بس جیسے ہی کولکاتا سے چلتی ہے اور اوبڑ کھابڑ سڑکوں پر روانہ ہوتی ہے، جس کے دونوں طرف مچھلیوں کو پالنے والے پانی کے تالاب، ہاتھ سے بنائے ہوئے باندھ، اور جھونپڑی نما چائے کی دکانیں ہیں، آپ کو دور پانی کے ایک بڑے ذخیرہ کا احساس ہوگا۔ بعد میں، ہماری گاڑی جیسے ہی پانی کی وسیع نیلی چادر پر شور کرنے لگی، ’خوشیوں کے شہر‘ کی یادیں آسانی سے ڈوبنے لگتی ہیں، جب آپ مغربی بنگال کے جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع کے سندر بن میں واقع بالی جزیرہ کے قریب آتے ہیں۔
اس جزیرہ میں بے روزگاری اور غریبی کی وجہ سے یہاں کے نوجوان چیتوں، ہرن اور دیگر جانوروں کو مارنے پر مجبور ہو رہے ہیں، اور غیر قانونی طریقے سے درختوں کو کاٹ رہے ہیں۔ لیکن گزرتے ہوئے برسوں میں، کمیونٹی پر مبنی سیاحت نے اسے بدلنے کی کوشش کی ہے، بہت سے نوجوان لوگ جو شاید شکاری بن گئے ہوتے، اب وہ ان کے محافظ بن گئے ہیں۔ گزربسر کے متبادل ذرائع نے جنگلات پر ان کے انحصار کو کم کیا ہے۔ بعض مقامی لوگ ٹور گائڈ بن گئے ہیں، دوسروں نے سیاحوں کے لیے کشتیاں بنانی شروع کر دی ہیں، جب کہ بعض دیگر کو ہوٹل اسٹاف کی شکل میں روزگار مل چکا ہے۔ حالانکہ تنخواہ بہت زیادہ نہیں ہے، تاہم کچھ لوگوں کے لیے سیاحتی شعبہ کے ساتھ جڑنا فخر کی بات ہے۔
جزیرہ کے حالیہ دورہ کی تصویریں:
دن کا کام شروع ہو رہا ہے: کشتیاں سندر بن کے آبی راستوں کے ذریعے سامان، لوگوں، جانوروں اور سیاحوں کو لانے لے جانے کے لیے تیار ہو رہی ہیں
اس قسم کے لمبے باغات کبھی انسانوں اور جانوروں کو ایک دوسرے سے بچانے کے لیے باڑ کے طور پر لگائے جاتے تھے، تاکہ باہمی طور پر اسے زندہ رہنے کے لیے محفوظ بنایا جا سکے
بالی جزیرہ کی بندرگاہ ایک طرح سے گاؤں کا چوراہا ہے؛ زیادہ تر آمد و رفت یہیں ہوتی ہے۔ انسان، سامان، بچھڑے اور مچھلیاں روزانہ اسی جگہ سے گزرتی ہیں
ماہی پروری: زمین کے بڑے اور چھوٹے ٹکڑے جو چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں، ان میں باندھ بناکر پانی بھرا گیا ہے، تاکہ ان میں مچھلی پالی جا سکے اور پھر انھیں بیچا اور کھایا جا سکے
نیٹ ورکنگ: سندر بن میں بہت سے لوگوں کے لیے دفتر کا ایک دن پوری طرح مختلف ہوتا ہے
گلہ بان اور بھیڑ (بائیں): بالی جزیرہ کے ہوادار راستے تنگ، لیکن صاف ستھرے ہیں۔ کوڑے کے لیے پلاسٹک کی بالٹی کوئی اچھا نظارہ نہیں ہے (دائیں)، مقامی لوگ اسے اپنی گلیوں کو بے داغ اور صاف ستھرے رکھنے میں استعمال کرتے ہیں
ایک جوہری گاؤں کے دکان والے علاقہ میں بزنس کا انتظار کر رہا ہے
چیتوں کا نظارہ عام طور پر نہیں ہوتا۔ یہاں کا دورہ کرنے والوں کو اکثر و بیشتر ایک کہانی یہ سننے کو ملتی ہے کہ ایک چیتا پانچ کلومیٹر سے زیادہ کی دوری تیر کر پار کرتا ہے ایک مادہ چیتا سے ملنے اور اس کے ساتھ ہم بستری کرنے کے لیے، جسے ایک سرکس نے گاؤں میں لاکر چھوڑا تھا۔ لیکن، گزشتہ دنوں یہاں پر چیتوں کی آبادی میں کمی آئی ہے
بڑی چھپکلی، ہرت، جنگلی سور، مگرمچھ اور کنگ فشر یہاں عام طور پر دیکھنے کو مل جاتے ہیں
’ہیلپ‘ فاؤنڈیشن نے مقامی تھیٹر گروپ کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ یہ گروپ دیوی بون بی بی کی کہانی کو پیش کرتا ہے۔ کہانی کے مطابق، دکھی نام کے ایک نوجوان لڑکے کو شہد اور لکڑی کے بدلے ایک چیتے کو کھلایا جانا تھا، لیکن دیوی نے اس کی اپیلیں سننے کے بعد مداخلت کی اور اس کی جان بچائی
سندر بن کے چیتے، دوسرے تمام چیتوں کی طرح، سیکولر ہیں اور بغیر کسی جانبداری کے تمام برادریوں کے ممبران کو کھا جاتے ہیں۔ اسی لیے، ہندو اور مسلم، دونوں ہی برادریوں کے لوگ بون بی بی سے حفاظت کی فریاد کرتے ہیں۔ یہاں، دیوی نے چیتے کو طاقت بخشی ہے
مرد، عورت اور بچوں کی مسلسل آمد و رفت اس بندرگاہ کو ہمیشہ متحرک رکھتی ہے۔ کچھ لوگ یہاں صبح سویرے ہی برش سے دانت صاف کرنے اور سورج کی پوجا کرنے کے لیے آ جاتے ہیں، جب کہ دیگر لوگ یہاں بات چیت کرنے، گھومنے پھرنے، تاش کھیلنے، اور کشتیوں کو آتے جاتے دیکھنے کے لیے آتے ہیں
دن کا کام پورا ہوا اور اب گھر جانے کا وقت ہے