’’اگر میری انگلیاں ووٹ ڈالنے کے لیے ٹھیک ہیں، تو پھر یہ آدھار کارڈ کے لیے ٹھیک کیوں نہیں ہیں؟‘‘ ۵۱ سالہ پاروتی دیوی اپنا انتخابی فوٹو شناختی کارڈ (ای پی آئی سی) جسے عام طور پر ووٹر آئی ڈی کارڈ کے نام سے جانا جاتا ہے، دکھاتے ہوئے کہتی ہیں۔ اس کا استعمال انھوں نے ۱۹۹۵ سے اب تک ہر الیکشن میں اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے کیا ہے۔
پاروتی کی انگلیاں کوڑھ کے مرض کی وجہ سے، جو انھیں تین سال پہلے ہوا تھا، خراب ہو گئی ہیں۔ اس مرض نے، قومی سطح پر کوڑھ کے خاتمہ کا پروگرام کی سالانہ رپورٹ ۲۰۱۶۔۱۷ کے مطابق، ۸۶ ہزار ہندوستانیوں کو متاثر کیا ہے۔ یہ تو صرف ریکارڈ پر موجود معاملے ہیں۔ عالمی صحت تنظیم کہتی ہے کہ عالمی سطح پر ہر سال پانچ میں سے تین سے زیادہ جن متاثرین کا پتہ چلتا ہے وہ ہندوستان میں ہیں۔
اس کی وجہ سے آدھار حاصل کرنے کی ان کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں، انھیں بتایا گیا ہے کہ اس جادوئی کارڈ سے وہ ریاستی حکومت کا ۲۵۰۰ روپے کا معذوری پنشن اپنی جسمانی حالت کی بناپر پانے کی اہل ہیں۔
’’دو سال پہلے، میرے بیٹے نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر میرے پاس آدھار ہو تو میں پنشن حاصل کر سکتی ہوں۔ تبھی سے، میں نے اس کارڈ کو حاصل کرنے کی کوشش بار بار کی ہے۔ لیکن وہ تمام لوگ کہتے ہیں کہ صحیح انگلیوں کے بغیر، میں اسے حاصل نہیں کر سکتی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
’لیکن میرے جیسے لوگوں کو آدھار کیوں نہیں دیا جا رہا ہے جن کے ہاتھ بھگوان نے ہماری کسی غلطی کے بغیر چھین لیے ہیں؟ کیا ہم وہ نہیں ہیں جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے؟‘ وہ حیرانی سے پوچھتی ہیں
آدھار کارڈ – ۱۲ عدد والے اس ہمہ گیر شناختی نمبر پروگرام کو یونیک آئڈنٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا نے ۲۰۰۹ میں شروع کیا تھا اور تب سے بے شمار خدمات اور اسکیموں سے جوڑ دیا گیا ہے – کے لیے پاروتی کی جدوجہد انھیں ہر جگہ لے کر گئی۔ مایاوتی کالونی – لکھنؤ کے چنہٹ بلاک کی جھگیاں جہاں وہ رہتی ہیں – کے مقررہ آدھار وینڈرس سے لے کر بلاک آفس تک، وہ ہر جگہ گئیں۔ ’’مجھے بتایا گیا کہ میرے ہاتھ [فنگر پرنٹنگ] مشین پر رکھنے کے لیے درست نہیں ہیں۔ اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے میں اپنا الیکشن [ووٹر آئی ڈی] کارڈ بھی لے جاتی ہوں، لیکن اسے نہیں مانا جاتا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے جب کہ میں ایک ہی شخص ہوں؟‘‘ وہ حیران ہیں۔
پاروتی تقریباً ۳۰ سال پہلے، جگدیش مہتو سے شادی کرنے کے بعد، بہار کے مظفر پور ضلع کے بریٹھا اُدے نگر گاؤں سے ہجرت کرکے لکھنؤ آ گئی تھیں۔ اور تبھی سے، وہ کوڑا چننے کا کام کرتی رہیں، شہر کے کوڑے دانوں سے پلاسٹک، لوہا، کاغذ، اور شیشہ چنتیں۔ اس کام کو کرتے ہوئے انھوں نے چھ بچوں کو جنم دیا، جن کی عمر اب ۱۱ سال سے ۲۷ سال تک ہے، ہر بچے کی پیدائش کے لیے انھوں نے چند دنوں سے زیادہ چھٹی نہیں لی۔ اور کچرے کو کباڑیوں کو بیچ کر روزانہ ۵۰ روپے سے ۱۰۰ روپے تک کمائے۔ ان کا دن صبح ۴ بجے شروع ہوتا اور رات میں ۱۱ بجے ختم ہوتا جب وہ اپنے گھر کے سارے کام کو پورا کر لیتیں۔
اب، زیادہ تر دن، وہ اپنے گھر کے باہری کمرے میں لکڑی کے تختے پر بیٹھ کر، ایک پردہ کے پیچھے سے دنیا کو گزرتے ہوئے دیکھتی رہتی ہیں۔ کئی دن ایسے بھی ہوتے ہیں جب وہ خود کو بیکار محسوس کرتی ہیں، اور چند گھنٹے کوڑے چننے کے لیے باہر نکل پڑتی ہیں۔
’’میں گھر کا سارا کام اکیلے کیا کرتی تھی۔ اب میں راشن بھی نہیں اٹھا سکتی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ پاروَتی کے پاس انتیودیہ کارڈ ہے، جو ان کی فیملی کو پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم (پی ڈی ایس) سے رعایتی قیمتوں پر ۳۵ کلوگرام اناج (۲۰ کلو گیہوں اور ۱۵ کلو چاول) حاصل کرنے کا اہل بناتا ہے۔ آدھار کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے، پاروَتی اب پی ڈی ایس راشن کی دکان پر اپنی پہچان کی تصدیق نہیں کر سکتی ہیں۔
’’میں پاروَتی کو تب سے جانتا ہوں جب وہ یہاں آئی تھیں۔ لیکن ضابطوں پر عمل کرنا ضروری ہے،‘‘ راشن کی دکان کے مالک پھول چند پرساد ہم سے کہتے ہیں جب وہ سُرجی ساہنی کی انگلی کے نشان کا میل کرانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ سُرجی ساہنی سبزی فروش ہیں، جن کے پاس آدھار کارڈ ہے اور وہ پاروَتی کے پڑوسی ہیں۔ ’’مشین جیسا کہتی ہے ہمیں ویسا ہی کرنا پڑتا ہے،‘‘ وہ بڑ بڑاتے ہیں، دوسری طرف سُرجی چھوٹے کام چلاؤ پر الگ عدد ڈالتے ہیں جو میل کھانے پر منظوری کی ہلکی آواز نکالتا ہے۔ (اس میں وقت لگتا ہے، کیوں کہ سُرجی کی انگلیوں کے پور دن بھر سبزیاں چھیلنے کی وجہ سے گھس جاتے ہیں)۔
پاروَتی کو راشن تبھی مل سکتا ہے جب ان کے ساتھ فیملی کا کوئی اور ممبر آئے – جس کی انگلیوں کے نشان سب کچھ طے کرنے والی مشین پر میل کھا جائیں۔ راشن کی دکان پر پاروَتی کا جانا پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے۔ پاروَتی کی دو بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے اور وہ ممبئی میں رہتی ہیں۔ دو بیٹے اپنی بہنوں کے گھر اور ماں کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، لیکن بے روزگار ہیں۔ ان کے شوہر گھر سے پانچ کلومیٹر دور ایک میرج ہال میں ۳۰۰۰ روپے ماہانہ پر چوکیدار کا کام کرتے ہیں۔ انھیں مہینہ میں دو دنوں کی چھٹی ملتی ہے، جس میں سے ایک دن راشن کی دکان کی قطار میں کھڑے ہونے میں ختم ہو جاتا ہے۔ ایک اور بیٹا، ۲۰ سالہ رام کمار بھی کوڑا چنتا ہے اور کام چھوٹنے پر ناراض ہو جاتا ہے۔ سب سے چھوٹا بیٹا ۱۱ سال کا ہے، جس کا نام اتفاق سے رام آدھار ہے، اسے پرائیویٹ اسکول سے اپنی پڑھائی اس لیے چھوڑنی پڑی، کیوں کہ فیملی اس کی ماہانہ ۷۰۰ روپے کی فیس ادا نہیں کر سکتی تھی۔ اس نے کارڈ کے لیے درخواست دی ہے، لیکن ابھی تک اسے ملا نہیں ہے۔
’’یہ آدھار ایک اچھی چیز ہونی چاہیے۔ لیکن یہ میرے جیسے لوگوں کو کیوں نہیں دیا جا رہا ہے جن کی انگلیاں بھگوان نے بغیر ان کی کسی غلطی کے لے لی ہیں؟ کیا ہم وہ نہیں ہیں جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے؟‘‘ پاروَتی ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہتی ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)