ہماری گفتگو بنیادی باتوں سے شروع ہوتی ہے۔ گنٹور ضلع کے پینوماکا گاؤں کے ۶۲ سالہ کسان شیو ریڈی مجھ سے کہتے ہیں، ’’میرے پاس پانچ ایکڑ زمین ہے۔ تین ایکڑ میں، میں کیلا کی کھیتی کرتا ہوں، دو ایکڑ میں لوکی، ایک ایکڑ میں پیاز....‘‘ اس کا مطلب ہوا کہ آپ کے اس پانچ نہیں چھ ایکڑ زمین ہے، میں پوچھتا ہوں۔
شیو مسکرائے۔ ان کے دوست اور ساتھی کسان، سامبی ریڈی (۶۰)، جو ہماری باتیں غور سے سن رہے تھے، کہتے ہیں، ’’یہ تقریباً ۲۰ ایکڑ زمین کے مالک ہیں۔ ہم [اپنی زمین کے بارے میں] سچائی نہیں بتاتے، کیوں کہ ہمیں بھروسہ نہیں ہے کہ کون کیا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ آپ یہ جانکاری کسے دیں اور وہ اس کے ساتھ کیا کریں گے۔‘‘
لیکن صحافیوں یا افسروں کو لے کر یہ عام شک نہیں ہے۔ ’’جب سے [نئی] راجدھانی کا اعلان ہوا ہے، تب سے ہم خوف اور غیر یقینی کی حالت میں جی رہے ہیں،‘‘ سامبی ریڈی کہتے ہیں۔ ’’ماضی میں بھی ہم کئی بار، خود اپنے ہی لوگوں کے ذریعے دھوکہ کھا چکے ہیں جب انھوں نے ہمارے بارے میں، ریاستی حکومت اور ریئل اسٹیٹ کمپنیوں کو جانکاری پہنچائی تھی۔‘‘
شیو اور سامبی خوفزدہ ہیں کہ انھیں آندھرا پردیش کی نئی راجدھانی، امراوتی کی تعمیر کے لیے اپنی زمین چھوڑنی پڑے گی۔ اس نئی ’سبز‘ راجدھانی کے لیے حکومت نے ستمبر ۲۰۱۴ میں، کرشنا ندی کے شمالی ساحل پر واقع ۲۹ گاؤوں کی زمین کو تحویل میں لینے کا اعلان کیا تھا۔ شیو کا گاؤں ان میں سے ایک ہے۔
حیدرآباد (۲۰۱۴ میں تقسیم کے بعد) ۱۰ برسوں تک آندھرا پردیش اور تلنگانہ، دونوں کی راجدھانی بنا رہے گا۔ اس لیے ۲۰۲۴ تک، نئی راجدھانی کا پہلا مرحلہ مکمل ہو جائے گا، آندھرا پردیش کیپٹل ریجن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (اے پی سی آر ڈی اے) نے اپنی متعدد پریس ریلیزوں میں یہ بات کہی ہے۔ اس کا دوسرا مرحلہ ۲۰۳۰ تک اور تیسرا مرحلہ ۲۰۵۰ تک مکمل کر لیا جائے گا۔
ریاستی حکومت اس نئی راجدھانی کو ’عالمی معیار‘ کے شہر کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ جنوری ۲۰۱۸ میں، وجے واڑہ میں امراوتی میراتھن کے اختتام پر وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے کہا تھا، ’’امراوتی عوام کی راجدھانی ہے اور یہ دنیا کے سرفہرست پانچ شہروں میں سے ایک ہوگی۔‘‘
سنگاپور کی تعمیراتی کمپنیوں کے ذریعے امراوتی سسٹین ایبل کیپٹل سٹی ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے لیے تیار کیے گئے ماسٹر پلان کے مطابق، تینوں مراحل کی ایک ساتھ تعمیر کے لیے تقریباً ۱۰۰۰۰۰ ایکڑ زمین کی ضرورت ہوگی۔ اس پر گورنر ہاؤس، لیجسلیٹو، ہائی کورٹ، سکریٹریٹ، بنیادی ڈھانچہ (سڑک اور رہائشی کالونیوں سمیت)، صنعتوں اور آئی ٹی کمپنیوں کی تعمیر کی جائے گی – اور کچھ زمین ان لوگوں کو مختص کی جائے گی جن سے ریاست کے ذریعے زمین تحویل میں لی جا رہی ہے۔
