’’میں نے ابھی ابھی اورینٹل شاما کی آواز سنی۔‘‘
میکا رائی کافی خوش نظر آ رہے ہیں۔ وہ اس کی پکار کو چہچہاہٹ کے ایک خوبصورت سلسلے کی طرح بتاتے ہیں۔
حالانکہ، ان کے اس جوش میں اس ننھے کالے، سفید اور پیلے پروں والے پرندے کے بارے میں فکرمندی جھلک رہی ہے۔ اروناچل پردیش کی ایگل نیسٹ وائلڈ لائف سینکچری میں گزشتہ ایک دہائی سے پرندوں کا مطالعہ کر رہے ۳۰ سالہ فیلڈ اسٹافر میکا کہتے ہیں، ’’یہ پرندہ عموماً [۹۰۰ میٹر] نیچے ملتا ہے، لیکن کچھ عرصے سے میں اسے یہاں [۲۰۰۰ میٹر] اوپر سن رہا ہوں۔‘‘
مقامی باشندہ میکا سائنسدانوں، محققین اور فیلڈ اسٹاف کی اس ٹیم میں ہیں جو ۱۰ سال سے اروناچل پردیش کے مغربی کمینگ ضلع کے منطقہ حارہ کے پہاڑی جنگلوں میں پرندوں کی انواع کا مطالعہ کر رہی ہے۔
اپنی پونچھوں پر سفید لکیروں والے اس گہرے نیلے اور کالے رنگ کے دلکش پرندے کو پکڑے ڈاکٹر اُمیش شرینواسن بتاتے ہیں، ’’یہ سفید پونچھ والا رابن ہے۔ یہ ۱۸۰۰ میٹر کی اونچائی تک ملتا تھا، لیکن گزشتہ تین چار سالوں سے یہ ۲۰۰۰ میٹر پر ملنے لگا ہے۔‘‘
شرینواسن ماہر طیور ہیں اور بنگلورو کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس (آئی آئی ایس سی) میں پروفیسر اور اروناچل پردیش میں کام کر رہی اس ٹیم کے سربراہ ہیں۔ شرینواسن مزید کہتے ہیں، ’’گزشتہ ۱۲ سالوں سے مشرقی ہمالیہ میں پرندوں کی انواع اپنی پرواز کی اونچائیاں بدل رہی ہیں۔‘‘
ٹیم میں مقامی لوگوں کی موجودگی نے آس پاس کی برادریوں کو پرجوش کردیا ہے، جو درجہ حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے پریشان ہیں اور اس سے نمٹنے کے طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔ (اس کے بارے میں مزید معلومات اسی اسٹوری کے حصہ ۲ میں ملیں گی۔)
مغربی کمینگ کی ٹیم میں چھ لوگ ہیں، جن میں مقامی باشندے اور سائنسداں دونوں یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسکن گھٹنے اور درجہ حرارت بڑھنے سے پرندوں کا برتاؤ کیسے بدلتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں زیادہ اونچائی پر جانے کو مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ کم اونچائی پر ملنے والے پرندے جو زیادہ اونچائی پر جا رہے ہیں، وہ ہیں کامن گرین میگپائی، لمبی پونچھ والے براڈبل اور سلطان ٹٹ۔ اس سے ان کی زندہ رہنے کی شرح پر بھی اثر پڑے گا۔
ماہر طیور آگاہ کرتے ہیں، ’’یہ مہاجرت نہیں ہے۔ یہ بڑھتے درجہ حرارت کے ردعمل میں ہو رہا ہے، جو ان پرندوں کو اوپر کی طرف بڑھنے کو مجبور کر رہا ہے۔‘‘ ان مرطوب پہاڑی جنگلات (بادل جنگل) میں صرف پرندے ہی گرمی محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ آئتی تھاپا کہتی ہیں، ’’پچھلے تین چار سال میں پہاڑوں میں گرمی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔‘‘
آئتی، ٹیم کے سب سے نئے ارکان میں سے ایک ہیں اور ۲۰ سال کی ہیں۔ وہ مغربی کمینگ ضلع کی سینگچونگ تحصیل کے گاؤں رام لنگم کے پاس سے ہیں۔ ان کی فیملی رام لنگم میں ٹماٹر، گوبھی اور مٹر اُگاتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’اب یہ فصلیں اُگانا مشکل ہوتا جا رہا ہے، کیوں کہ بارش کا پیٹرن بھی غیر یقینی ہو چکا ہے۔ اب بارش ویسے نہیں ہوتی جیسے پہلے ہوا کرتی تھی۔
وائڈ اسپریڈ کلائمیٹ چینجز اِن دا ہمالیاز اینڈ ایسوسی ایٹڈ چینجز اِن لوکل ایکو سسٹم (ہمالیہ میں بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلیاں اور مقامی حیاتیاتی نظام میں متعلقہ تبدیلیاں) عنوان سے لکھے گئے ایک تحقیقی مقالہ میں کہا گیا ہے کہ ہمالیہ میں سالانہ اوسط درجہ حرارت ۵ء۱ ڈگری سیلسیس تک بڑھا ہے۔ ’’ہمالیہ میں درجہ حرارت میں اضافہ کی شرح دنیا کے اوسط سے زیادہ ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمالیہ ماحولیاتی تبدیلی کے معاملے میں سب سے حساس علاقوں میں سے ایک ہے۔‘‘ یہ پہاڑ دنیا کی ۸۵ فیصد ارضی حیاتیاتی تنوع کا علاقہ بھی ہے، اس لیے یہاں تحفظ (کنزرویشن) کا کام بیحد ضروری ہے۔
پرندے نسبتاً حرکت پذیر گروپ ہونے کے ناطے ایسے اشارے کے طور پر کام کر سکتے ہیں جو بتاتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی مرطوب پہاڑی حیاتیاتی تنوع پر کیسے اثر ڈالے گا
اُمیش کہتے ہیں، ’’دنیا بھر میں ہمالیائی حیاتیاتی تنوع پر انسانوں کا گہرا اثر دکھائی دیتا ہے۔‘‘ امیش کی آؤٹ ڈور تجربہ گاہ، ایگل نیسٹ وائلڈ لائف سینکچری کے اندر نیشنل پارک کے بونگپو بلانگسا میں ایک کیمپ سائٹ ہے، جو اروناچل پردیش میں ۲۱۸ مربع کلومیٹر میں پھیلا ہے۔
اس سینکچری کی اونچائی ۵۰۰ میٹر سے ۳۲۵۰ میٹر کے درمیان ہے۔ یہ زمین پر اُن چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں اتنی اونچائی پر ہاتھی مل جاتے ہیں۔ یہاں ملنے والے دوسرے جانور ہیں کلاؤڈیڈ تیندوئے، ماربل بلیاں، ایشیائی سنہری بلیاں اور تیندوا بلیاں۔ تقریباً نایاب ہو چکے کیپڈ لنگور، ریڈ پانڈا، ایشیائی کالے بھالو اور بیحد غیر محفوظ اروناچل مکاک اور گور بھی ان جنگلوں میں اپنا بسیرا کرتے ہیں۔
آئتی اور دیما تمانگ اپنی عمر کے ۲۰ویں پڑاؤ کو پار کر چکی ہیں، اور اپنے گاؤں رام لنگم کی، اور اصل میں پوری ریاست کی پہلی خواتین ہیں جو پرندوں کی دستاویز تیار کرکے ان کا مطالعہ کر رہی ہیں۔ جب ان لڑکیوں کو پہلی بار یہ کام ملا، تو بڑے بزرگ جھجک رہے تھے۔ وہ کہتے تھے، ’’آپ انہیں جنگل میں کیوں لے جانا چاہتے ہیں؟ لڑکیوں کے یہ کام نہیں ہوتے۔‘‘
اسی رام لنگم گاؤں کے رہنے والے میکا کہتے ہیں، ’’میں نے انہیں بتایا تھا کہ دنیا اب اُس طرح نہیں چلتی۔‘‘ میکا کو نہ صرف یہاں، بلکہ ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کے جنگلوں میں پرندوں کی دستاویز تیار کرنے کا تجربہ ہے۔ ’’کسی بھی کام کو لڑکیاں اور لڑکے دونوں کر سکتے ہیں۔‘‘
آئتی جیسے فیلڈ اسٹاف ہر مہینے ۱۸ ہزار روپے کما کر اپنے خاندانوں کا پیٹ پال سکتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کاشتکار ہیں۔
تحقیقی کام کی مشقت کے باوجود آئتی ہنستے ہوئے کہتی ہیں، ’’پرندوں کے انگریزی نام سیکھنا سب سے مشکل کام لگ رہا تھا۔‘‘
*****
انیسویں صدی میں کوئلے کی کانوں میں کام کرتے وقت مزدوروں نے کینری پرندوں کو غیر معمولی خطرے کا اشارہ دینے والے پرندوں کے طور پر استعمال کیا تھا۔ یہ چھوٹے پرندے خاص کر کاربن مونو آکسائڈ کے تئیں حساس ہوتے ہیں اور کانکنی سے متعلق حادثات کو روک سکتے ہیں۔ اس کے رابطہ میں آنے پر ان کی موت ہو جاتی ہے۔ ممکنہ خطرے کے ابتدائی اشاروں کا ذکر کرنے کے لیے ’اے کینری اِن دا کول مائن‘ ایک مشہور کہاوت بن گئی۔
پرندے نسبتاً حرکت پذیر گروپ ہونے کے ناطے ایسے اشارے کے طور پر کام کر سکتے ہیں جو بتاتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی مرطوب پہاڑی حیاتیاتی تنوع پر کیسے اثر ڈالے گا۔ اس لیے بونگپو ٹیم کا کام اہمیت کا حامل ہے۔
ایگل نیسٹ سینکچری میں پرندوں کی ۶۰۰ انواع ہیں۔ امیش کہتے ہیں، ’’یہاں آپ کو سینکڑوں چھوٹے رنگ برنگے پرندے ملیں گے، جن کا وزن ۱۰ گرام یا ایک چمچہ چینی سے بھی کم ہے۔‘‘ اس کے علاوہ کچھ نایاب پرندے ان مرطوب پہاڑی جنگلوں کو اپنا گھر مانتے ہیں، جیسے گہرے لال رنگ والا وارڈس ٹروگن، بڑے تیتر جیسا بلتھس ٹریگوپین، ریشمی نیلا سرمئی خوبصورت نٹ ہیچ اور شاید اُن سبھی میں سب سے مشہور بڑی مشکل سے نظر آنے والا بوگون لیوسچلا۔
چنوتی سے بھرے حالات، سخت موسم اور اوبڑ کھابڑ علاقے کے باوجود اس وائلڈ لائف سینکچری میں ملنے والے پرندے دنیا بھر سے پرندوں کے شائقین کو متوجہ کرتے ہیں۔
محققین کی ٹیم جنگل میں کافی اندر رہ کر کام کرتی ہے، جہاں وہ بغیر بجلی پانی یا مناسب چھت والے کمرے میں رہتے ہیں۔ بونگپو بلانگسا میں اپنا کیمپ بنائے رکھنے کے لیے ہر رکن کھانا پکانے اور برتن صاف کرنے سے لے کر قریب کے چشمے سے پانی کے ڈرم لانے تک کا کام کرتا ہے۔ مقامی لوگ تقریباً دو گھنٹے کے فاصلہ پر رام لنگم گاؤں سے آتے ہیں، جب کہ امیش اور دیگر محققین ملک کے دوسرے حصوں سے ہیں۔
آج کھانا پکانے کی باری آئتی کی ہے اور وہ لکڑیوں سے جل رہی آگ پر رکھے بڑے برتن میں دال پکا رہی ہیں۔ ’’مجھے خوشی ہے کہ میرے کام سے لوگوں کی جانوروں کے بارے میں سمجھ بہتر ہوتی ہے۔‘‘ وہ یہاں دو سال سے کام کر رہی ہیں۔
ٹیم ہر رات ایک چھوٹا سا کھیل کھیلتی ہے۔ وہ ان پرندوں پر داؤ لگاتے ہیں جنہیں وہ پکڑیں گے اور اس کے لیے بنیاد ہوتی ہے برسوں سے پکڑے گئے پرندے۔ ہر کوئی اس میں حصہ لیتا ہے۔ ان کے ہیڈ لیمپ اوپر نیچے ہلنے لگتے ہیں، کیوں کہ چھت پر پڑے شامیانہ پر بارش کا زور تیز ہوگیا ہے۔
’’کل صبح کون سا پرندہ سب سے پہلے جال میں پھنسے گا؟‘‘ آئتی اُن سے پوچھتی ہیں۔
پھر یقین کے ساتھ کہتی ہیں، ’’مجھے تو لگتا ہے کہ سنہرے سینے والا فُلویٹا پھنسے گا۔‘‘
میکا زور سے بولتے ہیں، ’’سفید چشمے والا واربلر۔‘‘ دمبر پوری طاقت سے ’’نہیں‘‘ کہہ کر اسے خارج کر دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’پیلی گردن والا فُلویٹا۔‘‘
میکا اور دمبر زیادہ تجربہ کار ہیں، کیوں کہ امیش نے انہیں پہلے بھرتی کیا تھا، جو بیس سال کی عمر میں بونگپو کیمپ میں شامل ہوئے تھے۔ دونوں رام لنگم کے سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے۔ جہاں دمبر نے ۱۱ویں تک پڑھائی کی، وہیں میکا نے ۵ویں کلاس کے بعد پڑھائی چھوڑ دی۔ وہ افسوس جتاتے ہیں، ’’مجھے پڑھائی کی قطعی پرواہ نہیں تھی۔‘‘
یہ لوگ جلد ہی سونے چلے جاتے ہیں، کیوں کہ پرندوں کو پکڑنا اور ضروری اعداد و شمار درج کرنے کا سب سے اچھا کام صبح میں ہوتا ہے۔ کلنگ ڈنگین بتاتے ہیں، ’’ہم صبح ساڑھے تین بجے تک جاگ سکتے ہیں۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ سیمپلنگ پلاٹ کتنی دور ہیں۔‘‘ آئی آئی ایس سی میں پی ایچ ڈی کر رہے ۲۷ سال کے کلنگ پرندوں کے جسم پر تناؤ کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ وہ بھی جلد ہی ٹیم کے ساتھ علی الصبح سیمپلنگ پلاٹ کے لیے روانہ ہوں گے۔
*****
مشرقی ہمالیہ کے اس حصے کی اونچائی اور دوری کے باوجود یہاں کے مرطوب جنگل خاص کر درختوں کی کٹائی کے سبب پرندوں کے گھٹتے مسکن کی وجہ سے دباؤ میں ہیں۔ حالانکہ، سپریم کورٹ نے تین دہائی قبل کٹائی پر روک لگا دی تھی، لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی توازن کو جو نقصان ہونا تھا، وہ ہو چکا ہے۔
محقق کلنگ کہتے ہیں، ’’کٹے ہوئے درختوں والے جنگل میں ماحولیاتی تبدیلی کا اثر اور بھی پیچیدہ ہوتا ہے، کیوں کہ دھوپ سیدھے اندر پہنچ رہی ہے۔ جنگل کٹتے ہیں، تو سب کچھ بدل جاتا ہے۔‘‘ کٹے ہوئے درختوں والے جنگل میں درجہ حرارت پرائمری جنگلات کے مقابلے ۶ ڈگری سیلسیس تک زیادہ ہو سکتا ہے۔
کلنگ کہتے ہیں، ’’گرمی ہونے پر پرندے سایہ میں زیادہ دیر تک رہتے ہیں اور ان کے پاس کھانے کا وقت کم رہ جاتا ہے۔ اس لیے جسم کی حالت، ان کا وجود اور عمر کم ہو جاتی ہے۔ ان سب کی وجہ سے اور اس حقیقت کے سبب ہوتا یہ ہے کہ انہیں جو کھانا چاہیے، وہ لاگ (کٹے ہوئے) جنگلات میں کم ملتا ہے۔‘‘ وہ وزن اور پروں کے پھیلاؤ جیسے اعداد و شمار درج کرتے ہیں اور ماحولیاتی تبدیلی کے سبب پرندوں کے تناؤ کو سمجھنے کے لیے ان کے خون کے نمونوں اور فضلے کی جانچ کرتے ہیں۔
اُمیش بتاتے ہیں، ’’سفید پونچھ والے رابن، کیٹر پلر (سنڈی) اور ’ٹو بگ‘ یعنی ہیمپٹیرن کو کھاتے ہیں۔ اس قسم کے [کٹائی والے] جنگلات میں ان کی تعداد کافی تیزی سے گھٹنے لگتی ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ سفید پونچھ والے رابن کی تعداد میں کمی کا موازنہ درختوں کی کٹائی کے بعد ہوئے اثر سے کیا جا سکتا ہے۔ ’’یہ پرندے کے جسم پر سیدھا تناؤ پیدا کر سکتا ہے کیوں کہ یہ گرم ہے۔‘‘
بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے ہمالیہ میں پودے بھی اوپر کی طرف بڑھنے لگے ہیں۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ پرندوں کی نظر بھی پیڑ پودوں میں ہو رہی تبدیلی پر رہتی ہے۔ امیش کہتے ہیں، ’’تاریخی طور پر ۲۰۰۰-۱۰۰۰ میٹر پر ملنے والی انواع اب زندہ رہنے کے لیے ۲۲۰۰-۱۲۰۰ میٹر پر چلی گئی ہیں۔‘‘ پاپوا نیو گنی اور اینڈیز جیسے دوسرے منطقہ حارہ کے علاقوں میں پرندوں کے زیادہ اونچائی پر جانے سے متعلق تحقیقی مطالعے کیے گئے ہیں۔
سائنسداں پریشان ہیں کہ جیسے جیسے انواع اوپر کی طرف بڑھیں گی، تو ان کے پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچنے کا خطرہ ہو جائے گا، وہ اپنی جگہ چھوڑ دیں گی، اور باہر نکل کر معدوم ہو جائیں گی، کیوں کہ اوپر جانے کے لیے ان کے پاس اور جگہ نہیں بچے گی۔
ایگل نیسٹ سینکچری میں کم اونچائی پر مرطوب سدا بہار جنگل ہیں، چوڑی پتی والے تپش آمیز جنگل درمیانی اونچائی پر اور سب سے اونچی چوٹیوں پر مخروطی (صنوبری) اور خرزہرہ جنگلات ہیں۔ امیش کہتے ہیں کہ ان سب کے ذریعے، ’’ابھی ہمیں ماحولیاتی رابطے کی ضرورت ہے۔ جانداروں کی انواع ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے لائق ہونی چاہئیں۔‘‘ وہ تربیت یافتہ ڈاکٹر بھی ہیں۔ پرندوں کے لیے ان کے پیار نے انہیں پیشہ بدلنے کو مجبورکردیا۔
ان کا کہنا ہے، ’’اگر پہاڑوں کے درمیان کھیتی یا شہرکاری ہو رہی ہے، تو ایسا نہیں ہو پائے گا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ہمیں ان انواع کو بچانے کے لیے ایسے گلیارے چاہیے جو کافی اونچائی تک پھیلے ہوں۔‘‘
*****
میکا رائی، دمبر پردھان، آئتی تھاپا اور دیما تمانگ جیسے مقامی فیلڈ اسٹاف اس مطالعہ کے لیے اہم ہیں۔ وہ ضروری اعداد و شمار اکٹھا کر رہے ہیں اور کئی مطالعات میں انہیں شریک کار مصنف کے بطور رکھا گیا ہے۔
فیلڈ اسٹاف کو جال سونپے گئے ہیں اور مسٹ نیٹنگ نام کی تکنیک کے ذریعے وہ پرندوں کو پکڑتے ہیں۔ اس میں گھنے پیڑ پودوں والے جنگلات میں ڈنڈوں کے درمیان باریک جال لگانا شامل ہے، جنہیں پرندے نہیں دیکھ پاتے۔ جیسے ہی پرندے جال میں سے اڑتے ہیں، اسی میں پھنس جاتے ہیں۔
اپنے ایک جال کی طرف کیچڑ بھری ڈھلان سے تقریباً پھسلتے ہوئے ۲۸ سالہ دمبر کہتے ہیں، ’’ہم سبھی کو ۱۰-۸ جال سونپے گئے ہیں۔‘‘ اپنی جگہ پہنچ کر وہ پیار سے جال میں پھنسے ننھے پرندے کو نکالتے ہیں اور انہیں ہرے سوتی کپڑے کی تھیلیوں میں رکھ لیتے ہیں۔
پرندوں کو کبھی بھی ۱۵ منٹ سے زیادہ وقت تک جال میں نہیں چھوڑا جاتا۔ اگر بارش کا ذرا بھی امکان ہوا، تو ٹیم کے ارکان پلاٹس میں پھیل جاتے ہیں اور پرندوں کا تناؤ کم کرنے کے لیے انہیں فوڑا چھوڑ دیتے ہیں۔
پرندے کے سینے کے چاروں طرف بندھے ملائم رِنگر کی پکڑ، پرندے کو بیگ سے آزاد کردیتی ہے۔ انہیں کافی محتاط رہنا پڑتا ہے کیوں کہ تھوڑا سا بھی دباؤ ننھے جانور کی زندگی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ پھر پرندوں کو ناپا تولا جاتا ہے اور انہیں رِنگ پہنائی جاتی ہے۔
دیما کہتی ہیں، ’’میں اس کام کو ہلکے میں نہیں لیتی۔ مجھے پرندوں کے ساتھ کام کرنا پسند ہے۔ دنیا بھر سے لوگ یہاں آتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ انہیں دوربین سے ہی دیکھ پاتے ہیں۔ میں انہیں پکڑ پاتی ہوں۔‘‘
دسویں کلاس کے بعد اسکول چھوڑ دینے والی آئتی کہتی ہیں، ’’اگر میں ۲۰۲۱ میں یہ کام کرنے کے لیے ٹیم میں شامل نہ ہوئی ہوتی، تو میں اپنی فیملی کے ساتھ کرایے کے کھیت میں کام کر رہی ہوتی۔‘‘ دیما اور آئتی جیسی نوجوان عورتیں میکا کے کام سے حوصلہ پا رہی ہیں اور نوجوان لڑکے اب ان جنگلوں میں شکار کی روایت کو چنوتی دے رہے ہیں۔
’’لڑکے غلیل سے پرندوں پر نشانہ لگاتے اور انہیں گرانے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ اسکول کے بعد جنگلوں میں جاتے تھے اور وقت گزارنے کے لیے یہ سب کرتے رہتے تھے۔‘‘ ان پرندوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لیے امیش نے جب سے میکا کو کام پر رکھا، تب سے میکا بچوں کو رام لنگم کے جنگلوں اور اس کی جنگلاتی زندگی کی تصویریں دکھانے لگے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرے نوجوان چچیرے بھائی اور دوست شکار اور تحفظ کو اب الگ طریقے سے دیکھنے لگے ہیں۔‘‘
میکا ایگل نیسٹ سینکچری کے کونے کونے سے واقف ہیں۔ ان کی اس مہارت کی وجہ سے ان کے ساتھی انہیں انسانی جی پی ایس کہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’جب میں چھوٹا تھا، ہمیشہ شہر میں رہنا چاہتا تھا۔ یہ خواہش اُس پرندے پالنے والے کی طرح تھی، جو پرندوں کی نئی انواع کو دیکھنا چاہتا ہے۔ مگر ہندوستان کے دوسرے حصوں کا سفر کرنے کے بعد میری بس یہ خواہش تھی کہ میں اروناچل پردیش کے جنگلوں میں لوٹ جاؤں۔‘‘
وادیوں اور سرسبز پہاڑی جنگلات پر تنے ایک جال تک پہنچ کر وہ کہتے ہیں، ’’چاہے میں جتنی بار یہاں لوٹوں، جنگل مجھے ہمیشہ حیرانی سے بھر دیتا ہے۔‘‘
اس اسٹوری کا حصہ ۲ جلد ہی آنے والا ہے، جس میں آپ پڑھ سکتے ہیں کہ مقامی لوگ کیسے ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز