اہروانی میں داخل ہوتے ہی رام اوتار کشواہا کیچڑ بھری سڑک پر توازن برقرار رکھنے کے لیے اپنی موٹر سائیکل کی رفتار دھیمی کر لیتے ہیں۔ وہ اوبڑ کھابڑ بستی کے درمیان میں پہنچتے ہیں اور اپنی ۱۵۰ سی سی کی بائک کا انجن بند کر دیتے ہیں۔
تقریباً پانچ منٹ کے اندر ہی بچے، اسکولی طلباء اور نوجوان ان کے ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ سہریا آدیواسی بچوں کا یہ جھنڈ تحمل کے ساتھ انتظار کرتا ہے، ہاتھوں میں سکے اور ۱۰ روپے کے نوٹ پکڑے آپس میں باتیں کرتا ہے۔ وہ سب چاؤمن، یعنی تلی ہوئی سبزیوں اور نوڈلز سے بنا کھانا خریدنے کے منتظر ہیں۔
اس بات سے واقف کہ یہ تمیز دار بھوکے گاہک جلد ہی بے چین ہو جائیں گے، موٹر بائک سے چاؤمن بیچنے والے نے جلد ہی اپنا ڈبہ کھول دیا۔ اس میں زیادہ کچھ نہیں ہے – رام اوتار پلاسٹک کی دو بوتلیں نکالتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ایک میں لال سوس [مرچ] ہے اور دوسری میں کالا [سویا سوس]۔‘‘ دوسرے سامان میں پتہ گوبھی، چھلی ہوئی پیاز، ہری شملہ مرچ اور ابلے ہوئے نوڈلز ہیں۔ ’’میں اپنا سامان وجے پور [شہر] سے خریدتا ہوں۔‘‘
شام کے تقریباً ۶ بجے ہیں اور یہ چوتھا گاؤں ہے، جہاں رام اوتار چکر لگا رہے ہیں۔ وہ دوسری بستیوں اور گاؤوں کے نام بھی بتاتے ہیں، جہاں وہ باقاعدگی سے جاتے ہیں – لاڈر، پنڈری، کھجوری کلاں، سلپارہ، پارونڈ۔ یہ سبھی سوتیپورہ میں ان کے گھر کے ۳۰ کلومیٹر کے دائرے میں آتے ہیں، جو وجے پور تحصیل کے گوپال پورہ گاؤں سے جڑا ایک چھوٹا گاؤں ہے۔ ان بستیوں اور چھوٹے گاؤوں میں تیار اسنیکس (کھانے پینے کے سامان) کے نام پر پیکٹ بند چپس اور بسکٹ ملتے ہیں۔
وہ ہفتے میں کم از کم دو تین بار تقریباً ۵۰۰ لوگوں کی آدیواسی اکثریت والی بستی اہروانی آتے ہیں۔ اہروانی نئی آبادی ہے۔ یہاں وہ لوگ رہتے ہیں جنہیں ۱۹۹۹ میں کونو نیشنل پارک سے بے دخل کیا گیا تھا، تاکہ اسے شیروں کا دوسرا ٹھکانہ بنایا جا سکے۔ (پڑھیں: کونو: آدیواسیوں کو اجاڑ کر چیتوں کو بسانے کی تیاری )۔ شیر تو آیا نہیں، مگر افریقہ سے چیتوں کو ضرور ستمبر ۲۰۲۲ میں پارک میں لایا گیا ہے۔
آس پاس کھڑے زیادہ تر بچوں نے بتایا کہ وہ یہیں اہروانی میں مقامی سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں، مگر یہاں کے رہنے والے کیدار آدیواسی کے مطابق بچوں کا نام تو لکھا ہے، مگر وہ زیادہ کچھ سیکھ نہیں پاتے۔ ’’ٹیچر باقاعدگی سے نہیں آتے، اور جب آتے ہیں، تو کچھ نہیں پڑھاتے۔‘‘
تقریباً ۲۳ سال کے کیدار آدھار شلا شکسا سمیتی میں ٹیچر تھے، جو ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے اور اگرا گاؤں میں منتقل کی گئی برادری کے بچوں کے لیے اسکول چلاتا ہے۔ سال ۲۰۲۲ میں پاری سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا، ’’یہاں مڈل اسکول سے پاس ہونے والے طلباء پڑھنے لکھنے جیسی بنیادی تعلیم نہ ہونے کے سبب دوسرے اسکولوں میں داخل نہیں ہو پاتے۔‘‘
ہندوستان میں درج فہرست قبائل کی شماریاتی پروفائل رپورٹ، ۲۰۱۳ کے مطابق، سہریا آدیواسی مدھیہ پردیش میں ایک خاص طور پر کمزور قبائلی گروپ (پی وی ٹی جی) کے طور پر درج ہیں اور ان کی شرح خواندگی ۴۲ فیصد ہے۔
مجمع بے چین ہونے لگا ہے، اس لیے رام اوتار ہم سے بات کرنا بند کر دیتے ہیں اور کھانا پکانے پر دھیان دیتے ہیں۔ وہ کیروسن کا چولہا (اسٹوو) جلاتے ہیں اور ایک بوتل سے کچھ تیل نکال کر ۲۰ انچ چوڑے فرائنگ پین پر چھڑک دیتے ہیں۔ نیچے رکھے ایک ڈبے سے وہ نوڈلز نکالتے ہیں اور انہیں گرم تیل میں ڈال دیتے ہیں۔
ان کی بائک کی سیٹ پیاز اور پتہ گوبھی کاٹنے کے لیے اچھی ہے۔ وہ کٹی ہوئی پیاز کو پین میں ڈالتے ہیں، تو اس کی ذائقہ دار خوشبو ہوا میں بکھر جاتی ہے۔
رام اوتار یو ٹیوب سے بنے باورچی ہیں۔ وہ پہلے سبزی فروش تھے، مگر ’’یہ دھندہ بہت مندا ہو گیا ہے۔ میں نے اپنے فون پر چاؤمن بنانے کا ویڈیو دیکھا اور اسے آزمانے کا فیصلہ کیا۔‘‘ یہ ۲۰۱۹ کی بات ہے، اور تب سے ان کا کام چل نکلا۔
جب پاری کی ان سے ۲۰۲۲ میں ملاقات ہوئی، تو وہ چاؤمن کی ایک چھوٹی کٹوری ۱۰ روپے میں بیچا کرتے تھے۔ ’’میں ایک دن میں تقریباً ۸۰۰-۷۰۰ روپے کا چاؤمن بیچ لیتا ہوں۔‘‘ ان کا اندازہ ہے کہ وہ اس میں سے ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے تک بنا لیتے ہیں۔ نوڈلز کے ۷۰۰ گرام پیک کی قیمت ۳۵ روپے ہے اور وہ ایک دن میں پانچ پیکٹ تک استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے بڑے خرچ ہیں – چولہے کے لیے مٹی کا تیل، کھانا پکانے کے لیے تیل اور ان کی بائک کے لیے پیٹرول۔
انہوں نے بتایا، ’’ہمارے پاس تین بیگھہ زمین ہے، مگر ہم اس سے مشکل سے ہی کچھ کما پاتے ہیں۔‘‘ کھیتی کے کام میں وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ شراکت داری کرتے ہیں اور اپنے کھانے کے لیے گیہوں، باجرا اور سرسوں اُگا لیتے ہیں۔ رام کی شادی رینا سے ہوئی ہے اور ان کے چار بچے ہیں – تین لڑکیاں اور ایک لڑکا – جن کی عمر۱۰ سال سے کم ہے۔
سات سال پہلے رام اوتار نے ٹی وی ایس موٹر سائیکل خریدی تھی، اور چار سال بعد ۲۰۱۹ میں اسے موبائل کچن میں بدل دیا، جس میں سامان لے جانے والے بیگ بندھے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ دن بھر میں ۱۰۰ کلومیٹر تک کا سفر کرکے اپنے زیادہ تر نوجوان خریداروں کو کھانا بیچتے ہیں۔ ’’مجھے یہ کام اچھا لگتا ہے۔ جب تک ممکن ہوگا، میں اسے جاری رکھوں گا۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز