برسات میں ستمبر کی صبح، ہزاروں گاؤوں والے ماحولیات پر ہونے والی عوامی سماعت میں شریک ہونے جا رہے ہیں، تاکہ ایک مجوزہ کوئلہ کان کی وجہ سے اپنے بے گھر کیے جانے کے خلاف احتجاج کر سکیں
(چھنڈی پاڑہ، اڑیسہ) یہ ۴ ستمبر، بروز جمعرات صبح ۷ بجے سے تھوڑا زیادہ ہوا تھا، جب مردوں، عورتوں، نوجوانوں اور بچوں کا پہلا جتھا گلیوں میں آتا ہوا دکھائی دیا۔
ان کے ہاتھوں میں اڑیہ اور انگریزی میں لکھے ہوئے کارڈ بورڈ تھے، جو نئے، سبز بانسوں پر لگے ہوئے تھے، جنھیں ان کی زمینوں سے کاٹا گیا تھا، تاکہ صبح کے پروگرام کے بارے میں بتایا جا سکے۔ (اگر انھیں اوپر سے نیچے کردیا جائے، تو انھیں پولس کے لاٹھی چارج سے بچنے کے لیے دوہرا کیا جا سکتا ہے، ایک گاؤں والے نے پچھلے دن دوپہر کو مجھے یہ بات بتائی تھی: ’’ہم انھیں پہلے نہیں مارتے۔ لیکن اگر وہ ہمیں مارتے ہیں، تو وہ یہ امید نہ کریں کہ ہم مار کھاکر زمین پر گر جائیں گے۔‘‘)
صبح سویرے کی ہلکی بوندا باندی جب موسلا دھار بارش میں تبدیل ہوئی، تو گاؤں والوں کے نعرے بھی کالے چھاتوں کے شامیانہ سے بلند ہونے لگے۔
’’ اڈانی کمپنی ( پیچھے ) ڈاؤن ڈاؤن۔ ڈاؤن ڈاؤن، ڈاؤن ڈاؤن۔ ‘‘
’’ ہم جان دے سکتے ہیں، لیکن اپنی زمین نہیں دے سکتے !‘‘
وزیر اعلیٰ نوین پٹنائک اور وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
’’مودی چائے بیچا کرتے تھے، اب وہ ہمیں اڈانی کو بیچنا چاہتے ہیں،‘‘ ایک آدمی نے زور سے کہا۔
’’اگر تمہیں ہماری زمین چاہیے تو تم بھی ہمیں زمین دو‘‘، سفید ساڑیوں اور ربڑ کے چپلوں میں ملبوس خواتین کسانوں کے ایک جھنڈ نے آواز لگائی۔
میں جب ان ہزاروں احتجاجیوں کی تصویریں لینے میں لگی ہوئی تھی، تو مجھ سے یہ لوگ بار بار یہی پوچھ رہے تھے، ’’کیا تم ہمارے ساتھ ہو، یا کمپنی کے ساتھ؟‘‘ گاؤں کے لوگوں کے ذریعہ میڈیا پر بھروسہ نہ کرنے کو یہ صاف ظاہر کر رہا تھا۔ گاؤں والوں کی شکایت تھی کہ مقامی صحافیوں کو انڈسٹری کی طرف سے وقت وقت پر رشوت دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ ان کی بات کو اپنی رپورٹ میں شائع نہیں کرتے۔
باغیوں کا مجمع ایک میدان میں جمع ہوکر دور کے نیلے پہاڑوں کو دیکھنے لگا۔ یہ مجوزہ کوئلہ کان کی ماحولیاتی سماعت کا دیہاتی مقام تھا، جسے مشرقی ہندوستانی صوبہ، اڑیسہ کے جنگلاتی، معدنیات سے مالامال اَنگُل ضلع کے چھینڈی پاڑہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے بلایا تھا۔
صبح سے ہی یہاں تناؤ سے بھرے ہوئے، لیکن معمول کے برخلاف تحمل کے ساتھ ۶۰۰ پولس جوان اور ہوم گارڈ رائفلوں، لاٹھیوں، آنسو گیس اور حفاظتی بیلٹ کے ساتھ تعینات تھے۔
احتجاجیوں نے اس لڑکھڑاتے اسٹیج کو اکھاڑنا شروع کر دیا، جسے حفاظتی دستوں نے گھیر رکھا تھا۔ کسی نے لاؤڈاسپیکر کو توڑ دیا، پھر پلاسٹک کی نیلی اور لال کرسیوں کو۔ دوسرے لوگوں نے بانس کے گھیرے کو توڑ دیا، جسے سماعت کے دوران عوام سے افسروں اور کمپنی کے نمائندوں کو الگ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ مردوں اور لڑکوں نے بانس کے ان کھمبوں کو کیچڑ میں پھینک دیا۔
خواتین کسان مجوزہ کول مائننگ پروجیکٹ کو اپنی زمینیں دیے جانے کے لیے خلاف احتجاج کرتی ہوئیں
اسے کرنے کے بعد، مجمع نے اپنی توجہ ضلع کے اہل کاروں کی جانب مبذول کی اور (افواہ تھی کہ) کمپنی کے وہ نمائندے جو وہاں سے بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے، انھیں پولس ٹکڑی کی سخت نگرانی میں گھیر لیا گیا ہے۔
بھرائی آواز والے احتجاجی میدان میں جانے والے ہوادار راستے میں بیٹھ گئے اور اس بات کی ضد کرنے لگے کہ یہ اہل کار یہاں سے تبھی جا سکتے ہیں، جب وہ سماعت کے ختم ہونے کا باقاعدہ اعلان کریں۔
’’اور کہیں کہ اسے لوگوں کی زبردست مخالفت کی وجہ سے ردّ کر دیا گیا،‘‘ انھوں نے مطالبہ کیا۔
چند منٹ پہلے ہی وہاں آگ بجھانے والی ایک گاڑی پہنچی، جس کے پیچھے ایک ٹرک تھا، جس پر لکھا ہوا تھا ’فساد کو کنٹرول کرنے والی گاڑی‘۔
مجمع کے سامنے خود کو بے بس پاتے ہوئے ضلع کے اہل کاروں نے آہستہ سے اعلان کردیا کہ سماعت کو ردّ کر دیا گیا ہے، کیوں کہ گاؤں والے اس کے خلاف تھے۔ اس کو سننے کے بعد خوشی میں لوگ چیخنے لگے۔
اس وقت صبح کے ۸ بج کر ۵۴ منٹ ہو رہے تھے، یعنی سماعت کی باقاعدہ شروعات ہونے سے پہلے کے ۹۰ منٹ۔
******
وسطی اور مشرقی ہندوستان کے کوئلے کے خزانہ سے بھرے ہوئے کھیت اور جنگلات ہر جگہ وسائل کو لے کر ہونے والی شدید اور کم تسلیم شدہ جھڑپ کا سبب ہیں۔ لیکن شہری ہندوستان میں رہنے والے کچھ لوگ جانتے یا سوچتے ہیں کہ ان کے ملک کے دیہی، اکثر دور دراز کے علاقوں میں ہر مہینے اس قسم کی لڑائیاں ہو رہی ہیں۔
پھر بھی، انھیں مزید ہونا چاہیے۔ اول، کیوں کہ وہ جہاں رہتے ہیں، وہاں کام اور کھیل کے لیے بڑے پیمانے پر توانائی کے ذرائع کی ضرورت ہوگی، تاکہ بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کیا جا سکے، ایک حقیقت جو حالیہ دنوں میں ایک بار پھر سامنے آئی جب ممبئی میں بجلی کٹنے لگی اور بل کی ادائیگی سے متعلق جھگڑوں اور ایندھن کی کمی کی خبریں شائع ہونے لگیں۔
لیکن اس لیے بھی کہ دیہی علاقوں میں اسٹیٹ اور کارپوریشن کا برتاؤ نظرانداز کردیے گئے سرکاری اداروں اور کارروائیوں کی اصلاح، اور ہندوستان کے قدرتی وسائل سے متعلق انصاف پر مبنی اور جوابدہ پالیسی کی تشکیل کی بنیاد ہے۔
مثال کے طور پر اس مجوزہ کوئلہ کان کو ہی لے لیجیے، جس کے لیے ۴ ستمبر کو ماحولیاتی سماعت بلائی گئی، پہلے تو زبردست دیہی احتجاج کو اندیکھا کیا گیا، اور بعد میں اسے ردّ کردنا پڑا، گزشتہ سالوں میں ایسا تیسری بار ہوا ہے۔
اڑیسہ کے اَنگُل ضلع میں واقع، جہاں پر ہندوستان کی کوئلے کی سب سے زیادہ کانیں ہیں، ایک اندازے کے مطابق اس کان میں ۱۲ ملین ٹن کوئلہ ہے ، جس کی مدت ۴۸ برس تجویز کی گئی ہے۔ معدنیات نو گاؤوں میں ۷۵۰۰ ایکڑ کی زرعی اقتصادیات پر پھیلی ہوئی زمین کے نیچے ہیں۔ یہاں پر ۱۰ ہزار سے زیادہ لوگ رہتے ہیں، ان کی تعلیم اور متناسب خوشحالی نے انھیں دیہی متوسط طبقہ میں تبدیل کر دیا ہے، جس کی وجہ سے وہ ان وسائل پر اپنا حق جمانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
وزارتِ کوئلہ نے اس علاقے میں متعدد کوئلہ بلاکس بنا رکھے ہیں، اور اس نے دیہی زمین کے اس مستطیل کول بلاک کی نشاندہی ماچھا کاٹا کول بلاک کے طور پر کر رکھی ہے۔ یہ کان ۲۰۰۶ میں مہاگُج کوئلریز لمیٹڈ کو الاٹ کی گئی تھی، جو کہ مہاراشٹر اور گجرات کی صوبائی حکومتوں کے ذریعہ مشترکہ طور پر تشکیل کردہ ایک پبلک سیکٹر بجلی کمپنی ہے۔
جیسا کہ اکثر ہوتا رہا ہے، دیہی ہندوستان کے جنگلات، کھیت، پہاڑ اور آبی ذخائر کو کھلی ہوئی کانکنی اور شہری ہندوستان کے ایندھن کے وسائل کے طور پر استعمال کیا جا تا رہا ہے، اور ان وسائل کی منتقلی میں بدعنوانی، تصادم اور ناانصافیوں پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
’’بامبے کے لوگ اپنا ایئر کنڈیشنر چلائیں گے، جب کہ ہم اپنی زمینیں گنوا دیں گے اور کوئلہ کی کان کے آگے بنائی گئی بازآبادکاری کالونی میں بھُنتے رہیں گے؟‘‘ سماعت سے ایک دن پہلے ماچھاکاٹا کے ایک کسان نے مجھ سے سوال کیا۔ ’’کیوں؟‘‘
(انگل میں کام کرنے والی متعدد کول مائنس اور انڈسٹریز نے اسے صوبے کا سب سے آلودہ ضلع قرار دیا ہے، جہاں گرمیوں کا موسم ۴۰ ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ تک ہو سکتا ہے۔)
سال ۲۰۱۰ میں مہا گُج کوئلریز لمیٹڈ نے گجرات میں واقع پرائیویٹ انڈسٹریل کمپنی ایم/ایس اڈانی انٹرپرائزیز لمیٹڈ کے ساتھ ایک معاہدہ پر دستخط کرکے اس بلاک کو شروع کرنے اور چلانے کی اجازت دے دی تھی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس معاہدہ کی تفصیلات گاؤں والوں کو نہیں بتائی گئی ہیں، جنھیں صوبائی حکومت وہاں سے خالی کرانا چاہتی ہے۔ نہ ہی ۴ ستمبر کی سماعت کے لیے جاری کی گئی کان کی انوائرمنٹل اِمپیکٹ اسیسمنٹ رپورٹ جیسی سرکاری دستاویزوں میں اڈانی کا کہیں ذکر ہے۔
میری فون کالس، میسیج اور ای میل پر کمپنی کا جواب یہ تھا کہ اس کے اہل کار سفر کر رہے ہیں۔ دس دنوں کے بعد بھی میرے سوالوں کا کوئی جواب نہیں مل پایا تھا۔
ایک گاؤں والا اڈانی انٹرپرائزیز لمیٹڈ کے خلاف احتجاج کی تیاری کر رہا ہے، اس صنعتی کمپنی کو اس کے گاؤں سمیت نو گاؤوں کو مجوزہ کول مائن کے لیے خالی کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے
لیکن اڈانی، جنھیں مقامی لوگ وزیر اعظم مودی کا قریبی تصور کرتے ہیں ، کیوں کہ اس سال گرمیوں میں انتخابات کے دوران انھوں نے اپنے طیارے سے انتخابی مہم چلائی تھی، وہ مقامی احتجاجوں کے بنیادی ہدف ہیں، اس کے بعد دوسرا نشانہ اِڈکو ہے، یہ اڑیسہ حکومت کا ایک حصہ ہے، جو صنعت کے لیے کسانوں کی زمینیں پرتشدد طریقے سے ہڑپنے کے لیے بدنام ہے ۔ بات چیت میں، گاؤوں والوں نے ضلع کی دوسری بے گھر ہوئی برادریوں کو بھی خونی جنگ میں شامل کر لیا ہے اور یہ مائننگ کارپوریشنز سے بازآبادکاری کا مطالبہ کرر ہے ہیں۔ (وارننگ: ویڈیو میں پر تشدد مواد موجود ہیں۔)
دیہی عوام کا اتنا ہی غصہ انتظامیہ اور ریگولیٹری اتھارٹیز پر بھی ہے۔ حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کے فیصلوں اور انکوائری کمیشن کی کھوج میں پتہ چلا ہے کہ قدرتی وسائل کی دیکھ ریکھ سے متعلق پالیسی میں حکام نے کیسے لگاتار عوامی مفادات کو نظر انداز کیا ہے اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے باوجود احتجاج کرنے والی مقامی برادریوں کے مستقبل پر بہت کم توجہ دی گئی ہے، جنھیں اس خراب برتاؤ کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
جن گاؤوں کو ہٹانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے، وہاں کے باشندوں نے مجھے بتایا کہ جس کول بلاک کے لیے صوبائی حکومت انھیں وہاں سے بے گھر کرنا چاہتی ہے، وہ اُن ۲۱۸ کول مائنس میں سے ایک ہے، جن کے الاٹمنٹ کو سپریم کورٹ ۲۴ اگست کے اپنے فیصلہ میں ’’من مانا اور غیر قانونی‘‘ قرار دے چکا ہے۔ ان کول بلاکس کا الاٹمنٹ ۱۹۹۳ کے آغاز میں کیا گیا تھا، جب صوبائی حکومت بجلی کی پیداوار اور دیگر استعمال کے لیے کانکنی کے کام میں پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کرنا چاہتی تھی۔ پی آئی ایل کی سماعت کرتے ہوئے کورٹ نے کہا تھا کہ الاٹمنٹ میں ’’کوئی صحیح اور شفاف طریقہ نہیں اپنایا گیا، جس کی وجہ سے قومی ملکیت کی ناقص تقسیم ہوئی۔‘‘
سجیت گڑنائک اور اس کے والد بگڈیا گاؤں میں اپنے کھیت سے سبزی کی کٹائی کر رہے ہیں۔ اس علاقے کے کھیتوں کے نیچے کوئلے کا بڑا ذخیرہ موجود ہے
بگڈیا گاؤں میں، میں نے احتجاج کررہے گاؤوں والوں کے سربراہ، پرفل پردھان سے بات کی۔ لحیم شحیم، بچوں جیسے چہرے والے ۶۰ سال کی عمر میں چل رہے، جنھیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنے پوتے پوتیوں کو کہانیاں سنا رہے ہوں گے، صوبہ سے سڑک پر لڑائی نہیں لڑیں گے، پردھان نے مجھ سے سوال کیا، ’’جب حکومت نے سپریم کورٹ سے اس ہفتہ یہ کہہ دیا ہے کہ ان الاٹمنٹس کو ردّ کر دینا چاہیے، پھر کمپنی اس بلاک کے لیے ماحولیاتی کلیئرنس کو حاصل کرنے کی کوشش کیوں کر رہی ہے؟‘‘
ایک دوسرے گاؤں میں، ایک اسکول ٹیچر نے، جو سرکاری نوکری کرنے کی وجہ سے کول مائن کے خلاف بات کرنے سے مصیبت میں پڑنے کے ڈر سے اپنا نام نہیں بتانا چاہتا، ۲۴ اگست کو لکھا گیا خط لے کر آیا، جو صوبہ کے پالوشن کنٹرول بورڈ کو لکھا گیا تھا، بورڈ ماحولیاتی ریگولیشن اور عوامی سماعت کے لیے ذمہ دار ہے۔ ’ ماچھا کاٹا کول بلاک کے گاؤں والے ‘ دستخط شدہ، ۲ صفحات پر مشتمل اس لیٹر میں کان کے لیے جاری کی گئی انوائرمنٹل اِمپیکٹ اسیسمنٹ (ای آئی اے) رپورٹ سے متعلق بہت سی حقیقی پریشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ٹیچر کو اس بات پر حیرانی ہے کہ بورڈ کے اہل کاروں نے دور کے، انڈسٹری سے کمینشڈ صلاح کاروں کی غلط رپورٹوں کو ہمیشہ کیوں قبول کیا، لیکن گاؤوں والوں کے ذریعے اپنی رہائش زدہ زمین کے بارے میں پیش کیے گئے اس کے برعکس ثبوت پر دھیان نہیں دیا۔
یہاں کے باشندوں کے لیے سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ای آئی اے نے بجائے اس کا تجزیہ کرنے کے، اس حقیقت کا ذکر تک نہیں کیا کہ جس ۷۵۰۰ ایکڑ جنگلاتی اور زرعی زمین کو مجوزہ کان کے لیے قبضے میں لینے کی بات کی جا رہی ہے، وہ سال بھر یہاں کے ۱۰ ہزار باشندوں کو کھانا، کام اور آمدنی فراہم کرتی ہے، جو کول مائن ختم کر دے گی۔ اس ہفتہ، میں نے اس علاقہ میں دھان سے ہرے بھرے کھیت، تِل، دالوں اور مش روم کی فصلیں دیکھیں۔ مارچ میں دورے کے دوران گاؤوں والوں نے مجھے پھلوں سے لدے ہوئے باغات اور سبزیوں سے بھرے کھیت دکھائے تھے۔
دھان کے ان ہرے بھرے کھیتوں کے نیچے کوئلے کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ کانکنی کے لیے بے گھر کیے جانے میں مقامی باشندے اپنا کوئی فائدہ نہیں دیکھ رہے ہیں
ای آئی اے کی رپورٹ سے باہر نکالی گئی چیزیں بھی مقامی باشندوں کے لیے ثبوت ہیں، اگر ان کی ضرورت ہوئی تو، کہ صوبہ اور کارپوریشنز کی نظروں میں دیہی باشندوں کے ذریعے لگائی گئی قیمت کو پروجیکٹس کی کلیئرنگ کے وقت خاطر میں لانے کی ضرورت نہیں ہے۔
******
نئی نریندر مودی حکومت نے ہندوستان کے معدنیات سے مالامال علاقوں میں سرکاری اداروں، کارپوریشنز اور شہریوں کے درمیان موجود بے اعتمادی کو شاید ہی تسلیم کیا ہے۔ اس مئی میں حکومت سنبھالنے کے بعد اس نے دیہی ہندوستانیوں کی آواز کو فیصلہ لینے کے عمل میں دبانے کے لیے قانون میں پھیر بدل کرنے پر زور دیا ہے، تاکہ کانکنی اور صنعت کاری کی جانب تیزی سے قدم بڑھایا جا سکے۔
مثال کے طور پر، وزارتِ ماحولیات و جنگلات (ایم او ای ایف) نے ان کوئلہ کانوں کے پروجیکٹوں کو، جو خود کو پھیلانا چاہتی ہیں، ماحولیاتی کلیئرنس کے لیے ضروری عوامی سماعت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اسے یوپی اے سرکار کے دوران شروع کیا گیا تھا۔ ایمنیسٹی نے حال ہی میں آگاہ کیا ہے کہ زمینی سطح پر اس سے صوبائی حکومتیں مقامی باشندوں کے خلاف اپنے تشدد اور مظالم میں مزید اضافہ کریں گی۔ ایم او ای ایف صوبائی حکومتوں کے دیگر پروجیکٹوں کی کلیئرنسز کو بھی ختم کرنے جا رہی ہے، حالانکہ ان کی ریگولیٹری صلاحیت اور ارادہ مشکوک ہے۔
میں نے حالیہ ہفتوں کے دوران جن دو سینئر نوکرشاہوں سے بات کی، انھوں نے بتایا کہ وزیر اعظم کے دفتر اور ایم او ای ایف کی طرف سے وزارت برائے قبائلی امور سے یہ مطالبہ بڑھتا جا رہا ہے کہ کان کنی اور اسی قسم کے دیگر پروجیکٹوں کے لیے جنگلوں کی کٹائی کے فیصلہ کے لیے فاریسٹ رائٹس ایکٹ کے تحت فی الحال ضروری گرام سبھا کی شرط کو ہٹا لیا جائے۔
اسی طرح، وزیر برائے دیہی ترقی نتن گڈکری نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ انھوں نے نئے تحویل اراضی قانون میں ترمیم کا کام شروع کر دیا۔ نیا قانون جنوری ۲۰۱۴ میں نافذ ہوا تھا، جو کہ نوآبادیاتی دور کے قانون کو ہٹانے کے لیے تاخیر سے اٹھایا گیا قدم تھا، جسے انگریزوں نے ۱۸۹۴ میں لاگو کیا تھا، جس کی وجہ سے دیہی باشندوں کو زبردستی ان کے علاقوں سے بے دخل کر دیا جاتا تھا اور ان کے حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی کیا جاتی تھی۔ وزارتِ دیہی ترقی کے ذریعہ تیارہ کردہ نوٹ میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ نئے قانون میں گرام سبھا کی رضامندی اور سوشل امپیکٹ اسیسٹمنٹ کی شرائط کو ختم کر دیا جاناچاہیے۔
ایک نوکر شاہ، جو تحویل اراضی قانون بنانے میں شامل تھے، نے مجوزہ ترمیم پر شک ظاہر کرتے پچھلے ماہ مجھ سے کہا تھا، ’’اگر یہ تبدیلی کر بھی دی گئی، تو اسے زمین پر زبردستی کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے؟‘‘
جیسا کہ ماچھا کاٹا کے احتجاج سے ظاہر ہوتا ہے، قدرتی وسائل سے مالامال علاقوں میں رہنے والے ہندوستانی شہریوں کو خاموش کرنا یا نظرانداز کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم مودی کے ترقی کے وسیع خاکہ میں ان کے ساتھ وسیع جمہوریت اور احترام سے پیش آنا ہوگا، کم سے نہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)
ڈاکٹر محمد قمر تبریز ایک انعام یافتہ، دہلی میں مقیم اردو صحافی ہیں، جو راشٹریہ سہارا، چوتھی دنیا اور اودھ نامہ جیسے اخبارات سے جڑے رہے ہیں۔ انہوں نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ میں گریجویشن اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے تبریز اب تک دو کتابیں اور سینکڑوں مضامین لکھنے کے علاوہ متعدد کتابوں کے انگریزی اور ہندی سے اردو میں ترجمے کر چکے ہیں۔ آپ ان سے یہاں رابطہ کر سکتے ہیں: @Tabrez_Alig
چِترانگدا چودھری اڑیسہ میں مقیم ملٹی میڈیا جرنلسٹ اور ریسرچر، اور ’اوپن سوسائٹی انسٹی ٹیوٹ‘ کی فیلو ہیں۔ آپ اُن سے یہاں رابطہ کر سکتے ہیں: @ChitrangadaC
Dr. M.Q. Tabrez is an award-winning Delhi-based Urdu journalist who has been associated with newspapers like Rashtria Sahara, Chauthi Duniya and Avadhnama. He has worked with the news agency ANI. A history graduate from Aligarh Muslim University and a PhD from JNU, Tabrez has authored two books, hundreds of articles, and also translated many books from English and Hindi to Urdu. You can contact him at: @Tabrez_Alig