یہ کسی فلم میں ہیرو کے پردے پر نمودار ہونے جیسا ہی ایک منظر ہے۔ ایک دکان میں چھ مرد آپس میں باتیں کر رہے ہیں کہ کٹہل کا کاروبار کرنا کسی عورت کے بس کا کام نہیں ہے، کیوں کہ اس میں نقل و حمل، بھاری وزن اٹھانے اور مختلف قسم کے خطرے مول لینے پڑتے ہیں۔ لیکن، پانچ منٹ بعد ہی دکان میں لکشمی داخل ہوتی ہیں۔ وہ زرد رنگ کی ساڑی پہنے ہوئی ہیں، بالوں میں جوڑا بندھا ہوا ہے، اور کان اور ناک میں سونے کے زیور لٹک رہے ہیں۔ تبھی اُن چھ مردوں میں الگ رائے رکھنے والا ایک کسان کہتا ہے، ’’اس کاروبار میں وہ سب سے اہم شخص ہیں۔‘‘
’’وہی ہماری پیداوار کی قیمت طے کرتی ہیں۔‘‘
پنروتی میں کٹہل کا کاروبار کرنے والی ۶۵ سالہ اے لکشمی واحد خاتون ہیں، جو کسی بھی زرعی تجارت کی گنی چنی سینئر خواتین ویاپاریوں (تاجروں) میں سے ایک ہیں۔
تمل ناڈو کے کڈلور ضلع کا پنروتی شہر اپنے کٹہلوں کے لیے کافی مشہور ہے۔ یہاں ہر سیزن میں کٹہل کے سینکڑوں ٹن پھل روزانہ خریدے اور بیچے جاتے ہیں۔ ہر سال لکشمی ہی ان ہزاروں کلو فصل کی قیمت طے کرتی ہیں جسے شہر کی کٹہل منڈی کی ۲۲ دکانوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اس کے عوض انہیں خریدار تاجر سے ہر ۱۰۰۰ روپے پر ۵۰ روپے کے حساب سے کمیشن کی رقم ملتی ہے۔ کبھی کبھی کسان انہیں کچھ پیسے الگ سے بھی دے سکتے ہیں، لیکن یہ پوری طرح سے ان تاجروں کی مرضی پر منحصر ہے۔ خود لکشمی کے اندازہ کے مطابق، کٹہل کی پیداوار کے موسم میں ان کی یومیہ کمائی ۱۰۰۰ روپے سے ۲۰۰۰ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔
اتنے پیسے کمانے کے لیے ان کو روزانہ ۱۲ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ رات کو ایک بجے ہی سو کر اٹھ جاتی ہیں۔ جلدی بیدار ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے لکشمی کہتی ہیں، ’’ سرکّو (مال) زیادہ ہوتا ہے تو تاجر مجھے لینے کے لیے گھر پہنچ جاتے ہیں۔‘‘ وہ آٹو رکشہ پر بیٹھ کر ۳ بجے کے آس پاس منڈی پہنچ جاتی ہیں۔ ان کا کام دوپہر ایک بجے کے بعد ہی ختم ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہی وہ اپنے گھر لوٹ پاتی ہیں اور کچھ کھانے پینے کے بعد تھوڑا آرام کرتی ہیں۔ کچھ گھنٹوں کے بعد انہیں دوبارہ بازار کے لیے نکلنا ہوتا ہے…
وہ مجھ سے کہتی ہیں، ’’میں کٹہل کی پیداوار کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتی۔‘‘ گھنٹوں بات چیت کرنے اور چیخنے چلانے کی وجہ سے ان کی آواز کچھ حد تک سخت ہو گئی ہے۔ وہ اپنے فطری نرم لہجے میں کہتی ہیں، ’’لیکن مجھے انہیں بیچنے کے طور طریقوں کے بارے میں تھوڑا بہت علم ہے۔‘‘ آخرکار وہ اس تجارت میں گزشتہ تین دہائیوں سے جو ہیں، اور اس سے پہلے تقریباً ۲۰ سالوں تک انہوں نے ریل گاڑیوں میں گھوم گھوم کر کٹہل بیچنے کا بھی کام کیا ہے۔
کٹہل کے ساتھ ان کا موجودہ سفر تبھی شروع ہو چکا تھا، جب وہ ۱۲سال کی تھیں۔ چھوٹی عمر کی لکشمی آدھی ساڑی پہنتی تھیں اور کری ونڈی (پیسینجر ٹرینوں) میں تھوڑے بہت پالا پڑم (کٹہل) بیچنے کا کام کرتی تھیں۔ ان دنوں ریل گاڑیوں بھاپ سے چلنے والے انجن سے چلا کرتی تھیں۔ اب ۶۵ سال کی ہو چکیں لکشمی اپنے خود کے بنائے ہوئے گھر میں رہتی ہیں، جس کے سامنے کے حصے پر ان کا نام لکھا ہے – لکشمی ولاس۔
اس گھر کو لکشمی نے دنیا کے سب سے بڑے پھل – کٹہل – کے کاروبار سے ہونی والی آمدنی سے بنایا ہے۔
*****
کٹہل کا سیزن جنوری یا فروری کے مہینے میں شروع ہوتا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ یہ موسم پورے چھ مہینے چلتا ہے۔ سال ۲۰۲۱ میں شمال مشرقی مانسون کے دوران بے موسم موسلا دھار بارش سے کٹہل کے پھول اور پھل آنے میں آٹھ ہفتے کی تاخیر ہو گئی، اور پنروتی کی منڈیوں میں کٹہل کے آتے آتے اپریل شروع ہو گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اگست تک ان کا موسم ختم بھی ہو گیا۔
عام بول چال کی زبان میں ’جیک‘ کہا جانے والا یہ پھل بنیادی طور پر جنوبی ہند کے مغربی گھاٹ کی پیداوار ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اس کا نام ملیالی لفظ چکّا سے ماخوذ ہے۔ اس کا سائنسی نام خاصا مشکل اور لمبا ہے – آرٹوکارپس ہیٹروفیلس ۔
’پاری‘ کی ٹیم ان کسانوں اور تاجروں سے ملنے پنروتی پہلی بار اپریل ۲۰۲۲ میں گئی تھی۔ تب ۴۰ سال کے کسان اور کمیشن ایجنٹ آر وجے کمار نے اپنی دکان میں ہمارا استقبال کیا تھا۔ سخت مٹی کا فرش اور گارے کی دیواروں اور پھوس کی چھت والی یہ ایک معمولی سی دکان ہے، جس کا سالانہ کرایہ انہیں ۵۰ ہزار روپے ادا کرنا ہوتا ہے۔ گاہکوں (صارفین) کی سہولت کے نام پر وہاں بس ایک بینچ اور کچھ کرسیاں رکھی ہوئی ہیں۔
پچھلے دنوں گزر چکے کسی جشن کے پرانے جھنڈے ابھی بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ دیوار پر ان کے شوہر کی ہار پہنی ہوئی ایک تصویر ٹنگی ہے، ایک ڈیسک ہے اور کٹہلوں کے کچھ چھوٹے بڑے انبار ہیں۔ دکان کے دروازہ کے قریب جو انبار ہے اس میں ۱۰۰ کٹہل رکھے ہیں اور یہ کسی چھوٹی سی سرسبز پہاڑی کی طرح نظر آ رہے ہیں۔
وجے کمار بتاتے ہیں، ’’ان کی قیمت ۲۵ ہزار روپے ہے۔‘‘ سب سے آخری انبار دو تاجروں کو فروخت کیا جا چکا ہے۔ ان میں کل ۶۰ کٹہل ہیں اور انہیں چنئی کے اڈیار جانا ہے۔ اس انبار کی قیمت تقریباً ۱۸ ہزار روپے ہے۔
کٹہل کو اخبار ڈھونے والے وین میں لاد کر چنئی بھیجا جاتا ہے، جو یہاں سے تقریباً ۱۸۵ کلومیٹر دور ہے۔ وجے کمار کہتے ہیں، ’’اگر ہمیں اپنا مال شمال کی طرف مزید آگے بھیجنا ہوتا ہے، تو ہم انہیں ٹاٹا ایس ٹرکوں سے بھیجتے ہیں۔ ہمیں دن میں کافی دیر تک محنت کرنی پڑتی ہے۔ پیداوار کے موسم میں ہم یہاں ۳ یا ۴ بجے صبح ہی پہنچ جاتے ہیں اور رات کو ۱۰ بجے تک یہاں سے فارغ ہوتے ہیں۔ کٹہل کی مانگ ہمیشہ بنی رہتی ہے۔ ہر کوئی ان کو کھاتا ہے۔ یہاں تک کہ ذیابیطس کا مریض بھی اس کے گودے کی چار سولئی (پھلی) کھا سکتا ہے۔ البتہ، ہم انہیں کھاتے کھاتے تھک جاتے ہیں۔‘‘ ایسا کہتے ہوئے وہ مسکرانے لگتے ہیں۔
وجے کمار سے ہی ہمیں یہ جانکاری ملتی ہے کہ پنروتی میں کٹہل کے کل ۲۲ تھوک تاجر ہیں۔ یہ دکان ان کے والد نے تقریباً ۲۵ سال پہلے کھولی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد گزشتہ ۱۵ برسوں سے وہ اس دکان کو چلا رہے ہیں۔ ایک دکان میں روزانہ تقریباً ۱۰ ٹن کا کاروبار ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’پورے تمل ناڈو میں پنروتی بلاک کٹہل کی پیداوار کے معاملے میں سرفہرست ہے۔‘‘ بغل کی بینچ پر بیٹھے دوسرے تاجر ان کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے اپنی اپنی گردن ہلاتے ہیں۔ دھیرے دھیرے اس بات چیت میں وہ سب بھی شامل ہو چکے ہیں۔
مرد تاجروں نے ویشٹی یا لنگی اور شرٹ پہن رکھی ہے۔ ایک ہی کاروبار میں ہونے کے سبب وہ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ وہ اونچی آواز میں بات کر رہے ہیں، بیچ بیچ میں موبائل فون کے تیز رنگ ٹون بھی سنائی دیتے ہیں، لیکن سب سے تیز آواز اُن لاریوں کے ہارن سے آ رہی ہے جو بیچ بیچ میں سامنے کی سڑک سے گزر رہی ہیں۔
۴۷ سالہ کے پٹّو سوامی، کٹہل کی پیداوار سے جڑے اپنے تجربات ہم سے شیئر کرتے ہیں۔ وہ پنروتی تعلقہ کے کٹّندی کُپّم گاؤں میں رہتے ہیں اور کٹہل کے ۵۰ درختوں کے مالک ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے پٹّہ پر ۶۰۰ درخت الگ سے لیا ہوا ہے۔ پٹّہ کی قیمت ایک لاکھ ۲۵ ہزار روپے فی ۱۰۰ درخت ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں اس کاروبار میں گزشتہ ۲۵ سالوں سے ہوں، لیکن سچی بات میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ یہ ایک جوکھم بھرا کاروبار ہے۔‘‘
پٹّو سوامی کے مطابق، اگر پیداوار اچھی بھی ہو تب بھی، ’’۱۰ کٹہل سڑ جاتے ہیں، ۱۰ پھٹ جاتے ہیں، ۱۰ کٹہل زمین پر گر جاتے ہیں، اور ۱۰ کو جانور کھا جاتے ہیں۔‘‘
زیادہ پکے ہوئے پھل فروخت نہیں ہوتے ہیں، اور انہیں جانوروں کو کھلا دیا جاتا ہے۔ اوسطاً ۵ سے ۱۰ فیصد پیداوار برباد ہو جاتی ہے۔ سبھی دکانوں پر ایک نظر ڈالیں، تو ایک دکان کا اوسطاً آدھا سے ایک ٹن مال ہر موسم میں بیکار ہو جاتا ہے۔ اور، یہ خراب ہو چکے کٹہل صرف مویشیوں کے کھانے کے کام ہی آتے ہیں۔
یوں دیکھا جائے تو مویشیوں کی طرح درخت بھی ایک طرح کی سرمایہ کاری ہیں۔ دیہی باشندوں کے لیے یہ سرمایہ کی طرح ہیں – ایک بیش قیمتی خزانہ – جنہیں منافع کے لیے یا ضرورت پڑنے پر فروخت کیا جا سکتا ہے۔ وجے کمار اور ان کے ساتھ کے دیگر تاجر بتاتے ہیں کہ جب کٹہل کے درخت کا تنا ۸ ہاتھ چوڑا اور ۷ سے ۹ فٹ لمبا ہو جاتا ہے، تب ’’اکیلے اس کی لکڑی ۵۰ ہزار روپے میں فروخت ہونے لائق ہو جاتی ہے۔‘‘
کسان اپنا درخت نہیں کاٹنا چاہتے ہیں۔ پٹّو سوامی کہتے ہیں، ’’بلکہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ درختوں کی تعداد میں اضافہ ہو، لیکن جب کسی کے علاج کی ناگہانی حالت میں یا فیملی میں شادی طے ہو جانے کی صورت میں ہمیں نقدی کی ضرورت پڑتی ہے، تب ہمیں مجبوراً کچھ بڑے درختوں کو لکڑی کے لیے بیچنا پڑتا ہے۔‘‘ اس سے دو تین لاکھ روپے تو آ ہی جاتے ہیں۔ کسی کی بیماری کی حالت سے نمٹنے یا کلیانم (شادی بیاہ) جیسے مبارک کام کرنے کے لیے اتنے پیسے کافی ہوتے ہیں…
’’یہاں آئیے،‘‘ پٹّو سوامی مجھے لے کر دکان کے پیچھے کی زمین کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ یہاں کبھی کٹہل کے سینکڑوں درخت ہوا کرتے تھے، وہ ہمیں بتانے لگتے ہیں۔ اب ہمیں وہاں صرف پالا کنّو یعنی چھوٹے پیڑ ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ زمین کے مالک نے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے سبھی درختوں کو فروخت کر دیا۔ حالانکہ، بعد میں اس نے بہت سے نئے درخت لگائے۔ چھوٹے اور نازک پیڑوں کو دکھاتے ہوئے پٹّو سوامی بتاتے ہیں، ’’یہ پیڑ ابھی صرف دو سال کے ہیں۔ ان میں جو کٹہل آئیں گے وہ اپنے درختوں سے عمر میں کچھ ہی چھوٹے ہوں گے۔‘‘
ہر سال موسم کی پہلی فصل جانوروں کے منہ کا نوالہ بن جاتی ہے۔ ’’بندر انہیں اپنے نکیلے دانتوں سے پھاڑ دیتے ہیں، اور پھر ان کی پکی ہوئی ڈلیاں نکالنے کے لیے اپنے ہاتھوں کا استعمال کرتے ہیں۔ گلہریوں کو بھی ان کا ذائقہ بہت پسند ہے۔‘‘
پٹّو سوامی کے مطابق، پٹّہ پر لیے گئے درخت زیادہ منافع بخش ہوتے ہیں۔ ’’درختوں کے اصل مالکوں کو ہر سال ایک متعینہ رقم مل جاتی ہے، اور بدلے میں انہیں ایک بھی کٹہل کاٹ کر لے جانا نہیں پڑتا۔ پوری پیداوار ایک مشت اور وقت پر بازار میں پہنچ جاتی ہے۔ دوسری طرف، میرے جیسا کوئی بڑا پٹّہ دار – جو بڑی تعداد میں درختوں کی دیکھ بھال کرتا ہے – ایک بار میں ہی ۱۰۰ یا ۲۰۰ کٹہل کاٹ کر منڈی لے جا سکتا ہے۔‘‘ درختوں کی تعداد میں اضافہ، موسم میں تبدیلی، اور اچھی پیداوار ہونے کی حالت میں پٹہ دار کو زبردست منافع ہوتا ہے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ تمام چیزیں کسانوں کے حق میں جانے کے باجود وہ قیمت طے کرنے میں کوئی رول نہیں نبھاتے ہیں۔ اگر قیمتیں ان کی مرضی سے طے ہوتیں، تو ان میں جو تین گنا مزید اضافہ ہوتا ہے، ان سے بچا جا سکتا تھا۔ مثال کے طور پر، سال ۲۰۲۲ کو ہی لے لیجئے جب ایک ٹن کٹہل کی قیمت ۱۰ ہزار سے ۳۰ ہزار روپے کے درمیان کچھ بھی طے کر دی گئی۔
وجے کمار اپنے لکڑی کے بنے ڈیسک کی دراز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’قیمت جب چڑھتی ہے، تو گمان ہوتا ہے کہ بازار میں بہت سارا پیسہ ہے۔‘‘ انہیں خریدنے اور بیچنے والے دونوں تاجروں سے الگ الگ ۵ فیصد کا کمیشن ملتا ہے۔ وہ اپنے کندھوں کو اُچکاتے ہوئے اپنی دراز کو تھپتھپانے لگتے ہیں، ’’لیکن اگر ایک فریق آپ سے بے ایمانی کرتا ہے، تو آپ کو بھاری جھٹکا اٹھانا پڑے گا۔ آپ کو یہ نقصان اپنی جیب سے چکانا ہوگا۔ یہ کسانوں کے تئیں ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔ ایسا ہونا چاہیے کہ نہیں؟‘‘
اپریل ۲۰۲۲ کے ابتدائی دنوں میں کٹہل کے کسانوں اور اس کی پیداوار کرنے والوں نے ایک سنگم (کمیٹی) بنائی۔ وجے کمار اس کے سکریٹری ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اسے بنے ابھی صرف ۱۰ دن ہی ہوئے ہیں۔ ابھی ہم نے اسے رجسٹر بھی نہیں کروایا ہے۔‘‘ انہیں اس کمیٹی سے بہت ساری امیدیں ہیں۔ ’’ہم قیمتیں خود طے کرنا چاہتے ہیں۔ ہم کلکٹر سے مل کر ان سے کسانوں اور اس صنعت کی مدد کرنے کی بھی درخواست کریں گے۔ ہم اس کی پیداوار کرنے والوں کے لیے کچھ سہولیات اور بھتے بھی چاہتے ہیں – خاص طور پر کٹہل کو برباد ہونے سے بچانے کے لیے ہم تاجروں کو بڑی تعداد میں کولڈ اسٹوریج کی ضرورت ہے۔ لیکن ان تمام مطالبات کو منوانے کے لیے ہمیں پہلے منظم ہونے کی ضرورت ہے۔ آپ خود ہی بتائیے، ہے یا نہیں؟‘‘
فی الحال، وہ اپنے پھلوں کو صرف پانچ دنوں کے لیے ہی محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ امیدوں سے بھری ہوئی لکشمی کہتی ہیں، ’’ہمیں اس مدت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘‘ ان کے حساب سے چھ مہینے تک پھلوں کی حفاظت کرنے کا انتظام کافی ہوگا۔ وجے کمار کم از کم اس سے آدھا وقت، یعنی تین مہینے تو چاہتے ہی ہیں۔ فی الحال تاجروں کو وہ پھل پھینکنے پڑتے ہیں جو فروخت نہیں ہو پائے، یا پھر انہیں خوردہ فروشوں کو دینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ وہ اپنے خوانچوں یا ٹھیلوں پر اسے سڑک کے کنارے ٹکڑوں میں کاٹ کاٹ کر بیچنے کی آخری کوشش کرتے ہیں۔
*****
صحافی اور کنڑ زبان کے انوکھے زرعی رسالہ آدیکے پتریکے کے مدیر شری پادرے کہتے ہیں، ’’کٹہل کے پھلوں کے لیے کولڈ اسٹوریج کا مطالبہ ایک اچھی سوچ ہے۔ آپ آلو یا سیب کو لمبے وقت تک بچائے رکھ سکتے ہیں، لیکن کٹہلوں پر ابھی یہ آزمایا جانا ہے۔ کٹہل کے چپس بھی اس کا موسم گزر جانے کے بعد دو مہینے تک ہی بازار میں دستیاب رہتے ہیں۔‘‘
وہ کہتے ہیں، ’’اس سے کافی فرق پڑے گا۔ ذرا سوچئے کہ اگر کٹہل کی درجن بھر مصنوعات پورے سال بازار میں ملنے لگیں، تو اس کاروبار سے جڑے لوگوں کا کتنا بھلا ہوگا!‘‘
’پاری‘ کو فون پر دیے گئے ایک انٹرویو میں پادرے، کٹہل کی پیداوار کے بارے میں کئی اہم اور ضروری نکات پر تفصیل سے اپنی رائے رکھتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ کٹہل کی پیداوار سے جڑے اعداد و شمار کی عدم دستیابی پر سوال کھڑے کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ان کی تعداد بتا پانا ایک مشکل کام ہے۔ موٹے طور پر جو اعداد و شمار دستیاب ہوتے ہیں، وہ کنفیوژن کے شکار ہیں۔ تقریباً ۱۰ سال پہلے تک اس فصل کو کوئی پوچھتا تک نہیں تھا، اور اس کی پیداوار بکھری ہوئی تھی۔ اس معاملے میں پنروتی کسی استثنیٰ کی طرح سامنے آتا ہے۔‘‘
پادرے بتاتے ہیں کہ ہندوستان کٹہل کی پیداوار میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ ’’کٹہل کا درخت ہر جگہ مل جاتا ہے، لیکن عالمی قدر کے اضافہ میں ہمارا کوئی مقام نہیں ہے۔‘‘ ملک کے اندر کیرالہ، کرناٹک اور مہاراشٹر جیسی کچھ ریاستیں اس شعبے میں تھوڑا تعاون دینے کی حالت میں ہیں، جب کہ تمل ناڈو میں تو یہ ابھی اپنی نوزائیدہ حالت میں ہے۔
پادرے کہتے ہیں کہ یہ واقعی بدقسمتی کی بات ہے، کیوں کہ یہ کئی طرح سے مفید پھل ہے۔ ’’کٹہل کے بارے میں جتنی تحقیق ہونی چاہیے تھی، بدقسمتی سے اتنی تحقیق نہیں ہوئی ہے۔ کٹہل کے ایک بڑے درخت کی پیداواری صلاحیت ایک سے لے کر تین ٹن کے درمیان کچھ بھی ہو سکتی ہے۔‘‘ ساتھ ہی ہر پیڑ میں ایسے پانچ عناصر ضرور پائے جاتے ہیں جنہیں امکانی خام مال کی طرح استعمال میں لایا جا سکے۔ سب سے پہلے بالکل چھوٹے کٹہل ہوتے ہیں، اور اس کے بعد ان سے بڑے کٹہل، جن کی سبزی بنائی جا سکتی ہے۔ پھر کچے پھلوں کی باری آتی ہے، جن سے پاپڑ اور چپس بنائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد پکے ہوئے کٹہل ہیں، جو بہت مقبول ہیں، اور سب سے آخر میں ان کے بیج آتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں، ’’انہیں وجوہات سے اسے ’سپر فوڈ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی اس کی پیداوار سے جڑا کوئی تحقیقی یا تربیتی مرکز نہیں ہے۔ اور، نہ کوئی کٹہل کا سائنس داں یا صلاح کار ہے، جیسا کہ کیلا اور آلو کی پیداوار کے شعبوں میں ہیں۔‘‘
ایک کٹہل کارکن کے طور پر پادرے ان خامیوں کو دور کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ’’میں مضمون لکھتا ہوں، معلومات جمع کرتا ہوں، اور گزشتہ ۱۵ سالوں سے لوگوں کو کٹہل کے تئیں بیدار کرنے کا کام کر رہا ہوں۔ یہ وقت اس کا تقریباً آدھا حصہ ہے جب سے ہمارا رسالہ آدیکے پتریکے (۳۴ سال) شائع ہو رہا ہے۔ ہم اب تک کٹہل پر ۳۴ سے بھی زیادہ ’کور اسٹوریز‘ شائع کر چکے ہیں!‘‘
جب پادرے ہمیں باریکی سے کٹہل کی پیداوار کے مثبت پہلوؤں – جس کی فہرست خاصی لمبی ہے، اور جس میں ہندوستان میں بنائی جانے والی لذیذ جیک فروٹ آئس کریم بھی شامل ہے – سے متعارف کرا رہے ہوتے ہیں، تب وہ اس کے بحران کو بھی چھپاتے نہیں ہیں۔ ’’کامیابی کا روڈ میپ کولڈ اسٹوریج کی ضرورت کی طرف بار بار اشارہ کر رہا ہے۔ ہماری پہلی ترجیح پکے کٹہلوں کو جما کر (فروزن کرکے) محفوظ رکھنا ہے، تاکہ وہ سال بھر بازار میں دستیاب رہیں۔ حالانکہ، یہ کام راکٹ سائنس کی طرح تیز رفتار سے ہونا ممکن نہیں ہے، لیکن ابھی تک ہم نے اس سمت میں ایک چھوٹا سا قدم بھی نہیں بڑھایا ہے۔‘‘
اس پھل کے ساتھ ایک انوکھی دقت ہے کہ باہر سے دیکھ کر آپ اس کے ذائقہ کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے ہیں۔ پنروتی جیسی جگہ کو چھوڑ دیں، جہاں کٹہل کی پیداوار پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور جہاں اس کی فروخت کا بہتر انتظام ہے، دوسری جگہوں پر اس پھل کے لیے کوئی منظم بازار نہیں ہے۔ بڑے پیمانے پر کٹہلوں کی بربادی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔
پادرے سوال کرتے ہیں کہ بیکار ہونے والے ان کٹہلوں کے لیے ہم کیا کرتے ہیں؟ ’’کیا یہ بھی غذا نہیں ہے؟ ہم صرف چاول اور گیہوں کی بربادی کو ہی اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں؟‘‘
وجے کمار کہتے ہیں کہ اس کاروبار کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ پنروتی کے کٹہلوں کو ہر جگہ بھیجا جائے – ہر ریاست میں، اور ہر ملک میں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’یہ دور دور تک پھیلنا چاہیے۔ تبھی ہم کو ان کٹہلوں کی اچھی قیمت مل سکے گی۔‘‘
چنئی میں کوئمبیڈو کے تھوک بازار والے احاطہ میں واقع انّا فروٹ مارکیٹ کے تاجروں کی بھی یہی مانگ ہے: کولڈ اسٹوریج اور کھلے میں ذخیرہ کی بہتر سہولیات۔ یہاں تاجروں کی نمائندگی کرنے والے سی آر کماراویل کہتے ہیں کہ قیمتوں میں بہت زیادہ غیر یقینی کی حالت ہے۔ کٹہل کا ایک پھل کبھی ۱۰۰ روپے میں فروخت ہوتا ہے، تو کبھی اس کی قیمت ۴۰۰ روپے بھی ہو سکتی ہے۔
’’کوئمبیڈو میں کٹہل کی نیلامی ہم ہی کرتے ہیں۔ جب پیداوار اچھی ہوتی ہے تو فطری طور پر قیمت گھٹ جاتی ہے۔ کٹہل برباد بھی بہت ہوتا ہے – کل فصل کا تقریباً ۵ سے ۱۰ فیصد۔ اگر ہم پھلوں کو محفوظ رکھ کر انہیں بیچ سکیں، تو کسانوں کو بھی اچھی قیمت حاصل ہوگی اور فائدہ ہوگا۔‘‘ کماراویل کے اندازہ کے مطابق، پھل بازار کے ۱۰ دکانوں میں روزانہ تقریباً ۵۰ ہزار روپے کی اوسط قیمت سے کٹہل کا کاروبار ہوتا ہے۔ ’’لیکن بازار کی اتنی اچھی حالت صرف کٹہل کے موسم میں رہتی ہے، یعنی سال کے تقریباً پانچ مہینے ہی رہتی ہے۔‘‘
تمل ناڈو کے زراعت اور کسانوں کی فلاح و بہبود کے محکمہ نے سال ۲۳-۲۰۲۲ کے پالیسی نوٹ میں کٹہل کی پیداوار کرنے والوں اور تاجروں کے مفادات کی حفاظت کے لیے کچھ عزم کیے ہیں۔ پالیسی نوٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’کٹہل کی پیداوار اور پروسیسنگ کے شعبے میں وسیع امکانات کا فائدہ اٹھانے کے مقصد سے ریاستی حکومت کڈلور ضلع کے پنروتی بلاک کے پنیکن کُپّم گاؤں میں پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے کٹہل کے لیے ایک مخصوص مرکز قائم کرنے جا رہی ہے۔‘‘
نوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پنروتی کے کٹہلوں کو جغرافیائی نشان (جی آئی ٹیگ) دینے کی سمت میں فیصلہ لینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، تاکہ ’’عالمی بازار میں اس کا معیار اور قیمت طے کرنے میں آسانی ہو۔‘‘
لکشمی کے لیے البتہ یہ حیرت کی بات ہے کہ ’’زیادہ تر لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ پنروتی کہاں ہے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ سال ۲۰۰۲ کی تمل فلم سولّ مرندھا کڑھائی (ایک بھولی ہوئی کہانی) کی وجہ سے یہ شہر مشہور ہوا۔ وہ فخر سے کہتی ہیں، ’’فلم کے ہدایت کار تھنگر بچن اسی علاقے کے ہیں۔ اس فلم میں آپ مجھے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جب شوٹنگ چل رہی تھی، تب بہت زیادہ گرمی تھی، لیکن پھر بھی مجھے مزہ آیا۔‘‘
*****
کٹہل کے موسم میں لکشمی کی کافی مانگ رہتی ہے۔ کٹہل کے شائقین کے پاس ان کا فون نمبر اسپیڈ ڈائل میں محفوظ رہتا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ لکشمی کے ذریعے ہی وہ صحیح پھلوں تک پہنچ سکتے ہیں۔
لکشمی یہی کرتی بھی ہیں۔ وہ نہ صرف پنروتی کی بیس سے بھی زیادہ منڈیوں سے براہ راست جڑی ہوئی ہیں، بلکہ ایسے کئی پیداوار کرنے والوں کو جانتی ہیں جو وہاں اپنی فصل بیچنے کے لیے آتے ہیں۔ وہ یہاں تک جانتی ہیں کہ کس کی فصل کب تیار ہوگی۔
یہ سب وہ اکیلے کیسے کر پاتی ہیں؟ لکشمی اس سوال کا جواب نہیں دیتیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ اس کاروبار میں تقریباً گزشتہ چالیس سالوں سے ہیں۔ یہ معلومات ان کے کام کا حصہ ہیں۔ اسی لیے وہ یہ سب جانتی ہیں۔
مردوں کے غلبہ والے کاروبار میں ایک عورت ہو کر بھی وہ کیسے آ گئیں؟ اس بار وہ اس سوال کا جواب دیتی ہیں۔ ’’آپ جیسے لوگ مجھ سے اپنے لیے پھل خریدنے کے لیے کہتے ہیں، اور میں ان کے لیے مناسب قیمتوں پر پھل خریدنے کا کام کرتی ہوں۔‘‘ وہ صحیح تاجروں کو تلاش کرنے میں کسانوں کی مدد بھی کرتی ہیں۔ انہیں دیکھ کر بھی اس کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تاجر اور کاشتکار دونوں ہی ان کے فیصلوں کی کتنی عزت کرتے ہیں۔ دونوں فریق کے لیے لکشمی نہ صرف قابل احترام ہیں، بلکہ وہ پیٹھ پیچھے بھی لکشمی کی تعریفیں کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔‘‘
وہ جس علاقے میں رہتی ہیں، وہاں آپ کو ہر کوئی ان کے گھر کا پتہ بتا سکتا ہے۔ وہ نرمی سے کہتی ہیں، ’’لیکن میرا تو کٹہل کا چھوٹا موٹا کاروبار (سلّ رئی ویاپارم) ہے۔ میری کوشش بس یہی رہتی ہے کہ میں کسانوں اور تاجروں کو واجب قیمت دلا سکوں۔‘‘
جیسے ہی کٹہلوں کا نیا انبار منڈی میں آتا ہے، لکشمی ان کی قیمت طے کرنے سے پہلے ان کی قسموں کی جانچ کرتی ہیں۔ اس کام کے لیے وہ بس ایک عدد چاقو کا استعمال کرتی ہیں۔ کٹہل میں دو چار بار چاقو گھونپنے کے بعد وہ بتا سکتی ہیں کہ کٹہل پک چکا ہے یا ابھی بھی کچا ہی ہے یا پھر اگلے دن تک کھانے لائق ہو جائے گا۔ اپنے نتیجہ پر تھوڑا سا بھی شک ہونے پر وہ دوبارہ جانچ کرتی ہیں۔ وہ کٹہل پر ایک چھوٹا چیرا لگا کر اس کی ایک پھلی باہر نکال لیتی ہیں۔ یہ جانچ بہت سخت ہوتی ہے، اور اس طریقہ کو کبھی کبھی ہی آزمایا جاتا ہے، کیوں کہ اس سے پھل میں سوراخ ہو جاتا ہے۔
’’پچھلے سال اسی سائز کا پالا جو ۱۲۰ روپے میں فروخت ہوا تھا، اس سال اس کی قیمت ۲۵۰ روپے ہے۔ قیمت بڑھنے کی وجہ اس مانسون کی برسات اور اس کے سبب پھلوں کو ہونے والا نقصان ہے۔‘‘ وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ دو مہینے کے بعد (جون میں) منڈی کی ہر ایک دکان میں ۱۵ ٹن کٹہل جمع ہو جائیں گے اور قیمتوں میں تیز گراوٹ آئے گی۔
لکشمی کا کہنا ہے کہ کٹہل کے کاروبار میں ان کے آنے کے بعد سے کافی اضافہ ہوا ہے۔ اب درختوں کی تعداد پہلے سے زیادہ ہو چکی ہے، پیداوار بھی بڑھی ہے، اور کاروبار بھی بہت بڑھا ہے۔ اس کے باوجود، کسان اپنی پیداوار ایک خاص کمیشن ایجنٹ کے پاس ہی لے کر جاتے ہیں۔ ایمانداری کے علاوہ وہ قرض، جو وہ خاص ایجنٹ تاجروں کو دلوانے میں مددگار ہوتے ہیں، بھی ایک بڑی وجہ ہیں۔ لکشمی بتاتی ہیں کہ تاجر اپنی سالانہ فصل کے عوض میں ۱۰ ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک قرض کے طور پر لے سکتے ہیں۔ اس قرض کی ’وصولی‘ فصل کی ہونے والی فروخت سے ہوتی ہے۔
ان کے بیٹے، رگھوناتھ ایک دوسری وجہ بتاتے ہیں۔ ’’جن کسانوں کے پاس پلامرم (کٹہل کے درخت) کے لیے زمین کے بڑے ٹکڑے ہیں، وہ صرف کٹہل ہی نہیں بیچتے ہیں – وہ کٹہل کی بنی دوسری مصنوعات کے ذریعے قدر میں اضافہ کرتے ہیں اور اس طرح اپنی آمدنی میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔‘‘ رگھوناتھ بتاتے ہیں کہ وہ کٹہل کے جام اور چپس بھی بناتے ہیں۔ ساتھ ہی، کچے کٹہلوں کو گوشت کے متبادل کے طور پر پکا کر سبزی بھی بنائی جاتی ہے۔
رگھوناتھ بتاتے ہیں، ’’پھلیوں کو خشک کرکے ان کا پاؤڈر بنانے والی کئی فیکٹریاں بھی ہیں۔‘‘ اس پاؤڈر کو ابال کر دلیہ یا کھچڑی کے طور پر کھایا جاتا ہے۔ پھلوں کے مقابلے یہ غذائی اشیاء زیادہ ابھی زیادہ مقبول نہیں ہو پائی ہیں۔ لیکن فیکٹری مالکوں کا ایسا ماننا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک دن یہ بھی لوگوں کی زندگی میں اپنا مقام بنا لیں گی۔
لکشمی نے جو گھر بنایا ہے وہ پوری طرح کٹہل سے ہونے والی آمدنی سے بنا ہے۔
انگلیوں کے پوروں سے گھر کا فرش چھوتی ہوئی وہ کہتی ہیں، ’’یہ گھر تقریباً ۲۰ سال پہلے بنا تھا۔‘‘ لیکن مکان کے پوری طرح تیار ہونے سے پہلے ہی ان کے شوہر چل بسے۔ وہ اپنے شوہر سے ٹرین میں کٹہل بیچنے کے دوران ملی تھیں۔ لکشمی کڈلور سے پنروتی لوٹ رہی تھیں، جہاں پلیٹ فارم پر ان کے آنجہانی شوہر کی ایک چائے کی دکان تھی۔
ان دونوں نے محبت والی شادی کی تھی۔ ان کا باہمی عشق ابھی بھی ان تصویروں میں جھلکتا ہے جنہیں انہوں نے پنروتی کے ایک پینٹر سے بنوایا تھا۔ ان کے شوہر کی تصویر بنانے کے لیے اس پینٹر نے ۷۰۰۰ روپے لیے تھے۔ ان دونوں کے ساتھ والی دو تصویروں میں سے ایک تصویر کے بدلے ۶۰۰۰ روپے ادا کیے گئے تھے۔ وہ مجے کئی قصے سناتی ہیں۔ ان کی آواز میں خراش ہے، لیکن وہ ابھی بھی جوش و توانائی سے بھری ہوئی ہیں۔ مجھے سب سے اچھی کہانی وہ لگی جو ان کے کتے کی تھی۔ ’’اتنا وفادار اور ہوشیار تھا! ہم اسے آج بھی بہت یاد کرتے ہیں۔‘‘
دوپہر کے ۲ بج رہے ہیں، لیکن لکشمی نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا ہے۔ پوچھنے پر وہ کہتی ہیں کہ اب جلد ہی وہ کچھ کھائیں گی۔ لیکن وہ بات چیت جاری رکھتی ہیں۔ فصل کے موسم میں ان کے پاس گھر کے کاموں کے لیے بالکل بھی وقت نہیں ہوتا ہے۔ گھر سنبھالنے کا کام ان کی بہو کیال ویڈی کا ہے۔
دونوں مجھے بتاتی ہیں کہ کٹہل سے وہ کیا کیا پکاتی ہیں۔ ’’اس کے بیجوں سے ہم ایک طرح کا اُپما پکاتے ہیں۔ کچے کٹہل کی پھلیوں کو ہم ہلدی پاؤڈر کے ساتھ اُبال کر اس کا گاڑھا آمیزہ بنا لیتے ہیں، پھر اُلوتَم پروپّو (کالے چنے) کے ساتھ پکانے کے بعد پسے ہوئے ناریل کے ساتھ کھاتے ہیں۔ اگر پھلیاں پھول جیسی شکل کی ہو جاتی ہیں، تب انہیں گرم تیل میں بگھار کر مرچ کے پاؤڈر کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔‘‘ کٹہل کے بیجوں کو سامبھر میں ملایا جاتا ہے، اور اس کی کچی پھلیوں کی بریانی بنتی ہے۔ پلا سے پکنے والے کھانوں کو لکشمی ’’ارومئی‘‘ یعنی بہترین اور لذیذ کہتی ہیں۔
عام طور پر لکشمی کھانے اور ذائقے کی بہت شوقین نہیں ہیں۔ وہ چائے پیتی ہیں، اور آس پاس کھانے پینے کی جو چیزیں ملتی ہیں ان پر اپنے دن کاٹ لیتی ہیں۔ انہیں ’’پریشر اور شوگر‘‘ (بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسی بیماریاں) ہیں۔ ’’مجھے صحیح وقت پر کھانا ہوتا ہے، نہیں تو میرا سر گھومنے لگتا ہے۔‘‘ اُس صبح بھی ان کو چکّر سا محسوس ہو رہا تھا۔ شاید اسی لیے وہ وجے کمار کی دکان سے اچانک نکل گئیں۔ حالانکہ، ان کا کام دیر رات تک چلتا ہے اور انہیں لمبے وقت تک کام کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود لکشمی اپنی صحت کے بارے میں کم و بیش بے فکر رہتی ہیں۔ ’’کوئی خاص فکر کی بات نہیں ہے۔‘‘
تقریباً تیس سال پہلے، جب لکشمی ریل گاڑیوں میں پھیریاں لگا رہی تھیں، تب ایک کٹہل کی قیمت ۱۰ روپے تھی۔ اب کٹہل کی قیمت ۲۰ سے ۳۰ گنا بڑھ گئی ہے۔ لکشمی کو یاد ہے کہ ٹرین کے ڈبے تب بکسہ نما ہوا کرتے تھے، اور ان کے درمیان میں کوئی راستہ نہیں ہوتا تھا۔ پھیری لگانے والوں کے درمیان جیسے کوئی معاہدہ تھا اور ایک بار میں ایک ہی پھیری والا ڈبے میں داخل ہوتا تھا۔ اس کے اتر جانے کے بعد ہی دوسرا اس میں داخل ہوتا تھا۔ ’’اس زمانے میں ٹکٹ چیک کرنے والے کرایے اور ٹکٹ کو لے کر ہنگامہ نہیں کرتے تھے۔ اس لیے ہم کہیں بھی بے فکر ہو کر سفر کرتے تھے۔ لیکن،‘‘ مجھے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے اچانک اپنی آواز دھیمی کر لی، ’’…ہم انہیں رشوت یا تحفے کے طور پر کچھ کٹہل دے دیتے تھے…‘‘
وہ پیسینجر گاڑیاں ہوتی تھیں جو بہت سست رفتار سے چلتی تھیں اور چھوٹے سے چھوٹے اسٹیشنوں پر بھی رکتی تھیں۔ گاڑی کے مسافر کٹہل خریدتے تھے۔ حالانکہ، لکشمی کی آمدنی بہت کم تھی۔ انہیں اب یہ ٹھیک ٹھیک یاد نہیں ہے کہ ایک دن میں ان کی اوسط کمائی کتنی ہوتی تھی، مگر وہ کہتی ہیں، ’’اُس زمانے میں ۱۰۰ روپے ایک بہت بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔‘‘
’’میں کبھی اسکول نہیں گئی۔ میرے ماں باپ جب مرے، تب میں بہت چھوٹی تھی۔‘‘ اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے انہیں کئی ٹرین لائنوں میں سفر کرنا پڑا – چدمبرم، کڈلور، چینگل پٹّو، وِلّو پورم۔ وہ گھوم گھوم کر پھل بیچتی تھیں۔ ’’کھانے کے لیے، میں اسٹیشن کی کینٹین سے املی چاول (ٹیمرنڈ رائس) یا دہی چاول (کرڈ رائس) خرید لیتی تھی اور ضرورت پڑنے پر میں سامان رکھنے والی جگہوں پر اپنے کٹہلوں کو رکھ کر ریل گاڑیوں میں بنے ٹوائلیٹ کا استعمال کرتی تھی۔ وہ مشکلوں سے بھرے دن تھے۔ لیکن تب میرے پاس کوئی اور متبادل تھا بھی نہیں۔‘‘
اب ان کے پاس متبادل ہیں۔ کٹہل کا موسم ختم ہو جانے کے بعد وہ گھر میں رہ کر آرام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں چنئی چلی جاتی ہوں اور وہاں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ دو یا تین ہفتے گزارتی ہوں۔ باقی وقت میں یہاں اپنے پوتے، سرویش کے ساتھ گزارتی ہوں،‘‘ پاس ہی کھیلتے اس چھوٹے بچے کو دیکھ کر ان کے چہرے پر ایک اطمینان بھری مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔
بقیہ معلومات ہمیں کیال ویڈی سے حاصل ہوتی ہیں۔ ’’وہ اپنے سبھی رشتہ داروں کی مدد کرتی ہیں۔ یہ انہیں زیورات تک بنوا کر دیتی ہیں۔ کوئی بھی جب ان سے مدد مانگتا ہے، تویہ انہیں کبھی منع نہیں کرتی ہیں…‘‘
لکشمی نے اپنی ابتدائی زندگی میں نہ جانے کتنی بار ’نہ‘ لفظ سنا ہوگا۔ لیکن اب ہمارے سامنے ایک ایسی عورت کھڑی ہے جس نے ’’سوند اوڑیپّو‘‘ (خود کی محنت) سے اپنی زندگی بدل دی۔ ان کی کہانی سننا کچھ حد تک پکے ہوئے کٹہل کی میٹھی پھلیوں کو چکھنے جیسا ہے – اتنا شاندار ذائقہ آپ کو شاید ہی کہیں اور ملے گا۔ اور، جب آپ اس کہانی کے رس میں شرابور ہوتے ہیں، تو یہ آپ کی زندگی کے بہترین تجربات میں شمار ہو جاتا ہے۔
اس تحقیقی مطالعہ کو بنگلورو کی عظیم پریم جی یونیورسٹی کے ریسرچ فنڈنگ پروگرام ۲۰۲۰ کے تحت رقم حاصل ہوئی ہے۔
کور فوٹو: ایم پلانی کمار
مترجم: محمد قمر تبریز