چمارو نے کہا، ’’یہ تمام عرضیاں واپس لو اور انہیں پھاڑ کر پھینک دو۔ یہ صحیح نہیں ہیں۔ یہ عدالت انہیں منظور نہیں کرے گی۔‘‘
انہوں نے واقعی میں مجسٹریٹ کا رول نبھانا شروع کر دیا تھا۔
یہ اگست ۱۹۴۲ کی بات ہے، جب پورا ملک جوش سے بھرا ہوا تھا۔ سمبل پور کورٹ میں یہ جوش پوری طرح محسوس کیا جا سکتا تھا۔ چمارو پریدا اور ان کے ساتھیوں نے ابھی ابھی اس عدالت پر قبضہ کیا تھا۔ چمارو نے خود کو جج ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ جتیندر پردھان ان کے ’’اَردَلی‘‘ تھے۔ پورن چندر پردھان نے ’پیش کار‘ یا عدالتی کلرک بننا پسند کیا تھا۔
اس عدالت پر قبضہ، ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں ان کے تعاون کا ہی ایک حصہ تھا۔
چمارو نے عدالت میں موجود حیرت زدہ مجمع سے کہا، ’’یہ عرضیاں راج (برطانوی حکومت) کے نام سے مخاطب کی گئی ہیں،‘‘ ہم آزاد ہندوستان میں رہ رہے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ان معاملوں پر غور کیا جائے، تو انہیں واپس لے لیں۔ اپنی عرضیاں پھر سے تیار کریں۔ انھیں مہاتما گاندھی کو مخاطب کریں، تب ہم اس پر غور کریں گے۔‘‘
آج تقریباً ۶۰ سال کے بعد، چمارو یہ کہانی اسی شادمانی کے ساتھ سناتے ہیں۔ وہ اب ۹۱ سال کے ہو چکے ہیں۔ ۸۱ سالہ جتیندر ان کے بغل میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پورن چندر، حالانکہ، اب اِس دنیا میں نہیں رہے۔ یہ لوگ اب بھی اوڈیشہ کے بارگڑھ ضلع کے پنی مارہ گاؤں میں ہی رہتے ہیں۔ جنگِ آزادی جس وقت پورے جوش و خروش کے ساتھ لڑی جا رہی تھی، تب اس گاؤں نے حیران کن طور پر اپنے بہت سے بیٹوں اور بیٹوں کو میدان میں بھیجا تھا۔ موجودہ ریکارڈ کے مطابق، صرف ۱۹۴۲ میں ہی اس گاؤں سے ۳۲ لوگ جیل گئے تھے۔ چمارو اور جتیندر سمیت، ان میں سے سات ابھی بھی زندہ ہیں۔
ایک بار تو یہاں کی تقریباً ہر فیملی نے اپنے یہاں سے ایک ستیہ گرہی کو بھیجا تھا۔ اس گاؤں نے برطانوی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہاں کے اتحاد کو توڑ پانا مشکل تھا۔ یہاں کے لوگوں کا عزم مثالی بن گیا۔ جو لوگ انگریزوں سے لوہا لے رہے تھے، وہ غریب اور اَن پڑھ کسان تھے۔ چھوٹے کسان، اپنا چولہا چکّی چلانے کے لیے جدوجہد کررہے تھے۔ زیادہ تر لوگ ویسے ہی ہیں۔
لیکن، بڑی عجیب سی بات ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں ان کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ حالانکہ، ایسا نہیں ہے کہ اوڈیشہ میں ان کو بھُلا دیا گیا ہے۔ بارگڑھ میں، یہ ابھی بھی ’آزادی والا گاؤں‘ ہے۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہے، جسے اس لڑائی کا ذاتی فائدہ ہوا ہو۔ اور یہ بات تو پوری طرح پکّی ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی نہ تو کوئی انعام ملا، نہ ہی کوئی عہدہ یا نوکری۔ پھر بھی انھوں نے خطرہ مول لیا۔ یہ وہ لوگ تھے، جو ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے لڑے۔
یہ آزادی کے پیدل سپاہی تھے۔ ننگے پیر چلنے والے، کیوں کہ ان میں سے کسی کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا کہ وہ جوتے خرید کر پہن سکیں۔
چمارو چٹخارے لیکر کہتے ہیں، ’’عدالت میں موجود پولیس حیران تھی۔ انہیں یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں۔ انہوں نے جب ہمیں گرفتار کرنے کی کوشش کی، تو میں نے کہا، ’میں مجسٹریٹ ہوں۔ تمہیں ہمارا حکم ماننا پڑے گا۔ اگر تم لوگ ہندوستانی ہو، تو میری بات مانو۔ اور اگر تم انگریز ہو، تو اپنے ملک واپس چلے جاؤ‘۔‘‘
پولیس اس کے بعد اصلی مجسٹریٹ کے پاس گئی، جو اُس دن اپنی رہائش گاہ پر موجود تھا۔ جتیندر پردھان بتاتے ہیں، ’’مجسٹریٹ نے ہماری گرفتاری کے آرڈر پر دستخط کرنے سے منع کر دیا، کیوں کہ پولیس نے وارنٹ پر نام نہیں لکھے تھے۔ پولیس وہاں سے لوٹی اور اس نے ہمارے نام پوچھے۔ ہم نے انہیں اپنی پہچان بتانے سے منع کر دیا۔‘‘
چمارو بتاتے ہیں، حیران وپریشان پولیس ٹکڑی سمبل پور کے کلکٹر کے پاس گئی۔ ’’ان کے چہرے پر تکان دیکھ کر اس نے کہا ’کچھ لوگوں کے نام لکھ لو۔ ان بندوں کے نام ’اے‘، ’بی‘ اور ’سی‘ لکھ لو اور پھر اسی حساب سے فارم بھر لو‘۔ پولیس نے ویسا ہی کیا، اور اس طرح ہمیں مجرم اے، بی اور سی کے طور پر گرفتار کر لیا گیا۔‘‘
وہ پورا دن پولیس کے لیے تھکا دینے والا رہا۔ اس کے بعد چمارو ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’جیل میں وارڈن نے ہمیں لینے سے منع کر دیا۔ پولیس اور اس کے درمیان تکرار ہونے لگی۔ وارڈن نے ان سے کہا: ’تم مجھے گدھا سمجھتے ہو؟ اگر یہ بندے کل کو بھاگ جاتے ہیں یا غائب ہو جاتے ہیں، تب کیا ہوگا؟ کیا میں رپورٹ میں یہ لکھوں گا کہ اے، بی اور سی بھاگ گئے؟ کوئی بیوقوف ہی ایسا کر سکتا ہے‘۔ وہ اپنی بات پر اَڑا رہا۔‘‘
کئی گھنٹوں تک یونہی بحث و تکرار چلتی رہی، تب کہیں جا کر پولیس نے انھیں جیل سیکورٹی کے حوالے کیا۔ جتیندر بتاتے ہیں، ’’غصہ تو ساتویں آسمان پر تب پہنچا، جب ہمیں عدالت میں پیش کیا گیا۔ پریشان اَردلی کو چیخنا پڑا: اے حاضر ہو! بی حاضر ہو! سی حاضر ہو!‘ اس کے بعد ہی کورٹ ہم سے مخاطب ہوا۔‘‘
سسٹم کی اس پورے معاملے میں جو سبکی ہوئی تھی، اس کا اس نے خود ہی انتقام لیا۔ ان لوگوں کو چھ ماہ قیدِ بامشقت کی سزا سنائی گئی اور مجرموں کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ چمارو کہتے ہیں، ’’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ہمیں اس جگہ بھیجتے، جہاں عام طور پر سیاسی قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس وقت تحریک اپنے عروج پر تھی۔ بہرحال، پولیس ہمیشہ بے رحم اور سزا دینے والی رہی۔‘‘
’’اُن دنوں مہاندی پر کوئی پُل نہیں تھا۔ انہیں ہمیں کشتی میں بیٹھا کر لے جانا پڑا۔ انہیں معلوم تھا کہ ہم لوگ اپنی مرضی سے گرفتار ہوئے ہیں، اس لیے ہمارا بھاگنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود، انہوں نے ہمارے ہاتھ باندھ دیے، پھر ہم سبھی کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیا۔ اگر کشتی ڈوب گئی ہوتی – اور ایسا حادثہ اکثر ہوا کرتا تھا – تو ہمارے پاس بچنے کا کوئی چانس نہیں ہوتا۔ ویسی حالت میں ہم سبھی مر گئے ہوتے۔
’’پولیس نے ہمارے گھر والوں کو بھی پریشان کرنا شروع کر دیا۔ ایک بار تو ایسا ہوا کہ میں جیل میں تھا، اور مجھ پر ۳۰ روپے کا جرمانہ بھی لگایا گیا (اس وقت یہ کافی بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔ یہ لوگ دن بھر کام کرتے، تو انہیں صرف دو آنہ کے برابر اناج مزدوری میں ملتا تھا: پی سائی ناتھ) ۔ وہ میری ماں سے جرمانہ وصول کرنے گئے۔ انہوں نے وارننگ دی، ’جرمانہ دو، نہیں تو اسے اور بڑی سزا ملے گی‘۔‘‘
’’میری ماں نے کہا: ’وہ میرا بیٹا نہیں ہے؛ وہ اس گاؤں کا بیٹا ہے۔ وہ مجھ سے زیادہ اس گاؤں کی فکر کرتا ہے‘۔ وہ پھر بھی نہیں مانے اور ان پر دباؤ ڈالتے رہے۔ تب انھوں نے کہا: ’اس گاؤں کے سبھی نوجوان میرے بیٹے ہیں۔ کیا مجھے جیل میں ڈالے گئے اُن سبھی کا جرمانہ بھرنا ہوگا؟‘‘‘
پولیس پریشان تھی۔ ’’انہوں نے کہا: ’ٹھیک ہے، ہمیں کوئی ایسی چیز دے دو جسے ہم برآمدگی کے طور پر دکھا سکیں۔ درانتی یا کچھ اور‘۔ انہوں نے جواب دیا: ’ہمارے پاس درانتی نہیں ہے‘۔ اور انہوں نے گوبر کا پانی جمع کرنا شروع کیا اور ان سے کہا کہ جس جگہ وہ کھڑے ہیں اسے وہ شُدّھ (پاک) کرنا چاہتی ہیں۔ براہ کرم یہاں سے چلے جائیں؟‘‘ آخرکار وہ وہاں سے چلے گئے۔
* * *
عدالت کے کمرے میں جب یہ مذاق چل رہا تھا، پنی مارہ کے ستیہ گرہیوں کی دوسری ٹکڑی اپنے کام میں مصروف تھی۔ چمارو کے بھتیجے دیاندھی نائک بتاتے ہیں، ’’ہمارا کام تھا سمبل پور بازار پر قبضہ کرنا اور انگریزی سامانوں کو تباہ کرنا۔ میں نے قیادت کے لیے چچا کی طرف دیکھا۔ میری پیدائش کے وقت میری ماں کا انتقال ہو گیا تھا، جس کے بعد چمارو نے میری پرورش کی۔‘‘
برطانوی راج کے ساتھ پہلی بار جب دیانِدھی کی مڈبھیڑ ہوئی، تو اس وقت وہ صرف ۱۱ سال کے تھے۔ سال ۱۹۴۲ میں وہ ۲۱ سال کے ہو چکے تھے، اور تب تک وہ ایک ماہر لڑاکا بن چکے تھے۔ اب ۸۱ سال کی عمر میں بھی انہیں ہر واقعہ اچھی طرح یاد ہے۔
’’انگریزوں کے خلاف ملک بھر میں زبردست نفرت کا ماحول تھا۔ راج کے ذریعہ ہمیں ڈرانے کی کوشش نے اس ماحول کو اور گرما دیا۔ انہوں نے کئی بار اپنے مسلح سپاہیوں کو اس گاؤں کو گھیرنے کا حکم دیا، اور فلیگ مارچ نکالنے کو کہا؛ صرف ہمیں ڈرانے کے لیے۔ لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
’’انگریزوں کے خلاف غصہ ہر طبقے میں تھا، بے زمین مزدوروں سے لیکر اسکولی ٹیچروں تک۔ اساتذہ بھی اس تحریک کے ساتھ تھے۔ وہ استعفیٰ نہیں دیتے تھے، بلکہ کام کرنا بند کر دیتے تھے۔ اور اس کے لیے ان کے پاس ایک بڑا بہانہ تھا۔ وہ کہتے: ’ہم انہیں اپنا استعفیٰ کیسے دے سکتے ہیں؟ ہم انگریزوں کو نہیں پہچانتے‘۔ اس لیے وہ کام ہی نہیں کرتے تھے۔
’’اُن دنوں ہمارا گاؤں کئی طرح سے کٹا ہوا تھا۔ گرفتاری اور چھاپہ ماری کے سبب، کانگریسی کارکن کچھ دنوں تک نہیں آئے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں باہری دنیا کی خبر نہیں مل پا رہی تھی۔ اگست ۱۹۴۲ میں ایسا ہی چلتا رہا۔‘‘ اس کے بعد گاؤں نے کچھ لوگوں کو باہر بھیجا، یہ پتہ لگانے کے لیے کہ ملک میں کیا کچھ چل رہا ہے۔ ’’تحریک کا یہ مرحلہ اسی طرح شروع ہوا۔ میں دوسری ٹکڑی کے ساتھ تھا۔
’’ہمارے گروپ کے سبھی پانچ لڑکے بہت چھوٹے تھے۔ سب سے پہلے، ہم کانگریسی فقیرا بیہیرا کے سمبل پور واقع گھر گئے۔ ہمیں پھول اور بازو پر باندھنے والی پٹّی دی گئی، جس پر لکھا تھا ’کرو یا مرو‘۔ ہم لوگ بازار میں مارچ کرتے اور ہزاروں اسکولی بچے اور دیگر افراد ہمارے ساتھ چلتے۔
’’بازاروں میں ہم بھارت چھوڑو کا نعرہ لگاتے۔ جس وقت ہم نے یہ نعرہ لگایا، وہاں موجود تقریباً ۳۰ مسلح پولیس والوں نے ہمیں گرفتار کر لیا۔
’’لیکن، کنفیوژن یہاں بھی تھا، اس لیے انہوں نے ہم میں سے کچھ کو فوراً چھوڑ دیا۔‘‘
کیوں؟
’’کیوں کہ، ۱۱ سال کے لڑکوں کو گرفتار کرنا اور پھر ان کے ہاتھ باندھ دینا، ان کے لیے مشکلیں پیدا کر رہا تھا۔ اسی لیے، ہم میں سے جو لڑکے ۱۲ سال سے کم عمر کے تھے، انہیں چھوڑ دیا گیا۔ لیکن، دو چھوٹے لڑکوں، جوگیشور جینا اور اندرجیت پردھان نے وہاں سے جانے سے منع کر دیا۔ وہ گروپ کے ساتھ ہی رہنا چاہتے تھے، لیکن ہم نے انہیں منایا اور وہاں سے واپس بھیجا۔ ہم میں سے باقی لوگوں کو بارگڑھ جیل بھیج دیا گیا۔ دِبیہ سندر ساہو، پربھاکر ساہو اور مجھے ۹ مہینے کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔‘‘
* * *
۸۰ سال کے مدن بھوئی، ابھی بھی اچھی آواز میں گانا گاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’یہ وہ گانا ہے جو ہمارے گاؤں کے نوجوانوں کی تیسری ٹکڑی، سمبل پور واقع کانگریس دفتر جاتے ہوئے گا رہی تھی۔‘‘ انگریزوں نے باغیانہ سرگرمیوں کے الزام میں اس دفتر کو سیل کر دیا تھا۔
تیسری ٹکڑی کا ہدف تھا: سیل کیے گئے کانگریس دفتر کو آزاد کرانا۔
’’میں جب بہت چھوٹا تھا، تبھی میرے والدین دنیا چھوڑ گئے۔ چچا اور چچی، جن کے ساتھ میں رہتا تھا، انہیں میری زیادہ پرواہ نہیں تھی۔ جب میں کانگریس کی میٹنگوں میں جاتا، تو وہ چوکنّا ہو جاتے۔ جب میں نے ستیہ گرہیوں کے ساتھ جڑنے کی کوشش کی، تو انہوں نے مجھے ایک کمرے میں بند کر دیا۔ میں نے جھوٹ بولا کہ اب میں ایسا نہیں کروں گا، سُدھر جاؤں گا۔ لہٰذا، انہوں نے مجھے آزاد کر دیا۔ میں کھیت کی طرف چلا گیا، گویا کام کرنے جا رہا ہوں۔ کُدال، ٹوکری اور دوسرے سامانوں کے ساتھ۔ کھیت سے ہی بارگڑھ ستیہ گرہ کی طرف چلا گیا۔ وہاں پر میرے گاؤں کے ۱۳ لوگ اور تھے، جو سمبل پور کی جانب مارچ کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ کھادی کو بھول جائیے، اس وقت میرے پاس پہننے کے لیے کوئی شرٹ تک نہیں تھی۔ گاندھی جی کو ۹ اگست کو ہی گرفتار کر لیا گیا تھا، لیکن ہمارے گاؤں میں یہ خبر کئی دنوں بعد پہنچی۔ اور وہ بھی تب، جب احتجاجیوں کی تین یا چار ٹکڑیوں کو گاؤں سے باہر سمبل پور بھیجنے کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا۔
’’پہلے قافلہ کو ۲۲ اگست کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ہمیں ۲۳ اگست کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس ہمیں عدالت بھی لے کر نہیں گئی، کیوں کہ انہیں ایک بار پھر اسی طرح مذاق بننے کا ڈر تھا، جو چمارو اور ان کے دوستوں کو عدالت میں پیش کرتے وقت انہیں جھیلنا پڑا تھا۔ ہمیں کانگریس دفتر تک جانے کی کبھی اجازت نہیں دی گئی۔ ہم سیدھے جیل بھیج دیے گئے۔‘‘
پنی مارہ اب بدنام ہو چکا تھا۔ بھوئی فخر سے کہتے ہیں، ’’ہمیں چاروں طرف بدمعاش گاؤں کے نام سے جانا جانے لگا۔‘‘
تصاویر: پی سائی ناتھ
یہ مضمون سب سے پہلے دی ہندو سنڈے میگزین میں ۲۰ اکتوبر، ۲۰۰۲ کو شائع ہوا۔
اس سیریز کی دیگر کہانیاں:
جب ’سالیہان‘ نے برطانوی حکومت سے لوہا لیا
پَنی مارہ کے آزادی کے پیدل سپاہی – ۲
عدم تشدد اور ستیہ گرہ کی شاندار نَو دہائیاں
شیرپور: جن کی قربانیاں فراموش کر دی گئیں
گوداوری: اور پولیس کو اب بھی حملے کا انتظار ہے
سوناکھن: دو بار ہوا ویر نارائن کا قتل
کَلِّیاسِّیری: سومُکن کی تلاش میں
کَلِّیاسِّیری: آزادی کے اتنے سال بعد بھی جاری ہے جدوجہد
مترجم: محمد قمر تبریز