’’کیچڑ خشک ہونے سے غبار اڑ رہا ہے اور کھیتوں میں پھیلی گندگی آلودگی میں اضافہ کر رہی ہے، یہ بہت ہی برا ہے،‘‘ پٹنم تھٹا میں ڈاتھن سی ایس کہتے ہیں۔ ’’برائے کرم اسے پہن لیں،‘‘ وہ مجھے ایک ماسک دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر ان کے پیچھے کھڑی ایک عورت ہنس دیتی ہے – اس خاتون کا کھیت بھی دیگر لوگوں کی طرح، کیرالہ میں آئے سیلاب کی وجہ سے برباد ہو چکا ہے۔ ’’یہ ممبئی میں رہتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہے۔ ’’آلودگی سے ان کو کس تحفظ کی ضرورت ہو سکتی ہے؟‘‘
کھیتوں میں چاروں طرف تباہی کا منظر ہے۔ کبھی دھان اور سابو دانہ کی شاندار اور منافع بخش فصل والا کھیت کا یہ ٹکڑا، اب ندی سے آنے والی گاد میں کئی اِنچ – اور کچھ جگہوں پر کئی فیٹ – تک ڈوبا ہوا ہے، اور سیلاب کے پانی کے ساتھ بہہ کر آنے والے کچرے اور آلودہ عناصر سے بھرا پڑا ہے۔ کئی ایکڑ زرعی زمین پر پھیلی یہ گندگی اور آلودہ عناصر کا مہلک آمیزہ، تیز دھوپ میں سوکھ کر سخت ہو گیا ہے اور مٹی کو سیمنٹ کی سخت پرت کی طرح ڈھکے ہوئے ہے۔
پانی کی سطح گھٹتی جا رہی ہے، زیر زمین پانی دوبارہ بھر نہیں رہا، کوئیں خشک ہو رہے ہیں، درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ یہ سب اور دیگر اسباب نے سطح اور زمین کے نیچے موجود پانی کے پورے تناسب کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ندیوں کا ماحولیاتی توازن ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ ان میں اب ریت اور گاد چونکہ باقی نہیں بچی، اس لیے کئی ندیاں اور چشمے اپنے اندر پانی کو برقرار رکھنے میں ناکام ہیں۔ اور اسی لیے، اس بات کا قوی امکان ہے کہ کیرالہ کے لیے اگلی آفت خشک سالی کی شکل میں آ سکتی ہے۔ ایسے حالات میں کھیتی کو بحال کرنا اچھے اچھوں کا حوصلہ توڑ سکتا ہے۔
لیکن کُدُمب شری کی خواتین کسانوں کا نہیں۔
ان کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہے، جو کہ پورے کیرالہ میں پھیلے خواتین کے ایک وسیع مشترکہ نیٹ ورک کا حصہ ہے۔ کدمب شری (جس کا لفظی معنی ہے ’خاندان کی خوشحالی‘) کی تقریباً ۴۵ لاکھ ارکان ہیں۔ اس کی رکنیت تمام بالغ عورتوں کے لیے کھلی ہوئی ہے، لیکن ایک فیملی سے صرف ایک عورت ہی رکن بن سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کیرالہ کے کل ۷۷ لاکھ کنبوں میں سے تقریباً ۶۰ فیصد خواتین اس نیٹ ورک کی رکن ہیں۔ کُدُمب شری کے مرکز میں ہیں وہ ۳ء۲ لاکھ خواتین کسان، جنہوں نے خود کو سنگھ کرشی (اجتماعی کھیتی) کے ساتھ باندھ رکھا ہے – یہ اکائیاں مشترکہ کھیتی کرتی ہیں۔
۴۵ لاکھ ارکان کے ساتھ، جن میں تین لاکھ ۲۳ ہزار خواتین کسان بھی شامل ہیں، کُدُمب شری دنیا کا سب سے بڑا جنسی انصاف اور غریبی کو دور کرنے والا پروگرام ہو سکتا ہے
سنگھ کرشی کی ۷۰ ہزار اکائیاں ہیں، جن میں سے ہر ایک میں اوسطاً پانچ ارکان ہیں۔ ہر اکائی پٹے پر لی گئی زمین پر کام کرتی ہے، جو عام طور پر ڈھائی ایکڑ سے کم ہوتی ہے۔ کبھی کبھی، صرف ایک ایکڑ۔ یہ گروپ زیادہ تر آرگینک کھیتی یا کم لاگت والی ٹکاؤ کھیتی کرتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کھیتی کمزور ہوتی جا رہی ہے، ان خواتین نے پٹہ پر لی گئی زمین کے اپنے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو منافع بخش بنایا ہے اور ’غذائی انصاف‘ کے اصولوں پر چلایا ہے – اجتماعی کھیتی پر منحصر تمام کنبے جب اپنی ضرورتوں کو پورا کر لیتے ہیں، تبھی بچی ہوئی زرعی پیداوار کو بازار میں فروخت کیا جا سکتا ہے۔
ان کی کامیابی اور مہارت کو دیکھتے ہوئے بینک ان کے پیچھے بھاگتے ہیں، یہ ان کے پیچھے نہیں بھاگتیں، اور ایسا ملک میں کہیں اور نہیں ہوتا۔ پٹنم تھٹا ضلع میں، جہاں اس وقت ہم ہیں، ان کے یہاں قرض کے پیسے لوٹانے کی شرح ۹۸ء۵ فیصد ہے۔ کچھ گاؤوں میں کُدُمب شری، مقامی بینکوں میں سب سے بڑی ڈِپوزیٹر (پیسے جمع کروانے والی) ہے۔
لیکن اب، سیلاب نے سنگھ کرشی کو تباہ کر دیا ہے – ریاست بھر میں ان کا تقریباً ۴۰۰ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ان میں سے ۲۰۰ کروڑ روپے کا نقصان تو صرف فصلوں کا ہوا ہے۔ باقی نقصان میں شامل ہے مٹی کی زرخیزی کا ختم ہونا، کھیت کو دوبارہ قابل کاشت بنانے پر ہونے والا خرچ، قرض لی گئی رقم کا نقصان اور دیگر نقصانات۔ بقیہ لاگتوں کے سامنے آنے پر مجموعی نقصان میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
رنی بلاک کی نو پنچایتوں میں ۹۲ ایکڑ کھیتوں پر کام کر رہے ۷۱ گروپوں نے اس سال بینکوں سے ۷۲ لاکھ روپے کا قرض لیا تھا۔ ’’اور یہ سب اس سیلاب کے ساتھ ہی چلا گیا،‘‘ کُدُمب شری کی ایک اہم کارکن اور گروپ کی کسان، اومانہ راجن بتاتی ہیں۔ ان کی خود کی سنگھ کرشی ’مَنّا‘ (’قدرتی تحفہ‘) سے پچھلے سال صرف کیلے کی کھیتی سے ۲ لاکھ روپے کا منافع ہوا تھا۔ گروپ کی پانچ ممبران میں سے ہر ایک کو پچھلے سال تقریباً ۵۰ ہزار روپے کا فائدہ ہوا۔ ’’ہم آرگینک کھیتی کرتے ہیں، اس لیے ہمیں پریمیم قیمت ملتی ہے۔ لیکن اس سال ہمیں اونم تہوار کے موقع پر حاصل ہونے والی اعلیٰ قیمت نہیں مل پائی۔ سب کچھ برباد ہو چکا تھا۔ لیکن ہم اسے دوبارہ ٹھیک کریں گے۔‘‘
رنّی انگادی گاؤں میں ہم اس تباہی کو دیکھ رہے ہیں۔ اس پنچایت کی ۷۱ سنگھ کرشی سے ۱۰ سے بھی کم نے اپنا بیمہ کرا رکھا ہے – پٹہ والی زمین کے لیے یہ آسان نہیں ہے۔ ڈاتھن، جن کے پاس زرعی سائنس میں ایم ایس سی کی ڈگری ہے اور جو کیرالہ حکومت کے مٹی کے تحفظ والے محکمہ میں ملازم ہیں، ایک ماہر کی نظر سے نقصان کا سروے کرتے ہیں۔ وہ کُدُمب شری کے ساتھ ڈپیوٹیشن پر کام کر رہے ہیں۔ بِنسی بیجوئے، وہی خاتون جنہوں نے ممبئی کروں کو آلودگی سے تحفظ کی ضرورت والی بات کا مذاق اڑایا تھا، کُدُمب شری کی ایک کارکن ہیں۔ ان کی نظر ایک کسان کی ہے۔
آپ جس طرح سے بھی دیکھیں، نقصان بہت زیادہ ہوا ہے۔ لیکن ان خواتین کا جوش و جذبہ گزشتہ ایک صدی کے دوران، کیرالہ میں آنے والے اگست کے سیلاب میں ہوئی تباہی کے مقابلے کہیں بڑا ہے۔ رنّی انگادی پنچایت کے دفتر میں جب ہماری پہلی میٹنگ ہوئی، تو وہ ہنس رہی تھیں اور خوش تھیں۔ پنچایت صدر بابو پُلّت نے اس کا مذاق بھی اڑایا اور ان سے کہا، ’’ہمارے بارے میں سمجھا جا رہا تھا کہ ہم سب ایک بڑے بحران میں پھنسے ہوں گے جس کے بارے میں لکھنے کے لیے یہ محترم آئے ہوئے ہیں اور یہاں آپ سب ہنس رہی ہیں۔ وہ کیا سوچیں گے؟ کیا ہمیں سنجیدہ نہیں ہونا چاہیے؟‘‘ یہ سن کر مزید قہقہہ لگا۔ کچھ خواتین نے مجھ سے ہندی میں بات کرنی چاہی، حالانکہ وہ بھی تمل بولتی ہیں اور کچھ کچھ میں بھی۔ میں چونکہ ممبئی سے تھا، اس لیے ان کے لیے میری زبان ہندی ہونی چاہیے تھی۔
ایک ایکڑ میں کیلا لگانے پر ۳ لاکھ روپے سے زیادہ کی لاگت آتی ہے، بیجوئے بتاتے ہیں۔ ’’ایک ایکڑ کھیت پر ہم جو ۱۰۰۰ پودے لگاتے ہیں، ان میں سے ہر ایک پر ۳۰۰ روپے کا خرچ آتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں حشرہ کش – آرگینک حشرہ کش دواؤں پر بھی کچھ نہ کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اور پھر مزدوری پر بھی بہت زیادہ لاگت آتی ہے۔‘‘ لیکن ایک ایکڑ میں ۱۰-۱۲ ٹن کی پیداوار ہو سکتی ہے اور وہ اپنے کیلے ۶۰ روپے فی کلوگرام کے حساب سے بیچتے ہیں۔ لہٰذا وہ ڈیڑھ سے ۲ لاکھ روپے تک کا منافع حاصل کر سکتے ہیں، جیسا کہ پچھلے سال یہاں کے کئی گروپوں کو ہوا تھا۔ ’’اس کے علاوہ، ہمیں اونم کے وقت ۸۰-۸۵ روپے فی کلوگرام کی پریمیم قیمت بھی مل سکتی ہے،‘‘ ’سنگم‘ سنگھ کرشی کی شائنی جوزف کہتی ہیں۔
پچھلے سال، سنگم کی چھ ارکان میں سے ہر ایک کو ۵۰ ہزار روپے کا فائدہ ہوا تھا۔ ’’اس سال ہم نے سب کچھ کھو دیا۔ سبھی تین ایکڑ برباد ہو گئے۔ ہر ایک ایکڑ میں جمی گاد اور کیچڑ کی پرتوں کو صاف کرنے میں ۱ لاکھ روپے تک لگ سکتے ہیں،‘‘ جوزف کہتی ہیں۔ ’’نہروں کو بھی صاف کرنا پڑے گا۔ اس میں تین مہینے لگ سکتے ہیں، لیکن ہم اسے جلدی کرنے کی کوشش کریں گے۔ حالانکہ، سب کچھ خشک ہو رہا ہے۔ اور اب ہمیں خشک سالی کا سامنا ہے۔‘‘
ہم جہاں بھی گئے، خواتین کسانوں نے ہمیں یہی بتایا کہ انھیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ باز تعمیر کر سکتی ہیں – اور ایسا کرنے میں انھیں دیر نہیں لگے گی۔ حالت کتنی بدتر ہے اس کا انھیں اندازہ نہ ہو، ایسا بھی نہیں ہے، لیکن ان کے پختہ عزم کے سامنے تباہی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ’’ہماری ایک مجموعی طاقت ہے۔ ہم اپنی اجتماعیت سے حوصلہ اور قوتِ ارادی حاصل کرتے ہیں۔ کُدُمب شری اجتماعیت کا ہی دوسرا نام ہے۔‘‘ یہ ایک ایسا بیان ہے، جسے دوہراتے ہوئے انھیں میں کئی برسوں سے سن رہا ہوں۔ اب کیرالہ میں سیلاب کی تباہی کے بعد، وہ اپنے اسی دعوے پر قائم ہیں۔
ریاست بھر میں سنگھ کرشی سے وابستہ یہ خواتین کسان، جن کا سب کچھ ختم ہو چکا ہے، انھوں نے کُدُمب شری کے ذریعے وزیر راحت رسانی فنڈ میں دینے کے لیے ۷ کروڑ روپے جمع کرنے میں اپنا کچھ نہ کچھ رول نبھایا ہے۔ ۱۱ ستمبر ان کے لیے ایک اور یادگار لمحہ لے کر آیا۔ اس دن، نئی دہلی میں، کُدُمب شری کو ’زرعی ذریعہ معاش میں شاندار کارکردگی‘ کے لیے قومی دیہی ذریعہ معاش مشن (این آر ایل ایم) ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ این آر ایل ایم نے یہ ایوارڈ پہلی بار دیا ہے۔
کُدُمب شری دنیا کا سب سے بڑا جنسی انصاف اور غریبی کو دور کرنے کا پروگرام ہو سکتا ہے۔ سرکار کی ایک پہل کے طور پر اس کا قیام ۱۹۹۸ میں عمل میں آیا تھا، تبھی سے ان خواتین نے اجتماعی طور پر اپنے لیے آزادی اور خود مختاری کی راہ ہموار کی ہے: ’ہم سرکاروں کے ساتھ کام کرتے ہیں، سرکاروں کے لیے نہیں،‘ یہی ان کا موٹو ہے۔ اپنے حوصلہ اور آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے، آج انھیں بینکوں اور دیگر اداروں کی مدد کی ضرورت ہے – اور ہماری ہمدردی کی بھی۔ غریب خواتین کے ذریعے شروع کیے گئے زراعت کے اس عظیم کام کی اس ملک میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ دائرے، سائز اور حصولیابی کے معاملے میں تو بالکل بھی نہیں۔
سنگھ کرشی سے وابستہ دیگر خواتین سے ملنے کے لیے ہم جیسے ہی وہاں سے روانہ ہونے لگے، ایک عورت پاس آکر کہتی ہے: ’’میں واپس آؤں گی۔ ہمیں چوٹ تو پہنچی ہے، لیکن ہم واپس لوٹیں گے۔ ہم ایک ماہ کے اندر ہی دوبارہ کھیتی شروع کر دیں گے، آپ دیکھ لینا۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)