یہ چائے کی چھوٹی دُکان ہے، اور ایک ویرانے کے وسط میں مٹی کی دیوار کا ڈھانچہ۔ ایک سادے کاغذ پر ہاتھ سے لکھی ہوئی یہ تحریر سامنے چسپاں کی ہوئی ہے، جس پر لکھا ہے:
اکشرا آرٹس اینڈ اسپورٹس
لائبریری
اِروپّوکلّاکوڈی
ایڈاملاکوڈی
لائبریری؟ یہاں جنگلوں میں اور اِڈوکّی ضلع کے ویرانے میں؟ یہ ہندوستان کے سب سے خواندہ ریاست، کیرل کی کم خواندہ جگہ ہے۔ ریاست کے قبائلی گاؤں کی پہلی منتخب کونسل کی اس آبادی میں صرف ۲۵ کنبے ہیں۔ اگر کسی کو یہاں سے کتاب چاہیے، تو اسے گھنے جنگل کے بیچ لمبا راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ واقعی میں وہ ایسا کرتے ہیں؟
’’جی، ہاں،‘‘ چائے بیچنے والے، اسپورٹس کلب آرگنائزر اور لائبریرین، ۷۳ سالہ پی وی چِنّا تھامبی بتاتے ہیں۔ ’’وہ ایسا کرتے ہیں۔‘‘ ان کی چھوٹی سی دُکان، جس پر چائے، نمکین، بسکٹ، ماچس اور دیگر سامان رہتے ہیں، ایڈاملا کوڈی کے ایک پہاڑی چوراہے پر واقع ہے۔ یہ کیرل کی دور دراز کی پنچایت ہے، جہاں آدیواسیوں کا صرف ایک گروپ، موتھاوَن بستے ہیں۔ وہاں جانے کا مطلب ہے، مونار کے قریب واقع پیٹی موڈی سے ۱۸ کلومیٹر کی پیدل مسافت۔ چِنّا تھامبی کی چائے دُکان والی لائبریری پہنچنے کا مطلب ہے، اس سے بھی زیادہ پیدل چلنا۔ ہم جب ان کے گھر پہنچے، تو اُن کی بیوی کام پر کہیں باہر گئی ہوئی تھیں۔ وہ بھی موتھاوَن ہیں۔
’’چِنّا تھامبی،‘‘ میں نے حیرانگی کے ساتھ پوچھا۔ ’’میں نے چائے پی لی ہے۔ میں سارے سامان دیکھ رہا ہوں۔ لیکن، آپ کی لائبریری کہاں ہے؟‘‘ وہ مسکراتے ہیں اور ہمیں اُس چھوٹی سی جھونپڑی کے اندر لے جاتے ہیں۔ ایک اندھیرے کونے سے وہ جوٹ کے دو بڑے تھیلے نکالتے ہیں، جن میں ۲۵ کلو یا اس سے زیادہ چاول رکھے جا سکتے ہیں۔ ان تھیلوں میں ۱۶۰ کتابیں ہیں، سبھی اُن کی اپنی دریافت ہیں۔ وہ اِن کتابوں کو احتیاط سے ایک چٹائی پر رکھتے ہیں، جیسا کہ وہ ہر دن لائبریری کے اوقات میں کرتے ہیں۔
آٹھ لوگوں کا ہمارا یہ گروپ اُن کتابوں کو حیرت و استعجاب سے کھنگالتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک ادب کا حصہ ہے، کلاسیک، یہاں تک کہ سیاسی تصنیفات پر مبنی ہے۔ کوئی المیہ پر مبنی کہانی، سب سے زیادہ بکنے والی یا چھوٹی موٹی لٹریچر کی کتاب نہیں۔ تمل رزمیہ نظم ’’سِلَپّاتھیکرم‘‘ کا ملیالم میں ترجمہ موجود ہے۔ وائیکوم محمد بشیر، ایم ٹی واسودیون نائر، کملا داس کے ذریعے تصنیف کردہ کتابیں ہیں۔ اسی طرح ایم موکندن، للتھامبیکا انتھرجنم اور دیگر کی تصنیفات ہیں۔ مہاتماگاندھی کی کتابوں کے ساتھ ہی مشہور قدامت پرست نزاعی تھوپل باسی کی کتاب ’’یو میڈ می اے کمیونسٹ‘‘ (تم نے مجھے کمیونسٹ بنا دیا) بھی موجود ہے۔
’’لیکن چِنّا تھامبی، کیا یہاں کے لوگ واقعی اِن کتابوں کو پڑھتے ہیں؟‘‘ ہم نے باہر بیٹھ کر اُن سے پوچھا۔ زیادہ تر آدیواسی گروہوں کی طرح، موتھاوَن بھی سب سے زیادہ محرومی کا شکار ہوئے ہیں، اور دوسرے ہندوستانیوں کے مقابلے ان کے یہاں بیچ میں ہی تعلیم چھوڑنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ جواب میں، وہ لائبریری کا رجسٹر نکالتے ہیں۔ یہاں سے کتابیں لے جانے اور واپس لوٹانے کا یہ ایک مکمل ریکارڈ ہے۔ اس آبادی میں بھلے ہی ۲۵ کنبے رہتے ہوں، لیکن ۲۰۱۳ میں یہاں سے ۳۷ کتابیں لے جائی گئیں، جو کہ یہاں پر رکھی کل ۱۶۰ کتابوں کا ایک چوتھائی ہے، جو کہ کتابیں لے جانے کی ایک اچھی شرح ہے۔ اس لائبریری کا ممبر بننے کے لیے صرف ایک بار ۲۵ روپے دینے پڑتے ہیں اور ہر ماہ ۲ روپے۔ کتاب لے جانے کے لیے آپ کو الگ سے کوئی رقم ادا نہیں کرنی پڑتی۔ چائے مفت میں ملتی ہے، کالی اور بغیر چینی کے۔ ’’لوگ پہاڑوں سے تھکے ہوئے یہاں آتے ہیں۔‘‘ صرف بسکٹ، نمکین اور دیگر سامانوں کے لیے پیسے دینے پڑتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ بھی مفت مل جاتا ہے، اگر کوئی یہاں کھانا کھائے تو۔
کتاب لے جانے اور واپس لوٹانے، لے جانے والے کا نام، یہ تمام چیزیں ان کے رجسٹر میں صاف صاف درج ہیں۔ ایلانگو کی ’’سِلپّاتھیکرم‘‘ ایک سے زیادہ بار لے جائی گئی ہے۔ اس سال مزید اور کتابیں یہاں سے لی جائی گئی ہیں۔ یہاں کے جنگلوں میں معیاری ادب پھل پھول رہا ہے، جس کی آبیاری محرومی کا شکار ایک آدیواسی گروپ کر رہا ہے۔ یہ ہوشمندی کا کام تھا۔ میرے خیال سے، خود ہم میں سے کچھ، اپنے شہری ماحول میں لوگوں کی پڑھنے کی عادت کے کم ہونے پر شرمندہ تھے۔
ہمارا گروپ، جس کے کئی ممبر صرف لکھ کر کما رہے ہیں، اپنی انا کو مزید کم کرنے میں کامیاب رہا۔ نوجوان وشنو ایس، کیرل پریس اکیڈمی کے جرنلزم کے تین طالب علموں میں سے ایک جو ہمارے ساتھ سفر کر رہے تھے، کو کتابوں کے اس انبار میں سے ایک الگ قسم کی ’کتاب‘ ملی۔ لائن دار کاپی، جس کے کئی صفحات ہاتھ سے لکھے ہوئے تھے۔ اس پر اب تک کوئی عنوان درج نہیں ہے، لیکن یہ چِنّا تھامبی کی خودنوشت ہے۔ وہ پشیمانی کے ساتھ کہتے ہیں کہ وہ ابھی بہت زیادہ کچھ نہیں لکھ پائے ہیں۔ لیکن وہ اس پر کام کر رہے ہیں۔ ’’کم آن، چِنّا تھامبی۔ اس میں سے کچھ ہمیں بھی پڑھ کر سنا دیجیے۔‘‘ یہ لمبا نہیں تھا، اور یہ ادھورا تھا، لیکن کہانی بخوبی بیان کی گئی تھی۔ یہ ان کی سماجی اور سیاسی بیداری کی پہلی داستان پر مشتمل ہے۔ اس کی شروعات، مہاتما گاندھی کے قتل کے واقعہ سے ہوتی ہے، جب مصنف کی عمر صرف ۹ سال تھی، اور اس قتل کا ان پر جو کچھ اثر ہوا تھا۔
چِنّا تھامبی بتاتے ہیں کہ ان کی خواہش تھی کہ وہ ایڈاملاکوڈی واپس لوٹیں اور مرلی ’ماش‘ (ماسٹر یا ٹیچر) کے ذریعے اپنی لائبریری قائم کریں۔ مرلی ’ماش‘ ان علاقوں کی ایک معروف شخصیت اور ٹیچر ہیں۔ وہ خود ایک آدیواسی ہیں، لیکن دوسرے قبیلہ سے۔ وہ اپنی پنچایت سے باہر منکولام میں رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ موتھاوَن کے درمیان کام کرتے ہوئے اور ان کے لیے وقف کر دیا ہے۔ ’’ماش نے مجھے اس کام میں لگایا،‘‘ چنا تھامبی کہتے ہیں، اس دعوے سے انکار کرتے ہوئے کہ وہ کچھ خاص کر رہے ہیں، حالانکہ وہ ایسا کر رہے ہیں۔
ایڈاملاکوڈی، جہاں یہ آبادی اس قسم کی ۲۸ آبادیوں میں سے ایک ہے، میں ۲،۵۰۰ سے بھی کم لوگ رہتے ہیں۔ پوری دنیا میں موتھاوَن کی صرف اتنی ہی آبادی ہے۔ چند سو لوگ ایروپو کلا کوڈی میں رہتے ہیں۔ ایڈاملاکوڈی، جو چند سو مربع کلومیٹر جنگلات پر مشتمل ہے، ایسی پنچایت ہے، جہاں ریاست کے سب سے کم ووٹر رہتے ہیں، مشکل سے ۱،۵۰۰۔ یہاں سے باہر نکلنے والے راستے کو ہمیں چھوڑنا پڑے گا، کیوں کہ ہم نے یہاں سے تمل ناڈو کے والپاری جانے کے لیے جو ’شارٹ کٹ‘ راستہ چُنا تھا، اس پر اب جنگلی ہاتھیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔
اس کے باوجود، یہاں چِنّا تھامبی بیٹھے ہوئے ہیں، جو کہیں بھی موجود سب سے ویران لائبریریوں میں سے ایک کو چلا رہے ہیں۔ اور وہ اسے فعال بنائے ہوئے ہیں، وہ پڑھائی اور ادب کے شائقین غریب لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ اور انھیں چائے، نمکین دینے کے علاوہ میچ بھی سپلائی کر رہے ہیں۔ ہمارا گروپ ویسے تو شور شرابہ کرتا رہتا ہے، لیکن ہم نے خاموشی کے ساتھ وہاں سے وداعی لی، ان کے اس جذبہ اور لگن نے ہمیں کافی متاثر کیا۔ ہماری آنکھیں اب دھوکہ دینے والے آگے کے لمبے راستے پر تھیں، جب کہ دماغ بے مثالی لائبریرین پی وی چِنّا تھامبی کی جانب لگا ہوا تھا۔
یہ مضمون سب سے پہلے یہاں شائع ہوا تھا: http://psainath.org/the-wilderness-library/
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)