انجلی ہمیشہ تلسی کا ذکر اپنی امّا (ماں) کے طور پر کرتی ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے ان کے چہرے پر ایک فخریہ مسکراہٹ دکھائی دینے لگتی ہے۔ ان کے گھنگھرالے بال ایک جوڑے میں بندھے ہیں اور انہوں نے بہت صفائی کے ساتھ ایک گلابی ساڑی پہن رکھی ہے۔ تلسی ایک ٹرانس جینڈر خاتون ہیں اور اپنی نو سال کی بیٹی کی ماں ہیں۔
تلسی نے اپنی نوجوانی کے آخری برسوں میں خود کو ’کارتیگا‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔ بعد میں ایک سرکاری ملازم نے غلطی سے ان کے راشن کارڈ میں ان کا نام ’تلسی‘ لکھ دیا – جو تمل میں ایک ایسا نام ہے جس کی کوئی صنف نہیں ہوتی۔ اس وقت انہوں نے خوشی خوشی اس نام کو اپنا لیا اور تب سے دونوں ہی ناموں سے جانی جانے لگیں۔
وہ تمل ناڈو کے تیروپورور میں ایک ایرولر بستی – درگاس میں اپنی بیٹی انجلی کے ساتھ پھوس کی ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتی ہیں۔ تلسی کی بیوی ان سے تب الگ ہو گئیں، جب انجلی ایک نوزائیدہ بچی تھی۔ اس لیے انہوں نے اس کی پرورش ایک سنگل پیرنٹ [ماں باپ میں سے کوئی ایک] کے طور پر کی۔ میاں بیوی نے اپنی نو سال کی پہلی اولاد کو سال ۲۰۱۶ میں وردا میں آئے ایک سمندری طوفان کے دوران گنوا دیا تھا۔
اب تقریباً چالیس سال کی ہو چکیں تلسی گزشتہ کئی سالوں سے تیرو ننگئی (ٹرانس خواتین کے لیے استعمال ہونے والا تمل لفظ) کمیونٹی کی رکن ہیں۔ اپنی گود میں بیٹھی انجلی کو پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’میں اس کے ہاتھ میں دودھ کی بوتل دے کر اسے ہماری [ تیرو ننگئی ] میٹنگوں میں لے جاتی تھی۔‘‘
جب انجلی تقریباً چار سال کی ہو گئی، تب تلسی کی خواہش ہوئی کہ لوگ انہیں انجلی کی ماں کے طور پر پہچانیں۔ اس لیے انہوں نے ویشٹی (دھوتی) کی جگہ صرف ساڑی پہننے کا فیصلہ کیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایسا انہوں نے ۵۰ سالہ تیرو ننگئی کومودی کی صلاح پر کیا، جنہیں تلسی اپنی آیا (دادی) مانتی ہیں۔
جب انہوں نے ایک عورت کے طور پر اپنی صنفی شناخت ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا، اس وقت کے بارے میں وہ کہتی ہیں، ’’ولمبر ماوے وندھوٹیں [میں نے سب کو کھل کر بتا دیا]۔‘‘
اس صنفی تبدیلی کا اعلان سماجی سطح پر کرنے کے لیے انہوں نے اپنے ۴۰ سالہ رشتہ دار روی کے ساتھ شادی کی رسم ادا کی۔ روی، تیرو ولور ضلع کے ویڈئی یور میں رہتے ہیں۔ تمل ناڈو کی ٹرانس خواتین میں رائج یہ ایک عام رسم ہے، جو صرف علامتی طور پر ادا کی جاتی ہے۔ روی کی فیملی – ان کی بیوی گیتا اور دو نوجوان بیٹیوں نے تلسی کو اپنی فیملی میں آشیرواد کے طور پر قبول کیا۔ ’’میرے شوہر سمیت ہم سبھی انہیں امّا کہتے ہیں۔ ہمارے لیے وہ کسی دیوی کی طرح ہیں،‘‘ گیتا کہتی ہیں۔
تلسی آج بھی درگاس میں ہی رہتی ہیں اور خاص مواقع پر ہی اپنی نئی فیملی سے ملتی ہیں۔
تقریباً اسی وقت جب انہوں نے روز ساڑی پہننا شروع کیا، تو ان کے ساتوں بھائی بہنوں نے بھی انہیں ’امّا‘ یا ’شکتی‘ (دیوی) کہنا شروع کر دیا۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ان کی یہ بدلی ہوئی شکل غیبی طاقت (امّن ارول) سے ممکن ہوئی ہے۔
