گنیش وڈندرے کے کھیت پر، کپاس کے پودوں کے ہر خول پر بنے کالے دھبّے نے ’سفید سونا‘ پر کام کرنے والے سائنس دانوں کو ایک پیغام دیا: جاؤ اور ایک نیا مزاحم کھوجو۔
’’وہ اندر جانے کے راستے ہیں،‘‘ پانچ ایکڑ کے کسان وڈندرے نے کہا، جن کا وردھا ضلع کے عام گاؤں (خورد) میں کافی احترام کیا جاتا ہے۔ انھوں نے آگے کہا کہ کیڑا، انہی راستوں سے خول کے اندر گیا ہوگا۔
’’اگر ہم اسے توڑ کر کھولتے ہیں، تو آپ کو ایک گلابی کیڑا دکھائی دے گا، جو اسے اندر سے کھا رہا ہے،‘‘ انھوں نے گھبراہٹ اور غصے سے کہا۔ انھوں نے خول کو جیسے ہی توڑ کر کھولا، ایک سینٹی میٹر سے بھی کم لمبا گلابی رنگ کا ایک کیڑا، انگڑائی لیتے ہوئے جانا، گویا ’ہائے‘ کہہ رہا ہو۔ اس نے روئی کا سفید پھاہا بننے سے پہلے ہی، خول کو کھاکر بیکار کر دیا تھا۔
’’ایک کیڑا ہزاروں انڈے دیتا ہے اور کچھ ہی دنوں میں لاکھوں کیڑے پیدا کر دیتا ہے،‘‘ ۴۲ سال کے وڈندرے نے تب کہا تھا، جب میں نے پہلی بار نومبر ۲۰۱۷ میں ان سے ملاقات کی تھی۔
کیڑا چونکہ خول کے اندر ہوتا ہے، اس لیے کسان تب تک چھپے ہوئے نقصان کا پتہ نہیں لگا سکتے جب تک کہ وہ خول پھٹ نہ جائے۔ یہ فصل کی کٹائی کے دوران اور بازار پہنچنے پر اچانک جھٹکا دے سکتا ہے، جب کیڑوں سے خراب ہو چکے کپاس کی بہت کم قیمت لگائی جائے۔
وڈندرے کی کہانی پورے مہاراشٹر کے کپاس پیدا کرنے والوں کی حالت بتا رہی تھی، خاص طور سے مغربی ودربھ کے کپاس بیلٹ کی، ۲۰۱۷-۱۸ کی سردیوں کے دوران، جب فصل کی کٹائی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ اس علاقہ میں، کپاس عام طور پر جولائی اور اگست کے درمیان لگائی جاتی ہے، اور اکتوبر سے مارچ تک کاٹی جاتی ہے۔
گلابی کیڑوں کی فوج نے کپاس کے کئی ہیکٹیئر کھیت تباہ کر دیے۔ ایسی تباہی ۳۰ برسوں میں دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔ وڈندرے کے آس پاس کے کھیت گلابی کیڑوں کے حملے کی کہانی بیان کر رہے ہیں: کالے خول، سکڑے ہوئے اور داغدار، خراب کوالٹی والے خشک اور سیاہ روئی میں اُگنے والے جن کی کوئی قیمت نہیں۔
یہی وہ کیڑا تھا جس سے پریشان ہو کر مہاراشٹر بھر کے کسانوں نے، اپنی کپاس کی فصل کو بچانے کے لیے، جولائی سے نومبر ۲۰۱۷ تک بڑی مقدار میں مہلک حشرہ کش دواؤں کا چھڑکاؤ کرنا شروع کیا، حالانکہ انھیں معلوم تھا کہ یہ گلابی کیڑوں کو ختم نہیں کر پائے گا۔ (دیکھیں خطرناک کیڑے مہلک چھڑکاؤ )
’’اس کے لیے کوئی بھی حشرہ کش فائدہ مند نہیں ہے،‘‘ وڈندرے نے کہا۔ ’’یہ اتنا مہلک ہے۔ اب بی ٹی-کاٹن کا کیا فائدہ ہے؟‘‘
وڈندرے اپنے کپاس کے ایک ایکڑ کھیت میں کوئیں سے سینچائی کرکے، اوسطاً ۱۵ کوئنٹل فصل حاصل کر سکتے تھے – لیکن اس بار، ان کی پیداوار پانچ کوئنٹل گھٹ گئی تھی۔ وڈندرے کا اندازہ ہے کہ فی ایکڑ انھیں کم از کم ۵۰ ہزار روپے کا نقصان ہوا – جو کہ ان کے لیے ایک بہت بڑی رقم ہے۔
گاؤں کے جو کھیت بارش پر منحصر ہیں اور جن کی سینچائی ٹھیک سے نہیں ہو پائی تھی، ان سے کسان اس موسم میں تین کوئنٹل کپاس بھی نہیں کاٹ سکے۔ ریاستی حکومت نے کچھ معاوضے کا اعلان کیا ہے – تقریباً ۱۰ ہزار روپے فی ہیکٹیئر، زیادہ سے زیادہ دو ہیکٹیئر کے لیے۔ اگر وڈندرے کوالیفائی کرتے ہیں، تو انھیں تھوڑی راحت مل سکتی ہے۔
نومبر کے آس پاس اور پھر فروری-مارچ میں (ریاست کے محکمہ مالیات اور زراعت کے) گرام تلاٹھیوں اور زرعی خدمت گاروں کے ذریعے کیے گئے فصلوں کے سروے کی بنیاد پر اندازہ لگایا گیا ہے کہ ریاست میں کپاس کے ۴۲ لاکھ ہیکٹیئر میں سے ۸۰ فیصد سے زیادہ کھیت گلابی کیڑوں سے متاثر ہیں۔ ہر ایک کسان نے مبینہ طور پر اپنی کھڑی فصل کا ۳۳ سے لے کر ۵۰ فیصد تک کھو دیا ہے۔
جنوری ۲۰۱۸ میں، مہاراشٹر کے زرعی محکمہ نے، کیڑوں سے ہونے والی تباہی کو تسلیم کرتے ہوئے، کپاس کی پیداوار اور گٹھوں میں ۴۰ فیصد کی گراوٹ کی پیشن گوئی کی۔ ریاست میں ہر سال اوسطاً ۹۰ لاکھ کپاس کے گٹھوں (۱۷۲ کلو روئی فی گٹھا) کی پیداوار ہوتی ہے۔ ایک کوئنٹل کپاس میں ۳۴ کلو روئی، ۶۵ کلو بیج (جسے تیل نکالنے اور اس کے بعد مویشی چارہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے) اور کچھ فیصد گندگی یا کچرا ہوتا ہے۔ مارچ ۲۰۱۸ میں، ودربھ کے بازاروں میں ایک کوئنٹل کپاس کی قیمت تھی ۴۸۰۰-۵۰۰۰ روپے۔
سال ۲۰۱۷-۱۸ میں ہندوستان کی تقریباً ۱۳۰ لاکھ ہیکٹیئر زمین پر کپاس ہے، اور ریاستوں کی رپورٹوں سے اشارہ ملتا ہے کہ گلابی کیڑے کا خطرہ مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور تلنگانہ میں وسیع طور پر پھیلا ہوا ہے۔ گجرات، جسے دو سال پہلے اس کیڑے نے پریشان کیا تھا، نے کپاس کی شروعاتی قسموں کو لگا کر اس مسئلہ کا جزوی طور پر حل نکالا ہے، تاکہ سردی شروع ہونے سے پہلے ہی زیادہ تر فصل کی کٹائی کی جا سکے، جب کیڑوں کی تعداد کئی گُنا بڑھ جاتی ہے۔
حکومت ہند کی وزارتِ زراعت نے مسئلہ کو تسلیم تو کیا ہے، لیکن مہاراشٹر اور دیگر ریاستوں سے بی ٹی-کاٹن کو ڈی-نوٹیفائی کرنے کا مطالبہ خارج کر دیا ہے – یہ ایک ایسا قدم ہے جو کپاس کے لیے اپنی حالت بدل دے گا کیوں کہ بی ٹی کی اثرانگیزی ختم ہو چکی ہے۔ (یہ بیج کی قیمتوں، اور بیج کمپنیوں کی رائلٹی اور منافع کو متاثر کرے گا، جس کے بارے میں پاری پر ایک اور اسٹوری کی جائے گی۔) اس کے بجائے، جولائی ۲۰۱۷ میں، مرکز نے سبھی کپاس پیدا کرنے والی ریاستوں کو ’’مختلف اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے‘‘ اپنے خطرے سے خود ہی نمٹنے کے لیے کہا۔
گلابی کیڑا کی واپسی
گلابی کیڑے کی واپسی نے پہلی بار خطرے کی گھنٹی ۲۰۱۵ میں بجائی۔ اس سال انڈین کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، جنینی طور سے ترمیم شدہ (جی ایم) بی ٹی-کاٹن تکنیک کے ’’ٹوٹنے‘‘ سے بہت فکرمند تھا۔ گجرات اور مہاراشٹر سمیت کپاس پیدا کرنے والی تمام اہم ریاستوں سے فصلوں پر گلابی کیڑے کی واپسی کی رپورٹ آئی تھی۔
حالانکہ گلابی کیڑا پہلی بار ۲۰۱۰ میں، بی ٹی-کاٹن پر کہیں کہیں نظر آیا تھا، لیکن نومبر ۲۰۱۵ میں گجرات کے کسانوں نے اپنی کپاس کی فصل پر بڑے پیمانے پر کیڑوں کے حملے کی اطلاع دی تھی۔ خول کو اندر سے کھانے والا ایک انچ لمبا کیڑا پوری طرح صحت مند نظر آ رہا تھا، جو اس طاقتور اور مہنگے جی ایم کپاس کے ناکام ہونے کا اشارہ ہے – جب کہ اسے اسی کیڑے کے حملے سے بچانے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔
نومبر ۲۰۱۵ کے آخری ہفتہ میں، گجرات کے بھاو نگر ضلع کی ایک کسان نے اپنے کھیت سے کپاس کے کچھ خول توڑے اور انھیں کپاس ماہرین کی ایک ٹیم کے سامنے کھولا جو اسے دیکھنے کے لیے وہاں موجود تھی۔ ’’وہ بہت غصے میں تھی،‘‘ اس ٹیم کی قیادت کرنے والے بنیادی سائنس داں ڈاکٹر کیشو کرانتھی نے بتایا، جب میں نے فروری ۲۰۱۶ میں ان کا انٹرویو کیا تھا۔ ڈاکٹر کرانتھی تب ملک کے اعلیٰ مرکزی کپاس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سی آئی سی آر)، ناگپور کے ڈائرکٹر تھے، اور فی الحال واشنگٹن واقع بین الاقوامی کپاس صلاح کار کمیٹی کے ڈائرکٹر (تکنیکی) ہیں۔
کسان کا غصہ ان کے بے پناہ نقصان کی وجہ سے تھا: چھوٹے لیکن خطرناک کیڑوں نے ان کی کپاس کی پیداوار کے ساتھ ساتھ اس کے معیار کو بھی ختم کر دیا تھا۔ لیکن سائنس داں، جو یہ دیکھنے کے لیے بیتاب تھے کہ گلابی رنگ کے کیڑے کپاس کے ہرے خول کو اندر سے کیسے کھا گئے، کسی اور سبب سے فکرمند تھے۔
پیکٹینوفورا گاسیپئیل (سانڈرس)، جو گلابی کیڑا کے نام سے مشہور ہے، نے تین دہائیوں بعد بدلہ لینے کی شکل میں واپسی کی تھی۔ یہ سب سے طاقتور دوسری نسل کے جی ایم کپاس ہائبرڈ، بول گارڈ-دوئم بی ٹی-کاٹن خول کی دعوت اڑا رہا تھا، جسے اس کیڑے سے تحفظ کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ یہ ایک اشارہ بھی تھا، جیسا کہ کرانتھی نے خدشہ ظاہر کیا تھا، کہ شاید امریکی بول وارم (اس کے سابقہ کی وجہ سے یہ نام پڑا) بھی آخرکار لوٹ سکتا ہے (حالانکہ، ابھی تک لوٹا نہیں ہے)۔
گلابی کیڑا (جسے سی آئی سی آر اور کپاس محققین نے آبائی طور پر ہند-پاکستان کا مانا ہے) اور امریکی بول وارم سب سے مہلک کیڑوں میں سے تھے، جنہوں نے ۱۹۷۰ اور ۱۹۸۰ کی دہائی میں ہندوستان کے کپاس کے کسانوں کو بہت پریشان کیا۔ ان کیڑوں کے سبب ۱۹۸۰ کی دہائی تک، اعلیٰ پیداوار دینے والے ہائبرڈ بیجوں کے لیے نئے حشرہ کش لائے گئے تھے۔ ۱۹۹۰ کی دہائی کے وسط میں، ہائبرڈ بیجوں میں بی ٹی جین کے ساتھ جب بی ٹی-کاٹن کو ہندوستان میں شروع کیا گیا تھا – تو یہ دونوں قسم کے کیڑوں کا جواب مانا جاتا تھا۔
سی آئی سی آر کے زمینی مطالعہ سے پتہ چلا کہ ۲۰۱۵-۱۶ میں، کپاس کی فصل کے ایکڑ در ایکڑ کھیت گلابی کیڑوں سے دوبارہ متاثر ہوگئے اور پیداوار کو تقریباً ۷-۸ فیصد کم کر دیا۔
گلابی کیڑوں کا لاروا کچھ ہی فصلوں کو کھاتا ہے جیسے کپاس، بھنڈی، گڑہل اور پٹسن۔ یہ پھولوں، نئے خول، ڈوڈے، شاخوں اور نئی پتوں کے اندر انڈے دیتے ہیں۔ نوجوان لاروا، انڈے دینے کے دو دنوں کے اندر پھولوں کے تخم یا نئے خول میں داخل ہو جاتے ہیں۔ لاروا ۳-۴ دنوں میں گلابی ہو جاتے ہیں اور ان کا رنگ ان کے ذریعے کھائے گئے کھانے پر منحصر ہوتا ہے – پختہ بیج کھانے سے گہرا گلابی رنگ۔ متاثرہ خول یا تو وقت سے پہلے کھل جاتے ہیں یا پھر سڑ جاتے ہیں۔ فائبر کی کوالٹی، جیسے کہ اس کی لمبائی اور طاقت، کم ہو جاتی ہے۔ متاثرہ خول والے کپاس کی روئی میں ایک اور انفیکشن اندر سے بھی ہو سکتا ہے۔
یہ کیڑا کپاس کے ذریعے بازار تک لے جائے گئے بیج سے پھیلتا ہے۔ گلابی کیڑا عام طور پر موسم سرما کی ابتدا کے ساتھ آتا ہے اور جب تک پھول اور خول دستیاب ہوتے ہیں، تب تک فصل پر زندہ رہتا ہے۔ لمبی مدت کی کپاس، کیڑے کو لمبے وقت تک کئی دور میں پھلنے پھولنے کی اجازت دیتی ہے، جس سے بعد کی فصل بھی متاثر ہوتی ہے۔ میزبان فصل کی غیر موجودگی میں، یہ کیڑاا جینیاتی طور پر ہائبرنیٹ یا ڈائپاز کے لیے موزوں ہے؛ یہ اگلے موسم تک، ۶-۸ مہینوں کے لیے نیند کی حالت میں ہونے کی اجازت دیتا ہے۔
تشویش اور کوئی متبادل نہیں
سی آئی سی آر کی اس رپورٹ کے بعد کہ گلابی کیڑے واپس آ چکے ہیں، مئی ۲۰۱۶ میں ملک کے دو اہم زرعی اور سائنسی تحقیقی اداروں- ہندوستانی زرعی تحقیقی کونسل (آئی سی اے آر) اور ہندوستانی سائنسی تحقیقی کونسل (آئی سی ایس آر) کی نئی دہلی میں منعقد دو اعلیٰ سطحی میٹنگوں میں یہ تشویش واضح طور پر دکھائی دے رہی تھی۔ اہلکاروں نے بحث کی کہ کیا جی ایم فصلوں پر پبلک سیکٹر کا کوئی بھی پروجیکٹ جلد ہی متبادل کے طور پر فراہم کیا جا سکتا ہے۔
’’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گلابی کیڑے واپس آ گئے ہیں،‘‘ ڈاکٹر کرانتھی نے کاٹن ایسوسی ایشن آف انڈیا کی ایک اشاعت، کاٹن اسٹیٹسٹکس اینڈ نیوز ، میں ۲۰۱۶ کے ایک مضمون میں لکھا۔ ’ہم ۲۰۲۰ تک بی ٹی-کاٹن کی بول وارم کو کنٹرول کرنے کی طاقت کو کتنا بہتر بنائے رکھ سکتے ہیں،‘ انھوں نے لکھا۔
کوئی دیگر نئی جی ایم کپاس تکنیک – ہندوستانی پبلک سیکٹر یا پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے – تجربات کے بعد کاروباری منظوری کے لیے ۲۰۲۰ تک زیر التوا نہیں ہے۔ جی ایم بیج کے بازاروں میں پبلک سیکٹر کی ابھی تک کوئی موجودگی نہیں ہے، حالانکہ کچھ زرعی ادارے مکئی، سویابین، بینگن اور دھان سمیت مختلف فصلوں پر جی ایم تحقیق کا کام کر رہے ہیں۔
آئی سی اے آر-آئی سی ایس آر میٹنگوں میں، سائنس دانوں نے گلابی کیڑے کو کنٹرول کرنے کے متبادل پر غور کیا۔ ’’ہندوستان کے لیے سب سے لمبی مدت کی بہترین حکمت عملی ہے قلیل مدتی بی ٹی-کاٹن ہائبرڈس یا قسمیں اگانا جو جنوری سے آگے نہیں بڑھتی ہیں،‘‘ کرانتھی نے ۲۰۱۶ میں اس رپورٹر سے کہا تھا۔ اس سے کیڑے مریں گے، کیوں کہ وہ زیادہ سردیوں میں کپاس پر حملہ کرتے ہیں۔ لیکن ہندوستان کی زیادہ تر بیج کمپنیاں طویل مدت تک بہتر کارکردگی کرنے والی بی ٹی-ہائبرڈ کی پیداوار کرتی ہیں۔
اور اُس سال، فصل پر حملے کی شدت ۲۰۱۷-۱۸ سے کم تھی۔
بی ٹی-کاٹن کی ناکامی
’’جس تکنیک [بی ٹی-کاٹن یا BG-I اور اس کی دوسری نسل BG-II] پر لوگ بہت زیادہ اِترا رہے تھے، وہ ناکام ہو چکی ہے،‘‘ کرانتھی نے ۲۰۱۶ میں مجھ سے کہا تھا۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ کسانوں کو اب [جی ایم بیجوں میں] کم صلاحیت والے BG-I اور BG-II تکنیکوں کو شامل کرنا ہوگا اور دیگر کیڑوں کے ایک سیٹ کو چھوڑ کر، کیڑوں کو کنٹرول کرنے کے لیے حشرہ کش دواؤں کا استعمال کرنے کی جانب واپس جانا ہوگا۔‘‘
بی ٹی-کاٹن کو یہ نام بیسیلس تھورنجینیسس سے ملا ہے، جو مٹی میں رہنے والا ایک بیکٹیریا ہے۔ بی ٹی بیج میں بیکٹیریا سے پیدا ہونے والے کرائی (کرسٹل) جین ہوتے ہیں اور یہ بول وارم سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے کپاس کے پودوں کے جینوم (خلیہ کا جینیاتی مواد) میں ڈالتے جاتے ہیں۔
بی ٹی-کاٹن کو بول وارم کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ لیکن کسانوں کو اب بی ٹی-کاٹن کے کھیتوں میں بھی یہ کیڑے ملیں گے، کرانتھی نے انڈسٹریل میگزینوں میں اور اپنے خود کے سی آئی سی آر بلاگ پر لگاتار کئی مضامین میں لکھا۔ اس وقت، ممکنہ تباہی کو لے کر نہ تو آئی سی اے آر محتاط نظر آیا اور نہ ہی مرکزی وزارتِ زراعت۔ ریاستی اور مرکزی حکومتیں تبھی سے گلابی کیڑے کی تباہی کے بارے میں جانتی ہیں، لیکن اس کا حل نہیں نکالا گیا ہے۔
امریکی بیج بایو ٹیک بین الاقوامی مونسینٹو کا ہندوستان کے بی ٹی-کاٹن بیج پر بازار پر اکیلا اختیار ہے۔ حکومت ہند نے ۲۰۰۲-۰۳ میں بی ٹی-کاٹن جاری کرنے اور اس کی فروخت کو منظوری دی تھی۔ صنعت فراہم کرنے والے مونسینٹو نے، بیچی گئی بیج کے ہر ایک بی پر تقریباً ۲۰ فیصد رائلٹی کے ساتھ ہندوستانی بیج کمپنیوں کو ’تکنیک منتقل کی‘۔ واحد مقصد حشرہ کش دواؤں کے استعمال کو کم کرنا اور کپاس کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا تھا – جی ایم تکنیک کو دونوں مقاصد کے لیے اکسیر کے طور پر فروغ دیا گیا تھا۔
پہلے سال میں، بی ٹی-کاٹن ہائبرڈ بیج کے ۴۰۰ گرام کے تھیلے کی قیمت ۱۸۰۰ روپے تھی۔ اس کے بعد، مرکز اور ریاستی حکومت نے رائلٹی یا خصوصی قیمت اور پھر بی ٹی-کاٹن بیج کی قیمت کو کنٹرول کرنے کے لیے مداخلت کی۔ پھر بھی، بیج بازار کے تجزیہ کاروں کے مطابق، ابتدائی سالوں میں جب کہ ۴۰۰ گرام بی ٹی-کاٹن بیج والے تھیلے کی قیمت تقریباً ۱۰۰۰ روپے ہو گئی تھی، مونسینٹو کی رائلٹی خردہ قیمت کا ۲۰ فیصد بنی رہی۔ ہندوستانی بی ٹی-کاٹن بیج بازار کی قیمت ۴۸۰۰ کروڑ روپے لگائی گئی ہے، ڈاکٹر کرانتھی نے ۲۰۱۶ میں لکھا تھا۔
بی ٹی-کاٹن کا عالمی کاروبار ۲۲۶ لاکھ ہیکٹیئر میں پھیلا ہوا ہے، جس میں سے صرف ۱۶۰ لاکھ ہیکٹیئر تکنیک فراہم کرنے والے پرائیویٹ اداروں کے لیے کھلا ہے۔ ۲۰۱۴-۱۵ میں، ہندوستان میں بی ٹی-کاٹن نے ۱۱۵ لاکھ ہیکٹیئر پر قبضہ کر لیا۔ ۲۰۰۶-۰۷ میں، مونسینٹو نے BG-II ہائبرڈ جاری کیا، یہ کہتے ہوئے کہ نئی تکنیک زیادہ طاقتور، زیادہ ٹکاؤ ہے۔ اس نے دھیرے دھیرے BG-I کی جگہ لے لی۔ اور اب تک، سرکاری اندازے کے مطابق، BG-II ہائبرڈ کا ملک میں کپاس کے تقریباً ۱۳۰ لاکھ ہیکٹیئر کھیت کے ۹۰ فیصد سے زیادہ پر قبضہ ہے۔
بول گارڈ BG-II تکنیک، جس کے تحت کپاس کے پودوں میں بیسیلس تھرونجینیسس سے Cry1Ac اور Cry2Ab جین کا تعارف کرایا گیا تھا، کا دعویٰ ہے کہ یہ تین کیڑوں کے خلاف مزاحمت کی تعمیر کرے گا: امریکی بول وارم (ہیلیکوورپا آرمیگیرا)، گلابی کیڑے اور دھبہ دار کیڑے (ایریئس وٹیلا)۔ پہلی نسل کے ہائبرڈ، یا بی ٹی-کاٹن میں، بیج میں صرف ایک Cry1Ac جین ہوتا تھا۔
ڈاکٹر کرانتھی نے ایک دوسرے مضمون میں لکھا، ایکولوجی اور ماحولیات کے مطابق ہندوستان میں بی ٹی تکنیک کے مستقل استعمال کے لیے کوئی روڈمیپ نہیں ہے۔ وزارتِ ماحولیات کی جینیٹک انجینئرنگ اپروول کمیٹی کے ذریعے، کم از کم چھ الگ الگ بی ٹی-ایونٹ کو منظور کیا گیا تھا، ان کی دائمیت کے لیے ایونٹ پر مخصوص کوئی منصوبہ تیار کیے بغیر۔
بیکٹیریا بیسیلس تھورنجیینیسس میں، جین ایک پروٹین تیار کرتا ہے جو بول وارم مخالف زہر کا کام کرتا ہے۔ سائنس داں جین تیار کرنے کا کام کرتے ہیں جنہیں کپاس کے بیج میں منتقل کیا جا سکتا ہے، تاکہ پودھے بول ورام سے خود کو بچا سکیں۔ یہی جی ایم کپاس ہے۔ جب اس طرح کے جین کی تعمیر، پودے کے جینوم کی صلاحیتوں پر اپنی جگہ لیتی ہے، تو اسے ایک ’ایونٹ‘ کہا جاتا ہے۔
لیکن مزاحمت کے ایشوز کو اجاگر کرنے کے باوجود وارننگ کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، کرانتھی نے لکھا۔ مزاحمت ایک ترقی پذیر عمل ہے۔ زراعت میں جب پہلے کی مؤثر تکنیکیں ہدف شدہ کیڑے کو کنٹرول کرنا بند کر دیتی ہیں، تو کہا جاتا ہے کہ کیڑے کی مزاحمت تیار ہو گئی ہے۔ لیکن، انھوں نے لکھا، ہندوستان میں پرائیویٹ کمپنیوں کے ذریعے ایک ہزار سے زیادہ قسم کے ہائبرڈ بی ٹی-کاٹن – اپنے خود کے بیجوں کے ساتھ بی ٹی ایونٹس کو پار کرکے – صرف چار سے پانچ سالوں کے اندر منظور کر لیے گئے، جس سے زرعی سائنس اور کیڑے کے نظم میں افراتفری پھیلی۔ نتیجتاً، کیڑوں کے نظم میں کپاس کی کھیتی کرنے والے ہندوستانی کسانوں کی عدم صلاحیت بڑھتی رہے گی۔
سال ۲۰۱۷ میں، ہندوستان میں ہربیسائڈ-ٹالیرنٹ (ایچ ٹی) کپاس کے بیج بڑے پیمانے پر بوئے گئے۔ ایچ ٹی-کپاس مونسینٹو کا نیا کپاس بیج ہے۔ سرکار کے ذریعے تجارتی فروخت کے لیے اسے ابھی تک منظوری نہیں دی گئی ہے، لیکن بیج کمپنیوں اور غیر رجسٹرڈ فرموں نے پہلے ہی کسانوں کو یہ بیج فروخت کر دیے ہیں۔ حالانکہ، ایچ ٹی-کپاس کے بیج بول وارم یا دیگر کیڑوں کے لیے مہلک نہیں ہیں۔ اس طرح کے بیجوں سے اگنے والا پودا کپاس کے پودوں کو متاثر کیے بغیر، گھاس پھوس اور جنگلی جڑی بوٹیوں کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے کیمیکل کی مخالفت کرنے والا ہوتا ہے۔
اب، ۲۰۱۸ میں، ڈاکٹر کرانتھی کی وارننگ سچ ہو گئی ہے۔ گجرات سے جب ۲۰۱۰ میں گلابی کیڑوں کے حملے کی خبر پہلی بار سامنے آئی، تو اس وقت یہ بہت چھوٹے علاقے میں اور بی جی-اوّل کاٹن پر تھا۔ ۲۰۱۲ اور ۲۰۱۴ کے درمیان، یہ BG-II پر ایک بڑے علاقے میں پھیل گیا۔
۲۰۱۵-۱۶ کے موسم میں، سی آئی سی آر کے ذریعے کیے گئے سروے سے پتہ چلا کہ BG-II پر گلابی بول وارم کے لاروا کی موجودگی پورے گجرات میں کافی زیادہ تھی اور کیڑے نے Cry1Ac، Cry2Ab اور Cry1Ac+Cry2Ab (تین الگ الگ قسمیں) کے لیے مزاحمت تیار کر لی تھی، خاص طور سے امریلی اور بھاو نگر ضلعوں میں۔
کسان دیگر کیڑوں، خاص طور سے چوسنے والے کیڑوں کے علاوہ گلابی کیڑوں سے بچنے کے لیے حشرہ کش دواؤں کا استعمال پہلے سے ہی کر رہے تھے۔ دسمبر ۲۰۱۵ میں سی آئی سی آر کے وسیع زمینی سروے کے مطابق، نقصان دوسری اور تیسری بار توڑنے کے وقت ہرے رنگ کے خول میں زیادہ تھا – کسانوں کے ذریعے خول سے سفید کپاس تب نکالے جاتے ہیں جب ان کے اندر چار مراحل میں پھول آتے ہیں، کبھی کبھی پانچ مہینے میں، اکتوبر سے مارچ تک۔
سی آئی سی آر کے مطالعوں میں گلابی کیڑوں کی واپسی اور BG-II کی ناکامی کے کئی اسباب سامنے آئے۔ جیسے کہ طویل مدتی ہائبرڈ کی کھیتی، جو گلابی کیڑوں کی مسلسل میزبانی کا کام کرتی ہے۔
ڈاکٹر کرانتھی کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں بی ٹی-کاٹن کو کھلی افزائش والی قسموں (یا سیدھی لائن والے دیسی کپاس) میں چھوڑا جانا چاہیے تھا، ہائبرڈ میں نہیں۔ ہندوستان واحد ایسا ملک ہے جس نے بی ٹی جین کو سیدھی لائن کے بجائے ہائبرڈ قسموں میں لگانے کی اجازت دی ہے – کسانوں کو بازار سے دوبارہ بیج خریدنے کی ضرورت نہیں ہے اگر وہ سیدھی لائن والی قسمیں لگاتے ہیں، لیکن ہائبرڈ کے لیے انھیں ہر سال بیج خریدنا ہوگا۔
’’ BG-IIکو طویل مدتی ہائبرڈ میں منظور نہیں کیا جانا چاہیے تھا،‘‘ انھوں نے کہا۔ ’’ہم نے ٹھیک اس کے برعکس کیا۔‘‘
گلابی کیڑوں کی واپسی اور پچھلے تین برسوں میں کسانوں کو ہوئے نقصان نے، تقریباً ۵۰ ہندوستانی کپاس بیج کمپنیوں کو مونسینٹو کے خلاف کھڑا کر دیا ہے، جس سے انھوں نے BG-I اور BG-II کپاس تکنیک لی تھی۔ کم از کم ۴۶ کمپنیوں نے ۲۰۱۶-۱۷ میں مونسینٹو کو رائلٹی دینے سے انکار کر دیا – لیکن یہ ایک الگ کہانی ہے۔
اب نظر کے سامنے یا مستقبل قریب میں ایسی کوئی نئی جی ایم تکنیک نہیں ہے جو BG-II کو بدلنے کا وعدہ کرتی ہو۔ نہ تو زیادہ طاقتور کیڑوں کے لیے کوئی تکنیک دستیاب ہے۔ ہندوستان کپاس کے اپنے کھیتوں پر گہری مصیبت میں ہے، یہ ایک ایسی فصل ہے جو زمین کے وسیع حصے پر لگائی جاتی ہے اور دیہی ہندوستان میں لاکھوں دن کا روزگار مہیا کراتی ہے۔
’میں جلد ہی اپنے کھیت کو مسطح کروں گا‘
مایوس کپاس کسان وڈندرے نے جنوری ۲۰۱۸ میں، عام گاؤں (خورد) میں اپنی فصل کو چھوڑ دیا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ کپاس چننے کی لاگت اس سے کہیں زیادہ ہوتی، جو انھیں خراب کپاس کو بیچنے سے مل سکتی تھی۔ ’’آپ ان پودوں کو دیکھیں – ایسا لگتا ہے کہ یہ مجھے بمپر فصل دیں گے۔ لیکن یہ سال تباہ کن ہے،‘‘ انھوں نے لمبے اور مضبوط پودوں کی قطاروں کے درمیان چلتے ہوئے کہا، ان پودوں کو کھڑا رکھنے کے لیے بانس کے ڈنڈوں کی ضرورت تھی۔
مہاراشٹر میں کپاس کے بہت سے کسانوں نے، ایک اور تباہ کن سیزن کے بعد جب ان میں سے زیادہ تر میں پھول نہیں آیا، اپنے پودوں کو جوت کر برابر کر دیا۔ یوت مال ضلع میں کچھ لوگوں نے کھڑی فصل پر بلڈوزر چلا دیا، دیگر لوگوں نے کپاس کو اس کی حالت پر چھوڑ دیا، کیوں کہ برف جیسے سفید کھیتوں کے بڑے حصے پر کیڑوں کا حملہ ہو چکا تھا۔
مغربی ودربھ میں فصل کی کٹائی کا موسم آنے سے کچھ دنوں پہلے ہی حشرہ کش دواؤں کے چھڑکاؤ سے کئی حادثے ہوئے: تقریباً ۵۰ کسانوں کی موت ہو گئی، تقریباً ایک ہزار لوگ بری طرح بیمار ہو گئے، ان میں سے کچھ کی جولائی-نومبر ۲۰۱۷ میں آنکھیں خراب ہو گئیں۔
جنوری میں سردی کے بڑھتے ہی گلابی کیڑے موٹے تازے ہونے لگے، جس سے کپاس کے کسانوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔
جنوری میں جب میں وڈندرے سے ملا، تو انھوں نے ہمیں چھوٹے لیکن مہلک کیڑے کے ذریعے کھوکھلا کر دیے گئے خول کو دکھاتے ہوئے کہا تھا، ’’میں اپنے کھیت کو جلد ہی مسطح کر دوں گا۔‘‘ میں ان سے پہلے بھی دو بار مل چکا تھا، لیکن پچھلے موقعوں کے مقابلے اس بار، یہ خول گلابی کیڑوں سے پوری طرح برباد ہو چکے تھے۔ انھوں نے کہا کہ حشرہ کش دواؤں کی کوئی بھی مقدار کیڑوں کو ختم کرنے میں مدد نہیں کرے گی، کیوں کہ یہ خول کے اندر جمع ہو جاتے ہیں اور کیمیکل اسپرے سے خود کو بچا لیتے ہیں، اور ان کی تعداد بہت تیزی سے بڑھتی ہے۔
وڈندرے کی تشویش ہندوستان کے کپاس کے کھیتوں پر شدت اختیار کرتے بحران کا اشارہ ہے۔
(مترجم: محمد قمر تبریز)