مینا کی کسی بھی وقت شادی ہو جائے گی۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتی ہے، ’’کچھ مہینے پہلے میں سب کے لیے مسئلہ بن گئی۔‘‘ اس کے کچھ ہفتوں بعد مینا کی چچیری بہن بھی سب کے لیے ’’پریشانی‘‘ کا سبب بن گئی، اب اس کی بھی شادی طے کی جا رہی ہے۔ یہاں کوئی لڑکی تب جاکر ’’پریشانی‘‘یا ’’مسئلہ‘‘ کی جڑ بنتی ہے، جب اسے حیض شروع ہو جاتا ہے۔
مینا (عمر ۱۴ سال) اور سونو (عمر ۱۳ سال) ایک چارپائی پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ جب وہ بات کرتی ہیں، تو کبھی ایک دوسرے کو دیکھتی ہیں، کبھی مینا کے گھر کے مٹی کے فرش کو؛ ایک اجنبی سے حیض کے بارے میں بات کرنے میں ان کی جھجک صاف طور پر جھلکتی ہے۔ کمرے میں ان کے پیچھے ایک بکری زمین پر لگے کھونٹے سے بندھی ہے۔ اتر پردیش کے کوراؤں بلاک کی بیٹھکوا بستی میں جنگلی جانوروں کے ڈر سے اسے باہر نہیں نکالا جا سکتا۔ وہ لوگ اسی خوف سے اپنے چھوٹے سے گھر کے اندر ہی اسے بھی رکھتے ہیں۔
ان لڑکیوں کو حیض کے بارے میں ابھی ابھی پتہ چلا ہے، جسے وہ شرمندگی سے جڑی کوئی چیز سمجھتی ہیں۔ اور اس سے وابستہ خوف کو انہوں نے اپنے ماں باپ سے سیکھا ہے۔ ایک بار لڑکی کے ’سیانی‘ ہو جانے کے بعد اس کی حفاظت اور شادی سے پہلے حاملہ ہونے کے خوف سے، پریاگ راج (جو پہلے الہ آباد کے نام سے جانا جاتا تھا) کی اس بستی کے لوگ اپنی بچیوں کی شادی بہت چھوٹی عمر (یہاں تک کہ محض ۱۲ سال کی عمر میں بھی) میں طے کر دیتے ہیں۔
مینا کی ماں رانی (عمر ۲۷ سال)، جن کی خود کی شادی چھوٹی عمر میں ہوئی تھی اور وہ ۱۵ سال کی عمر میں ماں بن گئی تھیں، سوال پوچھنے کے لہجے میں کہتی ہیں، ’’ہم کیسے اپنی بیٹیوں کو محفوظ رکھ پائیں گے، جب وہ اتنی بڑی ہو گئی ہیں کہ بچے پیدا کر سکیں؟‘‘ سونو کی ماں چمپا، جن کی عمر بھی ۲۷ سال کے قریب ہے، کہتی ہیں کہ ان کی عمر بھی اپنی بیٹی جتنی، یعنی ۱۳ سال تھی جب ان کی شادی ہوئی تھی۔ ہمارے آس پاس اکٹھا ہوئیں سبھی ۶ عورتوں کا کہنا تھا کہ اس بستی میں ۱۳-۱۴ سال کی عمر میں بچیوں کی شادی کرنا کوئی استثنا نہیں، بلکہ اصول کی طرح ہے۔ رانی کہتی ہیں، ’’ہمارا گاؤں کسی اور دور میں جی رہا ہے۔ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہم مجبور ہیں۔‘‘
اتر پردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان، بہار اور چھتیس گڑھ کے کئی ضلعوں میں کم عمری کی شادی کا رواج بہت عام ہے۔ سال ۲۰۱۵ میں انٹرنیشنل سنٹر فار ریسرچ آن ویمن اور یونیسیف کے ذریعے مل کر ضلع کی سطح پر کیے گئے ایک مطالعہ کے مطابق، ’’ان ریاستوں کے تقریباً دو تہائی ضلعوں میں پچاس فیصد سے زیادہ عورتوں کی شادی ۱۸ سال کی عمر سے پہلے ہو گئی تھی۔‘‘
کم عمری کی شادی کی روک تھام کے قانون، ۲۰۰۶ میں ایسی شادیوں کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، اگر لڑکی کی عمر ۱۸ سال اور لڑکے کی عمر ۲۱ سال سے کم ہو۔ ایسی شادی کی اجازت دینے یا اسے مشتہر کرنے پر دو سال کی قید با مشقت اور ایک لاکھ روپے تک کے جرمانے کا التزام ہے۔