ایک دوسرے کے ساتھ گہری وابستگی رکھنے والی ایرولا برادری ان کی صنفی شناخت سے واقف تھی، اس لیے سچ کو چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، تلسی بتاتی ہیں۔ ’’میری بیوی بھی اس بات کو ہماری شادی سے پہلے سے ہی جانتی تھی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’مجھ سے کبھی بھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ مجھے ایسے برتاؤ نہیں کرنا چاہیے یا کسی خاص قسم کے کپڑے ہی پہننے چاہیے۔ نہ ہی کسی نے کبھی کوڈومی [بالوں کی چھوٹی چوٹی] باندھنے پر ٹوکا، نہ ہی میرے ساڑی پہننے پر،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔
تلسی کے دوست پونگاونم یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے دوسرے دوست اکثر پوچھتے تھے کہ تلسی ’ایک لڑکی کی طرح‘ برتاؤ کیوں کیا کرتا تھا۔ ’’ہمارا گاؤں ہی ہماری دنیا تھی۔ ہم نے تلسی کی طرح کوئی دوسرا انسان نہیں دیکھا تھا۔ ہم نے یہ ماننا شروع کردیا کہ دنیا میں اس کے جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں اور ساتھ میں اس بات کو بھی خارج کرتے ہیں کہ لوگوں نے کبھی تلسی یا انجلی کی بے عزتی کی ہو یا انہیں چھیڑا ہو۔
ان کے والدین – سینتا مرئی اور گوپال، جو اب ۷۰ سال سے زیادہ کے ہو چکے ہیں، نے بھی تلسی کو اسی شکل میں قبول کر لیا ہے۔ بچپن سے ہی تلسی کی حساس فطرت کو دیکھ کر انہوں نے طے کیا، ’’اَوَن منسپون پڈوتّا کوڈادو [ہمیں اس کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانی ہے]۔‘‘
’’تلسی ساڑی پہنتی ہے، یہ اچھی بات ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امّن گھر آئی ہے،‘‘ اپنے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے اور پرارتھنا کے انداز میں اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے سینتا مرئی کہتی ہیں۔ ان کی بات میں فیملی کے جذبات کی گونج سنائی دیتی ہے۔ سال ۲۰۲۳ کے آخر میں سینتا مرئی کا انتقال ہو گیا۔
ہر مہینے تلسی اپنی تیرو ننگئی کمیونٹی کے ساتھ ویلوپّورم ضلع کے میلملئے نور شہر میں واقع مندر کے درشن کے لیے ۱۲۵ کلومیٹر کا سفر کرتی ہیں اور عقیدت مندوں کو آشیرواد دیتی ہیں۔ ’’لوگوں کا عقیدہ ہے کہ تیرو ننگئی جو کہتے ہیں وہ سچ ثابت ہوتا ہے۔ میں کبھی لوگوں کو برا نہیں کہتی ہوں، صرف ان کو آشیرواد دیتی ہوں اور جو کچھ وہ مجھے دیتے ہیں اسے بڑے پیار سے لے لیتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ وہ یہ بھی مانتی ہیں کہ روزانہ ساڑی پہننے کے ان کے فیصلہ سے ان کے آشیرواد کے اثرات میں اضافہ ہوا ہے، اور ایک فیملی کو اپنا آشیرواد دینےکے لیے انہوں نے کیرالہ تک کا سفر بھی کیا ہے۔
عام بیماریوں ک علاج میں کام آنے والی جڑی بوٹیوں کے بارے میں ان کی معلومات ان کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے، لیکن گزشتہ چند برسوں سے اس آمدنی میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ ’’میں نے بڑی تعداد میں لوگوں کو ٹھیک کیا ہے، لیکن اب وہ سبھی اپنے موبائل کی مدد لیتے ہیں اور اپنا علاج خود کر لیتے ہیں! کسی زمانے میں، میں ۵۰ ہزار روپے تک کما لیتی تھی۔ پھر یہ کم ہو کر ۴۰ ہزار، اس کے بعد ۳۰ ہزار تک آ پہنچا۔ اور، اب میں مشکل سے سال بھر میں ۲۰ ہزار روپے ہی کما پاتی ہوں،‘‘ وہ لمبی سانس لیتے ہوئے کہتی ہیں۔ کووڈ کے سال تو سب سے مشکل بھرے رہے۔
ایرولر دیوی کنّی امّا کے ایک مندر کا انتظام کرنے کے ساتھ ساتھ، تلسی نے پانچ سال پہلے نور نال ویلئی (منریگا) کا کام کرنا بھی شروع کر دیا۔ درگاس کی دوسری خواتین کے ساتھ وہ بھی کھیتوں میں کام کرتی ہیں اور یومیہ تقریباً ۲۴۰ روپے کماتی ہیں۔ مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون (منریگا) دیہی خاندانوں کو سال میں ۱۰۰ دن روزگار کی ضمانت دیتا ہے۔
انجلی کو کانچی پورم ضلع کے قریب ایک سرکاری رہائشی اسکول میں داخلہ دلا دیا گیا ہے۔ تلسی بتاتی ہیں کہ ان کے لیے انجلی کی تعلیم سب سے بڑی ترجیح ہے۔ ’’اسے تعلیم یافتہ بنانے کے لیے میں زیادہ سے زیادہ کوشش کر سکتی ہوں۔ کووڈ کے دوران وہ گھر سے دور ہاسٹل میں نہیں رہنا چاہتی تھی۔ اس لیے میں نے اسے اپنے پاس بلا لیا۔ لیکن یہاں اسے پڑھانے کے لیے کوئی نہیں تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ سال ۲۰۲۳ میں جب تلسی، جنہوں نے دوسری جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی، انجلی کا داخلہ کرانے اسکول گئیں، تو ایک ٹرانس سرپرست کے طور پر اسکول انتظامیہ نے ان کا خیرمقدم کیا۔
حالانکہ، تیرو ننگئی کمیونٹی کے تلسی کے کچھ دوستوں نے اپنی صنفی شناخت کی تصدیق کرنے کے لیے سرجری کا راستہ اپنایا، لیکن تلسی بتاتی ہیں، ’’لوگوں نے مجھے اسی شکل میں قبول کر لیا ہے، تو اس عمر میں سرجری کرانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘
حالانکہ، اس موضوع پر گروپ میں ہونے والی مسلسل پھسپھساہٹ کے سبب، منفی نتائج کی تشویشوں کے باوجود وہ اپنے فیصلہ پر دوبارہ غور کر رہی ہیں، ’’گرمیوں میں سرجری کرانا بہتر ہوگا۔ تب زخم تیزی سے بھریں گے۔‘‘
سرجری کا خرچ کوئی چھوٹا موٹا نہیں ہے۔ آپریشن اور پرائیویٹ اسپتال میں داخل ہونے پر تقریباً ۵۰ ہزار روپے کا خرچ آئے گا۔ وہ سرکاری مدد پانے کے مقصد سے ٹرانس جینڈر لوگوں کے لیے تمل ناڈو حکومت کی صنف کی تصدیق کی مفت سرجری سے متعلق پالیسی کی مدد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
فروری ۲۰۲۳ میں تلسی نے سینتا مرئی اور انجلی کے ساتھ مقبول تہوار مسان کولّئی (جسے مَیان کولّئی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) منانے کے لیے میلملئے نور مندر کا سفر کیا تھا۔
اپنی ماں کا ہاتھ پکڑے ہوئے انجلی مندر کی پرہجوم گلیوں میں اپنی سہیلیوں کو دیکھ کر چہک اٹھی۔ روی اور گیتا بھی اپنے دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ تقریب میں شامل ہونے کے لیے آئے تھے۔ تلسی کی تیرو ننگئی فیملی، ان کے گرو، ان کی بہنیں اور دیگر لوگ ان کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔
تلسی، جنہوں نے اپنی پیشانی پر سیندور کا بڑا سا سرخ ٹیکہ لگا رکھا تھا اور لمبی چوٹیوں والا وِگ پہن رکھا تھا، وہاں سب کے ساتھ بات چیت کر رہی تھیں۔ ’’یہ میری خوشیوں کا سب سے بڑا لمحہ ہے!‘‘ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا تھا، اور اس موقع پر ہونے والے رقص کے وقت ان کی آنکھیں چھلک اٹھیں۔
’’آپ انجلی سے پوچھ سکتی ہیں کہ اس کی کتنی مائیں ہیں،‘‘ خاندانی تقریب کے موقع پر تلسی نے مجھ سے کہا تھا۔
میں نے جب انجلی سے پوچھا، تو اس نے فوراً جواب دیا، ’’دو‘‘ اور اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی، جب اس نے تلسی اور گیتا دونوں کی طرف اشارہ کیا تھا۔
مترجم: محمد قمر تبریز