میری ماں اکثر مجھ سے کہا کرتی تھیں، ’’کمار، اگر میں نے مچھلی کا وہ برتن نہ اٹھایا ہوتا، تو ہم یہاں تک نہیں آ پاتے۔‘‘ یہ وہ سال تھا جب میرے پیدا ہونے کے بعد انہوں نے مچھلی بیچنا شروع کیا تھا اور اس کے بعد سے میری زندگی میں ہمیشہ مچھلیاں بنی رہیں۔

مچھلی کی بو ہمارے گھر میں پھیلی رہتی تھی۔ ایک کونے میں سوکھی مچھلیوں کا تھیلا ہمیشہ لٹکا رہتا تھا۔ پہلی بارش کے بعد کارپ مچھلی آتی تھی، جسے ماں پکاتی تھیں۔ یہ لذیذ کھانا سردیوں سے نمٹنے میں بڑا مددگار ثابت ہوتا ہے۔ جب ماں شوربہ دار کیٹ فش، اسپاٹیڈ اسنیک ہیڈ یا سیلاپّی بناتی ہیں، تو پیاری سی خوشبو پورے گھر میں بھر جاتی ہے۔

جب میں بچہ تھا تو مچھلی پکڑنے کے لیے اکثر خاموشی سے اسکول سے نکل جاتا تھا۔ ان دنوں ہر جگہ پانی ہوتا تھا۔ مدورئی کے جواہر لال پورم علاقے میں، ہمارے پورے ضلع میں کنویں، ندیاں، جھیلیں اور تالاب ہوتے تھے۔ میں اپنے دادا کے ساتھ ایک تالاب سے دوسرے تالاب تک گھومتا رہتا تھا۔ ہمارے پاس لٹکانے والی ٹوکری ہوتی تھی، جسے ہم پانی میں ڈالتے اور مچھلیاں پکڑتے تھے۔ ندی میں ہم چارہ لگا کر مچھلیاں پکڑتے تھے۔

ماں ہمیں بھوت پریت کی کہانیاں سنا کر ڈراتی تھیں، تاکہ ہم بہتے پانی کے پاس نہ جائیں، مگر ہمیشہ جھیلوں سے پانی بہتا رہتا اور ہم ہمیشہ پانی کے ارد گرد بنے رہتے۔ میں گاؤں کے دوسرے لڑکوں کے ساتھ مچھلی پکڑتا تھا۔ جس سال میں نے ۱۰ویں کلاس پاس کیا، پانی کی کمی ہو گئی۔ جھیلوں میں پانی کی سطح کم ہو گئی اور اس کا کھیتی پر بھی اثر پڑا۔

ہمارے گاؤں جواہر لال پورم میں تین جھیلیں تھیں – بڑی جھیل، چھوٹی جھیل اور ماروتن کولم جھیل۔ میرے گھر کے پاس بڑی جھیل اور چھوٹی جھیل کو نیلام کرکے گاؤں کے لوگوں کو پٹہ پر دے دیا جاتا تھا۔ وہ لوگ اس میں مچھلی پالتے تھے اور اسی سے ان کا گھر چلتا تھا۔ تائی مہینے (وسط جنوری سے وسط فروری تک) کے دوران دونوں جھیلوں میں مچھلیوں کی پیداوار ہوتی تھیں – اسے مچھلی پکڑنے کا موسم مانا جاتا ہے۔

جب میرے والد جھیلوں والی مچھلیاں خریدنے جاتے، تو میں بھی ان کے ساتھ چلا جاتا تھا۔ ان کی سائیکل کے پیچھے ایک باکس بندھا ہوتا تھا اور ہم مچھلی خریدنے کے لیے کبھی کبھی ۲۰ سے ۳۰ کلومیٹر تک کئی گاؤوں کا دورہ کر لیتے تھے۔

Villagers scouring the lake as part of the fish harvesting festival celebrations held in March in Madurai district’s Kallandhiri village
PHOTO • M. Palani Kumar

مدورئی ضلع کے کلّن دھیری گاؤں میں وہاں کے لوگ جھیل سے مچھلی پکڑ رہے ہیں، جو مارچ میں مچھلی کی پیداوار کے جشن کا ایک حصہ ہے

مدورئی ضلع کی کئی جھیلوں میں مچھلی کی پیداوار کا جشن منایا جاتا ہے اور آس پاس کے گاؤوں کے لوگ مچھلی پکڑنے کے لیے جھیل پر پہنچتے ہیں۔ وہ اچھی بارش، اچھی فصل اور سبھی لوگوں کی خوشی کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔ لوگ مانتے ہیں کہ مچھلی پکڑنے سے بارش اچھی ہوتی ہے اور اگر مچھلی کی پیداوار کا جشن نہ منایا گیا، تو سوکھا پڑ جائے گا۔

ماں ہمیشہ کہتی تھیں کہ پیداوار کے دوران مچھلی کا وزن سب سے زیادہ ہوگا اور اس کا مطلب ہے بہتر منافع۔ لوگ اکثر زندہ مچھلی لینا پسند کرتے ہیں۔ آف سیزن میں مچھلیوں کا وزن کم ہو جاتا ہے اور وہ وافر مقدار میں پکڑی نہیں جاتی ہیں۔

مچھلی بیچنے کی وجہ سے ہی ہمارے گاؤں کی کئی عورتوں کی زندگی بچ پائی ہے۔ اس نے ان عورتوں کو معاش دیا جن کے شوہروں کی موت ہو گئی تھی۔

مچھلی نے مجھے ایک اچھا فوٹو گرافر بنایا۔ سال ۲۰۱۳ میں جب میں نے کیمرہ خریدا، تو میں مچھلی خریدنے کے لیے جاتے وقت اسے ساتھ لے جاتا تھا۔ کبھی کبھی میں مچھلی خریدنا بھول جاتا اور مچھلیوں کی تصویریں لینے لگتا تھا۔ میں تب تک سب کچھ بھولا رہتا جب تک کہ میرا فون نہیں بجنے لگتا اور ماں مجھے تاخیر کے لیے ڈانٹنے لگتیں۔ وہ مجھے یاد دلاتیں کہ لوگ ان سے مچھلی خریدنے کا انتظار کر رہے ہیں اور تب میں انہیں لینے کو دوڑ پڑتا تھا۔

جھیلوں پر صرف انسان نہیں ملتے تھے۔ جھیلوں کے کنارے پرندے اور مویشی ہوتے تھے۔ میں نے ایک ٹیلی لینس خریدا اور آبی پرندے جیسے سارس، بطخ، چھوٹے پرندوں کی تصویریں اتارنی شروع کر دیں۔ پرندوں کو دیکھنے اور ان کی تصویریں کھینچنے میں مجھے بہت مزہ آتا تھا۔

ان دنوں نہ تو بارش ہوتی ہے اور نہ جھیلوں میں پانی ہے۔ اور کوئی مچھلی بھی نہیں ہے۔

*****

Senthil Kalai shows his catch of kamma paarai fish. He enjoys posing for pictures
PHOTO • M. Palani Kumar

اپنی پکڑی ہوئی کمّا پارائی مچھلی دکھاتے ہوئے سینتھل کلئی۔ انہیں تصویریں کھنچوانے میں مزہ آتا ہے

جیسے ہی کیمرہ میرے پاس آیا، میں نے پچئی انّا، موکّا انا، کارتک، مارودھو، سینتھل کلئی جیسے ماہی گیروں کی تصویریں کھینچنی شروع کر دیں، جو جھیلوں میں اپنے جال پھینکا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ جال پھینک کر اور مچھلیاں پکڑ کر میں نے بہت کچھ سیکھا۔ یہ سبھی مدورئی کے مشرقی بلاک کے پڈوپٹّی گاؤں کے قریب کے رہنے والے ہیں۔ تقریباً ۶۰۰ لوگوں کے اس گاؤں میں زیادہ تر، یعنی ۵۰۰ لوگ مچھلی پکڑنے کا کام کرتے ہیں اور یہی ان کی روزی روٹی کا پہلا ذریعہ ہے۔