۴۷ سالہ نرملا دیوی، جو اس گاؤں میں ایک آنگن واڑی کارکن ہیں، کہتی ہیں، ’’کسی غیر قانونی کام کے لیے پکڑے جانے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا ہے۔ چونکہ معاملہ طے کرنے کے لیے برتھ سرٹیفکیٹ ہی نہیں ہوتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا صحیح ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس۔۴، ۲۰۱۵-۱۶) کے مطابق، اتر پردیش کے دیہی علاقوں میں تقریباً ۴۲ فیصد بچوں کی پیدائش کا رجسٹریشن ہی نہیں کرایا جاتا۔ پریاگ راج ضلع کے لیے یہ شرح اور بھی زیادہ (۵۷ فیصد) ہے۔
نرملا دیوی آگے بتاتی ہیں، ’’لوگ اسپتال نہیں جاپاتے ہیں۔ اس سے پہلے ہم صرف ایک فون کرتے تھے اور کوراؤں کے کمیونٹی ہیلتھ سنٹر (سی ایچ سی) سے ایک ایمبولینس بلا لیتے تھے، جویہاں سے ۳۰ کلومیٹر دور ہے۔ لیکن اب ہمیں ایک موبائل ایپ (۱۰۸) کا استعمال کرنا پڑتا ہے، جس کے لیے ۴ جی انٹرنیٹ بھی چاہیے۔ لیکن یہاں نیٹ ورک ہی نہیں رہتا اور آپ ڈیلیوری کے لیے سی ایچ سی سے رابطہ نہیں کر سکتے۔‘‘ دوسرے الفاظ میں کہیں تو ایپ کے استعمال سے حالات اور خستہ ہو گئے ہیں۔
ایک ایسے ملک میں جہاں سونو اور مینا کی طرح ہر سال ۱۵ لاکھ لڑکیاں کم عمری میں ہی دلہن بن جاتی ہیں، وہاں صرف قانون کے ذریعے آپ کنبوں کو اس رواج کو جاری رکھنے سے روک نہیں سکتے۔ این ایف ایچ ایس۔۴ کے مطابق، اتر پردیش میں ہر پانچ میں سے ایک عورت کی شادی کم عمری میں ہوئی ہے۔
۳۰ سالہ سنیتا دیوی پٹیل، بیٹھکوا اور اس کے آس پاس کی بستیوں میں کام کرنے والی ایک آشا کارکن ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب وہ ان بستیوں میں کنبوں سے بات کرنے کی کوشش کرتی ہیں، تو لوگ انہیں ’’بھگا دیتے ہیں۔‘‘ وہ کہتی ہیں، ’’میں ان سے لڑکیوں کے بڑے ہونے تک رکنے کی بات کرتی ہوں۔ میں ان سے کہتی ہوں کہ کم عمر میں حاملہ ہونا خطرناک ہے۔ وہ لوگ میری کوئی بات نہیں سنتے اور مجھے وہاں سے چلے جانے کو کہتے ہیں۔ ایک مہینہ بعد میں وہاں دوبارہ جاتی ہوں، تو لڑکی کی شادی ہو چکی ہوتی ہے۔‘‘
لیکن کنبوں کے پاس فکرمندی کی اپنی وجہیں ہیں۔ مینا کی ماں رانی کہتی ہیں، ’’گھر میں کوئی ٹوائلیٹ نہیں ہے۔ اس کے لیے یہ لوگ کھیت میں جاتی ہیں، جو یہاں سے ۵۰ سے ۱۰۰ میٹر دور ہیں۔ ہمیں یہ فکر لگی رہتی ہے کہ کہیں ان کے ساتھ کچھ غلط نہ ہو جائے۔‘‘ وہ پچھلے سال ہاتھرس میں اونچی ذات کے مردوں کے ذریعے ۱۹ سال کی دلت لڑکی کی عصمت دری اور قتل کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہمیں ہاتھرس کا ڈر ہمیشہ لگا رہتا ہے۔‘‘
ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر کوراؤں سے بیٹھکوا کی طرف ۳۰ کلومیٹر لمبی سنسان سڑک کھلے جنگل اور کھیتوں سے ہوکر جاتی ہے۔ بیچ میں تقریباً پانچ کلومیٹر کا راستہ جنگلوں اور پہاڑیوں سے ہوکر جاتا ہے، جو کافی سنسان اور خطرناک ہے۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے کئی بار جھاڑیوں میں گولیوں کے زخموں سے مسخ شدہ کئی لاشیں وہاں دیکھی ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہاں ایک پولیس چوکی کی ضرورت ہے اور ساتھ میں بہتر سڑک کی بھی۔ مانسون کے وقت بیٹھکوا سمیت آس پاس کے سبھی ۳۰ گاؤوں پوری طرح ڈوب جاتے ہیں، کئی بار تو ہفتوں تک وہاں پانی لگا رہتا ہے۔
بستی کے چاروں طرف وندھیاچل کی چھوٹی اور بھورے رنگ کی سوکھی پہاڑیاں ہیں، جس کے آس پاس کانٹے دار جھاڑیاں لگی ہوئی ہیں اور جو مدھیہ پردیش سے ملحق سرحد کی نشاندہی کرتی ہیں۔ نیم پختہ سڑک سے کول برادری کی جھگیاں لگی ہوئی ہیں اور آس پاس کے کھیت او بی سی کنبوں (جس کے صرف کچھ حصے دلتوں کے ہیں) کے ہیں، جو سڑک کی دونوں جانب پھیلے ہوئی ہیں۔
اس گاؤں میں رہنے والے اور کول برادری سے تعلق رکھنے والے تقریباً ۵۰۰ دلت کنبوں اور او بی سی برادری سے آنے والے تقریباً ۲۰ کنبوں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ ان کا ڈر ہے۔ رانی فکرمند ہوکر کہتی ہیں، ’’کچھ ہی مہینے پہلے، ہماری ایک لڑکی گاؤں سے ہوکر گزر رہی تھی اور کچھ [اونچی ذات کے] لڑکوں نے اسے زبردستی اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھا لیا۔ اس نے چلتی موٹر سائیکل سے کود کر کسی طرح خود کو بچایا اور بھاگ کر گھر آئی۔‘‘
۱۲ جون، ۲۰۲۱ کو ۱۴ سال کی ایک کول لڑکی غائب ہو گئی، جسے ابھی تک ڈھونڈا نہیں جا سکا ہے۔ اس کی فیملی کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایف آئی آر درج کرائی تھی، لیکن وہ اس کی کاپی ہمیں دکھانا نہیں چاہتے تھے۔ وہ اپنی طرف لوگوں کا دھیان نہیں کھینچنا چاہتے تھے اور پولیس سے ناراضگی نہیں مول لینا چاہتے تھے، جس کے بارے میں دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس واردات کے دو ہفتوں بعد تفتیش کے لیے آئی تھی۔
نرملا دیوی دھیمی آواز میں کہتی ہیں، ’’ہم تو چھوٹی حیثیت [درج فہرست ذات] کے غریب لوگ ہیں۔ آپ ہمیں بتائیے کہ پولیس کو ہماری پرواہ ہے؟ کیا لوگوں کو ہماری پرواہ ہے؟ ہم [عصمت دری اور اغوا کے] خوف کے سایے میں جیتے ہیں۔‘‘
نرملا، جو خود کول برادری سے تعلق رکھتی ہیں، گاؤں کے ان چنندہ لوگوں میں سے ایک ہیں جن کے پاس گریجویشن کی ڈگری ہے۔ انہوں نے شادی کے بعد یہ ڈگری حاصل کی تھی۔ ان کے شوہر مراری لال ایک کسان ہیں۔ وہ چار پڑھے لکھے لڑکوں کی ماں ہیں، جنہیں انہوں نے اپنی کمائی سے مرزاپور ضلع کے ڈرمنڈ گنج علاقے کے ایک پرائیویٹ اسکول سے پڑھایا۔ دبی ہوئی ہنسی کے ساتھ وہ بتاتی ہیں، ’’میں تیسرے بچے کے بعد ہی اپنے گھر سے باہر نکل پائی۔ میں اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتی تھی؛ یہی میرا مقصد تھا۔‘‘ نرملا اب اپنی بہو شری دیوی کی ’’معاون نرس دائی (اے این ایم)‘‘ کی پڑھائی اور ٹریننگ میں ان کی مدد کر رہی ہیں۔ شری دیوی جب ۱۸ سال کی تھیں، تب ان کی شادی نرملا کے بیٹے سے ہوئی تھی۔
لیکن گاؤں کے دیگر والدین زیادہ ڈرے ہوئے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق، اتر پردیش میں سال ۲۰۱۹ میں عورتوں کے خلاف ہوئے جرائم کے ۵۹۸۵۳ معاملے درج کیے گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ اوسطاً ہر روز ۱۶۴ جرائم ہوئے۔ اس میں نابالغ بچوں، بالغ عورتوں سے عصمت دری، اغوا، اور انسانوں کی اسمگلنگ کے معاملے شامل ہیں۔
سونو اور مینا کے چچیرے بھائی متھلیش کہتے ہیں، ’’جب لڑکیوں پر [مردوں کے ذریعے] نظر رکھی جانے لگتی ہے، تو انہیں بچا کر رکھنا مشکل ہو جاتاہ ے۔ یہاں کے دلتوں کی صرف ایک ہی خواہش ہے: اپنا نام اور اپنی عزت بچا کر رکھنا۔ اپنی لڑکیوں کی جلدی شادی کرنا ہی اس کا ایک طریقہ ہے۔‘‘
متھلیش جب اینٹ کی کانوں یا ریت کی کانکنی کے لیے باہر جاتے ہیں، تو انہیں اپنے ۹ سال کے بچے اور ۸ سال کی بچی کو گاؤں میں چھوڑ کر جانا پڑتا ہے، جن کی حفاظت کے لیے وہ بہت فکرمند رہتے ہیں۔
ان کی مہینہ بھر کی کمائی تقریباً ۵۰۰۰ روپے ہوتی ہے، جو ان کی بیوی کے ایندھن کی لکڑی بیچنے اور فصل کٹائی کے وقت زرعی مزدور کے طور پر کام کرنے سے ہوئی آمدنی کا تکملہ ہے۔ ان کی بستی میں کھیتی کرنا ممکن نہیں ہے۔ متھلیش بتاتے ہیں، ’’ہم کوئی فصل نہیں اگا سکتے، کیوں کہ جنگلی جانور سب کچھ کھا جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جنگلی سور ہمارے احاطے میں آ جاتے ہیں، کیوں کہ ہم جنگل کے پاس رہتے ہیں۔‘‘
۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، دیو گھاٹ (ایک گاؤں جس کے تحت بیٹھکوا بستی آتی ہے) کی تقریباً ۶۱ فیصد آبادی زرعی مزدوری، گھریلو صنعت، اور دیگر کاموں میں لگی ہوئی ہے۔ متھلیش بتاتے ہیں، ’’ہر گھر کا ایک سے زیادہ آدمی نوکری کے لیے باہر دوسرے شہر جاتا ہے۔‘‘ وہ آگے بتاتے ہیں کہ وہ لوگ نوکری کی تلاش میں الہ آباد، سورت اور ممبئی جاتے ہیں، اینٹ بھٹے میں یا دیگر شعبوں میں دہاڑی مزدوری کرتے ہیں اور روزانہ تقریباً ۲۰۰ روپے کماتے ہیں۔
ڈاکٹر یوگیش چندر شریواستو کا کہنا ہے، ’’کوراؤں، پریاگ راج کے سبھی ۲۱ بلاک میں سب سے زیادہ پس ماندہ ہیں۔‘‘ یوگیش، پریاگ راج میں سیم ہگن باٹم زرعی، ٹیکنالوجی اور سائنس یونیورسٹی میں ایک سائنس داں ہیں اور اس علاقے میں گزشتہ ۲۵ سالوں سے کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ضلع کے کل اعداد و شمار یہاں کی صحیح تصویر نہیں دکھاتے ہیں۔ آپ کوئی بھی پیمانہ اٹھا کر دیکھ لیجئے، چاہ وہ فصل کی پیداوار سے لے کر اسکول ڈراپ آؤٹ کا ایشو ہو یا پھر سستی مزدوری کے لیے مہاجرت سے لے کر غریبی، کم عمری کی شادی یا بچوں کی شرح اموات کا مسئلہ ہو، خاص طور پر کوراؤں کافی پس ماندہ ہے۔
ایک بار شادی ہو جانے پر، سونو اور مینا اپنے شوہروں کے گھر چلی جائیں گی، جو یہاں سے ۱۰ کلومیٹر دور ایک گاؤں میں رہتے ہیں۔ سونو کہتی ہیں، ’’میں اس سے [دولہے] ابھی تک نہیں ملی ہوں۔ لیکن ایک بار اپنے چچا کے موبائل پر اس کی تصویر دیکھی تھی۔ میں اس سے اکثر بات کرتی ہوں۔ وہ مجھ سے کچھ سال بڑا، تقریباً ۱۵ سال کا ہے اور سورت میں ایک ڈھابے پر ایک ہیلپر کے طور پر کام کرتا ہے۔‘‘
اس جنوری میں بیٹھکوا سرکاری مڈل اسکول میں، لڑکیوں کو سینٹری نیپکن کے ساتھ ساتھ ایک صابن اور ایک تولیہ مفت میں تقسیم کیا گیا، اور اس کے علاوہ ایک تنظیم نے وہاں اس اسکول میں بچیوں کو حیض کے دوران صاف صفائی کے طریقے سکھانے والا ایک ویڈیو بھی دکھایا۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی حکومت کی کشوری سرکشا یوجنا کے تحت کلاس ۶ سے کلاس ۱۲ تک کی نوجوان لڑکیوں کو مفت سینٹری نیپکن دیا جانا ہے۔ ریاست میں اس پروگرام کی شروعات سال ۲۰۱۵ میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے کی تھی۔
لیکن اب سونو اور مینا اسکول نہیں جاتی ہیں۔ سونو بتاتی ہیں، ’’ہم اسکول نہیں جاتے، اس لیے ہمیں یہ سب معلوم ہے۔‘‘ دونوں کو اچھا لگتا، اگر انہیں کپڑے کی جگہ مفت میں سینٹری نیپکن ملتا۔ وہ ابھی حیض کے دوران کپڑے کا استعمال کرتی ہیں۔
بھلے ہی ان کی شادی ہونے والی ہے، لیکن دونوں لڑکیوں کو جوانی، حمل، اور یہاں تک کہ حیض سے جڑی صفائی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔ سونو دھیمی آواز میں بتاتی ہے، ’’میری ماں نے مجھ سے کہا کہ میں بھابھی [چچیرے بھائی کی بیوی] سے اس بارے میں پوچھوں۔ میری بھابھی نے مجھ سے کہا ہے کہ اب سے میں [فیملی کے] کسی مرد کے بغل میں نہ لیٹوں، ورنہ بہت بڑی مصیبت ہو جائے گی۔‘‘ تین بیٹیوں کی فیملی میں سب سے بڑی بیٹی سونو کی پڑھائی دوسری کلاس کے بعد سے ہی چھوٹ گئی تھی۔ جب وہ محض ۷ سال کی تھی، تو چھوٹی بہنوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری پڑنے کے سبب اسے اسکول چھوڑنا پڑا۔
پھر وہ اپنی ماں چمپا کے ساتھ کھیوں میں کام کرنے کے لیے جانے لگی، اور بعد میں اپنے گھر کے پیچھے جنگل میں ایندھن کی لکڑیاں جمع کرنے لگی۔ ان لکڑیوں میں سے کچھ کو وہ لوگ گھر میں استعمال کرتے ہیں، اور کچھ کو فروخت کر دیتے ہیں۔ دو دنوں کی محنت سے یہاں کی عورتیں ۲۰۰ روپے کی لکڑیاں جمع کر لیتی ہیں۔ مینا کی ماں رانی کہتی ہیں، ’’ان پیسوں سے ہم کچھ دنوں کے لیے تیل اور نمک خرید لیتے ہیں۔‘‘ سونو اپنی فیملی کی ۸-۱۰ بکریوں کو سنبھالنے میں بھی مدد کرتی ہے۔ ان کاموں کے علاوہ وہ اپنی ماں کو کھانا بنانے اور گھر کے دوسرے کاموں میں مدد بھی کرتی ہے۔
سونو اور مینا کے والدین زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ عورتوں کے لیے دہاڑی مزدوری ۱۵۰ روپے یومیہ ہے، وہیں مردوں کے لیے ۲۰۰ روپے ہے۔ وہ بھی تب، جب انہیں کام مل جائے، یعنی ایک مہینہ میں ۱۰ سے ۱۲ دن کا کام۔ اتنا کام بھی انہیں ہمیشہ نہیں ملتا۔ سونو کے والد رام سوروپ آس پاس کے علاقوں، شہروں، یہاں تک کہ پریاگ راج میں کام کی تلاش میں جایا کرتے تھے، لیکن سال ۲۰۲۰ میں انہیں ٹی بی ہو گیا اور ان کی موت ہو گئی۔
چمپا کہتی ہیں، ’’ہم ان کے علاج میں تقریباً ۲۰ ہزار روپے خرچ کیے، مجھے فیملی کے دوسرے ممبران اور دیگر لوگوں سے قرض لینا پڑا۔‘‘ وہ اپنے پیچھے کمرے میں بندھی چھوٹی سی بکری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آگے بتاتی ہیں، ’’ان کی حالت اور خراب ہوتی گئی اور ہمیں ان کے علاج میں مزید پیسے چاہیے تھے، تو مجھے دو سے ڈھائی ہزار روپے فی بکری کے حساب سے اپنی بکریاں فروخت کرنی پڑیں۔ ہم نے صرف اسے اپنے پاس رکھا۔‘‘
سونو دھیمی آواز میں بتاتی ہے، ’’میرے والد کی موت سے ہی میری ماں میری شادی کی بات کرنے لگیں۔‘‘ اس کے ہاتھ کی مہندی اب چھوٹنے لگی ہے۔
سونو اور مینا، چمپا اور رانی، آپس میں بہنیں ہیں، جن کی شادی دو بھائیوں سے ہوئی تھی۔ ان کی مشترکہ فیملی کے کل ۲۵ ارکان، سال ۲۰۱۷ میں پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت بنے کچھ کمروں کے گھروں میں رہتے ہیں، جس کی دیواریں کچی ہیں اور چھت سیمنٹ کی بنی ہوئی ہے۔ ان کا پرانا گھر مٹی اور پھوس کا بنا ہوا ہے، جہاں وہ کھانا پکاتی ہیں اور گھر کے کچھ ممبر وہاں رات میں سوتے ہیں۔ ان کا پرانا گھر ان کمروں کے ٹھیک پیچھے ہے۔
دونوں چچیری بہنوں میں مینا پہلی تھی، جسے حیض شروع ہوا، جس کے سبب ان لوگوں نے اس کے لیے ایسا لڑکا ڈھونڈا ہے، جس کا ایک بھائی ہے۔ مینا کے ساتھ ساتھ سونو کے لیے اسی گھر میں رشتہ پکا کر دیا گیا ہے، جوان کی ماؤں کے لیے راحت کی بات ہے۔
مینا اپنی فیملی میں سب سے بڑی ہے، اور اس کی دو بہنیں اور ایک بھائی ہے۔ جب وہ ساتویں کلاس میں تھی، تو اس کی پڑھائی چھوٹ گئی۔ اس کا اسکول چھوٹے ایک سال سے بھی زیادہ ہو گیا۔ وہ بتاتی ہے، ’’مجھے پیٹ میں درد ہوتا تھا۔ میں دن بھر گھر میں لیتی رہتی تھی۔ میری ماں کھیت میں ہوتی تھیں اور والد مزدوری کرنے کوراؤں چلے جاتے تھے۔ کوئی مجھ سے اسکول جانے کو نہیں کہتا تھا، اس لیے میں نہیں گئی۔‘‘ بعد میں پتہ چلا کہ اسے پتھری کا مسئلہ تھا، لیکن اس کا علاج بہت خرچیلا تھا۔ اور اس کے لیے ۳۰ کلومیٹر دور واقع ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر جانا پڑتا تھا، تو اس کا علاج بند کر دیا گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کی پڑھائی بھی بند ہو گئی۔‘‘
اسے اب بھی کبھی کبھی پیٹ میں درد ہوتا ہے۔
اپنی چھوٹی موٹی کمائی سے زیادہ تر کول کنبے اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے پیسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ رانی بتاتی ہیں، ’’ہم نے ان کی شادی کے لیے تقریباً دس ہزار روپے جمع کیے ہیں۔ ہمیں ۱۰۰-۱۵۰ لوگوں کے لیے پوڑی، سبزی اور مٹھائی کی دعوت تو کرنی ہی ہوگی۔‘‘ انہوں نے سوچا ہے کہ وہ ایک ہی دن دونوں بھائیوں سے ان دونوں بہنوں کی شادی کریں گے۔
ان کے گھر والوں کو یقین ہے کہ اس سے وہ اپنی ذمہ داریوں سے آزاد ہو جائیں گے اور لڑکیاں بھی اپنے بچپنے سے باہر آ جائیں گی۔ سونو اور مینا شادی کو لے کر اپنے ہی کچھ خیال بُن کر بیٹھی ہیں، جو ان کے حالات اور سماجی اثرات کی ہی پیداوار ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’کھانا کم بنانا پڑے گا۔ ہم تو ایک مسئلہ ہیں اب۔‘‘
دونوں چچیری بہنوں میں مینا پہلی تھی، جسے حیض شروع ہوا، جس کے لیے ان لوگوں نے اس کے لیے ایسا لڑکا ڈھونڈا ہے، جس کا ایک بھائی ہے۔ مینا کے ساتھ ساتھ سونو کے لیے اسی گھر میں رشتہ پکا کر دیا گیا ہے
یونیسیف کے مطابق، کم عمری کی شادی کے سبب نوجوان لڑکیوں کی زندگی، حمل اور زچگی کے دوران ہونے والے صحت سے متعلق مسائل کی وجہ سے خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ آشا کارکن سنیتا دیوی ماں بننے والی عورتوں کی صحت سے جڑے پروٹوکال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ کم عمر میں شادی ہونے کے سبب، ’’ان کے خون میں آئرن کی جانچ کرنے یا انہیں فولک ایسڈ کی گولیاں کھلانے کا امکان کم ہوتا ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ اتر پردیش کے دیہی علاقوں میں کم عمر میں ماں بننے والی صرف ۲۲ فیصد لڑکیاں ہی زچگی کے دوران کسی قسم کی طبی سہولیات حاصل کر پاتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار پورے ملک میں کسی بھی ریاست کے لیے سب سے کم ہے۔
صحت اور خاندانی فلاح و بہبود کی وزارت کی حالیہ رپورٹ میں یہ اعداد و شمار سامنے آتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، اتر پردیش کی ۱۵ سے ۴۹ سال کی آدھی سے زیادہ عورتیں خون کی کمی کی شکار ہیں، جس کے سبب حمل کے دوران ان کی اور ان کے بچے کی صحت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، دیہی اتر پردیش کے پانچ سال سے چھوٹے ۴۹ فیصد بچے چھوٹے قد کے ہیں اور ۶۲ فیصد بچے خون کی کمی کے شکار ہیں۔ یہاں سے ان کے خراب صحت کے جال میں پھنسنے کی شروعات ہوتی ہے۔
سنیتا بتاتی ہیں، ’’لڑکیوں کی غذائیت پر دھیان دینا کسی کی ترجیح نہیں ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ شادی طے ہو جانے کے بعد وہ اپنی بچیوں کو دودھ دینا بند کر دیتے ہیں، کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ یہ تو جانے والی ہے۔ وہ ہر طرح کی بچت کرتے ہیں، کیوں کہ یہ ان کی مجبوری بھی ہے۔‘‘
حالانکہ، رانی اور چمپا کا دماغ اس وقت کہیں اور لگا ہوا تھا۔
رانی کہتی ہیں، ’’ہم فکرمند ہیں کہ ہم نے جو پیسہ جوڑا ہے وہ کہیں شادی سے پہلے چوری نہ ہو جائے۔ لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے پاس نقد پیسہ ہے۔ اس کے علاوہ، مجھے تقریباً ۵۰ ہزار روپے کا قرض بھی لینا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی انہیں یقین ہے کہ انہیں درپیش ’’مسئلہ ختم ہو جائے گا‘‘۔
رپورٹر الہ آباد کے ’سیم ہگن باٹم زرعی، ٹیکنالوجی، اور سائنس یونیورسٹی‘ میں ایکسٹینشن سروسز کے ڈائرکٹر، پروفیسر عارف اے براڈ وے کا ان کی بیش قیمتی تعاون اور اِن پُٹ کے لیے شکریہ ادا کرتی ہیں۔
اس اسٹوری میں کچھ لوگوں کے نام سیکورٹی کے لحاظ سے بدل دیے گئے ہیں۔
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتا لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز