گوری پرمار اپنی تلخی اور طنز میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہتی ہیں، ’’شراب پر پابندی کہاں ہے؟‘‘
’’یہ یا تو دھوکہ ہے یا شاید میرا گاؤں گجرات میں نہیں ہے،‘‘ گوری مزید کہتی ہیں۔ ’’میرے گاؤں کے مرد برسوں سے شراب پی رہے ہیں۔‘‘ ان کا گاؤں، روجڈ، گجرات کے بوٹاد ضلع میں واقع ہے۔
گجرات شراب پر پابندی لگانے والی ہندوستان کی ان تین ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں شہری نہ تو شراب خرید سکتے اور نہ ہی پی سکتے ہیں۔ گجرات شراب بندی (ترمیمی) قانون، ۲۰۱۷ کے تحت اس کی کشید اور فروخت کرنے والے شخص کو ۱۰ سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
لیکن، ۵۰ سالہ گوری جب ۳۰ سال سے کچھ پہلے روجڈ میں دلہن بن کر آئی تھیں تبھی سے انہوں نے اس قانون کی دھجیاں اڑتے ہوئے دیکھی ہیں۔ انہوں نے شراب کو مقامی طور پر کشید ہوتے اور پولی تھین کے پاؤچوں میں ضرورت مند گاہکوں کو فروخت ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
ایسی شراب کے خطرات دور رس اور مہلک ہیں۔ غیرقانونی شراب بنانے والے کشید کے عمل کو تیز کرنے کے لیے بعض اوقات زہریلے مرکبات کا استعمال کرتے ہیں۔ گوری کہتی ہیں، ’’وہ سینیٹائزر، یوریا اور میتھانول ملاتے ہیں۔‘‘
جولائی ۲۰۲۲ میں اسی طرح کی غیر قانونی طور پر تیار کی گئی شراب نے گجرات میں ۴۲ افراد کی جان لی اور احمد آباد، بھاؤ نگر اور بوٹاڈ اضلاع میں تقریباً ۱۰۰ افراد کو ہسپتال پہنچانا پڑا۔ مرنے والوں میں سے ۱۱ افراد کا تعلق بوٹاڈ کے بروالا تعلقہ کے ایک گاؤں روجڈ سے تھا۔
گوری کہتی ہیں، ’’میرا بیٹا وَسرام ان میں سے ایک تھا۔‘‘ ۳۰ سالہ وسرام اپنے کنبے کا واحد کمانے والا فرد تھا۔ اس کنبے میں اس کی بیوی اور ۴ اور ۲ سال کے دو بچے شامل ہیں۔ اس کنبے کا تعلق والمیکی برادری سے ہے، جو گجرات میں ایک درج فہرست ذات ہے۔
گوری کو ۲۵ جولائی، ۲۰۲۲ کی صبح یاد ہے۔ وسرام بے چینی محسوس کر رہے تھے اور انہیں سانس لینے میں تکلیف ہو رہی تھی۔ اہل خانہ انہیں بروالا کے ایک پرائیویٹ کلینک میں گئے، جہاں ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کے پاس علاج کی مطلوبہ سہولتیں نہیں ہیں۔ اس کے بعد انہیں بروالا کے کمیونٹی ہیلتھ سنٹر لے جایا گیا۔ گوری بتاتی ہیں، ’’وہاں ڈاکٹروں نے انہیں ایک انجکشن دیا اور کچھ دیر کے لیے سیلائن ڈرپ پر رکھا۔ دوپہر ۱۲:۳۰ بجے انہوں نے ہمیں بوٹاڈ کے ڈسٹرکٹ ہسپتال لے جانے کو کہا۔‘‘
ہسپتال ۴۵ منٹ کی دوری پر واقع ہے۔ وسرام نے پورے راستے سینے میں درد کی شکایت کی۔ گوری بتاتی ہیں، ’’اس نے کہا کہ اسے سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے۔ اسے الٹیاں بھی ہو رہی تھیں۔‘‘
بوٹاڈ ضلع ہسپتال میں ڈاکٹروں نے گوری کو یہ نہیں بتایا کہ انہیں کیا تکلیف تھی۔ گوری کہتی ہیں کہ کوئی کچھ نہیں بتا رہا تھا۔ جب انہوں نے ان سے پوچھا تو انہیں وارڈ سے باہر چلے جانے کو کہا گیا۔
گوری ڈاکٹروں کو اپنے بیٹے کے سینے کو پمپ کرتے ہوئے بے بسی سے دیکھتی رہیں۔ وہ جانتی تھیں کہ شراب نے اسے اس حال میں پہنچا دیا ہے، لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ اس سے ان کے بیٹے کو کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں ان سے پوچھتی رہی کہ اسے کیا ہوا ہے، لیکن انہوں نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔ جب آپ کا بیٹا ہسپتال میں ہوتا ہے، تو آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر آپ سے بات کریں، چاہے بری خبر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
مریضوں اور ان کے رشتہ داروں، خاص کر غریب اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کے تئیں ڈاکٹروں کی بے توجہی، کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔ گوری کہتی ہیں، ’’ویسے بھی غریبوں پر کوئی توجہ نہیں دیتا ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ مریضوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کا چارٹر (اگست ۲۰۲۱ میں نیشنل کونسل برائے کلینیکل اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے منظور شدہ) کہتا ہے کہ مریض یا ان کے نمائندے کو ’’بیماری کی نوعیت اور اس کی وجوہات کے بارے میں مناسب متعلقہ معلومات‘‘ حاصل کرنے کا حق ہے۔ چارٹر یہ بھی کہتا ہے کہ سماجی بنیادوں (جیسی معاشی حیثیت یا ذات پات) پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا ہے۔
گوری کو وارڈ چھوڑنے کے لیے کہے جانے کے چند گھنٹے بعد ضلع ہسپتال کے ڈاکٹروں نے وسرام کو بغیر کوئی وجہ بتائے بوٹاڈ کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں ریفر کر دیا۔ وسرام کو جس دن وہاں منتقل کیا گیا تھا، اسی دن شام کو ۶:۳۰ بجے انہوں دم توڑ دیا تھا۔
گوری ایک بار پھر کہتی ہیں، ’’شراب پر پابندی ایک مذاق ہے۔ گجرات میں ہر شخص شراب پیتا ہے۔ لیکن اس سے صرف غریب ہی مرتے ہیں۔‘‘
گجرات میں چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے زہریلی شراب نوشی صحت عامہ کا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ زہریلی شراب نے گزشتہ برسوں میں سینکڑوں افراد کی جان لی ہے۔ اس ضمن میں سب سے بدترین سانحات جولائی ۲۰۰۹ میں پیش آئے تھے، جب ضلع احمد آباد میں ۱۵۰ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دو دہائی قبل مارچ ۱۹۸۹ میں وڈودرا ضلع میں ۱۳۵ افراد کی موت ہوئی تھی۔ بڑے پیمانے پر اموات کا سلسلہ پہلی بار ۱۹۷۷ میں احمد آباد سے شروع ہوا تھا۔ اس سال شہر کے سارنگ پور دولت خانہ علاقے میں ۱۰۱ لوگ مارے گئے تھے۔ اس میں ہر موت کی وجہ میتھائل الکحل (میتھانول) کی زیادہ مقدار قرار دی گئی تھی۔
شراب کشید کرنے کے کسی معیارکی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ دیسی شراب عام طور پر گڑ یا پودوں کے عرق کو ابال کر کشید کی جاتی ہے۔ لیکن جب مانگ بڑھ جاتی ہے، تو غیرقانونی شراب کشید کرنے والے تاجر صنعتی ایتھائل الکحل کا سہارا لیتے ہیں، جو ہینڈ سینیٹائزر میں بھی موجود ہوتا ہے۔ وہ انتہائی زہریلے میتھانول کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرتے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ کا محض ایک معمولی پہلو ہے۔
احمد آباد میں مقیم ایک سینئر ماہر عمرانیات گھنشیام شاہ کہتے ہیں کہ شراب ایک ایسا کاروبار ہے، جس میں پولیس اور سیاست داں دونوں (غیر قانونی شراب کے تاجروں کے ساتھ) ملوث ہیں۔
زہریلی شراب کے سانحات کی تحقیقات اور انسداد کے لیے یکے بعد دیگرے کئی سرکاری انکوائری کمیشن قائم کیے گئے، جن میں ۲۰۰۹ کے سانحے کے بعد قائم لٹھہ (ہوچ) کمیشن آف انکوائری بھی شامل ہے، جس کی صدارت جسٹس کے ایم مہتہ نے کی تھی۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں امتناعی پالیسی کے غیرمؤثر نفاذ کو اجاگر کیا ہے۔
گجرات میں چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے زہریلی شراب صحت عامہ کا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ زہریلی شراب نوشی گزشتہ کئی برسوں سے سینکڑوں افراد کی موت کا سبب بنی ہے۔ اس ضمن میں سب سے بدترین سانحات جولائی ۲۰۰۹ میں پیش آئے تھے
گجرات میں صرف صحت کی بنیاد پر شراب نوشی کی اجازت ہے، اور وہ بھی اگر کوئی ڈاکٹر تجویز کرے تب۔ تاہم ریاست کے باہر سے آنے والوں کے لیے شراب دستیاب ہے۔ باہر سے آنے والے اسے تصدیق شدہ دکانوں پر خریدنے کے لیے عارضی اجازت نامہ حاصل کر سکتے ہیں۔
شاہ کہتے ہیں، ’’متوسط طبقے اور اعلیٰ متوسط طبقے کے لیے شراب مقررہ نرخوں پر دستیاب ہے۔ غریب اس کے متحمل نہیں ہو سکتے، اس لیے وہ گاؤوں میں بنی سستی شراب پیتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگرنقلی شراب صارف کو فوری طور پر ہلاک نہیں کرتی ہے، تو بھی اس سے بینائی خراب ہو سکتی ہے، بیہوشی کے دورے پڑ سکتے ہیں اور دماغ اور جگر کو مستقل نقصان پہنچ سکتا ہے۔
بدقسمتی سے گجرات میں عوامی طبی سہولت کا ڈھانچہ صحت کی اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
دیہی علاقوں میں صحت کی ہنگامی نگہداشت کی ذمہ داری ضلعی ہسپتالوں پر ہے۔ وہاں بستروں کی تعداد ناکافی ہے۔ ملک کے ضلع ہسپتالوں کی کارکردگی پر نیتی آیوگ کی ۲۰۲۱ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گجرات میں ہر ایک لاکھ آبادی کے لیے اوسطاً ۱۹ بستر دستیاب ہیں۔ یہ قومی اوسط، یعنی ۲۴ سے کم ہے۔
ضلع اور ذیلی ضلع ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ گجرات کے دیہی علاقوں میں کل ۷۴ ہسپتال ہیں۔ دیہی صحت کی شماریات (۲۰۲۰-۲۱) کے مطابق ان میں صرف ۵۸۸ ڈاکٹر ہیں جب کہ ان کی تعداد ۷۹۹ ہونی چاہیے۔
ریاست کے دیہی علاقوں میں ۳۳۳ کمیونٹی ہیلتھ مراکز (سی ایچ سی) میں ۱۱۹۷ ماہر ڈاکٹروں (جن میں سرجن، ماہر امراض نسواں، ماہر ادویات اور ماہر امراض اطفال شامل ہیں) کی کمی ہے۔
یومیہ اجرت پر کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور، کرن ویرگام ۲۶ جولائی ۲۰۲۲ کو جب اپنے والد کو بھاؤ نگر کے سول ہسپتال، سر ٹی ہسپتال لے گئے تھے، تو وہاں ان کی ملاقات کام کے بوجھ تلے دے دبے عملے سے ہوئی تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہسپتال میں اتنی بھیڑ تھی کہ ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کہاں جائیں۔ عملہ مصروف تھا اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ کیا کرنا ہے۔‘‘
لٹھہ کمیشن آف انکوائری کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ۲۰۰۹ میں شراب سے ہونے والی اموات سے نمٹنے کے لیے خاص طور پر سانحہ کے ابتدائی گھنٹوں کے دوران کوئی ہنگامی تیاری نہیں کی گئی تھی۔ کمیشن نے میتھانول کے زہر کے علاج کے پروٹوکول کی کمی کو بھی اجاگر کیا تھا۔
کرن کے ۴۵ سالہ والد بھوپد بھائی، جو کہ ایک زرعی مزدور بھی تھے، نے بھی اسی کھیپ سے شراب پی تھی جس نے روجڈ میں بہت سے لوگوں کو اسپتال پہنچا دیا تھا۔ اس صبح ۶ بجے انہیں بے چینی محسوس ہوئی تھی اور سانس لینے میں تکلیف ہونے لگی تھی۔
جب کرن انہیں بروالا کے سی ایچ سی لے گئے، تو عملے نے بھوپد بھائی کی طرف دیکھا تک نہیں اور انہیں فوراً بھاؤ نگر ہسپتال ریفر کر دیا۔ وہ جانتے تھے کہ شراب کی ایک کھیپ لوگوں کو بیمار کر رہی ہے۔ کرن کہتے ہیں، ’’عملہ کو معلوم تھا کہ مسئلہ کیا ہے۔ سی ایچ سی نے ہمیں وقت ضائع کرنے کی بجائے بھاؤ نگر جانے کو کہا۔ سہولیات کے لحاظ سے یہ ہمارے لیے بہترین متبادل تھا۔‘‘
لیکن ۸۰ کلومیٹر دور اس ہسپتال تک پہنچنے میں دو گھنٹے لگتے ہیں۔ اس علاقے میں ۱۰۸ نمبر کی ایمبولینس چلانے والے پریش دُلیرا بتاتے ہیں، ’’روجڈ سے بھاؤ نگر تک سڑک اچھی نہیں ہے۔ اس لیے وہاں پہنچنے میں دو گھنٹے لگتے ہیں۔‘‘
دُلیرا یاد کرتے ہیں کہ جب انہوں نے بھوپد بھائی کو اٹھایا تھا تو انہیں اسٹریچر کی ضرورت نہیں تھی۔ ’’وہ بغیر کسی مدد کے ایمبولینس کے اندر بیٹھے تھے۔‘‘
پبلک پرائیویٹ شراکت ماڈل کے تحت چلنے والی ایمبولینس سروس ایمرجنسی کے دوران ہسپتال سے قبل کی نگہداشت فراہم کرتی ہے۔ دلیرا کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ ایک معاون نرس دائی اور ایک عام نرس مڈ وائف منسلک ہیں، اور گاڑی میں آکسیجن سیلنڈر، سیلائن کی بوتلیں اور انجیکشن موجود رہتے ہیں۔
ہسپتال میں افراتفری کے درمیان بھوپد بھائی کو انتہائی نگہداشت کی یونٹ (آئی سی یو) میں داخل کرایا گیا۔ ’’عملہ انہیں اندر لے گیا، لیکن ہم زیادہ بھیڑ کی وجہ سے کوئی سوال نہیں کر سکے۔ ایک گھنٹہ بعد ہمیں بتایا گیا کہ ان کی موت ہو گئی ہے۔ اس پر ہمارے لیے یقین کرنا مشکل تھا،‘‘ کرن اس بات کو دہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ان کے والد ایمبولینس میں داخل ہوئے تو بالکل ٹھیک تھے۔
’’میں جانتا ہوں کہ وہ چلے گئے ہیں،‘‘ کرن کہتے ہیں۔ ’’لیکن میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ان کی صحت اتنی تیزی سے کیسے اور کیوں کر خراب ہوئی۔ ہمیں [فیملی کو] اس کی وضاحت چاہیے، کوئی حتمی وجہ۔‘‘ ان کے والد کی موت کیوں ہوئی، کرن کو اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔
بھوپد بھائی کی موت کے دو ماہ بعد بھی فیملی کو پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں ملی تھی۔
پولیس نے ۲۸ جولائی، ۲۰۲۲ تک میتھانول کے حصول کے ساتھ ساتھ زہریلی شراب بنانے اور فروخت کرنے کے الزامات میں ۱۵ لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔ پوری ریاست میں غیرقانونی شراب کے خلاف بڑے پیمانے پر پولیس کی کارروائی شروع کی گئی تھی، جس کی اطلاع ۲۹ جولائی کو دی گئی ۔ اس کارروائی میں ۲۴۰۰ سے زیادہ گرفتاریاں اور ۵ء۱ کروڑ روپے مالیت کی غیر قانونی شراب ضبط کی گئی تھی۔
بوٹاڈ میں ہوئی پولیس کی کارروائی کا نتیجہ تیزی سے سامنے آیا ہے: گھر پر بننے والی شراب کا جو پاؤچ ۲۰ روپے میں فروخت ہوتا تھا اب ۱۰۰ روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔
پارتھ ایم این ایک آزاد صحافی ہیں جو ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن کے گرانٹ کے ذریعہ صحت عامہ اور شہری آزادی کے موضوعات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورٹ کے مواد پر کسی طرح کا ادارتی کنٹرول استعمال نہیں کیا ہے۔
مترجم: شفیق عالم