سی پچئی ۶۰ سال کے ماہی گیر ہیں، جنہوں نے ترونیل ویلی، راج پالیم، تینکاسی، کرائی کوڈی، دیو کوٹئی اور دوسری جگہوں کی جھیلوں میں مچھلی پکڑنے کے لیے دور دور تک کا سفر کیا ہے۔ انہوں نے دس سال کی عمر میں اپنے والد سے مچھلی پکڑنا سیکھا تھا اور وہ مچھلی پکڑنے کے لیے ان کے ساتھ گھومتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی تو اس کے لیے وہ کچھ دنوں تک رک جایا کرتے تھے۔

پچئی بتاتے ہیں، ’’ہم سال میں چھ مہینے تک مچھلی پکڑتے ہیں۔ اگلے چھ مہینے میں ہم اس پکڑی گئی مچھلی کو بیچتے ہیں اور بچی ہوئی مچھلی سُکھا لیتے ہیں، تاکہ سال بھر ہماری آمدنی ہوتی رہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ یہاں مچھلیاں ان انڈوں سے پیدا ہوتی ہیں، جو مٹی میں دبے ہوتے ہیں اور بارش سے انہیں مدد ملتی ہے۔ انہوں نے بتایا، ’’کیلوتی، کوروا، ورا، پامپوڈی، کینڈا پڈی، ویلیچی جیسی دیسی مچھلیاں اب اتنی تعداد میں نہیں ہیں، جتنی پہلے ہوا کرتی تھیں۔ کھیتوں میں استعمال ہونے والے حشرہ کش سے آلودہ پانی جھیلوں میں پہنچ جاتا ہے۔ اب سبھی مچھلیوں کی مصنوعی طریقے سے افزائش کرائی اور کھلائی جاتی ہے، جس سے جھیلوں کی زرخیزی مزید برباد ہو گئی ہے۔‘‘

مچھلی پکڑنے کا کام نہ ہونے پر پچئی نریگا (قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون) کے تحت نہر بنانے جیسے یومیہ مزدوری کے کام کرتے ہیں، جسے مقامی طور پر نور نال پانی کہا جاتا ہے، یعنی کوئی بھی کام جو مل جائے۔

Left: C. Pichai holding a Veraal fish.
PHOTO • M. Palani Kumar
Right: Mokka, one of the most respected fishermen in Y. Pudupatti  hamlet, says that they do not get native varieties like ara , kendai , othai kendai , thar kendai and kalpaasi anymore
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: ہاتھ میں ویرال مچھلی پکڑے ہوئے سی پچئی۔ دائیں: موکاّ، وائی پڈوپٹی علاقے کے لوگوں کے درمیان موجود کچھ سب سے عزت دار ماہی گیروں میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب انہیں آرا، کیندئی، اوتائی کیندئی، تار کیندئی اور کلپاسی جیسی دیسی مچھلیوں کی قسمیں نہیں ملتیں

ایک اور ماہی گیر، ۳۰ سالہ موکاّ کے مطابق ماہی پروری کا موسم ختم ہونے کے بعد انہیں بھی یومیہ مزدوری کرنی پڑے گی۔ ان کی بیوی ایک ہوٹل میں کام کرتی ہیں اور ان کے دو بچے تیسری اور دوسری جماعت میں پڑھ رہے ہیں۔

بچپن میں ہی ماں کی موت بعد دادی نے ان کی پرورش کی۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور میں نے کھیتوں میں کام کرنا شروع کر دیا اور دوسری چھوٹی موٹی نوکریاں کیں۔ مگر میں اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتا ہوں، تاکہ انہیں اچھی نوکریاں ملیں۔‘‘

*****

مال کلئی ہاتھ سے مچھلی پکڑنے والا جال بناتے ہیں۔ یہ ہنر انہوں نے اپنے اجداد سے سیکھا۔ ۳۲ سالہ مال کلئی کا کہنا ہے، ’’صرف ہمارے گاؤں اوتا کڈئی میں ہم ابھی تک مچھلی پکڑنے کے لیے ہاتھ سے بنا جال استعمال کرتے ہیں۔ آج کے جال میرے دادا جی کے استعمال کیے گئے جالوں سے کافی الگ ہیں۔ وہ ناریل کے درختوں سے ریشہ لے کر، اس کی بنائی کرکے جال بناتے تھے۔ وہ جال بُننے کے لیے کوکو گھاس (کوائر) تلاش کرنے جاتے تھے، جس کی ہمارے گاؤں میں کافی قدر تھی۔ دوسری جگہوں پر مچھلی پکڑنے جاتے وقت لوگ اسے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔

’’مچھلی پکڑنا ہماری زندگی کا ایک خاص حصہ ہے اور ہمارے گاؤں میں کئی ماہی گیر ہیں۔ جب کوئی ہنرمند ماہی گیر مرتا ہے، تو گاؤں والے اس کی آخری رسومات کی ارتھی سے بانس کی ایک چھڑی نکال کر اس سے نئے جال کا نچلا حصہ بناتے ہیں۔ اس طرح اس کی وراثت کی عزت کی جاتی ہے۔ ہمارے گاؤں میں یہ روایت آج بھی جاری ہے۔

Left: Malkalai (foreground) and Singam hauling nets out of the water.
PHOTO • M. Palani Kumar
Right: They have to dive into the lake to drag out their nets
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: مال کلئی (سامنے) اور سنگم پانی سے مچھلی پکڑنے کا جال کھینچ کر نکال رہے ہیں۔ دائیں: ماہی گیروں کو اپنے مچھلی پکڑنے کے جال نکالنے کے لیے جھیل میں غوطہ لگانا پڑتا ہے


’’ہمارے لوگ جھیل کا پانی دیکھ کر بتا سکتے ہیں کہ اس میں کتنی بڑی مچھلیاں ہوں گی۔ وہ لوگ پانی ہاتھ میں لیتے ہیں اور اگر وہ گدلا ہو تو کہتے ہیں کہ مچھلی بڑی ہوگی۔ اگر پانی صاف ہے تو مچھلیوں کی تعداد کم ہوگی۔

’’مچھلی پکڑنے کے لیے ہم مدورئی ضلع کے چاروں طرف جاتے تھے – تونڈی، کرائی کڈی، یہاں تک کہ کنیا کماری سمندر (بحر ہند) تک۔ ہم تنکاسی کی سبھی جھیلوں کا دورہ کرتے اور باندھوں پر جاتے تھے۔ کبھی کبھی ہم تقریباً پانچ دس ٹن تک مچھلیاں پکڑ لیتے تھے۔ چاہے ہمارے ذریعے پکڑی گئی مچھلی کا سائز کچھ بھی ہو، ہماری مزدوری وہی رہتی تھی۔

’’مدورئی میں کسی زمانے میں تقریباً ۲۰۰ جھیلیں ہوا کرتی تھیں، مگر تیزی سے شہر کاری کے ساتھ یہ جھیلیں غائب ہو رہی ہیں۔ اس لیے ہم لوگوں کو مچھلی پکڑنے کے لیے دوسری جگہ جانا پڑتا ہے۔ جیسے جیسے جھیلیں غائب ہو رہی ہیں، ہم جیسے روایتی ماہی گیروں کی زندگی پر خراب اثر پڑ رہا ہے۔ مچھلی کے کاروباری بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔

’’میرے والد کے تین بھائی بہن تھے اور میرے بھی تین بھائی بہن ہیں۔ ہم سبھی مچھلی پکڑتے ہیں۔ میری شادی ہو چکی ہے اور میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ہمارے گاؤں کے نوجوان اب اسکول و کالج جاتے ہیں، لیکن پھر بھی ان کی دلچسپی مچھلی پکڑنے میں رہتی ہے۔ اسکول و کالج کے بعد وہ اپنا وقت مچھلی پکڑنے میں گزارتے ہیں۔‘‘

The shore of chinna kamma (small lake) in Jawaharlalpuram area in Madurai where the writer would walk to buy fish from the lake
PHOTO • M. Palani Kumar

مدورئی میں جواہر لال پورم علاقے میں چِنّا کماّ (چھوٹی جھیل) کا کنارہ۔ اسی کے کنارے میں جھیل سے مچھلیاں خریدنے جاتا تھا

Left: Local fishermen say that lakes come alive when water is let out from the dam.
PHOTO • M. Palani Kumar
Right: C.Pichai from Y.Pudupatti village is well-known for his nuanced skills in this difficult craft
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: مقامی ماہی گیر بتاتے ہیں کہ باندھ سے پانی چھوڑے جانے کے بعد جھیلیں بھر جاتی ہیں۔ دائیں: وائی پڈوپٹئی گاؤں کے سی پچئی مچھلی پکڑنے کے اپنے ہنر کے لیے جانے جاتے ہیں

Fishermen readying for action at the lake in Kunnathur, north Madurai. They have rented a mini truck to carry all the equipment they require
PHOTO • M. Palani Kumar

شمالی مدورئی کے کُناتور میں ماہی گیر جھیل میں مچھلی پکڑنے کی تیاری میں ہیں۔ مچھلی پکڑنے اور آنے جانے کے لیے ضروری سامان لے جانے کے لیے وہ کرایے پر منی ٹرک لیتے ہیں

Fishermen move around the big lake in Jawaharlalpuram in Madurai to increase the catch
PHOTO • M. Palani Kumar

ماہی گیر زیادہ مچھلی پکڑنے کے لیے مدورئی کے جواہر لال پورم میں بڑی جھیل کے آس پاس گھومتے رہتے ہیں

They cast their fishing nets and get into the deeper end of the lake
PHOTO • M. Palani Kumar

وہ جھیل میں گہرائی تک جا کر مچھلی پکڑنے کا جال ڈالتے ہیں

Fishermen agitate the deeper waters in an attempt to trap more catch
PHOTO • M. Palani Kumar

زیادہ مچھلیاں پھنسانے کی کوشش میں ماہی گیر گہرے پانی میں ہلچل پیدا کرتے ہیں

Fishermen hauling nets out of water in the big lake in Jawaharlalpuram. Mokka (extreme left), says there are stones and thorns in the lake bed. 'If pricked by a thorn, we won't be able to even walk properly so we have to be very careful when throwing the nets'
PHOTO • M. Palani Kumar

جواہر لال پورم کی بڑی جھیل میں پانی سے جال کھینچتے ماہی گیر۔ موکاّ (سب سے بائیں) کہتے ہیں، ’جھیل کی نچلی سطح پر پتھر اور کانٹے ہیں۔ اگر کانٹا چبھ گیا تو ہم ٹھیک سے چل بھی نہیں پائیں گے۔ اس لیے جال پھینکتے وقت ہمیں کافی محتاط رہنا پڑتا ہے‘

They drag the net towards the shore in the small lake in Kunnathur
PHOTO • M. Palani Kumar

کُناّتور کی چھوٹی جھیل میں جال کو کنارے کی طرف کھینچتے ماہی گیر

They move their catch towards shallow waters where temporary structures have been built to collect and store fish
PHOTO • M. Palani Kumar

ماہی گیر پھنسائی گئی مچھلیوں کو اُتھلے پانی کی طرف لے جاتے ہیں، جہاں مچھلیوں کو اکٹھا کرنے اور روکنے کے لیے عارضی ڈھانچے بنے ہیں

