یہ ۱۹۹۸ کی ہٹ فلم، اے بگس لائف ، کے سیکول جیسا ہے۔ ہالی ووڈ کی حقیقی فلم، فلک ، میں چیونٹی اپنے جزیرہ پر اپنی نسل کو دشمن – ٹڈیوں – سے بچانے کے لیے بہادر جنگجوؤں کی ایک فوج تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ہندوستان میں حقیقی زندگی کے اس سیکول میں، اداکاروں کی تعداد کھربوں میں ہے، جن میں سے ۱۳۰ کروڑ انسان ہیں۔ چھوٹی سینگ والی ٹڈیوں کا جھنڈ اس سال مئی میں آیا، ہر ایک جھنڈ میں لاکھوں ٹڈیاں تھیں۔ ملک کے زرعی کمشنر کا کہنا ہے کہ ان ٹڈیوں نے بہار، گجرات، مدھیہ پردیش، راجستھان اور اتر پردیش میں تقریباً ایک لاکھ ایکڑ میں کھڑی فصلوں کو تباہ کر دیا۔
یہ ہوائی حملہ آور قومی سرحدوں کو بے معنی بنا دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے مطابق، مغربی افریقہ سے ہندوستان تک یہ ٹڈیاں ۳۰ ممالک اور ۱۶ ملین مربع کلومیٹر میں موجود ہیں۔ اور ٹڈیوں کا ایک چھوٹا جھنڈ – ۱ مربع کلومیٹر میں تقریباً ۴۰ ملین ممبران کے ساتھ – ایک دن میں اتنا ہی کھانا کھا سکتا ہے جتنا ۳۵ ہزار انسان، ۲۰ اونٹ یا چھ ہاتھی کھاتے ہیں۔
اس لیے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ قومی لوکسٹ وارننگ آرگنائزیشن کے ارکان وزارتِ دفاع، زراعت، امورِ داخلہ، سائنس اور ٹیکنالوجی، شہری ہوا بازی اور مواصلات سے آتے ہیں۔
حالانکہ، ٹڈیاں ابھرتی ہوئی اسکرپٹ میں واحد ویلن نہیں ہیں، کیوں کہ لاکھوں کیڑوں کے درمیان کے نازک توازن کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ ہندوستان میں، حشرات کے ماہر اور آدیواسی اور دیگر کسان ان دشمن کیڑوں کو کئی، اور کبھی کبھی غیر ملکی انواع کی فہرست میں ڈال دیتے ہیں۔ کچھ اچھے کیڑے – غذائی پیداوار کے لیے موزوں ’فائدہ مند کیڑے‘ – بھی تب برے بن سکتے ہیں جب ماحولیاتی تبدیلی ان کے ٹھکانوں کو اجاڑ رہی ہو۔
چیونٹیوں کی درجنوں نسلیں خطرناک کیڑوں میں تبدیل ہو گئی ہیں، شور مچانے والے جھینگور نئے علاقوں پر حملہ کر رہے ہیں، دھاردار منہ والے دیمک اندھیرے جنگلوں سے نکل کر صحت مند لکڑیوں کو نگل رہے ہیں، اور چونکہ شہد کی مکھیوں کی تعداد میں کمی آ رہی ہے اور پتنگے بے موسم نظر آتے ہیں، اس لیے تمام جانداروں کا غذائی تحفظ کم ہونے لگا ہے۔ یہاں تک کہ خوبصورت لال دھبے والی جیجے بل تتلیاں مشرقی ہمالیہ سے مغربی ہمالیہ کے درمیان تیزی سے اڑنے کی وجہ سے پھیلتی جا رہی ہیں، نئے علاقوں پر قبضہ جما رہی ہیں اور ’اچھی‘ دیسی نسلوں کو بھگانے میں مصروف ہیں۔ اس طرح جنگ کا میدان پورے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے۔
دیسی کیڑوں کی تعداد میں کمی سے وسطی ہندوستان کے شہد جمع کرنے والوں کا کافی نقصان ہو رہا ہے۔ ’’ایک وقت تھا جب ہم چٹانوں سے لٹکے شہد کے چھتے سینکڑوں کی تعداد میں دیکھ سکتے تھے۔ آج، انہیں ڈھونڈ پانا مشکل ہے،‘‘ مدھیہ پردیش کے چھندواڑہ ضلع کے ۴۰ سالہ بھاریا آدیواسی، برج کشن بھارتی کہتے ہیں۔
شریجھوت گاؤں میں وہ اور شہد جمع کرنے والے دیگر لوگ – سبھی کا تعلق خط افلاس سے نیچے کے کنبوں سے ہے – شہد کے لیے پاس کی چٹانوں پر چڑھتے ہیں، جسے وہ ۲۰ کلومیٹر دور تامیا بلاک ہیڈکوارٹر کے ہفتہ واری بازار میں فروخت کرتے ہیں۔ وہ اس کے لیے سال میں دو بار، ہر ایک سیزن میں (نومبر- دسمبر اور مئی- جون) گھر سے نکلتے ہیں اور کئی دن کھیتوں میں گزارتے ہیں۔
ان کے شہد کی قیمت ایک دہائی میں ۶۰ روپے فی کلو سے بڑھ کر ۴۰۰ روپے فی کلو ہو گئی ہے، لیکن برج کشن کے ۳۵ سالہ بھائی جے کشن کہتے ہیں، ’’ہم سبھی کو اس سفر سے ۲۵-۳۰ کلو شہد مل جاتا تھا، اب اگر ہم خوش قسمت رہے، تو ۱۰ کلو مل جاتا ہے۔ جنگل میں جامن، بہیڑا، آم اور سال جیسے درخت کم ہو گئے ہیں۔ کم درختوں کا مطلب ہے کم پھول اور شہد کی مکھیوں اور دیگر کیڑوں کے لیے کم کھانا۔‘‘ اور شہد جمع کرنے والوں کے لیے کم آمدنی۔
صرف پھولوں میں کمی ہی تشویش کا موضوع نہیں ہے۔ ’’ہم کیڑوں اور پھولوں کے وقت کے عدم توازن – فینولاجیکل اسنکرونی – دیکھ رہے ہیں،‘‘ نیشنل سنٹر فار بایولوجیکل سائنسز ، بنگلورو کی ڈاکٹر جے شری رتنم کہتی ہیں۔ ’’کئی پودوں کے لیے، منطقہ معتدلہ میں بہار کا موسم جلد شروع ہوجاتا ہے اس لیے پھول جلدی آنے لگتے ہیں، لیکن زرگل منتقل کرنے والے کیڑے انہی تاریخوں میں سامنے نہیں آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کیڑوں کو وہ کھانا نہیں مل پاتا ہے، جس کی ضرورت انہیں اپنے وقت پر ہوتی ہے۔ یہ سب ماحولیاتی تبدیلی سے جڑا ہو سکتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر رتنم کہتی ہیں، جو این سی بی ایس کے وائلڈ لائف بایولوجی اور کنزرویشن پروگرام کی ایسوسی ایٹ ڈائرکٹر ہیں۔
اور جیسا کہ ڈاکٹر رتنم کہتی ہیں، حالانکہ اس کا سیدھا اثر ہمارے غذائی تحفظ پر پڑتا ہے، ’’جتنا پیار ہم بال والے جانوروں سے کرتے ہیں، اتنا کیڑوں سے نہیں کرتے۔‘‘
*****
’’میرے امرود کے درخت پر ہی نہیں، بلکہ آنولہ اور مہوا کے درختوں پر بھی کم پھل لگ رہے ہیں۔ آچار (یا چرونجی) کا درخت کئی سالوں سے پھل نہیں دے رہا ہے،‘‘ ۵۲ سالہ رنجیت سنگھ مرشکولے ہمیں بتاتے ہیں، جو مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد ضلع کی کٹیا دانا بستی میں رہتے ہیں۔ گونڈ آدیواسی کسان، رنجیت پپریا تحصیل کے مٹکولی گاؤں کے پاس اپنی فیملی کی نو ایکڑ زمین پر گیہوں اور چنا اُگاتے ہیں۔
’’جب شہد کی مکھیاں کم ہوں گی، تو پھول اور پھل بھی کم ہوں گے،‘‘ رنجیت سنگھ کہتے ہیں۔
ہمارا غذائی تحفظ دیسی کیڑوں جیسے چیونٹی، شہد کی مکھی، مکھی، تتیا، پتنگے، تتلی، بھونرے اور زرگل کو منتقل کرنے میں مدد کرنے والے دیگر کیڑوں کے پروں اور پیروں، سونڈوں اور اینٹینا پر منحصر ہے۔ جیسا کہ ایف اے او بلیٹن ہمیں بتاتا ہے، دنیا بھر میں اکیلے جنگلی شہد کی مکھیوں کی ۲۰ ہزار سے زیادہ قسمیں، ساتھ ہی کئی دیگر انواع ہیں – پرندوں، چمگادڑوں اور دیگر جانوروں کی – جو زرگل منتقل کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ تمام غذائی فصلوں کا ۷۵ فیصد اور تمام جنگلی پودوں کا ۹۰ فیصد اسی زرگل کی منتقلی پر منحصر ہے۔ اور عالمی سطح پر اس سے متاثر ہونے والی فصلوں کی سالانہ قیمت کا تخمینہ ۲۳۵ سے ۵۷۷ بلین ڈالر کے درمیان لگایا گیا ہے۔
ہمارا غذائی تحفظ دیسی کیڑوں جیسے چیونٹی، شہد کی مکھی، مکھی، تتیا، پتنگے، تتلی، بھونرے اور زرگل کو منتقل کرنے میں مدد کرنے والے دیگر کیڑوں کے پروں اور پیروں، سونڈوں اور اینٹینا پر منحصر ہے
غذائی فصلوں کے زرگل کی منتقلی میں بنیادی رول ادا کرنے کے علاوہ، کیڑے جنگلات کی صحت کو برقرار رکھنے میں بھی مدد کرتے ہیں کیوں کہ وہ لکڑیوں اور لاشوں کو توڑتے ہیں، مٹی کو پلٹتے ہیں اور بیجوں کو الگ کرتے ہیں۔ ہندوستان میں، لاکھوں آدیواسی اور دیگر لوگ جنگلات کے بغل میں واقع ۱۷۰۰۰۰ گاؤوں میں رہتے ہیں، جہاں وہ ایندھن کی لکڑی اور بنا لکڑی والے جنگل سے پیداوار حاصل کرتے ہیں، جن کا وہ استعمال یا فروخت کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ملک میں مویشیوں کی آبادی ۵۳۶ ملین ہے، جس میں سے زیادہ تر مویشی چارے کے لیے جنگلات پر ہی منحصر ہیں۔
’’جنگل مر رہا ہے،‘‘ ایک درخت کے سایہ میں بیٹھے ہوئے وجے سنگھ ہمیں بتاتے ہیں، جب کہ ان کی بھینسیں ان کے ارد گرد ہی چر رہی ہیں۔ ۷۰ سالہ اس گونڈ آدیواسی کسان کے پاس، پپریا تحصیل کے سنگنما گاؤں میں ۳۰ ایکڑ زمین ہے، جہاں وہ کبھی چنا اور گیہوں اُگاتے تھے۔ کچھ سالوں کے لیے انہوں نے زمین کو بنجر ہی رہنے دیا۔ ’’بارش یا تو بہت زیادہ ہوتی ہے اور جلد ختم ہو جاتی ہے، یا یہ زمین کو مشکل سے تر کرتی ہے۔‘‘ اور انہوں نے کیڑوں کے مسائل کا تجزیہ کیا۔ ’’پانی نہیں ہے، تو چیونٹیاں اپنے گھر کہاں بنائیں گی؟‘‘
پپریا تحصیل کے پنچ مڑھی چھاؤنی علاقہ میں، ۴۵ سالہ نندو لال دھربے ہمیں دائرہ کار بامی [چیونٹی اور دیمک دونوں کے گھروں کے لیے مقامی نام] دکھاتے ہیں۔ ’’ بامی کو نرم مٹی اور ٹھنڈی نمی کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن اب لگاتار بارش نہیں ہوتی اور موسم گرم ہو گیا ہے، اس لیے آپ کو یہ شاید ہی نظر آئیں۔
’’آج کل بے موسم ٹھنڈ یا بارش – بہت زیادہ یا بہت کم – کے سبب پھول مرجھا جاتے ہیں،‘‘ دھربے کہتے ہیں، جو ایک گونڈ آدیواسی اور مالی (باغباں) ہیں، جن کے پاس اپنے علاقے کی ایکولوجی کے بارے میں کافی معلومات ہیں۔ ’’اس لیے پھل دار درخت کم پھل دیتے ہیں اور کیڑوں کو کم کھانا ملتا ہے۔‘‘
ستپوڑہ رینج میں ۱۱۰۰ میٹر کی بلندی پر واقع پنچ مڑھی، نیشنل پارک اور ٹائیگر سینکچوری والا یونیسکو بایواسفیئر ریزرو ہے۔ میدانی علاقوں کی گرمی سے بچنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ ہر سال وسطی ہندوستان کے اس پہاڑی علاقہ کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ لیکن دھربے اور وجے سنگھ کا کہنا ہے کہ اب یہ علاقہ بھی گرم ہونے لگا ہے – اور ان کے اس خیال کی تصدیق کرنے والے اعدادوشمار موجود ہیں۔
گلوبل وارمنگ پر نیویارک ٹائمز کے ایک انٹریکٹو پورٹل کے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۹۶۰ میں، پپریا میں ایک سال میں درجہ حرارت ۱۵۷ دنوں تک ۳۲ ڈگری یا اس سے زیادہ تھا۔ آج، اُن گرم دنوں کی تعداد بڑھ کر ۲۰۱ ہو چکی ہے۔
کسانوں اور سائنسدانوں، دونوں کا کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں کے سبب کئی انواع کو نقصان ہو رہا ہے اور وہ غائب ہو رہی ہیں۔ جیسا کہ ایک ایف اے او رپورٹ میں وارننگ دی گئی ہے: ’’دنیا بھر میں انواع کے غائب ہونے کی شرح حال میں انسانی مداخلت کے سبب عام سے ۱۰۰ سے ۱۰۰۰ گنا زیادہ ہے۔‘‘
*****
’’میرے پاس آج بیچنے کے لیے چیونٹیاں نہیں ہیں،‘‘ گونڈ آدیواسی مُنّی بائی کچلن، ہمیں چھتیس گڑھ کے نارائن پور ضلع کے چھوٹے ڈونگرا ہفتہ واری بازار میں بتاتی ہیں۔ ۵۰ سالہ مُنّی بائی چھوٹی عمر سے ہی بستر کے جنگلوں سے گھاس اور چیونٹیاں جمع کر رہی ہیں۔ وہ ایک بیوہ ہیں اور ان کی چار بیٹیاں ہیں۔ ان کے پاس یہاں سے نو کلومیٹر دور، روہتاد گاؤں میں دو ایکڑ زمین ہے، جس پر یہ فیملی اپنے گزر بسر کے لیے کھیتی کرتی ہے۔
بازار میں، وہ جھاڑو کی گھاس، چیونٹیاں اور کبھی کبھی کچھ کلو چاول فروخت کرکے ۵۰-۶۰ روپے نقد جمع کرنے کی کوشش کرتی ہیں، تاکہ ضروری اشیاء خرید سکیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ تھوڑی مقدار میں چیونٹیاں بیچنے سے انہیں ۲۰ روپے مل جاتے ہیں۔ لیکن جس دن ہم ان سے ملے تھے، اس دن ان کے پاس بیچنے کے لیے چیونٹیاں نہیں تھیں، صرف گھاس کا ایک چھوٹا بنڈل تھا۔
’’ہم ہلینگی [لال چیونٹیوں] کو کھاتے ہیں،‘‘ منّی کہتی ہیں۔ ’’ایک زمانہ تھا جب ہم عورتوں کو یہ جنگل میں آسانی سے مل جاتی تھیں۔ اب ان میں سے بہت کم بچی ہیں اور صرف اونچے درختوں پر ہی ملتی ہیں – جس سے انہیں جمع کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ چیونٹیوں تک پہنچنے کی کوشش میں مردوں کو چوٹ لگ سکتی ہے۔‘‘
ہندوستان میں ہم کیڑوں کی تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ’’کیڑے اہم انواع ہیں۔ ان کے غائب ہونے پر پورا نظام تباہ ہو جائے گا،‘‘ این سی بی ایس کے ایسو سی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سنجے سانے کہتے ہیں۔ وہ جنگلاتی زندگی کے دو علاقوں میں – ایک مدھیہ پردیش کے پنچ مڑھی میں اور دوسرا کرناٹک کے اگومبے میں – پتنگے پر مشاہداتی مطالعہ کر رہے ہیں۔ ’’نباتات، زرعی طور طریقوں اور درجہ حرارت میں تبدیلی سے تمام قسم کے کیڑوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ پوری آبادی غائب ہو رہی ہے۔‘‘
کیڑے درجہ حرارت کو صرف کچھ حد تک ہی برداشت کر سکتے ہیں،‘‘ زولوجیکل سروے آف انڈیا (زیڈ ایس آئی) کے ڈائرکٹر، ڈاکٹر کیلاس چندرا کہتے ہیں۔ ’’یہاں تک کہ صفر اعشاریہ ۵ ڈگری سیلسیس کا معمولی اضافہ بھی ان کے حیاتیاتی نظام کو ہمیشہ کے لیے غیر متوازن اور تبدیل کر سکتا ہے۔‘‘ گزشتہ تین دہائیوں میں، اس ماہر حشرات نے جھینگور میں ۷۰ فیصد کی کمی درج کی ہے، جو تتلیوں اور پتنگے کے ساتھ، قدرتی تحفظ کے لیے بین الاقوامی تنظیم (آئی یو سی این) کی ریڈ لسٹ میں ’خاتمہ کے دہانے پر‘ کے طور پر نشان زد ہیں۔ ’’حشرہ کش کا حد سے زیادہ استعمال، جو ہماری مٹی اور پانی میں مل گیا ہے، نے دیسی کیڑوں، آبی کیڑوں، انوکھی قسموں کو تباہ کر دیا ہے اور ہمارے حشراتی تنوع کو غائب کر دیا ہے،‘‘ ڈاکٹر چندرا کہتے ہیں۔
’’پرانے کیڑے غائب ہو گئے ہیں، لیکن ہم نئے کیڑوں کو دیکھ رہے ہیں،‘‘ مواسی کمیونٹی کے آدیواسی کسان، ۳۵ سالہ لوٹن راج بھوپا نے ہمیں مدھیہ پردیش کی تامیا تحصیل کی گھاتیا بستی میں بتایا۔ ’’وہ اتنی تعداد میں آتے ہیں کہ پوری فصل کو برباد کر سکتے ہیں۔ ہم نے انہیں ایک نام بھی دیا ہے – ’بھن بھینی‘ [کئی]،‘‘ انہوں نے مذاقیہ لہجہ میں کہا۔ ’’یہ نئے کیڑے بہت ہی برے ہیں، حشرہ کش چھڑکنے پر وہ کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔‘‘
اتراکھنڈ کے بھیم تال میں تتلی ریسرچ سنٹر کے بانی، ۵۵ سالہ پیٹر اسمیٹا چیک کا طویل عرصے سے ماننا رہا ہے کہ ہمالیہ میں گلوبل وارمنگ کے سبب اس کے مغربی حصہ میں رطوبت اور درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے سردیاں جو پہلے خشک اور ٹھنڈی ہوا کرتی تھیں، اب گرم اور گیلی ہو گئی ہیں۔ اور اس لیے مغربی ہمالیہ کی تتلیوں کی انواع (جو گرم اور رطوبت والی آب و ہوا کی عادی ہیں) مشرقی ہمالیہ کی طرف آ گئی ہیں اور انہیں اپنا گھر بنانا شروع کر دیا ہے۔
کرۂ ارض کی ۲ اعشاریہ ۴ فیصد زمین کے ساتھ ہندوستان بایو ڈائیورسٹی کا اہم مرکز ہے، لیکن یہاں پر اس کی ۷ سے ۸ فیصد انواع ہی ہیں۔ زیڈ ایس آئی کے ڈاکٹر چندرا بتاتے ہیں کہ دسمبر ۲۰۱۹ تک ہندوستان میں کیڑوں کی انواع کی تعداد ۶۵ ہزار ۴۶۶ تھی۔ حالانکہ، ’’یہ ایک پرانا تخمینہ ہے۔ ممکنہ اعداد و شمار کم از کم ۴-۵ گنا زیادہ ہے۔ لیکن کئی انواع ریکارڈ کرنے سے پہلے ہی غائب ہو جائیں گی۔‘‘
*****
’’جنگلات کی کٹائی اور پارگی کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلی کے سبب پناہ گاہیں اجڑ رہی ہیں،‘‘ پنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ کے ارتقائی بایولوجسٹ ڈاکٹر ہیمندر بھارتی کہتے ہیں، جو ہندوستان کے ’اینٹ مین‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ ’’چیونٹیاں ریڑھ کی ہڈی والے دیگر جانوروں کے مقابلے زیادہ درستگی کے ساتھ تناؤ کا جواب دیتی ہیں اور علاقے اور انواع کی کثرت میں تبدیلی کو ناپنے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کی جاتی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر بھارتی، جو یونیورسٹی میں زولوجی اور ارضیاتی سائنسز شعبہ کے صدر ہیں، کو ہندوستان میں چیونٹیوں کی ۸۲۸ مستند انواع اور ذیلی انواع کی پہلی فہرست تیار کرنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ وہ وارننگ دیتے ہیں کہ ’’حملہ آور انواع تیزی سے تبدیلی کے موافق ہو جاتی ہیں اور دیسی انواع کو باہر بھگا رہی ہیں۔ وہ تمام علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیں گی۔‘‘
ایسا لگتا ہے کہ برے کیڑے جیت رہے ہیں، ۵۰ سالہ آدیواسی پاروَتی بائی محسوس کرتی ہیں۔ ہوشنگ آباد ضلع کے اپنے گاؤں، پگارا میں وہ کہتی ہیں، ’’اب ہم ان ’پھُندی کیڑوں‘ کو دیکھ رہے ہیں۔ پچھلے سال یہ میرے ایک ایکڑ میں لگی دھان کی زیادہ تر فصلوں کو کھا گئے تھے۔‘‘ ان کا اندازہ ہے کہ اس سیزن میں انہیں تقریباً ۹ ہزار روپے کا نقصان ہوا تھا۔
پاروَتی بائی سے ایک ہزار کلومیٹر دور، جنوبی ہند کی نیلگیری پہاڑی سلسلہ میں، ماہر نباتات ڈاکٹر انیتا ورگیس کا اندازہ ہے: ’’دیسی برادریاں ان تبدیلیوں کو سب سے پہلی محسوس کرتی ہیں۔‘‘ نیلگیری میں کی اسٹون فاؤنڈیشن کی ڈپٹی ڈائرکٹر، انیتا بتاتی ہیں کہ ’’کیرالہ میں شہد جمع کرنے والوں نے دیکھا کہ ایشیائی شہد کی مکھیاں (apis cerana) زمین میں نہیں، بلکہ درخت کی سوراخوں میں چھتے بنا رہی ہیں، جس کے لیے انہوں نے شکاری بھالو اور مٹی کے بڑھتے درجہ حرارت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ روایتی علم رکھنے والی برادریوں اور سائنسدانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ گفت و شنید کرنے کا طریقہ تلاش کرنا ہوگا۔‘‘
نیلگیری میں ہی، کٹّونائکن آدیواسی برادری کی ۶۲ سالہ کانچی کوئل، اپنے بچپن کی راتوں کو روشن کرنے والے جگنوؤں کے بارے میں خوشی سے بتاتی ہیں۔ ’’ مِن منی پوچی (جگنو) درختوں پر رتھ کی طرح نظر آتے تھے۔ جب میں چھوٹی تھی، تو وہ بڑی تعداد میں آتے تھے اور درخت بہت خوبصورت لگتے تھے۔ اب وہ زیادہ نظر نہیں آتے۔‘‘
اُدھر، چھتیس گڑھ میں دھمتری ضلع کے جبرّا جنگل میں، ۵۰ سالہ گونڈ آدیواسی کسان وشال رام مرکام جنگلات کی موت پر صدمے کا اظہار کرتے ہیں: ’’جنگل اور زمین اب انسانوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ ہم آگ جلاتے ہیں، ہم کھیتوں میں اور پانی میں ڈی اے پی [ڈائی امونیم فاسفیٹ] چھڑکتے ہیں۔ زہریلا پانی پینے سے ہر سال میرے ۷-۱۰ بڑے جانور مر جاتے ہیں۔ مچھلیاں اور پرندے زندہ نہیں رہ سکتے، تو چھوٹے کیڑے کیسے بچیں گے؟‘‘
کور فوٹو: یشونت ایچ ایم
رپورٹر اس اسٹوری میں اہم تعاون دینے کے لیے محمد عارف خان، راجندر کمار مہاویر، انوپ پرکاش، ڈاکٹر سویتا چِب اور بھارت میروگو کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔ اپنا علم شیئر کرنے کے لیے فارینسک ماہر حشرات ڈاکٹر میناکشی بھارتی کا بھی شکریہ۔
موسمیاتی تبدیلی پر پاری کی ملک گیر رپورٹنگ، عام لوگوں کی آوازوں اور زندگی کے تجربہ کے توسط سے اس واقعہ کو ریکارڈ کرنے کے لیے یو این ڈی پی سے امداد شدہ پہل کا ایک حصہ ہے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔
مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز