ایسلاوتھ بانیا نائک، صبح ۹ بجے تقریباً ۱۵۰ مضبوط گایوں کو حیدرآباد-شری شیلم قومی شاہراہ کے اُس پار وٹورلاپلّے گاؤں کے پاس لے جاتے ہیں۔ وہ مشرقی گھاٹ کے نلّامالا رینج میں امراباد ٹائیگر ریزرو کے کور ژون میں داخل ہوتے ہیں، جہاں کچھ گائیں گھاس چرتی ہیں اور کچھ ملائم پتیوں والی شاخوں تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔
پچھتر سالہ نائک کا تعلق لمباڈی برادری سے ہے، اور ان کے مویشی – یہاں کے کئی مویشی پالنے والوں کی طرح ہی – تھروپو مویشی ہیں۔ لمباڈی (درج فہرست ذات)، یادو (گولا) (او بی سی) اور چینچو (خاص طور سے کمزور آدیواسی گروپ) روایتی طور سے تھروپو کی افزائش کرنے والے ہیں۔ ان مویشیوں کے چھوٹے اور تیز سینگ اور سخت اور مضبوط کھُر ہوتے ہیں۔ وہ مختلف قسم کے علاقوں میں – گیلی اور سوکھی پتھریلی مٹی پر آسانی سے چلتے ہیں، اور آسانی سے بھاری وزن کو کھینچتے ہیں۔ وہ کم پانی والے اس علاقے کی گرمی کو بھی لمبے عرصے تک برداشت کر سکتے ہیں۔
امراباد ذیلی ضلع چونکہ گاؤوں کے مشرق میں تلنگانہ-کرناٹک سرحد پر ہے، جہاں سے کئی کسان ان گایوں کو خریدنے آتے ہیں، اور چونکہ ان مویشیوں کے جسم پر دھبے ہوتے ہیں، اس لیے یہاں کے لوگ انھیں ’پوڈا تھروپو‘ کہتے ہیں – تیلگو میں ’پوڈا‘ کا مطلب ہے دھبہ اور ’تھروپو‘ کا مطلب ہے مشرق۔ پوڈا تھروپو چھوٹے اور غریب کسانوں کے لیے بہت مددگار ہیں، جو ٹریکٹر اور دیگر زرعی مشینری کا خرچ نہیں اٹھا سکتے۔
ہر سال دیوالی کے کچھ ہفتے بعد – عام طور پر نومبر میں – تاجر اور کسان مقامی تہوار، کُرومورتھی جاترا کے دوران بچھڑوں کے کاروبار کے لیے ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ یہ کاروبار ایک مہینہ تک چلنے والے میلہ کا حصہ ہے، جو لاکھوں لوگوں کو متوجہ کرتا ہے اور امراباد سے تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر دور منعقد ہوتا ہے۔ تاجر، نائک جیسے لوگوں سے ۲۵ سے ۳۰ ہزار روپے فی جوڑے کے حساب سے خریدے گئے ۱۲ سے ۱۸ مہینے کے نر بچھڑوں کو بیچتے ہیں۔ نائک میلہ کے لیے تقریباً پانچ جوڑے بیچتے ہیں، اور کبھی کبھی سال کے باقی دنوں میں ۱-۲ اور۔ میلے میں خریدار کسان ایک جوڑی بچھڑے کے ۲۵ ہزار روپے سے ۴۵ ہزار روپے تک دیتے ہیں۔ کبھی کبھی تاجر بھی کسان ہوتے ہیں، جو بچ گئے مویشیوں کو اپنے گاؤں واپس لے جاتے ہیں اور انھیں فروخت کے لیے سال بھر رکھتے ہیں۔
حالانکہ، مویشیوں کی رکھوالی کرنا طویل مدتی کام ہو سکتا ہے۔ امراباد جھاڑیوں، گھاس اور بانس سے ڈھکا ہوا ایک سوکھا، پت جھڑ جنگل ہے۔ جون سے اکتوبر تک، ریزرو بینک کے بفر ژون میں کافی چارہ رہتا ہے۔ لیکن نومبر سے، چرائی کے میدان سوکھنے لگتے ہیں۔ کور ژون میں داخلہ پر محکمہ جنگلات کی پابندی سے مویشیوں کے لیے چارہ ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اس جگہ کے بند ہو جانے کی وجہ سے، نائک اپنے گاؤں منّا نور سے تقریباً ۲۵ کلومیٹر دور اپنی بہن کے گاؤں، تلنگانہ کے محبوب نگر (اب ناگر کرنول) کے امراباد منڈل چلے جاتے ہیں۔ وہاں، انھوں نے جنگل کے ایک حصے کے بغل میں، موسمی استعمال کے لیے ایک کھلہان بنایا ہے جس میں جانور چر سکتے ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)