منظر تھوڑا عجیب تھا – لیکن یہ سب ہمارے سامنے دہلی کے جی ٹی کرنال بائی پاس پر ہو رہا تھا۔
ٹریکٹروں کا ایک گروپ دہلی کی طرف بڑھ رہا تھا اور دہلی شہر کے اندر آ رہا تھا – وہیں ٹریکٹروں کا دوسرا گروپ دہلی سے الگ سنگھو کی طرف بڑھ رہا تھا۔ دونوں ٹریکٹروں کے گروپ نے ایک دوسرے کو ہائی وے پر کراس کیا اور اسے دیکھ کر لگا کہ اس بدنظمی کو کیمرے میں قید کرنا چاہیے۔ جو گروپ دہلی سے لوٹ رہا تھا وہ اپنے لیڈر کے کہنے پر لوٹ رہا تھا۔ کچھ لوگ دہلی شہر کے اندر صبح صبح داخل ہو گئے تھے، کیوں کہ انہیں لگا کہ ان کے لیڈر پولیس سے بات چیت کے بعد طے کیے گئے راستے سے ہٹ کر، دوسرے راستے سے دہلی شہر میں داخل ہونے والے ہیں۔
جو کسان تین زرعی قوانین کی مخالفت کر رہے تھے، انہوں نے دہلی کی الگ الگ سرحدوں، جیسے سنگھو، ٹیکٹری، غازی پور، چلہ، اور میوات میں جمع ہو کر اپنی یوم جمہوریہ کی پریڈ نکالی تھی۔ ایک جلوس راجستھان-ہریانہ بارڈر کے پاس واقع شاہجہاں پور میں نکل رہا تھا، جس میں ہندوستان کی کئی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے کسان تقریباً ۶۰ کلومیٹر کا سفر طے کرکے پہنچے تھے۔ یہ سب، جیسا کہ آل انڈیا کسان سبھا نے کہا تھا، یوم جمہوریہ کا سب سے مقبول اور عام شہریوں کا جشن تھا۔
یہ ایک شاندار، پرامن، شائستہ، اور پوری طرح سے ایک انوکھی ریلی تھی، جس میں ملک کے عام شہری، کسان، مزدور، اور دیگر لوگ جمہوریت کے اس سب سے بڑے جشن میں شامل ہوئے تھے۔ اس پریڈ میں لاکھوں لوگ، اور ہزاروں ٹریکٹر تے۔ اور ملک کی تقریباً سبھی ریاستوں میں بھی اسی طرح کے پروگرام اور پریڈ جاری تھے۔
لیکن ان سے کہیں ایک چھوٹا سا گروپ، اس وسیع اور انوکھی پریڈ سے میڈیا کی توجہ ہٹانے میں کامیاب رہا – اور پورا دھیان دہلی میں پیش آئے واقعات کی طرف لے گیا۔ سنیُکت کسان مورچہ، جو ۳۲ کسان یونینوں کا گروپ ہے، اور دہلی بارڈر پر تقریباً دو مہینے سے کسان آندولن کی قیادت کر رہا تھا، نے طے راستے سے ہٹ کر دہلی میں داخل ہوئے گروپ کے ذریعے پھیلائے گئے انتشار اور تشدد کی مذمت کی ہے۔ سنیُکت کسان مورچہ کا کہنا ہے، ’’یہ کسانوں کے پرامن اور پرعزم آندولن کو بدنام کرنے کی گہری سازش ہے۔‘‘
کیرتی کسان یونین کے کرم جیت سنگھ نے کہا، ’’مرکزی ریلی صبح ۱۰ بجے سے شروع ہونی تھی۔‘‘ کیرتی کسان یونین، سنیُکت کسان مورچہ میں شامل ۳۲ یونینوں میں سے ایک ہے۔ وہ آگے کہتے ہیں، ’’لیکن دیپ سدھو اور لکھا سِدانا [اور دیگر] – جن میں سے کوئی بھی سنیکت کسان مورچہ کا رکن نہیں تھا – کی قیادت میں شرارتی عناصر نے ریلی میں رخنہ پیدا کیا۔ وہ لوگ سب سے پہلے بریئر اُکھاڑتے ہوئے دہلی کے رنگ روڈ کی طرف صبح ۸ بجے پہنچ گئے تھے۔ ان لوگوں نے دوسروں کو بھی بھڑکایا۔ انہی لوگوں نے لال قلعہ میں گھس کر اپنا پرچم لہرایا تھا۔‘‘
دیپ سدھو نے کھل کر دہلی کے اندر پیش آئے واقعات میں اپنی شرکت اور رول کی تصدیق کی ہے۔ سدھو، پنجاب کے گرداس پور کے بی جے پی رکن سنی دیول کا قریبی رہا ہے۔
کرم جیت سنگھ نے کہا، ’’ہم ان کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ انہوں نے جو کیا وہ غلط ہے۔ جو بھی ۲۶ جنوری کو ہوا، ایسا دوبارہ نہیں ہوگا اور ہم یہ آندولن پہلے کی طرح پرامن طریقے سے ہی کریں گے۔ ہم بیریکیڈ توڑنے یا لال قلعہ پر اپنا پرچم لہرانے کی پیروی نہیں کرتے ہیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آئندہ ایسا ہنگامہ نہ ہو۔‘‘
منتشر گروہوں، جنہوں نے اپنی ریلی جلدی شروع کی تھی، اور بیریکیڈ کی توڑ پھوڑ کے سبب کئی لوگ الجھن میں پڑ گئے کہ یہ ان کے لیڈروں کا کوئی نیا منصوبہ ہے۔ ریلی کے لیے سنگھو سے دہلی تک کا راستہ پہلے سے طے تھا، اور پولیس نے اس راستے کو منظور کر لیا تھا۔ لیکن ان گروہوں نے دہلی میں داخل ہونے کے لیے دوسرا راستہ لیا۔ یہ لوگ لال قلعہ کی طرح بڑھ گئے۔ جب یہ لوگ لال قلعہ میں داخل ہوئے، تو پولیس اور مظاہرین کے درمیان مڈبھیڑ ہو گئی۔ کچھ لوگ لال قلعہ میں ترنگے کے پاس نشان صاحب کا پرچم لہرانے میں کامیاب ہو گئے۔
اس کے برعکس، مرکزی ریلی میں، جس کے آگے دہلی میں برپا ہنگامہ بھی چھوٹا پڑ گیا تھا، ٹریکٹروں کی لمبی قطار تھی، سبھی گروپ فخر سے ترنگا لہرا رہے تھے۔
پنجاب کے موگا ضلع کے شیرا گاؤں کے ۴۵ سالہ کسان بلجندر سنگھ نے کہا، ’’ہم کسان ہیں۔ ہم فصل اگاتے ہیں، جس سے آپ کو کھانا ملتا ہے۔ ہمارا مقصد تین زرعی قوانین کو ردّ کرانا ہے۔ ہمارا مقصد لال قلعہ کے اندر داخل ہو کر نشان صاحب پھہرانا نہیں تھا۔ کل جو بھی ہوا وہ غلط تھا۔‘‘
لیکن اس کے بعد، میڈیا کی توجہ ان چھوٹے گروہوں اور دہلی میں ہوئے ہنگامے کی طرف چلی گئی۔ اس وجہ سے مرکزی اور پرامن ریلی کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ کسان، جو ۳۲ معاون کسان یونینوں کا حصہ تھے، منظور شدہ راستے پر ہی چلتے رہے اور اپنے ٹریکٹروں کو اسی راستے سے لے گئے۔ ان میں سے کئی لوگ ٹریکٹر کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، اور کچھ لوگ اپنی دو پہیہ گاڑیوں پر سوار ہو کر جا رہے تھے۔
اس ریلی کے کسان جب دہلی میں آئے، تب وہاں کوئی مڈبھیڑ یا ہنگامہ نہیں ہوا تھا۔ جب کسان دہلی کے راستوں سے جا رہے تھے، تب کئی مقامی باشندوں نے پھل اور پانی سے ان کا استقبال کیا۔ ان میں سے ایک دہلی کے روہنی کی ۵۰ سالہ ببلی کور گل بھی تھیں، جنہوں نے ٹریکٹر سوار کسانوں کو پانی کے پیکٹ بانٹے۔ انہوں نے کہا، ’’میں ان لوگوں کے لیے آئی ہوں۔ یہ لوگ ہمیں سب کچھ دیتے ہیں۔ میں صبح جلدی اٹھ کر چائے پیتی ہوں۔ اس کے بعد میں ناشتہ میں روٹیاں کھاتی ہوں۔ یہ سب کسانوں کی دین ہے۔ یہ آندولن اور کسانوں کی بدحالی دیکھو۔ ایک عورت اپنے ۱۲ مہینے کے بچہ کے ساتھ سنگھو بارڈر پر ٹھہری ہوئی ہے۔ وہ یہ کیوں کر رہی ہے؟ جب زمین نہیں رہے گی، تو وہ عورت کیسے اپنے بچہ کی پرورش و پرداخت کرے گی؟ سرکار کو جلد از جلد قانون ردّ کر دینا چاہیے۔‘‘
دہلی کے صدر بازار سے تعلق رکھنے والے ۳۸ سالہ اشفاق قریشی نے کہا، ’’میں اپنی فیملی کے ساتھ ہنسی خوشی وقت گزار سکتا تھا، کیوں کہ آج عام چھٹی کا دن ہے۔ لیکن، میں یہاں کسانوں کی حمایت کرنے کے لیے آیا ہوں۔‘‘ قریشی نے ہاتھ میں بورڈ لے کر ریلی کا استقبال کیا۔ بورڈ پر لکھا تھا، ’دہلی میں خیرمقدم ہے‘۔
ٹریکٹر، لوگوں کے درمیان توجہ کا مرکز تھے۔ کئی ٹریکٹر رنگین کاغذوں، فیتے، اور غباروں سے سجے ہوئے تھے۔ ترنگا شان سے لہرا رہا تھا۔ کسان، فخریہ لہجے میں اور ایک سُر میں گیت گا رہے تھے کہ وہ تینوں زرعی قوانین کے آگے جھکیں گے نہیں۔ پٹیالہ کے ۴۸ سالہ منندر سنگھ نے کہا، ’’سرکار کو ہماری بات سننی پڑے گی۔ سرکار ہمیں ایسے قانون دے رہی ہے جو ہمیں نہیں چاہیے۔ اس نے خود کو امبانی اور اڈانی کو بیچ دیا ہے۔‘‘ منندر، پریڈ میں ٹریکٹر کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ ’’لیکن ہم یہ لڑائی نہیں ہاریں گے۔ ہم آخری سانس تک لڑتے رہیں گے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز