’’ایران میں واقع ہندوستانی سفارت خانہ نے ہمارے کووِڈ- ۱۹ جانچ کے بارے میں پیغام وہاٹس ایپ کے ذریعے بھیجے – جس میں صرف پاسپورٹ نمبر اور یہ درج تھا کہ [ہمارا ٹیسٹ] پازیٹو ہے یا نگیٹو۔ بالکل امتحانی نتیجہ [کاغذ] کی طرح جہاں ہم اپنے رول نمبر تلاش کرتے ہیں یہ پتہ لگانے کے لیے کہ ہم پاس ہیں یا فیل۔ لیکن آج تک ہمیں کوئی صحیح رپورٹ نہیں سونپی گئی ہے،‘‘ شبیر حسین حکیمی کہتے ہیں۔ صرف پازیٹو یا نگیٹو رینکنگ۔ کرگل، لداخ کے رہنے والے ۲۹ سالہ شبیر ایران کے قُم سے ہم سے بات کر رہے تھے، جو وہاں اس سال جنوری میں اپنے والدین کے ساتھ شیعہ مسلمانوں کے لیے مقدس مقامات کی زیارت پر گئے تھے۔
حضرت امام علی، حسین اور پیغمبر محمد کے دیگر اہل خانہ کی زیارت گاہوں کا دورہ کرنے کے لیے ہندوستان سے ہزاروں شیعہ ہر سال ایران جاتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً ۱۱۰۰ – خاص طور سے جموں، کشمیر، لداخ اور مہاراشٹر سے – اس سال قم شہر میں پھنس گئے تھے، جب ایران میں کورونا وائرس کا معاملہ سامنے آنے کے بعد اس وفا کے پھیلنے کے بڑھتے امکانات کے مد نظر ہندوستان واپسی کی پروازیں بند کر دی گئی تھیں۔
’’ہمارے نمونے اس سال ۲ مارچ سے ہی جمع کرنا شروع کر دیے گئے تھے اور یہ سلسلہ ۱۰ مارچ تک چلا۔ ہمیں بھروسہ دلایا گیا تھا کہ یہ نمونے جانچ کے لیے پہلے پونہ بھیجے جائیں گے، جس کے بعد پھنسے ہوئے ہر ایک زائرین کو ہوائی جہاز سے واپس ہندوستان لے جایا جائے گا،‘‘ شبیر بتاتے ہیں۔ ان میں سے ۷۸ زائرین کے نتائج کے پہلے سیٹ کو نگیٹو قرار دینے کے بعد انہیں تہران بلایا گیا، تاکہ انہیں وہاں سے ہندوستانی فضائیہ کے طیارہ سی- ۱۷ سے ۱۰ مارچ کو ہندوستان لایا جا سکے۔
’’حیران کن طریقے سے، ان میں سے ۱۹ کو بغیر کسی وجہ کے واپس قُم بھیج دیا گیا،‘‘ شبیر کہتے ہیں۔ اس کے فوراً بعد، سفارت خانہ نے لداخ کے ۲۵۴ زائرین کے ٹیسٹ کو پازیٹو قرار دے دیا۔ شبیر کہتے ہیں کہ ’’ہندوستانی سفارت خانہ نے پازیٹو پائے جانے والوں کو معمولی ماسک تک نہیں دیے، کوارنٹین (الگ نگرانی میں رکھنے) کی بات تو بھول ہی جائے۔ بلکہ، ہم میں سے کچھ لوگ اپنی مرضی سے آگے آئے اور چھوٹے چھوٹے گروہوں میں ٹیسٹ کرانے کے لیے انہیں قم کے ایک اسپتال لے گئے، اس امید میں کہ کم از کم کچھ لوگ وہاں داخل کر لیے جائیں گے۔‘‘
اس رپورٹر نے تین دن پہلے تہران واقع ہندوستانی سفارت خانہ کو ایک سوالنامہ بھیجا تھا، جس کا ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
زیادہ تر زائرین ۶۵ سال سے زیادہ عمر کے ہیں – ان میں سے کئی تو ۸۰ سال کے بھی ہیں – اس لیے نوجوان مسافروں اور ساتھیوں کی بنیادی تشویش اور ترجیح ان کی صحت تھی۔ لیکن اسپتال میں، جن مریضوں کو پہلے پازیٹو قرار دیا گیا تھا، ان کی جانچ کر رہے ڈاکٹروں نے ان میں سے کسی میں بھی ایسی کوئی علامت نہیں پائی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان سبھی زائرین کو، جن کی نقدی اب ختم ہونے لگی تھی، انہیں چھوٹی اور بھیڑ بھاڑ والی رہائش گاہوں میں لوٹنا پڑا جس کا وہ خرچ برداشت کر سکتے تھے۔ حالانکہ اس کے بعد، دونوں حکومتوں نے قدم اٹھائے اور اب پھنسے ہوئے زائرین کو اپنے ہوٹل یا لاج کا کرایہ نہیں دینا پڑ رہا ہے۔
’’مسافر خانہ اور قونصل خانہ کے اہل کار [ایران میں] ہندوستانی شہریوں کو بھروسہ دلا رہے ہیں اور یقینی بنا رہے ہیں کہ ان کی صحت اچھی رہے اور ان کے پاس ضرورت کے حساب سے ضروری اشیاء موجود ہوں،‘‘ ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ۱۳ مارچ کو لوک سبھا کو بتایا۔ اور یہ بھی کہا کہ ’’ایک ایسے ملک کے لیے جس کے شہری دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، یہ انتہائی تشویش کی بات ہے۔ ساتھ ہی، یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم ذمہ داری سے اور صبروتحمل کے ساتھ رد عمل دیں ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں، اس سے مسائل حل ہونے چاہئیں، نہ کہ دہشت پھیلنے لگے۔‘‘
ایک قابل تحسین صورتحال۔ حالانکہ، متضاد طور پر، میڈیا کی سرخیوں میں ایران میں ۲۵۴ لداخی زائرین کو پازیٹو بتایا گیا (حالانکہ بعد میں اس میں ترمیم کرکے کہا گیا، ’ابھی ان معاملوں کی تصدیق نہیں کی جا سکتی‘ ) اس کے سبب تناؤ، بھرم اور بہت زیادہ دہشت کا ماحول بن گیا، خاص کر لداخ میں جہاں کے تقریباً پورے دو گاؤوں – لیہہ کا چُچوٹ گونگما اور کرگل کا سانکو – کو کوارنٹین کیا گیا تھا جو کہ ابھی بھی جاری ہے۔ وہاٹس ایپ پر آڈیو میسیج کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا، جن میں سے کچھ متعصب اور نسلی تفریق سے بھرے ہوئے تھے۔ اور جموں و دوسری جگہوں پر زیر تعلیم لداخی طالب علموں کے ساتھ بدتمیزی، بھید بھاؤ اور نسلی تبصرے کیے جانے لگے۔
دہشت اس قدر تھی کہ چچوٹ گاؤں میں جب ۷۳ سال کے محمد علی کی موت ہوئی، تو کوئی بھی دفن کرنے میں ان کی فیملی کی مدد کرنے کو تیار نہیں تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ موت کا سبب پیشاب کی نلی میں انفیکشن تھا، کووِڈ- ۱۹ نہیں۔ ’’میں تو اپنے دشمنوں کے لیے بھی نہیں چاہوں گا کہ انہیں اس قسم کی مایوسی اور لاچاری جھیلنی پڑے،‘‘ ان کے بیٹے محمد عیسیٰ نے اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے کہا۔
کرگل کے ایک وکیل، مصطفیٰ حاجی نے ۲۱ مارچ کو ہندوستانی سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی، جس میں بیرونِ ممالک پھنسے ہندوستانیوں، خاص طور سے ہندوستانی زائرین کو فوراً باہر نکالنے کے لیے مرکزی حکومت کو ایک حکم/ہدایت جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے ۲۷ مارچ کو حکومت کو ہدایت دی کہ وہ ۳۰ مارچ تک ایک رپورٹ پیش کرکے عدالت کو بتائے کہ اس نے اس سلسلے میں کیا قدم اٹھائے ہیں۔
اس معاملے پر کارروائی کرنے کی فوری ضرورت کو قبول کرتے ہوئے، عدالت نے کہا: ’’ہم امید اور بھروسہ کرتے ہیں کہ اس درمیان ان شہریوں کی صحت و تندرستی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری تمام قدم اٹھائے جائیں گے اور، ایران میں ہندوستانی سفارت خانہ سمیت تمام متعلقہ افسروں کے ساتھ صلاح و مشورہ کرکے، کارروائی کا ایک مناسب منصوبہ بنایا جائے گا۔‘‘
سرکار نے آخرکار یکم اپریل کو، نمونے جمع کرنا شروع کرنے کے تقریباً ایک ماہ بعد، اپنی رپورٹ عدالت کو پیش کی۔ ’’ایران سے ہندوستانی زائرین کو نکالنے میں دیری اور بھرم کیوں ہے – وہ بھی ایسی حالت میں، یہ جانتے ہوئے کہ ان میں سے زیادہ تر وائرس کی وبا کے تئیں انتہائی حساس ہیں؟‘‘ مصطفیٰ سوال کرتے ہیں۔
اس درمیان، ایران کی ایک پرائیویٹ ایئرلائن، مہن ایئر نے نگیٹو پائے جانے والے زائرین کو باہر نکالنے کے لیے رضاکارانہ طور پراڑان بھری اور ۲۴ مارچ کو ۲۵۳ اور ۲۸ مارچ کو ۲۲۴ زائرین کو وہاں سے نکالا۔ لیکن، ایران میں ابھی بھی ۳۲۴ لداخی زائرین پھنسے ہوئے ہیں – جن میں سے ۲۵۴ کو ’کورونا پازیٹو‘ ہونے کا شک ہے۔ اس کے علاوہ ۷۰ رضاکار (جنہیں ٹیسٹ میں نگیٹو پایا گیا ہے)، جن میں شبیر جیسے چھوٹی عمر کے لوگ بھی شامل ہیں، جو اپنے بزرگوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے وہیں رہ گئے ہیں۔
جن لوگوں کا ٹیسٹ نگیٹو آیا اور پھر انہیں ہندوستان لایا گیا، ان میں سے کچھ جودھپور، راجستھان کے کوارنٹین کیمپوں میں ہیں، جیسے کہ کرگل شہر کے ۷۹ سالہ حاجی محمد علی۔ ’’مجھے اب جاکر تھوڑی راحت ملی ہے کہ میرے والد ہندوستان میں ہیں اور جودھپور میں الگ نگرانی میں رکھے گئے ہیں،‘‘ ان کی ۲۵ سالہ بیٹی حکیمہ بانو نے پاری کو بتایا۔ ’’لیکن میں ابھی بھی فکرمند ہوں۔ ہم انہیں گھر واپس لوٹنے اور فیملی سے دوبارہ ملتے ہوئے دیکھنے کا انتظار نہیں کر سکتے۔‘‘
شبیر نے ایران میں پھنسے زائر کے طور پر ۲۸ مارچ کو ایک مہینہ پورا کیا۔ ’’ہمیں آخرکار – کئی ہفتوں کے بعد – ہوٹل کے کمرے مہیا کرائے گئے اور وہ اب باقاعدگی سے جانچ کرنے کے لیے ایرانی ڈاکٹروں کو بھیج رہے ہیں۔ حالانکہ، کمرے ۸، ۶ اور ۱۲ بیڈ والے ہیں – اس لیے یہ ابھی بھی ایک صحیح کوارنٹین نہیں ہے۔ ۲۵۴ لداخی زائرین کو پازیٹو قرار دیے گئے ۱۴ دن سے زیادہ ہو گئے ہیں، لیکن کسی نے دوسرے ٹیسٹ کے لیے نمونے جمع نہیں کیے ہیں۔‘‘
’’ہم تو بس اپنے گھر آنا چاہتے ہیں،‘‘ شبیر کہتے ہیں۔ ’’[دوسرے ٹیسٹ اور کوارنٹین کی طرح] تمام لوگ ضروری احتیاط برتنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں گھر لے جائیں۔ یہاں کے زیادہ تر بزرگ اگر کورونا وائرس سے نہیں، تو افسردگی، اندرونی بیماریوں اور اپنے عزیز و اقارب سے الگ ہونے کے غم میں مر جائیں گے۔‘‘
انہیں سب سے زیادہ کیا چیز کھٹکتی ہے: ’’ہمارے کنبے مایوس ہیں اور لداخیوں میں دہشت ہے۔ براہِ کرم ۲۵۴ زائرین کو ’کورونا پازیٹو‘ کہنا بند کریں؛ وہ کورونا کے مشتبہ ہیں کیوں کہ ہمیں ابھی تک ان کے انفیکٹیڈ ہونے کی موزوں میڈیکل رپورٹ نہیں دکھائی گئی ہے۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)