ڈھاک کی آواز اب پورے اگرتلہ میں گونجنے لگی ہے۔ ۱۱ اکتوبر سے درگا پوجا شروع ہونے والی ہے، اور ہر سال ہفتوں پہلے سے اس کی تیاریاں ہونے لگتی ہیں۔ پنڈال سجائے جانے لگتے ہیں، مورتی ساز مورتیوں کو آخری شکل دے رہے ہوتے ہیں، لوگ نئے کپڑے خریدتے ہیں۔
ڈھاک ایک بیلن کی شکل کا ڈھول ہوتا ہے، جسے گردن سے لٹکا کر یا کسی ٹھوس مضبوط سطح پر رکھ کر چھڑی سے بجایا جاتا ہے۔ ڈھاک ان تہواروں کا اٹوٹ حصہ ہے۔
ڈھاک بجانا ایک موسمی کام ہے۔ ہر سال پانچ دنوں کی پوجا ہوتی ہے، اور لکشمی پوجا ڈھاک بجانے کا آخری دن ہوتا ہے۔ اس سال یہ دن ۲۰ اکتوبر کو پڑے گا۔ کچھ ڈھاکیوں کو دیوالی پر بھی بلایا جاتا ہے۔ لیکن اگرتلہ اور تریپورہ کے علاقوں میں درگا پوجا کے دوران ہی ڈھاک کی سب سے زیادہ مانگ ہوتی ہے۔
ڈھاکیوں کو پنڈال کمیٹیوں کے علاوہ مختلف کنبوں کے ذریعے بھی بلایا جاتا ہے۔ کبھی کبھی، دعوت دینے سے پہلے انہیں امتحان کے طور پر ڈھاک بجانے کو کہا جاتا ہے – ان میں سے زیادہ تر اپنی فیملی کے بزرگوں سے ڈھاک بجانا سیکھتے ہیں۔ ۴۵ سالہ اندرجیت رشی داس کہتے ہیں، ’’میں اپنے بڑے چچیرے بھائیوں کے ساتھ ڈھاک بجاتا تھا۔ سب سے پہلے میں نے کاشی [ایک دھات کی پلیٹ جیسا آلہ موسیقی، جسے چھوٹی سی چھڑی سے بجایا جاتا ہے] بجانے سے شروعات کی، پھر ڈھول، اور اس کے بعد ڈھاک بجانے لگا۔‘‘ (ان کا اور دیگر رشی داس، روہی داس اور روی داس کنبوں کا تعلق موچی برادری سے ہے، جو تریپورہ میں درج فہرست ذات میں شامل ہے۔)
اگرتلہ کے کئی ڈھاکیوں کی طرح، اندرجیت سال کے بقیہ دنوں رکشہ چلاتے ہیں۔ عورتوں کی طرح، کبھی کبھی وہ شادیوں اور دوسری تقریبات میں بینڈ بجاتے ہیں، جسے مقامی سطح پر ’بینڈ پارٹی‘ کہا جاتا ہے۔ ان چھوٹے چھوٹے کاموں کے علاوہ، ڈھاکی لوگ الیکٹریشین یا پلمبر کے طور پر دہاڑی کرتے ہیں، جب کہ ان میں سے کچھ سبزیاں بیچتے ہیں اور پاس کے گاؤوں میں کھیتی کرتے ہیں، اور تقریبات یا پرفارمنس کے لیے بُک کیے جانے پر اگرتلہ آتے ہیں۔
رکشہ چلا کر، اندرجیت دن بھر میں ۵۰۰ روپے کما لیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ہمیں کمانے کے لیے کچھ کام تو کرنا ہی ہے۔ رکشہ چلانا تو آسان ہے۔ اچھے کام کے لیے انتظار کرتے رہنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔‘‘ درگا پوجا کے سیزن میں ڈھاکی کے طور پر ایک ہفتہ میں وہ جتنا کما لیتے ہیں، اتنا رکشہ چلا کر ایک مہینہ میں کماتے ہیں۔ اس سال ۲۰۲۱ میں انہیں ایک پنڈال کمیٹی کے ذریعے ۱۵ ہزار روپے میں ڈھاک بجانے کے لیے بلایا گیا ہے، حالانکہ کچھ لوگ کم پیسوں پر ہی راضی کر لیتے ہیں۔
اندرجیت بتاتے ہیں کہ پنڈالوں میں ڈھاکیوں (اگرتلہ میں عموماً صرف مرد ہی اس آلہ موسیقی کو بجاتے ہیں) کو پانچ دنوں کی پوجا کے لیے بلایا جاتا ہے۔ وہ آگے کہتے ہیں، ’’جب ہمیں پجاری وہاں بلاتے ہیں، تو ہمیں وہاں موجود رہنا پڑتا ہے۔ ہم صبح کی پوجا کے وقت تقریباً تین گھنٹے تک اور پھر شام میں تین سے چار گھنٹے تک ڈھاک بجاتے ہیں۔‘‘
بینڈ پارٹی کا کام کبھی کبھار ہوتا ہے۔ اندرجیت کہتے ہیں، ’’عموماً ہم چھ لوگوں کی ایک ٹیم کے طور پر کام کرتے ہیں، جس میں زیادہ تر شادیوں کے سیزن میں ہم پرفارم کرتے ہیں اور پروگرام کے دنوں کی بنیاد پر پیسے لیتے ہیں۔ کچھ لوگ ہمیں ایک سے دو دن کے لیے بلاتے ہیں، تو کچھ لوگ ۶ سے ۷ دن کے لیے۔‘‘ ان سب سے ٹیم کی ایک دن میں کل ملا کر ۵ سے ۶ ہزار روپے کی کمائی ہو جاتی ہے۔
پچھلے سال کورونا وبائی مرض کے سبب، کئی لوگوں نے پوجا کی تقریبات کو منسوخ کر دیا، جس کی وجہ سے ڈھاکیوں کو رکشہ چلا کر یا دوسری چھوٹی موٹی نوکریوں سے ملنے والی آمدنی اور بچت پر منحصر رہنا پڑا۔ حالانکہ، کچھ لوگوں کو آخری وقت میں ڈھاک بجانے کا موقع مل گیا تھا۔ (اس اسٹوری میں موجود تمام تصویریں پچھلے سال اکتوبر میں کھینچی گئی تھیں۔)
درگا پوجا شروع ہونے کے تقریباً ایک ہفتہ بعد لکشمی پوجا ہوتی ہے، جو کئی ڈھاکیوں کے لیے ان کے ’روزگار‘ کا آخری دن ہوتا ہے۔ اس شام کو وہ اگرتلہ کی سڑک پر اکیلے یا جوڑیوں میں اپنے ڈھول کے ساتھ نکلتے ہیں۔ فیملیز انہیں اپنے گھر پر ۱۰-۵ منٹ کے لیے بجانے کی خاطر بلاتی ہیں، تاکہ وہ اس مبارک دن کو یادگار بنا سکیں۔ اس کے عوض ڈھاکیوں کو ہر گھر سے صرف ۲۰ سے ۵۰ روپے تک ہی مل پاتے ہیں، اور کئیوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ کام صرف اس روایت کو جاری رکھنے کے لیے کرتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز