ہو سکتا ہے کہ مشہور ’بنارسی پان‘ کے پتّے اوڈیشہ کے گووندپور میں واقع گوجری موہنتی کے باغ سے آئے ہوں۔ گوجری کے بیٹے سناتن کہتے ہیں، ’’میں نے خود بنارس (وارانسی) میں اپنے پان کے پتّے بیچے ہیں۔‘‘ جیسا کہ ان کے دوسرے بہت سے پڑوسیوں نے کیا ہے۔ ’’ہمارے پتّے اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں اور انہیں کافی اہمیت دی جاتی ہے۔‘‘ حالانکہ، یہ پتّے صرف پان کے لیے نہیں استعمال ہوتے ہیں۔ ان پتّوں کی ادویاتی خصوصیات بھی ہیں، جیسے کہ ان کا استعمال ہاضمہ کے طور پر ہوتا ہے، اس کا تیل اینٹی سیپٹک (امراض مخالف) نوعیت کا ہوتا ہے، اور آیوروید میں چھالی یا سپاری کے ساتھ ان کا استعمال مختلف بیماریوں کے علاج میں کیا جاتا ہے۔

پان کا یہ باغ بہت چھوٹا سا ہے، ایک ایکڑ کا صرف دسواں حصہ (تقریباً ۴۳۰۰ مربع فٹ)۔ آٹھ فٹ اونچے بانس اور دیگر لکڑیوں کی قطاریں، سینکڑوں میٹر لمبی پان کی ان سبھی بیلوں کو سنبھال رہی ہیں۔ بانس کے ذریعے چاروں طرف سے گھیرے گئے اس باغ میں دیگر بیلیں بھی ہیں۔ اس کے اوپری حصے کو ڈھانپنے کے لیے کیزورائنا (کیکٹس کی جنس کا پودا) اور ناریل کی پتّیوں کی پتلی سی چھت بنائی گئی ہے۔ کیزورائنا کی پتیاں ہلکا سایہ فراہم کرتی ہیں، اس لیے ’’چھت بنانے‘‘ کے لیے موزوں ہیں – کیوں کہ پودوں کے لیے تھوڑی سی دھوپ بھی ضروری ہے۔ قطاروں کے درمیان کا فاصلہ کچھ ہی اِنچ ہوتا ہے، اس لیے کسی قطار کو پار کرنے کے لیے آپ کو ایک طرف سے چل کر جانا ہوگا۔ اسے بہت ہی مہارت کے ساتھ بنایا گیا ہے، ایسا لگتا ہے گویا کوئی ایئرکنڈیشنڈ کمرہ ہو۔

’’یہ مہارت کا کام ضرور ہے، لیکن مشکل نہیں ہے،‘‘ یہ کہنا ہے ۷۰ سال سے زیادہ کی عمر کی گوجری موہنتی کا، جو اسے آسانی سے سنبھالتی ہیں۔ اس کی ہلکی، لیکن مسلسل سینچائی کرنی پڑتی ہے۔ ایک پڑوسی کا کہنا ہے، ’’اس پر روزانہ کچھ وقت کے لیے توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ایک کمزور، بوڑھا آدمی بھی یہ سب کر سکتا ہے۔‘‘ حالانکہ، روزانہ انجام دیے جانے والے کچھ کام مشکل ہیں جن کے لیے ۲۰۰ روپے دہاڑی کا دو گنا ادا کرنا پڑتا ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق، پوسکو پروجیکٹ کے علاقہ میں پان کے تقریباً ۱۸۰۰ باغ ہیں، جب کہ یہاں کے کسان یہ تعداد ۲۵۰۰ بتاتے ہیں۔ اگر پوسکو کے ۵۲ ہزار کروڑ روپے کی بجلی اور اسٹیل پروجیکٹ کے لیے یہاں کی زمینوں کو تحویل میں لے لیا جائے، تو پان کے یہ باغ ختم ہو جائیں گے۔ سرکار کا دعویٰ ہے کہ پان کے یہ باغ جنگل کی زمین پر بنے ہیں۔ گاؤں والے، جو ۸۰ سالوں سے ان زمینبوں پر قابض ہیں، مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس زمین پر ان کے حق کو حق جنگلات قانون، ۲۰۰۶ کے تحت تسلیم کیا جائے۔

PHOTO • P. Sainath

پان کے باغ سب سے سزیادہ دِھنکیا اور گووند پور میں ہیں، اور ان دونوں ہی گاؤوں میں پان کی کھیتی کرنے والے کسان اپنی زمین کو قبضے میں لیے جانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ سناتن موہنتی سوال کرتے ہیں، ’’نوکری کون مانگ رہا ہے؟ یہاں پر صرف مزدوروں کی مانگ ہے۔ ہم سب سے زیادہ دہاڑی دیتے ہیں۔‘‘ سناتن اور گوجری نے ہم سے، کام کرتے ہوئے اور گھر پر پان کے پتوں کا کڑا (۵۰ پتّوں کا بنڈل) بناتے وقت یہ باتیں کہیں۔ ایک ایکڑ کے دسویں حصہ والے اس باغ میں وہ ایک سال میں سات یا آٹھ لاکھ پتّے اُگا سکتے ہیں، کبھی کبھی تو ۱۰ لاکھ تک۔ یہاں پر ایسے ۲۰۰۰ سے زیادہ باغ ہیں، جن میں سے کچھ تو بہت ہی بڑے ہیں، جس کا مطلب ہوا بے شمار پان کے پتّے۔ اور ان میں سے زیادہ تر کو اڑیسہ کے باہر بھیج دیا جاتا ہے۔

ریاست بھر میں اس قسم کے بے شمار باغ ہیں، اس لیے ایکسپورٹ چھوٹی مقدار میں نہیں ہوتا۔ پہلے یہ پتّے صرف بنارس جاتے تھے، لیکن اب انہیں ممبئی، ڈھاکہ اور کراچی تک ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ وہ بھی تب، جب ریاست کے تازہ اقتصادی سروے کے مطابق، اوڈیشہ سے ہونے والے کل ایکسپورٹ کا صرف صفر اعشاریہ صفر ایک حصہ ہی زرعی اور جنگلاتی پیداواروں سے آتا ہے۔ (معدنیاتی اور دھات سے بنی مصنوعات ۸۰ فیصد سے زیادہ ہیں۔) ’’اڈیشہ‘‘ لفظ کا مطلب ہے ’’کسانوں کی سرزمین؛ انوکھی بات یہ ہے ریاست کا آفیشل نام بھی یہی ہے۔ لیکن جی ایس ڈی پی (مجموعی گھریلو پیداوار) میں زراعت کا حصہ گھٹ کر ۱۸ فیصد رہ گیا ہے، حالانکہ ۶۰ فیصد سے زیادہ لوگ زراعت پر ہی منحصر ہیں۔ ساحلی علاقے کے دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کی اوڈیشہ سے سمندری مچھلیوں کے ایکسپورٹ میں بھی حصہ داری ہے، جو کہ پارادیپ بندرگاہ کی وجہ سے پہلے سے ہی بدحال ہیں۔ جٹا دھاری میں پوسکو کی مجوزہ بندرگاہ اس سیکٹر کو پوری طرح ختم کر دے گی۔

پان کی کھیتی کرنے والے کسان رنجن سوائیں بتاتے ہیں، ’’سال کی پہلی تین سہ ماہیوں میں ہمیں ہر ایک میں ۲۰ لاکھ پتّے، جب کہ آخری سہ ماہی میں تقریباً ایک لاکھ ۲۰ ہزار پتّے مل جاتے ہیں۔ کم پیداوار سردیوں کے تین مہینوں میں ہوتی ہے، لیکن اس مدت میں کوالٹی بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ قیمت بھی دو گنی ہو جاتی ہے۔‘‘

PHOTO • P. Sainath

اوڈیشہ گرام سوراج ابھیان کے جگدیش پردھان کے مطابق، ’’پہلے ۶ لاکھ پتّوں پر انہیں اوسطاً، فی ہزار پتّوں کے ۴۵۰ روپے ملتے ہیں۔ اس طرح انہیں تقریباً ۲ لاکھ ۷۰ ہزار روپے مل جاتے ہیں۔ سردیوں کے بقیہ ایک لاکھ ۲۰ ہزار پتّوں کو وہ ایک روپیہ فی پتہّ کے حساب سے بیچتے ہیں۔ یعنی، کل آمدنی ہوئی ۳ لاکھ ۹۰ ہزار روپے۔‘‘

پردھان اندازہ لگاتے ہیں کہ اس کے لیے ۴۰۰۰ ہزار سے ۵۰۰۰ مربع فٹ زمین پر سال میں ۵۴۰ کام والے دنوں کی ضرورت پڑتی ہے، جس کی مزدوری کی لاگت ہوتی ہے ڈیڑھ لاکھ روپے۔ یہاں پر ایک دن کی مزدوری ۲۰۰ روپے یا اس سے زیادہ ہے، جو کہ بھونیشور کے تعمیراتی مقامات پر ملنے والی یومیہ مزدوری سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن جو مزدور بیلوں کو اوپر اٹھانے اور انہیں باندھنے کا کام کرتے ہیں، وہ ایک دن کے ۵۰۰ روپے لیتے ہیں۔ کھاد ڈالنے والوں کو ۴۰۰ روپے ملتے ہیں۔ مٹی بھرنے اور باڑ لگانے والے دن بھر کے ۳۵۰ روپے مانگتے ہیں۔ حالانکہ یہ سارے کام سال میں کچھ ہی دن کیے جاتے ہیں۔ لیکن، پوسکو کے پروجیکٹ کے بارے میں بے زمین مزدوروں کی بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

