اپنے چاچا، شیواجی چوہال (۵۵) کے مقابلے پربھاکر چوہال (۳۰) کا کام زیادہ مشکل ہے۔ دونوں ہی مراٹھواڑہ کے پربھنی ضلع کے مورے گاؤں کے کسان ہیں۔ دونوں عام طور سے کپاس کی کھیتی کرتے ہیں۔ لیکن شیواجی کا کپاس جہاں ایک طرف برسوں سے نقدی فصل رہا ہے، وہیں دوسری طرف پربھاکر کی یہی فصل بہت زیادہ نقد لے کر نہیں آ رہی ہے۔
یہ معاملہ صرف چوہالوں کے ساتھ ہی نہیں ہے۔ مراٹھواڑہ کے پربھنی، ہِنگولی اور اورنگ آباد ضلعوں میں بڑے پیمانے پر کپاس کی کھیتی ہوتی ہے – ریاست کے محکمہ زراعت کے مطابق، یہاں ۱۷ اعشاریہ ۶۰ ہیکٹیئر علاقے میں اس کی کھیتی ہوتی ہے۔ غذائی فصلوں، جیسے جوار، ارہر اور سویابین کے مقابلے اس سے زیادہ منافع ہوتا تھا – اسی وجہ سے کپاس کو ’نقدی‘ فصل کہا جاتا ہے۔ تاہم، گزرتے ہوئے برسوں میں کپاس کی پیداواری قیمت لگاتار بڑھی ہے، جب کہ اسے بیچ کر ملنے والا پیسہ تقریباً ایک جیسا ہی بنا ہوا ہے، جس کی وجہ سے کپاس صرف نام کی نقدی فصل رہ گئی ہے۔
پربھاکر اس کی وجہ تفصیل سے بتاتے ہیں۔ وہ کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالتے ہیں، جس پر انھوں نے ایک ایکڑ زمین پر کپاس کی کھیتی پر لگنے والے تمام اخراجات لکھ رکھے ہیں – ایک بوری بیج کے ۸۰۰ روپے، وسط جون میں بوائی کے موسم سے پہلے کھیت کو تیار کرنے کے لیے مزدوروں کو دی گئی مزدوری ۱۱۰۰ روپے اور بوائی کے وقت مزید ۴۰۰ روپے۔ اگر مانسون کی بارش اچھی ہوئی، تو انھیں تین مرحلوں میں گھاس پھوس کو نکالنا پڑے گا، جس کے لیے انھیں مزید ۳۰۰۰ روپے بطور مزدوری دینے ہوں گے۔ کھاد؟ مزید ۳۰۰۰۔ حشرہ کش دواؤں کی قیمت ۴۰۰۰ روپے۔ فصل کٹائی پر ہونے والا خرچ ۵۰۰۰ روپے۔
اور یہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ آخری دقت اسے بازار میں بیچتے وقت آتی ہے، جس کے لیے ہر فصل پر ۳۰۰۰ روپے خرچ ہوتے ہیں، جس میں ٹرانسپورٹ اور تاجروں کو ادا کیا جانے والا کمیشن شامل ہے۔
’’اس میں فی ایکڑ کے حساب س ۲۰۳۰۰ روپے مزید جڑ جاتے ہیں،‘‘ پربھاکر کہتے ہیں۔ اس سال بازار کی قیمت اندازاً ۴۳۰۰ روپے فی کوئنٹل ہے، جب وہ نومبر-دسمبر میں کاٹن کی فصل کاٹیں گے (پچھلے سال یہ قیمت ۴۰۰۰ روپے تھی)۔ ’’آمدنی ہوئی ۳۴۸۰۰ روپے [تمام اخراجات کے بعد]،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ لہٰذا آٹھ مہینوں کی کڑی محنت اور سرمایہ کاری کے بدلے فی ایکڑ ملے صرف ۱۴۵۰۰ روپے۔ اس کے بعد چوہالوں کو واٹر پمپ، بورویل کے لیے الگ سے بجلی بل ادا کرنا ہوگا – اور ان کی چھ گایوں پر ہر ماہ ۱۴۰۰۰ روپے سے زیادہ خرچ ہوتے ہیں۔
تقریباً ۱۵ سال پہلے، شیواجی چوہال ساڑھے چار ہزار سے پانچ ہزار روپے میں ایک ایکڑ میں کپاس کی کھیتی کر لیا کرتے تھے۔ حشرہ کش دوا، کھاد اور بیجوں کی قیمت آج کے مقابلے اس وقت کافی کم تھی۔ زرعی مزردوں کی یومیہ مزدوری میں بھی دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ بجلی کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں۔
پربھاکر کی ۱۵ افراد پر مشتمل مشترکہ فیملی، جس میں ان کے چاچا شیواجی بھی شامل ہیں، کے پاس ۳۰ ایکڑ کھیت ہے، جس میں سے ۱۵ ایکڑ کپاس کی کھیتی کے لیے مخصوص ہیں۔ اب گزشتہ چار برسوں کے دوران انھوں نے اسے گھٹا کر ۸-۷ ایکڑ کر لیا ہے، جس میں وہ کپاس کی جگہ ارہر، مونگ، اُڑد اور سویابین جیسی غذائی فصلیں اُگاتے ہیں۔
کپاس ایک پیاسی فصل ہے، جسے غذائی فصلوں کے مقابلے زیادہ پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ مراٹھواڑہ میں ۲۰۱۲ سے ۲۰۱۵ تک لگاتار چار سالوں کے قحط نے کپاس کی پیداوار پر بہت برا اثر ڈالا۔ اس سال بھی بارش اچھی نہیں ہوئی ہے۔ خشک برسوں نے کسانوں کو آبپاشی پر زیادہ پیسے خرچ کرنے پر مجبور کیا ہے – جس کے لیے وہ بورویل کی کھدائی کر رہے ہیں، پانی کے ٹینکر خرید رہے ہیں، یا کنویں کھود رہے ہیں۔
حالانکہ، کپاس کی قیمتیں اسی حساب سے نہیں بڑھی ہیں۔ ’’[۱۵ سال قبل] کپاس کی بازار میں قیمت تقریباً ۲۰۰۰ روپے فی کوئنٹل تھی،‘‘ چوہال کہتے ہیں۔ ’’ایک ایکڑ پر آٹھ کوئنٹل کی پیداوار کا مطلب ہوا ۱۶۰۰۰ روپے۔ تب اس پر ۱۱۰۰۰ روپے کا منافع ہوتا تھا – اب ہم، ۱۵ سالوں کے بعد جتنا منافع کماتے ہیں، اس سے صرف ۳۰۰۰ روپے کم۔‘‘
کم قیمت کے کئی اسباب ہیں، جس میں حکومت کا وہ انکار بھی شامل ہے جس کے تحت وہ فصل کے لیے کم از کم امدادی قیمت [ایم ایس پی] طے کرتے وقت بڑھتی ہوئی لاگت قیمتوں پر غور کرنے سے منع کر رہی ہے۔ ایک مشہور کسان لیڈر، وجے جونڈیا کہتے ہیں کہ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے کپاس پیدا کرنے والے کسانوں کو بین الاقوامی بازار میں بہت زیادہ سبسڈی ملتی ہے، جس سے ہندوستان میں گھٹتی بڑھتی گھریلو قیمت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ ’’ساتھ ہی، گنا اور کپاس دونوں ہی نقدی فصلیں ہیں، لیکن ان پر الگ الگ پیمانے نافذ ہوتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’بازار میں جب بہتات ہوتی ہے، تو چینی سبسڈی کے ساتھ ایکسپورٹ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے قیمتوں پر بہت زیادہ اثر نہیں پڑتا۔ کپاس کے ایکسپورٹ کے لیے کوئی سبسڈی نہیں ہے۔ اسی طرح، چینی پر ۵۰ فیصد اِمپورٹ ڈیوٹی ہے، جب کہ کپاس پر کوئی امپورٹ ڈیوٹی نہیں ہے۔‘‘
’’آج کے تمام اخراجات کو ہی دیکھ لیجئے،‘‘ چوہال کہتے ہیں۔ ’’اس میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ ورکنگ کلاس [جیسے ٹیچر، سرکاری ملازم یا بینک اہلکار] کی تنخواہوں میں ہونے والے اضافہ کو دیکھئے۔ اور ان کا موازنہ ہمارے گراف سے کیجئے۔ کیا یہ صحیح ہے؟‘‘
کپاس کے کسانوں کو بڑھتی ہوئی لاگت اور مستحکم کمائی کے درمیان نچوڑا جا رہا ہے، ان کے گھر میں اگر کوئی میڈیکل ایمرجنسی آ گئی، فیملی میں کسی کی شادی ہونی ہے، یا اسکول کی فیس میں تھوڑا سا بھی اضافہ ہوا، تو انھیں بینک لون کے لیے اپلائی کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، یا اس سے بھی برا، کسی ساہوکار کے پاس جانا پڑتا ہے، جو ہر ماہ ۵ فیصد سود لیتا ہے۔
پربھاکر چوہال نے بینک سے جو ۸ لاکھ روپے لون لیے تھے، اس میں سے کچھ پیسے اپنی دو بہنوں کی شادی پر خرچ کر دیے، اس لون کا زیادہ تر حصہ ۲۰۱۲ سے ۲۰۱۵ کے درمیان قحط کے برسوں میں لیا گیا تھا؛ اسی پیسے سے پریشانی کے ان برسوں میں انھیں اپنی فیملی کا خرچہ چلانے میں مدد ملی۔ لیکن حال ہی میں چونکہ ریاستی حکومت کی طرف سے قرض معافی کی حد گھٹا کر ڈیڑھ لاکھ روپے کر دی گئی ہے، پربھاکر کی فیملی اس قرض معافی کے لیے اہل نہیں ہے۔ ’’میرے پاس ساہوکار کا کوئی قرض نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’لیکن یہ کب تک چلے گا؟‘‘
سال ۲۰۰۶ میں اس وقت کی کانگریس حکومت کے ذریعہ کھیتی کے بحران کا پتہ لگانے کے لیے سوامی ناتھن کمیشن کی تشکیل کی گئی تھی، جس نے مسئلہ کے حل کے ساتھ اپنی رپورٹ پیش کی۔ اس کی سفارشوں میں سے ایک سفارش یہ تھی کہ مرکزی حکومت کسانوں کو ایم ایس پی فراہم کرے، جس میں پیداواری لاگت میں پچاس فیصد جوڑ کر قیمت طے کی جائے۔ لیکن حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ سال ۲۰۱۴ میں، اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی نے زرعی علاقوں میں بڑے پیمانے پر مہم چلائی، اس رپورٹ کو نافذ کرنے کا وعدہ کیا، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اس نے رپورٹ کی سفارت کو نافذ نہیں کیا۔
پربھنی میں مقیم سینئر صحافی اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ، آسا رام لومٹے کہتے ہیں کہ کپاس کی کھیتی کرنے والے کسانوں کے لیے ارہر یا سویابین کی کھیتی بھی فائدہ مند نہیں ہے، کیوں کہ ان فصلوں کو بھی اچھی ایم ایس پی نہیں مل رہا ہے، اور ان غذائی فصلوں سے ہونے والی آمدنی بھی دیگر فصلوں کے مقابلے کم ہے۔
اس کے علاوہ، تقریباً ۱۵ سال قبل ہندوستان میں روئی کے کیڑے کو روکنے کے لیے متعارف کرائی گئی جینیاتی طور پر ترمیم شدہ بی ٹی کاٹن کو بھی، اب حشرہ کش دواؤں کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ ’’بی ٹی سے پہلے، کسانوں کو حشرہ کش دواؤں پر زیادہ پیسہ خرچ کرنا پڑتا تھا،‘‘ لومٹے کہتے ہیں۔ ’’سال ۲۰۰۰ کے بعد سے، اس میں کافی کمی آئی ہے۔ تاہم، بی ٹی کا فائدہ صرف ۵-۴ سال تک ہی ہوا۔ اس کے بعد سے، کسانوں کو فصل کی بربادی روکنے کے لیے حشرہ کش دواؤں چھڑکنے پر مجبور ہونا پڑا، اور اس نے ایک بار پھر ان کی پیداواری قیمتوں کو بڑھا دیا ہے۔‘‘
سویتا دسالکر نے سال ۲۰۱۵ میں اپنے سونے کو رہن پر رکھ کر بوائی کے لیے پیسے جمع کیے: ’ہم اب بھی اسے واپس حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ہمیں جب بھی منافع ہوتا ہے تو بہت کم ہوتا ہے، جب کہ نقصان کی صورت میں ہمیں بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے‘
پربھنی کے کھُپسا گاؤں کے رہنے والے سنتوش دسالکر (۲۶) کہتے ہیں کہ وہ سال ۲۰۱۲ سے ہی کپاس کی فصل سے کوئی منافع حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ ’’اس وقت [اگست میں] فصل کی لمبائی کمر تک ہونی چاہیے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ لیکن یہ ابھی تک ٹخنے کے برابر ہے۔ ’’اگر مانسون کے باقی دنوں میں اچھی بارش ہوتی بھی ہے، تو اس بات کی کوئی امید نہیں ہے کہ میں فی ایکڑ سے تین کوئنٹل سے زیادہ فصل کاٹ سکوں۔ پچھلے سال کو چھوڑ کر، یہ کہانی ۲۰۱۲ سے چلی آ رہی ہے۔‘‘
پربھنی-شیلو شاہراہ کے قریب دسالکر کا ۷ ایکڑ کھیت ہے، جس میں سے پانچ ایکڑ کپاس کی کھیتی کے لیے ہے۔ ان کے دو بچے ہیں، جن کی عمر چھ اور آٹھ سال ہے، یہ بچے میونسپل اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ ’’پرائیویٹ اسکول عطیہ کے طور پر ۵۰۰۰ روپے مانگ رہے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’اور یہاں میرے اوپر بینک کا ۲ لاکھ روپے قرض ہے۔‘‘
سال ۲۰۱۵ میں بھی جب قحط پڑا، تو اس کے بعد سنتوش کی بیوی، سویتا دسالکر نے بوائی کے لیے پیسہ جمع کیا۔ ’’ہم نے ایک لون کمپنی کے پاس ۷۰ ہزار روپے کا سونا گروی رکھ دیا اور اس سے ۴۰ ہزار روپے حاصل کیے،‘‘ وہ کہتی ہیں، ’’اس کے بغیر ہم بوائی نہیں کر پاتے۔ یہ سونا میری شادی کے وقت بنوایا گیا تھا۔ ہم اب بھی اسے حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ہمیں جب بھی منافع ہوتا ہے تو بہت کم ہوتا ہے، جب کہ نقصان کی صورت میں ہمیں بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)