکول، اور ساتھ ہی سب سے نزدیکی سرکاری اسکول دیرانگ میں ہے اور تقریباً ۷ سے ۱۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ بچوں کو ان اسکولوں تک روزانہ پیدل جانا ہوتا ہے، لیکن اسکول لگ بھگ دس دنوں سے بند ہے۔ یہ کم و بیش بچوں کی آزادی کے دن ہیں، اور ان کو اندازاً اپنے کھیل کے وقت کا پتہ ہوتا ہے، جو عموماً لنچ کے بعد دوپہر میں ۲ بجے تک کا وقت ہوتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں، جب سطح سمندر سے ۱۸۰۰ میٹر کی بلندی پر آباد اس چھوٹے سے گاؤں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہ کے برابر ہو، ان بچوں کے پاس اپنے ماں باپ کے فون واپس کر دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا ہے۔ ایسی حالت میں وہ مرکزی سڑک پر جمع ہوتے ہیں اور منکھا لائیدا [لفظی طور پر ’اخروٹ کا کھیل‘] کے کبھی نہ ختم ہونے والے کھیل میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

اس گاؤں کے ارد گرد کے جنگلات میں اخروٹ خوب پھلتے ہیں۔ اروناچل پردیش ہندوستان میں اس خشک میوہ کی پیداوار کرنے والی چوتھی سب سے بڑی ریاست ہے۔ ویسٹ کمینگ ضلع میں پیدا ہونے والے یہ اخروٹ اس لیے بھی مشہور ہیں کیوں کہ بہتر قسم کا ہونے کے سبب انہیں برآمد (ٓایکسپورٹ) کیا جاتا ہے۔ لیکن اس گاؤں میں کوئی آدمی اس کی پیداوار نہیں کرتا ہے۔ بچوں کے پاس جو اخروٹ ہیں، انہیں وہ جنگل سے لے کر آئے ہیں۔ ملی آما میں تقریباً ۱۷ سے ۲۰ مونپا خاندان رہتے ہیں، جو بنیادی طور پر تبت کے روایتی چرواہے اور شکاری برادری سے تعلق رکھتے ہیں، اور جنگل سے جمع کی گئی غذائی اشیاء سے گزر بسر کرتے ہیں۔ ’’گاؤں کے لوگ ہر ہفتہ گروپ بنا کر جنگلوں میں جاتے ہیں اور وہاں سے مشروم، بادام، بیر، جلاون کی لکڑی اور دیگر اشیاء لاتے ہیں،‘‘ ۵۳ سال کے رنچن جومبا بتاتے ہیں۔ بچے روزانہ دوپہر کو سڑکوں پر لوٹنے سے پہلے اپنی مٹھیوں اور جیبوں میں اخروٹ بھر لیتے ہیں۔

ویڈیو دیکھیں: مونپا بستی میں کھیلتے چھوٹے بچے

اخروٹوں کو سڑک پر ایک سیدھی قطار میں رکھ دیا جاتا ہے۔ ہر ایک کھلاڑی اس قطار میں تین اخروٹ رکھتا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ باری باری سے اپنے ہاتھ میں رکھے اخروٹ کو قطار میں رکھے اخروٹوں پر نشانہ لگاتے ہوئے پھینکتے ہیں۔ جتنے اخروٹوں پر نشانہ صحیح لگتا ہے، اتنے اخروٹ وہ جیتتے جاتے ہیں۔ بچے ان جیتے گئے اخروٹوں کو کھا سکتے ہیں۔ جب ان کے پاس کئی کئی دور کھیلنے کے بعد اچھی تعداد میں اخروٹ جمع ہو جاتے ہیں، تب کھیل کا نیا دور شروع کرتے ہیں – تھا کھیئندا لائیدا [رسہ کشی]۔

اس کھیل میں ایک پراپ (سامان) کی ضرورت ہوتی ہے – ایک کپڑے کا ٹکڑا، جسے رسی کی طرح استعمال کیا جا سکے۔ یہاں بھی بچے اپنی بہترین سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ ان جھنڈوں کے پرانے ٹکڑے ہوتے ہیں جنہیں ایک سالانہ پوجا کے بعد گھر کے اوپر پھہرایا جاتا ہے۔ یہ پوجا ان کے خاندانوں کے افراد کی طویل عمر ہونے کے لیے کی جاتی ہے۔

ہر چند گھنٹے پر کھیل بدلتا رہتا ہے۔ کھو کھو، کبڈی اور تالاب اور پوکھروں میں چھلانگیں لگانا جیسے دیگر کھیل بھی کھیلے جاتے ہیں۔ بچے کھلونے والی جے سی بی سے کھدائی کرنے کا کھیل بھی کھیلتے ہیں، جیسے ان کے ماں باپ ’جاب کارڈ‘ سے ملے کاموں میں منریگا کی سائٹوں پر کھدائی کرتے ہیں۔

کچھ بچے شام ڈھلنے پر قریب میں واقع موناسٹری جاتے ہیں، جو کہ چھوٹا سا مٹھ (مندر) ہے۔ وہیں کچھ بچوں کا دن کھیتوں میں اپنے ماں باپ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہوئے نکل جاتا ہے۔ شام ہونے پر ان کا ’جلوس‘ دوبارہ نکلتا ہے، جب وہ راستے میں نظر آنے والے درختوں سے سنترے اور خورمہ توڑ کر کھاتے ہوئے لوٹتے ہیں۔ اس طرح ان کی زندگی کا ایک اور دن گزر جاتا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Sinchita Parbat

ସିଞ୍ଚିତା ପର୍ବତ ପିପୁଲ୍ସ ଆର୍କାଇଭ୍‌ ଅଫ୍‌ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆର ଜଣେ ବରିଷ୍ଠ ଭିଡିଓ ସମ୍ପାଦିକା ଏବଂ ଜଣେ ମୁକ୍ତବୃତ୍ତିର ଫଟୋଗ୍ରାଫର ଓ ପ୍ରାମାଣିକ ଚଳଚ୍ଚିତ୍ର ନିର୍ମାତା। ପୂର୍ବରୁ ସିଞ୍ଚିତା ମାଜୀ ନାମରେ ତାଙ୍କର କାହାଣୀଗୁଡ଼ିକ ପ୍ରକାଶ ପାଇଛି।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Sinchita Parbat
Editor : Pratishtha Pandya

ପ୍ରତିଷ୍ଠା ପାଣ୍ଡ୍ୟା ପରୀରେ କାର୍ଯ୍ୟରତ ଜଣେ ବରିଷ୍ଠ ସମ୍ପାଦିକା ଯେଉଁଠି ସେ ପରୀର ସୃଜନଶୀଳ ଲେଖା ବିଭାଗର ନେତୃତ୍ୱ ନେଇଥାନ୍ତି। ସେ ମଧ୍ୟ ପରୀ ଭାଷା ଦଳର ଜଣେ ସଦସ୍ୟ ଏବଂ ଗୁଜରାଟୀ ଭାଷାରେ କାହାଣୀ ଅନୁବାଦ କରିଥାନ୍ତି ଓ ଲେଖିଥାନ୍ତି। ସେ ଜଣେ କବି ଏବଂ ଗୁଜରାଟୀ ଓ ଇଂରାଜୀ ଭାଷାରେ ତାଙ୍କର କବିତା ପ୍ରକାଶ ପାଇଛି।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Pratishtha Pandya
Translator : Qamar Siddique

କମର ସିଦ୍ଦିକି ପିପୁଲ୍ସ ଆରକାଇଭ ଅଫ୍ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆର ଅନୁବାଦ ସମ୍ପାଦକ l ସେ ଦିଲ୍ଲୀ ରେ ରହୁଥିବା ଜଣେ ସାମ୍ବାଦିକ l

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Qamar Siddique