That’s a kanadi katla variety in C. Pichai’s hands (left).
PHOTO • M. Palani Kumar
Raman (right) shows off his catch of a katla
PHOTO • M. Palani Kumar

سی پچئی (بائیں) نے اپنے ہاتھ میں کناڈی کتلا مچھلی پکڑ رکھی ہے۔ رمن (دائیں) اپنی پکڑی ہوئی کتلا مچھلی دکھاتے ہوئے

M. Marudhu holding the mullu rohu kenda fish in his hand
PHOTO • M. Palani Kumar

روہو مچھلی پکڑے ہوئے ایم مارودھو مُلّو

Fish caught during the day are stored in a temporary structure called ' aapa' to keep the catch fresh until evening when it will be taken and sold at the market
PHOTO • M. Palani Kumar

ماہی گیر دن بھر میں پکڑی گئی مچھلیوں کو تازہ رکھنے کے لیے انہیں آپا نام کے عارضی ڈھانچہ میں اکٹھا کرتے ہیں۔ شام کو بازار میں بیچنے کے لیے انہیں باہر نکالا جاتا ہے

Neer kaagam (cormorant) is one of the most commonly sighted birds in the big lake in Jawaharlalpuram
PHOTO • M. Palani Kumar

نیر کاگم (پن کوا) جواہر لال پورم کی بڑی جھیل پر سب سے زیادہ دکھائی دینے والے پرندوں میں سے ایک ہے

Fishermen eating lunch as they sit on a hillock near Kunnathur lake
PHOTO • M. Palani Kumar

کُناتور جھیل کے پاس ایک پہاڑی پر بیٹھے ماہی گیر دوپہر کا کھانا کھا رہے ہیں

As the fishermen head home, they tie their nets together into a bundle to make it easier for them to carry
PHOTO • M. Palani Kumar

گھر جاتے وقت ماہی گیر اپنی مچھلی پکڑنے والے جال اکٹھا کرکے باندھ دیتے ہیں، تاکہ انہیں لے جانے میں آسانی ہو

Fishermen pushing their coracle towards the shore; it is heavy and loaded with their catch
PHOTO • M. Palani Kumar

ماہی گیر اپنی کشتی کنارے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ وہ بھاری ہے اور اس میں ان کی مچھلیاں لدی ہیں

They are transferring their catch from coracle to ice box to be transported for sale in other districts
PHOTO • M. Palani Kumar

مچھلیوں کو دوسرے ضلعوں میں بیچنے لے جانے کے لیے ماہی گیر انہیں کشتی سے نکال کر برف کے بکسے میں ڈال رہے ہیں

Madurai once had almost 200 lakes but with rapid urbanisation, these water bodies on which so many livelihoods once depended, are vanishing
PHOTO • M. Palani Kumar

مدورئی میں کسی زمانے میں تقریباً ۲۰۰ جھیلیں تھیں، مگر تیزی سے شہرکاری کے سبب سینکڑوں لوگوں کی روزی روٹی کا سہارا یہ جھیلیں اب غائب ہو رہی ہیں

Ice boxes filled with catch being loaded into the truck in Kunnathur to be taken to the market
PHOTO • M. Palani Kumar

کناتور میں ماہی گیر مچھلی سے بھرے برف کے بکسوں کو بازار لے جانے کے لیے ٹرک پر لاد رہے ہیں


Local merchants waiting with their gunny bags to buy directly from the fishermen near the big lake in Jawaharlalpuram
PHOTO • M. Palani Kumar

ماہی گیروں سے سیدھے مچھلی خریدنے کے لیے اپنے ٹاٹ کے بورے کے ساتھ جواہر لال پورم میں بڑی جھیل کے پاس انتظار کرتے مقامی مچھلی فروش

As the season comes to an end and water starts drying up, fishermen pump out water left in the lake to catch korava and veral varieties
PHOTO • M. Palani Kumar

مچھلی پکڑنے کا موسم ختم ہوتے ہی پانی سوکھنے لگتا ہے اور ماہی گیر کوروا اور ویرل مچھلیاں پکڑنے کے لیے جھیل میں بچا ہوا پانی باہر نکال لیتے ہیں

Even as water dries up in Kodikulam, this small lake still has some fish
PHOTO • M. Palani Kumar

کوڈی کولم میں حالانکہ پانی سوکھ گیا ہے مگر پھر بھی چھوٹی جھیل میں ابھی بھی مچھلیاں ہیں

The native uluva is the most delicious variety found in Madurai
PHOTO • M. Palani Kumar

دیسی الووا مچھلی مدورئی میں ملنے والی سب سے ذائقہ دار مچھلی ہے

A family from Kallandhiri village show off their catch during the fish harvesting festival
PHOTO • M. Palani Kumar

کلن دھیری گاؤں کی ایک فیملی جشن کے دوران اپنے ذریعے پکڑی گئی مچھلیاں دکھا رہی ہے

مترجم: محمد قمر تبریز

M. Palani Kumar

ଏମ୍‌. ପାଲାନି କୁମାର ‘ପିପୁଲ୍‌ସ ଆର୍କାଇଭ୍‌ ଅଫ୍‌ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆ’ର ଷ୍ଟାଫ୍‌ ଫଟୋଗ୍ରାଫର । ସେ ଅବହେଳିତ ଓ ଦରିଦ୍ର କର୍ମଜୀବୀ ମହିଳାଙ୍କ ଜୀବନୀକୁ ନେଇ ଆଲେଖ୍ୟ ପ୍ରସ୍ତୁତ କରିବାରେ ରୁଚି ରଖନ୍ତି। ପାଲାନି ୨୦୨୧ରେ ଆମ୍ପ୍ଲିଫାଇ ଗ୍ରାଣ୍ଟ ଏବଂ ୨୦୨୦ରେ ସମ୍ୟକ ଦୃଷ୍ଟି ଓ ଫଟୋ ସାଉଥ ଏସିଆ ଗ୍ରାଣ୍ଟ ପ୍ରାପ୍ତ କରିଥିଲେ। ସେ ପ୍ରଥମ ଦୟାନିତା ସିଂ - ପରୀ ଡକ୍ୟୁମେଣ୍ଟାରୀ ଫଟୋଗ୍ରାଫୀ ପୁରସ୍କାର ୨୦୨୨ ପାଇଥିଲେ। ପାଲାନୀ ହେଉଛନ୍ତି ‘କାକୁସ୍‌’(ଶୌଚାଳୟ), ତାମିଲ୍ ଭାଷାର ଏକ ପ୍ରାମାଣିକ ଚଳଚ୍ଚିତ୍ରର ସିନେମାଟୋଗ୍ରାଫର, ଯାହାକି ତାମିଲ୍‌ନାଡ଼ୁରେ ହାତରେ ମଇଳା ସଫା କରାଯିବାର ପ୍ରଥାକୁ ଲୋକଲୋଚନକୁ ଆଣିଥିଲା।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ M. Palani Kumar
Photo Editor : Binaifer Bharucha

ବିନଇଫର୍ ଭାରୁକା ମୁମ୍ବାଇ ଅଞ୍ଚଳର ଜଣେ ସ୍ୱାଧୀନ ଫଟୋଗ୍ରାଫର, ଏବଂ ପରୀର ଫଟୋ ଏଡିଟର୍

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ ବିନାଇଫର୍ ଭାରୁଚ
Translator : Qamar Siddique

କମର ସିଦ୍ଦିକି ପିପୁଲ୍ସ ଆରକାଇଭ ଅଫ୍ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆର ଅନୁବାଦ ସମ୍ପାଦକ l ସେ ଦିଲ୍ଲୀ ରେ ରହୁଥିବା ଜଣେ ସାମ୍ବାଦିକ l

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Qamar Siddique