یہاں پر اوسطاً جو مزدوری دی جاتی ہے وہ ریاست میں ۱۲۵ روپے کی منریگا کی مزدوری سے تقریباً دو گنی ہے۔ اور اس کے ساتھ اچھا کھانا بھی ملتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اخراجات بھی ہیں، جیسے آرگینک کھاد (کھَلی)، لکڑی کی بلیاں، بانس کے ٹکڑے، رسیاں اور پمپ سیٹ کا رکھ رکھاؤ۔ ان سب پر الگ سے ۵۰ ہزار روپے کا خرچ آتا ہے۔ ’’ڈُھلائی پر کوئی خرچ نہیں آتا۔ تاجر اِن پتّوں کو ہمارے گھروں سے اپنی گاڑیوں میں بھر کر لے جاتے ہیں۔ کچھ دیگر اخراجات بھی ہیں، لیکن وہ کم ہیں۔‘‘ (جیسا کہ دیہی ہندوستان میں ہر جگہ دیکھنے کو ملتا ہے، کسان اپنی لاگت میں فیملی کی محنت کو کبھی نہیں جوڑتے)۔ اس طرح، تقریباً ۲ لاکھ روپے کل خرچ کرنے کے بعد، ان کے پاس ہر سال ڈیڑھ لاکھ سے ۲ لاکھ روپے بچ جاتے ہیں۔ پردھان بتاتے ہیں، ’’اور ان میں سے کچھ کے پاس ایک سے زیادہ باغ ہیں۔‘‘ سناتن کے پاس چار ہیں۔ سال ۱۹۹۹ کے سپر سائیکلون (سمندری طوفان) کے آنے کے ٹھیک بعد کے دنوں کو اگر چھوڑ دیا جائے، تو یہاں کے زیادہ تر کسان بینک سے قرض لیے بغیر اپنی کھیتی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

PHOTO • P. Sainath

سناتن کی فیملی کے پاس پان کے باغات کے علاوہ جو تین ایکڑ زمین ہے اس پر انہوں نے درختوں، پودوں، پھلوں اور جڑی بوٹیوں کی ۷۰ قسمیں لگا رکھی ہیں۔ (وہ اپنی فیملی کے کھانے کے لیے زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر دھان اُگاتے ہیں۔) یہ بھی آمدنی کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔

اس کے برعکس، ہم ایک ایکڑ کے دسویں حصے جتنے بڑے جس کھیت میں کھڑے ہیں، ریاستی حکومت پان کے اتنے بڑے باغ کا معاوضہ ایک لاکھ ۱۵ ہزار روپے دے رہی ہے۔ سناتن کہتے ہیں، ’’تصور کیجئے کہ ہمیں کتنا نقصان ہوگا۔‘‘ باقی ہزاروں لوگوں کا بھی یہی ماننا ہے۔ ’’وہ بھی ایک ایسے پروجیکٹ کے لیے، جس کی مدت ۳۰ سال کی ہے۔ اور ہمارے جھینگے، ہماری مچھلیاں، ہماری ہوا، ہمارے اتنے زرخیز کھیت، ہمارے موسم اور ماحولیات ہمیں کون دے گا؟‘‘

’’میں اپنے چار بچوں کی پڑھائی کے لیے گزشتہ کئی برسوں میں تقریباً دس لاکھ روپے خرچ کر چکا ہوں۔ میں ایک گھر بنا رہا ہوں، جس کی لاگت اس سے تھوڑی کم ہے۔ ہمیں ان کے معاوضے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں ہمارا معاش چاہیے۔‘‘

گوجری پوچھتی ہیں، ’’کیا وہ ہمیں بیوقوف سمجھتے ہیں، جو ہم سے نوکریوں کی بات کر رہے ہیں؟ سارا کام اب مشینوں سے ہونے لگا ہے۔ آج جب ہمارے پاس موبائل فون ہیں، تو بھلا کون ڈاکخانہ جائے گا، ۵ روپے کا ٹکٹ خریدے گا اور پھر خط بھیجے گا؟‘‘

اس مضمون کا ایک ایڈیشن ۱۴ جولائی، ۲۰۱۱ کو ’دی ہندو‘ اخبار میں شائع ہوا تھا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

P. Sainath

ପି. ସାଇନାଥ, ପିପୁଲ୍ସ ଆର୍କାଇଭ୍ ଅଫ୍ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆର ପ୍ରତିଷ୍ଠାତା ସମ୍ପାଦକ । ସେ ବହୁ ଦଶନ୍ଧି ଧରି ଗ୍ରାମୀଣ ରିପୋର୍ଟର ଭାବେ କାର୍ଯ୍ୟ କରିଛନ୍ତି ଏବଂ ସେ ‘ଏଭ୍ରିବଡି ଲଭସ୍ ଏ ଗୁଡ୍ ଡ୍ରଟ୍’ ଏବଂ ‘ଦ ଲାଷ୍ଟ ହିରୋଜ୍: ଫୁଟ୍ ସୋଲଜର୍ସ ଅଫ୍ ଇଣ୍ଡିଆନ୍ ଫ୍ରିଡମ୍’ ପୁସ୍ତକର ଲେଖକ।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ ପି.ସାଇନାଥ
Translator : Qamar Siddique

କମର ସିଦ୍ଦିକି ପିପୁଲ୍ସ ଆରକାଇଭ ଅଫ୍ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆର ଅନୁବାଦ ସମ୍ପାଦକ l ସେ ଦିଲ୍ଲୀ ରେ ରହୁଥିବା ଜଣେ ସାମ୍ବାଦିକ l

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Qamar Siddique