حالانکہ، شیو راما کرشنن کمیٹی کی اگست ۲۰۱۴ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نئی راجدھانی کی انتظامی عمارتوں کے لیے ۲۰۰-۲۵۰ ایکڑ زمین کافی ہوگی؛ ان کے علاوہ، اس نے آندھرا پردیش کے مختلف حصوں میں بڑی بڑی بلڈنگ بنانے کے بجائے ’غیر مرکوز‘ ترقی کی سفارش کی۔ مرکزی حکومت کے ذریعے اس کمیٹی کی تشکیل مارچ ۲۰۱۴ میں، نئی راجدھانی کے لیے متبادل مقامات کا مطالعہ کرنے کے لیے کی گئی تھی، جو اس بات کو یقینی بنائے کہ ’’موجودہ زرعی نظاموں کی کم از کم منتقلی ہو،‘‘ لوگوں اور ان کی رہائش کی کم از کم بازآبادکاری ہو، اور مقامی ماحولیات کا تحفظ ہو سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ ریاستی حکومت نے کمیٹی کی رپورٹ کو نظر انداز کر دیا ہے۔
اے پی سی آر ڈی اے ماسٹر پلان یہ بھی کہتا ہے کہ ۲۰۵۰ تک نئے شہر میں ۵ء۵۶ لاکھ نوکریاں پیدا ہوں گی، لیکن یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ کیسے۔ راجدھانی کی اس اسکیم کی لاگت ۵۰ ہزار کروڑ روپے سے زیادہ ہونے کا امکان ہے – میرے ذریعے پوچھے جانے پر اے پی سی آر ڈی اے کے کمشنر شری دھر چیروکوری نے اس رقم کی تصدیق کی تھی۔ فنڈ دینے والوں میں آندھرا پردیش حکومت، عوام (حکومت کے ذریعے بیچے گئے بانڈ کے توسط سے) اور، شاید عالمی بینک اور ایشیائی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک شامل ہیں۔
نئی راجدھانی کے لیے تحویل اراضی کے لیے، ریاستی حکومت جنوری ۲۰۱۵ میں لینڈ پولنگ اسکیم (ایل پی ایس) لے کر آئی۔ حالانکہ، ایل پی ایس میں ان حفاظتی طریقوں اور جانچوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے، جن کا وعدہ ۲۰۱۳ کے تحویل اراضی، منتقلی اور بازآبادکاری میں مناسب معاوضہ اور شفافیت کے حق کا قانون (ایل اے آر آر) میں کیا گیا ہے، اس میں سماجی اور ماحولیاتی اثرات کا تخمینہ، کم از کم ۷۰ فیصد متاثرین کی رضامندی، اور مناسب بازآبادکاری پیکیج بھی شامل ہیں۔
ایل پی ایس صرف زمین مالکوں کی رضامندی حاصل کرتی ہے اور زمین پر منحصر دیگر لوگوں، جیسے کہ زرعی مزدوروں کو درکنار کر دیتی ہے۔ زمین مالک ’رضاکارانہ طور پر‘ ریاست کو اپنی زمین دے سکتے ہیں اور نئی راجدھانی میں ’ازسرنو منظم تعمیر شدہ‘ پلاٹ (رہائشی اور کاروباری اجزاء کے ساتھ) حاصل کر سکتے ہیں۔ اے پی سی آر ڈی اے باقی زمین کو سڑکوں، سرکاری عمارتوں، صنعتوں وغیرہ کے لیے اپنے پاس رکھ لے گا۔ حکومت نے ۱۰ برسوں تک ہر سال ۳۰-۵۰ ہزار روپے فی ایکڑ (جو زمین کی قسم پر منحصر ہے) کے معاوضے کا بھی وعدہ کیا ہے، جب تک کہ زمین مالکوں کو ان کے نئے پلاٹ نہیں دے دیے جاتے۔
’’ریونیو افسران لگاتار کہتے رہے کہ اگر ہم نے پولنگ کے لیے اپنی زمین نہیں دی، تو سرکار ہم سے جبراً ہماری زمین چھین لے گی۔ سرکار یہ جھوٹ پھیلا رہی ہے کہ تحویل اراضی قانون کے تحت ہمیں جو معاوضہ ملے گا، وہ ایل پی ایس کے مقابلے بہت ہی معمولی ہوگا،‘‘ سامبی ریڈی کہتے ہیں۔
مارچ ۲۰۱۷ میں، ۱۰۰۰ سے زیادہ کسانوں نے عالمی بینک کو خط لکھ کر کہا کہ وہ راجدھانی کی اس اسکیم کے لیے پیسے نہ دے، کیوں کہ یہ ان کے کھیتی اور ماہی گیری کے ذریعہ معاش کے لیے خطرہ ہے، جو اس علاقے کے زرخیز کھیتوں اور غذائی تحفظ کو برباد کر دے گا، اور سیلاب کے امکان والے اس علاقے میں بڑے پیمانے پر تعمیراتی سرگرمیوں سے بھاری ماحولیاتی نقصان ہو سکتا ہے۔ انھوں نے عالمی بینک سے اپنا نام خفیہ رکھنے کے لیے کہا تھا۔
پینوماکا کے ایک دیگر کسان، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، مجھ سے کہتے ہیں، ’’پولنگ اسکیم کی مخالفت کرنے کی وجہ سے پولس نے ہمارے خلاف جھوٹے معاملے درج کیے۔ ۲۹ گاؤوں میں سے ہر ایک میں سینکڑوں پولس اہلکار پہنچ جاتے اور مہینوں تک خیمہ زن رہتے۔‘‘ اس نے گاؤوں والوں کو خوفزدہ کرنے کا کام کیا۔
پینوماکا کے ایک دیگر کسان، یہ بھی اپنا نام پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں، کہتے ہیں، ’’گاؤں کے پنچایت دفتر کو اے پی سی آر ڈی اے دفتر میں بدل دیا گیا تھا، جس کی نگرانی ڈپٹی کلکٹر کے کیڈر کے ایک افسر کر رہے تھے۔‘‘
عالمی بینک کے لیے اے پی سی آر ڈی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق، لینڈ پولنگ اسکیم کے لیے ۴۰۶۰ زمین مالکوں (اکتوبر ۲۰۱۷ تک) کی رضامندی لینی باقی ہے۔ حالانکہ، اے پی سی آر ڈی اے کمشنر شری دھر چیروکوری کا کہنا ہے کہ کسی طاقت یا دباؤ کا استعمال نہیں کیا گیا تھا، اور جنوری ۲۰۱۵ سے کسانوں نے اپنی زمین ’’رضامندی اور خوشی سے‘‘ دینا شروع کر دیا تھا۔
۲۹ گاؤوں میں سے، پینوماکا اور اُنڈاوَلّی کے لوگوں نے لینڈ پولنگ اسکیم کی سختی سے مخالف کی اور اپنی زمین نہیں دی۔ چنئی-کولکاتا قومی شاہراہ سے ان گاؤوں کی قربت، اس زمین کو خاص طور سے قیمتی بناتی ہے۔ اور یہاں کے بہت سے کسان، جن میں سے زیادہ تر ریڈی برادری کے ہیں، اہم اپوزیشن پارٹی، یووجن شرمک رایتھو کانگریس پارٹی کے حامی ہیں۔
بقیہ ۲۷ گاؤوں کے زمین مالک بنیادی طور پر کمّا برادری سے ہیں، جو برسراقتدار تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کے مضبوط حامی ہیں، اور امراوتی پروجیکٹ کی حمایت کرتے ہیں۔ ’’ہمیں ترقی کرنی چاہیے۔ ہم کب تک گاؤوں میں رہیں گے؟ ہم وجے واڑہ اور گنٹور کے لوگوں کی طرح ترقی یافتہ بننا چاہتے ہیں،‘‘ ادنڈرایونی پالم کے گِنجوپلّی شنکر راؤ کہتے ہیں، جنہوں نے لینڈ پولنگ کے لیے اپنی زمین دے دی تھی۔ ندی سے دور نیروکونڈا گاؤں میں، مووا چلپتی راؤ پوچھتے ہیں، ’’مجھے کھیتی کیوں کرنی چاہیے جب کہ مجھے ہمیشہ نقصان ہی اٹھانا پڑتا ہے؟‘‘
لیکن ان ۲۷ گاؤوں میں بھی مخالفت ہو رہی ہے – اس میں ایل پی ایس سے زمین نہ لینے والے لوگ شامل نہیں ہیں۔ وینکٹاپالم گاؤں میں، میری ملاقات کمّا برادری کی ایک چھوٹی کسان بویاپتی سُدھرانی سے ہوئی، جن کے پاس ایک ایکڑ سے بھی کم زمین ہے۔ فروری ۲۰۱۵ میں، انھیں انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو میں دیکھا گیا، جس میں وہ کہہ رہی تھیں، ’’جب سے مجھے ووٹ دینے کا حق ملا ہے، میں نے کبھی بھی ٹی ڈی پی کو چھوڑ کر کسی بھی دوسری پارٹی کو ووٹ نہیں دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم نے اپنی ہی قبر کھود لی۔ میرے پاس چندرا بابو کے لیے صرف ایک سوال ہے۔ اگر وہ ہمیں ۱۰ بعد پلاٹ دیں گے، تو کیا ہمیں ابھی مر جانا چاہیے اور بعد میں پیدا ہونا چاہیے؟‘‘ اس کے بعد پولس اور محکمہ مالیات کے افسر ان کے گھر پہنچے، (ان کے شوہر اور سسرال والوں پر دباؤ ڈال کر) انھیں پیچھے ہٹنے اور لینڈ پولنگ اسکیم کے لیے اپنی رضامندی دینے پر مجبور کیا۔
’’آپ کے پاس [سطح سے] ۱۰-۱۵ فیٹ نیچے زیر زمین پانی ہے۔ یہ [زرخیز کرشنا گوداوری ڈیلٹا میں] کثیر فصلی زمین ہے اور کھیت سال میں ایک دن بھی خالی نہیں رہتے ہیں۔ سال کے سبھی ۳۶۵ دنوں میں ایک یا دوسری فصل اُگتی ہے،‘‘ کرشنا ریڈی کہتے ہیں، جو پینوماکا میں ایک ایکڑ زمین کے مالک ہیں، اور دیگر چار ایکڑ کرایے پر لے رکھا ہے۔ ’’مجھے عام طور پر ہر سال ۲ لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے منافع ملتا ہے۔ بازار کی قیمتیں جب کم ہوتی ہیں، تو زیادہ تر مجھے نہ تو کوئی نقصان ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی منافع۔
شریکا کولم اور راج مُندری جیسے دور دراز کے علاقوں سے زرعی مزدور، کام کی تلاش میں طویل عرصے سے پینوماکا، اُنڈاولی اور ۲۹ گاؤوں میں سے کچھ دیگر میں آتے رہے ہیں۔ مرد روزانہ ۵۰۰-۶۰۰ روپے، جب کہ عورتیں ۳۰۰-۴۰۰ روپے کماتی ہیں، اور یہاں سال بھر کام ملتا ہے۔ ’’اب اِن ۲۹ گاؤوں کے لوگوں کو کام نہیں مل رہا ہے اور وہ کام کی تلاش میں دور دراز کے گاؤوں میں جا رہے ہیں،‘‘ کرشنا کہتے ہیں۔
میں ان سے پوچھتا ہوں، ’’آپ کونی سی فصل اُگاتے ہیں؟‘‘ وہ فوراً جواب دیتے ہیں: ’’آپ کسی بھی فصل کا نام بتائیں۔ میں اسے اگلے سال اُگاؤں گا اور مجھے امید ہے کہ فصل بھی بمپر ہوگی۔ میں آپ کو چاروں طرف گھما کر ۱۲۰ الگ الگ فصلیں دکھا سکتا ہوں۔‘‘ کرشنا فی الحال کیلا اور مکئی کی کھیتی کرتے ہیں، اور اس علاقے سے جڑا ہوا مضبوط زرعی بازار ان کے جیسے کسانوں کے لیے ایک اضافی بونس ہے۔
شیو کو نہیں معلوم کہ اِن زرخیز زرعی زمین کی تحویل جب راجدھانی کے شہر کے لیے ہو جائے گی، تب ریاست کس قسم کے روزگار پیدا کرے گی۔ ’’وہ ۵۰ لاکھ نوکریاں کہاں سے آئیں گی؟ یہ سب بکواس ہے، معاش کے ذرائع پہلے سے ہی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں پر ترقی کی آڑ میں ریئل اسٹیٹ کا کاروبار چل رہا ہے۔ یہ عوام کی راجدھانی نہیں ہے۔ یہ بین الاقوامی کمپنیوں، امیروں، سوٹ پہننے والوں کی راجدھانی ہے، ہمارے جیسے عام لوگوں کے لیے نہیں۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)