’’میں کچھ سبزیاں فروخت کر رہا ہوں، لیکن اس میں زیادہ منافع نہیں ہے۔ ہم سبھی لوگ، زیادہ تر وقت، گھر پر بیکار بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہاں کی سیمنٹ فیکٹری کھلی ہوئی ہے، لیکن ہم کام پر نہیں جا رہے ہیں،‘‘ کریم جاٹ نے مجھے کچھّ ضلع کے لکھپت تعلقہ میں اپنے گاؤں، موری سے فون پر بتایا۔ کریم جاٹ فقیرانی جاٹ برادری کے ایک مالدھاری ہیں۔ کچھّی زبان میں ’مال‘ جانوروں کو کہتے ہیں، جب کہ ’دھاری‘ کا مطلب ہے سرپرست یا مالک۔ پورے کچھّ میں مالدھاری گائے، بھینس، اونٹ، گھوڑے، بھیڑ اور بکریاں پالتے ہیں۔
کریم جاٹ جن سبزیوں کی بات کر رہے ہیں، اسے وہ آس پاس کے بازاروں اور گاؤوں سے لیکر آئے ہیں – لیکن انہیں شکایت ہے کہ اس کی انہیں معقول قیمت نہیں مل رہی ہے۔ سیمنٹ فیکٹری کچھ ہی کلومیٹر دور ایک چھوٹے سے شہر میں ہے – لیکن لاک ڈاؤن نے کریم اور ان کے ساتھی فقیرانی جاٹوں کے لیے گھر سے نکلنا بہت مشکل کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ، فیکٹری میں پہلے سے ہی بہت سارے مزدور ہیں – زیادہ تر مغربی بنگال اور دیگر جگہوں کے مہاجرین، جو یہیں پھنسے ہوئے ہےیں اور اپنے گھر نہیں جا پا رہے ہیں۔ مہاجرین اور مقامی لوگوں کے درمیان تعلقات کبھی بھی دوستانہ نہیں رہے ہیں۔
کریم جاٹ نے مجھے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے سبب وہ ہند-پاک سرحد کے قریب واقع ساولا پیر کی درگاہ اور وہاں منعقد ہونے والے میلہ میں نہیں جا سکے۔ ’’مقدس ماہِ رمضان شروع ہو چکا ہے۔ اور عید میں ایک مہینہ سے بھی کم وقت بچا ہے،‘‘ وہ فکرمند ہوتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’اس بار کی عید الگ ہوگی۔‘‘
کچھّ میں کووڈ- ۱۹ کا پہلا معاملہ لکھپت تعلقہ کی ایک عورت کا تھا، جو غیر ملکی دورے سے لوٹی تھی۔ اسے مارچ میں بھُج لے جایا گیا، جہاں جانچ کے بعد اسے پازیٹو پایا گیا تھا۔ لکھپت وہ علاقہ ہے، جہاں زیادہ تر اونٹ کے چرواہے رہتے ہیں۔
۲۴ مارچ کو لاک ڈاؤن کے اعلان کے فوراً بعد، کچھّ میں اکثر سرگرمیوں پر روک لگ گئی۔ خاص طور سے اونٹ کے چرواہوں کو تبھی سے سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے کیوں کہ وہ اپنے گھروں سے کافی دور کے مقامات پر رہتے اور اپنے جانوروں کو چراتے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ جس علاقے میں رہتے ہیں، وہ بین الاقوامی سرحد کے بے حد قریب یا سرحد پر ہی ہے – اس لیے انہیں انتہائی حساس نشان زد کیا گیا ہے، اور وہاں کا نظم سیکورٹی کے سخت پروٹوکول کے تحت کیا جاتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے اچانک اعلان نے متعدد مالدھاریوں کو اتنا وقت ہی نہیں دیا کہ وہ اپنے گاؤں لوٹ سکیں یا وہاں رہ رہی اپنی فیملی کے لیے مناسب مقدار میں کھانے کا انتظام کر سکیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے جانور ابھی ٹھیک ہیں – کیوں کہ وہ چراگاہوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر لاک ڈاؤن کو اور آگے بڑھایا جاتا ہے، تو ریوڑ کو کھلانا مشکل ہو سکتا ہے۔ اور موسم گرما کے تیزی سے آنے کی وجہ سے گرمی بھی بڑھ سکتی ہے۔
مقامی لوگوں نے مجھے فون پر بتایا کہ نکھت رانا بلاک میں پولس نے ایسے کچھ چراگاہوں کا دورہ کیا ہے جہاں چرواہے اپنے جانوروں کو چرا رہے ہیں اور انہیں ادھر ادھر گھومنے سے منع کیا ہے۔ اس لیے یہ مویشی پرور اگر کہیں جانے کی کوشش کرتے بھی ہیں، تو وہ ان کے اپنے گاؤں ہیں جہاں سے وہ لوگ راشن لاتے ہیں یا کسی دوسرے کام کے لیے جاتے ہیں۔ اور انہیں اس میں بھی مشکل پیش آ رہی ہے۔
لکھپت تعلقہ کے گل محمد جاٹ جیسے کئی دیگر مالدھاریوں کو غذائی اجناس اور دیگر اشیائے ضروریہ لانے کے لیے پی ڈی ایس کی دکانوں تک پہنچنے میں کافی مشکل ہو رہی ہے ’’ہم اپنے راشن کارڈ شناختی ثبوت کے طور پر اپنے ساتھ رکھتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں، ’’لیکن اس سے ہمیں راشن کی دکانوں سے اپنے کوٹے کا اناج لینے میں کبھی مدد نہیں ملتی ہے، اور ایسا کئی خاندانوں کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘
یہ تو ہوگا ہی، بھُج میں مویشی پروروں کے جانوروں کے لیے افزائشی مرکز چلانے والے رمیش بھٹی کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کئی اونٹ والے ۱۰-۱۲ کلومیٹر دور، جنگل یا مشترکہ زمین کے پاس کام کرتے ہیں۔ ’’ان کا گاؤوں یا حکومت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ ان میں سے کئی اپنا راشن کارڈ گاؤں میں رکھتے ہیں، جب کہ خود کہیں اور گھوم رہے ہوتے ہیں... اب اونٹنی کا دودھ اور مالدھاریوں کی دیگر پیداوار کو خریدنے والا کوئی نہیں ہے، اس لیے ان کی آمدنی رک گئی ہے جس کی وجہ سے وہ اشیائے ضروریہ خرید نہیں سکتے۔ وہ اپنے گھر لوٹنے سے بھی گھبرا رہے ہیں کیوں کہ کچھ گاؤوں میں، انہیں اندر آنے نہیں دیا جائے گا۔‘‘
بھٹی آگے کہتے ہیں کہ ان کنبوں کے جو مرد اپنے جانوروں کو باہر چرا رہے ہیں انہیں تو کھانے کے لیے دودھ اور روٹیاں مل جاتی ہیں، لیکن جو عورتیں اور بچے گھروں پر ہیں، انہیں کھانا چاہیے۔ غنیمت ہے کہ، وہ کہتے ہیں، ’’گزشتہ دنوں کچھ گاڑیاں چلنی شروع ہوئی ہیں۔ لیکن انہیں پہلے ہی کافی نقصان ہو چکا ہے۔‘‘
ایسے میں بھوک ایک بہت ہی حقیقی مسئلہ ہے۔ حکومت نے جو کچھ دیا ہے، وہ کافی نہیں ہے۔ ’’اگر آٹھ رکنی فیملی ۱۰ کلو گیہوں پاتی ہے، تو اس پر وہ کتنے وقت تک زندہ رہیں گے،‘‘ وہ سوال کرتے ہیں۔
بھُج کی سہہ جیون نامی تنظیم، جو مویشی پروروں کے لیے ایک مرکز چلا رہی ہے، اور جو مالدھاریوں کے حقوق کے لیے لڑ رہی ہے، اس نے پچھلے دو ہفتے میں کچھ متاثر کنبوں کے لیے بھُج میں تقریباً ۷۰ راشن کٹ تیار کیے۔ اس کٹ میں گیہوں، کپاس کا تیل، مونگ کی دال، چینی، پیاز، آلو، چاول، نمک، مسالے، دھنیا پاؤڈر، ہلدی اور سرسوں شامل ہیں – جن کی مقدار کچھ ہفتوں کے لیے کافی ہے۔ ’’ان کی بدولت ہمیں اپنے دروازے پر راشن ملا،‘‘ کریم جاٹ کہتے ہیں۔ ’’اسی کے سہارے، ہم اب تک زندہ ہیں، لیکن اگر لاک ڈاؤن زیادہ سخت ہوا، تو ہمیں اور بھی چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔‘‘
دھیرے دھیرے چھوٹ دینے کے حکومت کے اعلان سے، جس سے کچھ زرعی سرگرمی بھی دوبارہ شروع ہوگی، کریم جاٹ کہتے ہیں، ’’مجھے اس کی امید ہے – انہیں ایسا کرنا ہی ہوگا۔ ورنہ دنیا کیا کھائے گی؟ ہر کوئی فکرمند ہے۔‘‘
کچھ راشن تو پہنچنے لگے ہیں، لیکن کچھ لوگ دوسرے سامانوں کی کمی کے سبب فکرمند ہیں – ان میں سے ایک جاٹ ایوٹ امین ہیں، جنہیں میں اور میرے دوست پیار سے ’ایوب کاکا‘ (چاچا) کہتے ہیں۔ وہ فقیرانی جاٹ برادری کی عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ’’ہاں، میرے پاس زندہ رہنے کے لیے راشن موجود ہے،‘‘ وہ فون پر بتاتے ہیں، ’’آپ سبھی اچھے لوگوں کا شکریہ۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کی سب سے افسوسناک بات کیا ہے؟ مجھے میری بیڑی نہیں مل رہی ہے۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)