ناسک میں جب ۶ مارچ کو کسانوں کا مارچ شروع ہوا، تو سب سے آگے تھیں ڈِنڈوری تعلقہ کے ڈونڈے گاؤں کی ۶۰ سالہ رُکما بائی بینڈ کُلے، جو ہاتھ میں ایک لال پرچم لیے پوری شان سے ناچ رہی تھیں۔ ممبئی تک کے اس مارچ میں دیگر ہزاروں خواتین کسانوں نے حصہ لیا، بعض نے ۱۸۰ کلومیٹر کا یہ پیدل مارچ سخت گرمی میں چپلوں کے بغیر پورا کیا، کچھ عورتوں کے ساتھ ان کے بچے اور پوتے پوتیاں بھی تھیں کیوں کہ انھیں گھر پر اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔
ناسک، پال گھر، دہانو، احمد نگر اور دیگر ضلعوں کی خواتین کسان، مراٹھ واڑہ اور وِدربھ کی خواتین کسانوں کے ساتھ اس مورچہ میں بڑی تعداد میں شامل ہوئیں۔ آدیواسی خواتین کسانوں کا تعلق عموماً ایسے کنبوں سے ہوتا ہے جن کے پاس کم زمینیں ہوتی ہیں، اس لیے ان میں سے زیادہ تر دوسرے کے کھیتوں پر زرعی مزدوری کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ ایک ہفتہ تک چلنے والے اس مارچ میں شرکت کرکے، ان سبھی نے اپنی کم تر ماہانہ آمدنی کا ایک چوتھائی حصہ کھو دیا۔
’’زراعت کا زیادہ تر کام (بوائی، پودے کی منتقلی، کٹائی، صفائی، کھیت سے گھر تک فصل کی ڈھلائی، فوڈ پروسیسنگ اور دودھ نکالنا) عورتوں کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے،‘‘ پیپلز آرکائیوز آف رورل انڈیا کے بانی ایڈیٹر، پی سائی ناتھ بتاتے ہیں۔ ’’لیکن – قانونی پوزیشن کے برخلاف – ہم عورتوں کو زمین کا مالکانہ حق دینے سے انکار کرتے ہیں اور انھیں کسان کی شکل میں قبول نہیں کرتے۔‘‘
اکھل بھارتیہ کسان سبھا کے ذریعہ منعقد یہ مارچ، خواتین اور مرد کسانوں کو اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے لیے سڑکوں پر لے آیا، ان کے مطالبات میں فاریسٹ رائٹس ایکٹ، ۲۰۰۶ کا نفاذ بھی شامل تھا، جو انھیں اس کھیت کی ملکیت دلائے گا جسے وہ دہائیوں سے جوت رہے ہیں۔
ہم یہاں چند خواتین کسانوں کا پروفائل پیش کر رہے ہیں۔
یہ بھی دیکھیں ’میں ایک کسان ہوں، میں لمبی مسافت طے کر رہا ہوں‘ اور نا امیدی کے کھیتوں سے – امید والی مارچ
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)