یہ اتوار کی ایک صبح ہے، لیکن جیوتریندر نارائن لاہری اپنے کام میں مصروف ہیں۔ ہگلی ضلع کے اپنے اپارٹمنٹ کے ایک پرسکون کمرے میں ۵۰ سال کے لاہری سندربن کے سب سے پرانے نقشہ پر جھک کر اسے غور سے دیکھ رہے ہیں۔ اس نقشہ کو ۱۷۷۸ میں میجر جیمس رینیل نے بنایا تھا۔
’’یہ انگریزوں کے سروے کی بنیاد پر بنایا گیا سندربن کا پہلا مستند نقشہ ہے۔ اس نقشہ میں مینگرو [ڈیلٹا جنگلات] کا رقبہ کولکاتا تک دکھایا گیا ہے۔ تب سے اب تک کتنا کچھ بدل گیا ہے،‘‘ لاہری جب یہ بتا رہے ہوتے ہیں، تب ان کی ایک انگلی نقشہ پر گھوم رہی ہوتی ہے۔ ایک طرف بنگلہ دیش اور دوسری طرف ہندوستان تک پھیلا سندربن دنیا کا سب سے بڑا ڈیلٹا جنگل یا مینگرو ہے، جو اپنے حیاتیاتی تنوع، اور خاص طور پر اپنے رائل بنگال ٹائیگر (پینتھیرا ٹگریس) کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔
ان کے کمرے کے کونے تک بنی بڑی بڑی الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی ہیں۔ ان میں سندربن سے متعلق تمام ممکنہ اور ضروری موضوعات پر سینکڑوں کتابیں ہیں – جانداروں کی دنیا، نباتات، روزمرہ کی زندگی، نقشے، ایٹلس، انگریزی اور بنگالی میں بچوں کی کتابیں اور نہ جانے کیا کیا! یہی وہ کمرہ ہے جہاں وہ ’سودھو سندربن چرچہ‘ کے شماروں سے متعلق تحقیق کرتے ہیں اور منصوبے بناتے ہیں۔ سندر بن پر مرکوز اس سہ ماہی رسالہ کی شروعات انہوں نے ۲۰۰۹ میں آئیلا نام کے سمندری طوفان کے آنے کے بعد کی تھی۔ اس طوفان نے اس علاقے میں زبردست تباہی مچائی تھی۔
’’میں نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے اس علاقے کا کئی بار سفر کیا۔ وہاں کی حالت خوفناک تھی،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔ ’’بچوں کا اسکول جانا بند ہو گیا تھا، لوگ بے گھر ہو گئے تھے، زیادہ تر مردوں نے نقل مکانی کرنا بہتر سمجھا تھا، اور سب کچھ سنبھالنے کی ذمہ داری اکیلے عورتوں کے کندھوں پر ڈال دی گئی تھی۔ یہاں آباد لوگوں کی قسمت اس بات پر منحصر تھی کہ ندی کے بند (باندھ) محفوظ رہیں گے یا پھر ٹوٹ جائیں گے۔‘‘
لاہری نے یہ محسوس کیا کہ اس تباہی پر میڈیا کے ذریعہ جو خبریں دی جا رہی تھیں وہ ناکافی اور سطحی تھیں۔ ’’میڈیا سندربن کا احاطہ اپنے گھسے پٹے انداز میں کرتا رہا ہے۔ بالکل بنی بنائی طرز پر۔ آپ کو کل ملا کر یا تو شیر (باگھ یا ٹائیگر) کے حملوں کے اعداد و شمار ملیں گے یا پھر بارش کی خبریں ملیں گی۔ جب بارش یا سیلاب کے حالات نہ ہوں، تب سندربن کے بارے میں شاید ہی کوئی خبر آپ کو ملے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’تباہی، جنگلی حیات اور سیاحت – سندربن کے بارے میں میڈیا کو بس یہی نظر آتا ہے۔‘‘
’سودھو سندربن چرچہ‘ کی شروعات انہوں نے ہندوستان اور بنگلہ دیش – دونوں ملکوں کے علاقی منظرنامہ کو شامل کرنے کے مقصد سے کی تھی۔ سال ۲۰۱۰ سے لے کر ابھی تک وہ اس رسالہ کے کل ۴۹ شمارے نکال چکے ہیں اور اس کا ۵۰واں شمارہ نومبر ۲۰۲۳ میں شائع ہونے والا ہے۔ ’’اس کے شمارے متعدد موضوعات پر مبنی رہے ہیں، جیسے کہ پان کی کھیتی کیسے کی جاتی ہے، پورے سندربن علاقے کا جغرافیائی نقشہ، چھوٹی لڑکیوں کی زندگی، ہر ایک گاؤں کا خاکہ، چوری اور برسات،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ایک شمارہ تو صرف اس بحث پر مرکوز تھا کہ میڈیا سندربن سے جڑی خبروں کو کیسے کور کرتا ہے، اور اس شمارہ میں مغربی بنگال اور بنگلہ دیش کے صحافیوں کے خیالات کو خصوصی اہمیت دی گئی تھی۔
رسالہ کا پچھلا شمارہ اپریل ۲۰۲۳ میں شائع ہوا تھا – جو کہ اس کا ۴۹واں شمارہ بھی ہے – اور یہ شمارہ مینگرو اور شیروں پر مرکوز ہے۔ ’’سندربن دنیا کا شاید اکیلا مینگرو ہے جہاں شیر رہتے ہیں۔ اس لیے ہم نے اس پر مرکوز ایک شمارہ لانے کا منصوبہ بنایا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ انہوں نے ۵۰ویں شمارہ کے لیے بھی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ یہ شمارہ ایک ریٹائرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر کے کاموں پر مبنی ہے، جنہوں نے سندربن میں ماحولیاتی تبدیلی اور سمندر کی بڑھتی ہوئی آبی سطح کے منفی اثرات پر تحقیق کی ہے۔
’’اس علاقے کے بارے میں جاننے میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے علاوہ، ہمارے زیادہ تر قارئین ایسے طلباء اور یونیورسٹی کے محققین ہیں جنہیں صحیح اعداد و شمار اور اطلاعات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے قارئین میں ۸۰ سال کے بزرگ بھی ہیں، جو ہمارے شماروں کی ایک ایک لائن پڑھتے ہیں،‘‘ لاہری بتاتے ہیں۔
ہر سہ ماہی میں، رسالہ کی تقریباً ۱۰۰۰ کاپیاں پرنٹ ہوتی ہیں۔ لاہری کہتے ہیں، ’’ہمارے باقاعدہ قارئین کی تعداد ۵۳۰-۵۲۰ کے آس پاس ہے، اور ان میں سے زیادہ تر مغربی بنگال کے ہیں۔ رسالے انہیں کوریئر کے ذریعہ بھیجے جاتے ہیں۔ تقریباً ۵۰ کے آس پاس کاپیاں بنگلہ دیش جاتی ہیں۔ ان کاپیوں کو ہم سیدھے کوریئر نہیں کرتے ہیں، کیوں کہ یہ بہت مہنگا پڑتا ہے۔‘‘ اس کی بجائے، بنگلہ دیشی کتاب فروش کولکاتا کے کالج اسٹریٹ میں واقع مشہور کتابوں کے بازار سے رسالے کی کاپیاں خریدتے ہیں اور انہیں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم بنگلہ دیشی قلم کاروں اور فوٹوگرافروں کو بھی شائع کرتے ہیں۔‘‘
رسالہ نکالنے میں کافی خرچ پڑتا ہے۔ ہر شمارے کو اچھے قسم کے چمکدار کاغذ پر سفید اور سیاہ (بلیک اینڈ وائٹ) میں حتمی طور پر چھاپنے سے پہلے اس کی ٹائپ سیٹ کاپی تیار کرنی پڑتی ہے۔ ’’اس کے بعد سیاہی، کاغذ اور ڈھلائی پر خرچ ہوتا ہے۔ بہرحال، ہمارا ادارتی خرچ بہت زیادہ نہیں ہے، کیوں کہ سب کچھ ہم خود ہی کرتے ہیں،‘‘ لاہری بتاتے ہیں، جن کی مدد ان کی بیوی سرجنی سادھوکھاں (۴۸)، بیٹی رِتجا (۲۲)، اور بیٹا ارچِسمان (۱۵) کرتے ہیں۔ ادارتی ٹیم میں کل ۱۶-۱۵ ممبران ہیں، جو بغیر کسی اعزازیہ کے رسالہ کے لیے اپنی محنت اور وقت دیتے ہیں۔ لاہری کہتے ہیں، ’’ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہم لوگوں کو نوکری پر رکھ سکیں۔ جو لوگ اپنا وقت نکال کر ہماری مدد کرتے ہیں وہ رسالہ میں ہمارے ذریعہ اٹھائے گئے ایشوز کو ضروری تصور کرتے ہیں۔‘‘
رسالہ کے ایک شمارہ کی قیمت ۱۵۰ روپے ہے۔ ’’اگر ہماری لاگت ۸۰ روپے ہے، تو ہمیں ایک شمارہ کو کم از کم ۱۵۰ روپے میں بیچنا ہی پڑے گا، کیوں کہ ہمیں اسٹینڈ مالکوں کو ۳۵ فیصد کا کمیشن دینا پڑتا ہے،‘‘ لاہری اشاعت کی اقتصادیات سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں۔
لاہری اور ان کے اہل خانہ چھ بنگالی اور تین انگریزی اخباروں کا روزانہ مطالعہ کرتے ہیں، تاکہ اس علاقے سے متعلق خبروں پر نظر رکھی جا سکے۔ چونکہ وہ خود بھی اس موضوع کے ایک بڑے جانکار ہیں، اس لیے شیروں کے حملے جیسی خبریں سیدھے ان تک پہنچتی رہتی ہیں۔ لاہری قارئین کے ذریعہ اخباروں کے مدیروں کو لکھے گئے خطوط کو بھی جمع کرتے رہتے ہیں۔ ’’قارئین امیر اور طاقتور نہیں بھی ہو سکتے ہیں، لیکن وہ مسائل سے باخبر ہوتے ہیں اور ضروری سوال اٹھانے کے قابل ہوتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
رسالہ کی اشاعت ان کی واحد ذمہ داری نہیں ہے۔ روزانہ انہیں پڑوس کے مشرقی بردھمان ضلع آنے جانے کے لیے ۱۸۰ کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے، جہاں وہ ایک سرکاری اسکول میں پانچویں سے بارہویں جماعت کے طلباء کو جغرافیہ پڑھاتے ہیں۔ لاہری بتاتے ہیں، ’’میں گھر سے صبح ۷ بجے نکلتا ہوں اور مجھے لوٹتے لوٹتے رات کے ۸ بج جاتے ہیں۔ پرنٹنگ پریس بردھمان شہر میں ہے، اس لیے اگر کوئی کام رہا، تو میں پریس میں رک جاتا ہوں اور دیر شام گھر لوٹتا ہوں۔‘‘ وہ گزشتہ ۲۶ برسوں سے پڑھانے کا کام کر رہے ہیں۔ ’’اس رسالہ کو نکالنے کی طرح، پڑھانے کا کام بھی مجھے بہت پسند ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز