عمر کی ۷۰ویں دہائی میں یہ اسٹرا بیری کے ایک کسان ہیں۔ پرانے مہا بلیشور میں اپنی تین ایکڑ زمین کی سینچائی کے لیے انھوں نے جو کنواں کھودا تھا، وہ اب پوری طرح خشک ہو چکا ہے۔ اب وہ اور ان کی بیوی اپنے کھیتوں کو زندہ رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کے بورویل میں چونکہ تھوڑا پانی بچا ہے، جس سے ان کا کام چل جاتا ہے۔ لیکن اس پانی میں سے بھی وہ تھوڑا پانی مفت میں اس مندر کو دے دیتے ہیں، جو کہ ان کی زمین کے قریب ہی بنا ہوا ہے۔ قحط کی خطرناک صورتِ حال ان کی فصل کو تو نقصان پہنچاتی ہے، لیکن ان کی فراخدلی کو نہیں۔ ان کا نام یونس اسماعیل نالابند ہے، اور وہ اپنا یہ پانی کرشنا مائی مندر کو خوشی خوشی دے دیتے ہیں۔ یہ مندر سَتارا ضلع میں کرشنا ندی کے ذریعہ (ابتدائی نقطہ) کی سب سے پرانی علامت ہے۔

’’کیا یہ واقعی میرا پانی ہے؟‘‘ وہ سوال کرتے ہیں۔ ’’یہ تو اوپر والے (اللہ) کی نعمت ہے، کیوں؟‘‘ اپنے عمر کی ۷۰ویں دہائی میں چل رہیں ان کی بیوی، روشن نالابند بھی حمایت میں سر ہلاتی ہیں۔ یہ دونوں چھوٹے چھوٹے ڈبّوں میں اپنے اسٹرابیری کو پیک کر رہے ہیں۔ ’’تاجر انہیں لینے کے لیے یہاں آئیں گے،‘‘ روشن کہتی ہیں۔ ’’قحط کی وجہ سے اس سال قیمتیں زیادہ ہیں، لیکن یہ کم تر فصل کی معمولی پیداوار ہے۔‘‘ پانی کی قلت انہیں کیسے نقصان پہنچا رہی ہے، اس کے بارے میں وہ دونوں، بغیر اپنا کام روکے ہوئے، بتاتے ہیں۔ صرف روشن ایک منٹ کے لیے اپنا کام روکتی ہیں، تاکہ ہمیں پانی پلا سکیں اور کچھ کھانے کے لیے دے سکیں۔


02-PS-Source the rivers, scams of the rulers.jpg


03-SAI_1122-PS-Source the rivers, scams of the rulers.jpg

یونس نالابند اور ان کی بیوی روشن نالا بند: چھوٹے کسان ہیں، جو اپنے تین ایکڑ کھیت پر خاص طور سے اسٹرا بیریز اُگاتے ہیں۔ نیچے: ان کا پوری طرح خشک ہو چکا کنواں


کرشنا مائی کا کُنڈ (مندر کا حوض) اکثر خشک رہتا ہے اور تبھی بھرتا ہے، جب اس میں نالابند کے بورویل سے پانی ڈالا جاتا ہے۔ اس موسم میں یہ حوض خشک ہو چکا ہے۔ کرشنا مائی کا یہ مندر پنچ گنگا مندر سے چند منٹوں کے فاصلے پر واقع پر، جہاں عقیدت مندوں کا تانتا لگا رہتا ہے۔ پنچ گنگا مندر کو کرشنا اور دیگر چار ندیوں: کوئنا، وینا، ساوِتری اور گایتری، کا علامتی ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے حقیقی ذرائع یہاں سے زیادہ دورنہیں ہیں۔ خود کرشنا مائی وائی مہابلیشور علاقہ کا شاید سب سے پرانا مندر ہے۔ اس چھوٹے سے مندر کو مقامی باشندے ندی کی دیوی کے روپ میں دیکھتے ہیں۔


03-SAI_1099-PS-Source the rivers, scams of the rulers.jpg

پرانے مہابلیشور میں کرشنا مائی مندر: اس کے سامنے جو ’کُنڈ‘ ہے اسے لوگوں نے اپنی پوری زندگی میں شاید پہلی بار خشک ہوتے ہوئے دیکھا ہے


میں نے اپنے دوست اور ساتھی جے دیپ ہاردیکر کے علاوہ دیگر صحافیوں کے ساتھ مئی کے مہینہ میں مہاراشٹر کے مختلف اضلاع کا دورہ کیا اور ہر ضلع میں متعدد ندیوں کے ذرائع، چاہے وہ علامتی ہوں یا حقیقی، انھیں بھی دیکھا۔ ہم ہر ندی کے آس پاس رہنے والے کسانوں، مزدوروں اور دیگر لوگوں سے مل کر بات چیت کرنا چاہتے تھے۔ ہم ان سے یہ سننا چاہتے تھے کہ پانی کا یہ قحط (جو موسمیاتی محکمہ کی اطلاع سے کہیں زیادہ خطرناک صورتِ حال اختیار کر چکا ہے) ان کی زندگیوں کو کیسے متاثر کر رہا ہے۔

عام طور پر گرمی کے موسم میں ندیوں کے کچھ حصے خشک ہو جاتے ہیں، لیکن اب یہ عالم ان علاقوں کا بھی ہے، جہاں سے ان ندیوں کی ابتدا ہوتی ہے، ان خطوں میں بھی جہاں یہ پہلے کبھی نہیں خشک ہوتی تھیں۔ ’’مہاراشٹر کی وہ ندیاں جو پہلے ہمیشہ بہا کرتی تھیں، اب وہ موسمی ندی بن گئی ہیں۔‘‘ یہ بات ہمیں پروفیسر مادھو گاڈگل نے بتائی، جو ویسٹرن گھاٹس ایکولوجی ایکسپرٹ پینل کی قیادت کر چکے ہیں۔ ماہر ماحولیات اور مصنف پروفیسر مادھو گاڈگل بتاتے ہیں کہ ’’اس کی کئی وجہوں میں سے ایک ان ندیوں پر بڑے پیمانے پر بند کی تعمیر اور ان کے دہانوں پر دیگر سرگرمیاں ہیں۔‘‘

نارائن زاڈے کہتے ہیں، ’’چھ دہائیوں میں، میں نے کرشنا مائی کے کُنڈ کو کبھی خالی اور خشک نہیں دیکھا۔‘‘۔ یہ اس خطہ میں ہے، جہاں سالانہ اوسط بارش قریب دو ہزار ملی میٹر ہوا کرتی ہے۔‘‘ زاڈے، جو کہ ایک ریٹائرڈ ٹورِسٹ گائڈ اور مہاجر کامگار ہیں، اپنا سارا دن اسی مندر کے آس پاس بیٹھ کر گزارتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات پوری طرح صاف ہے کہ قحط کا تعلق پوری طرح سے بارش سے نہیں ہے۔ وہ سیاحوں اور باہری لوگوں سے کہتے ہیں کہ ’’آپ لوگوں کو‘‘ اس کا زیادہ جواب دینا ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگلوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی ہوئی ہے، لیکن یہ کٹائی مقامی لوگوں کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے۔ اگر یہاں ہم میں سے کوئی چند شاخوں کو کاٹ لیتا ہے، تو اسے جیل جانا پڑتا ہے۔ لیکن باہر سے آنے والے لوگ عمارتی لکڑی کاٹتے ہیں اور انھیں ٹرکوں پر لاد کر لے جاتے ہیں، پھر بھی ان کا کچھ نہیں بگڑتا۔‘‘ زاڈے ایک ٹورسٹ گائڈ بھی رہ چکے ہیں، لہٰذا وہ بتاتے ہیں کہ بے ضابطہ سیاحت نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے: ’’۔۔۔ کافی ریسارٹس اور ہوٹل بن چکے ہیں‘‘ جس کی وجہ سے ہریالی کو مزید نقصان پہنچ رہا ہے۔ اب، وہ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ سیاح کرشنا مائی اور پنچ گنگا مندر کا رخ کریں۔


04-Narayan-Zade-at-Krishnamai-temple-May-2016-PS-Source the rivers, scams of the rulers.jpg

کرشنا مائی مندر کے پاس بیٹھے ہوئے نرائن زاڈے۔ وہ جنگلات کی کٹائی، بھیڑ بھاڑ اور دیگر سرگرمیوں  کے لیے باہری لوگوں (آپ لوگوں) کو قصوروار ٹھہراتے ہیں، جس کی وجہ سے پانی کا بحران ہو رہا ہے


مندر کا سامنے کا دالان وہ جگہ ہے، جہاں سے ڈھوم بلکا واڈی ڈَیم (بند یا باندھ) کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں اب بھی تھوڑا پانی بچا ہے، لیکن جتنا ہونا چاہیے، اس سے کہیں کم، سال کے اس مہینہ میں بھی۔ برسوں سے باندھ کی تعمیر اور ندیوں کے پانی کے رخ کو موڑنے سے برا اثر پڑا ہے۔ لِفٹ اِرّی گیشن (سینچائی) اسکیموں کو لے کر بھی پس و پیش کی کیفیت ہے کہ وہ کبھی مکمل ہو بھی پائیں گی یا نہیں۔ صوبہ کے ’’سینچائی گھوٹالہ‘‘ کی یہ بنیادی وجہ ہے۔

ان بیوقوفانہ اسکیموں سے جن چند گاؤوں کو فائدہ پہنچنا تھا، جو کہ انہیں کبھی پہنچا نہیں، وہ سارے گاؤوں سَتارا کے کھاٹَو اور مان تحصیلوں میں ہیں۔ اس ضلع کے نیر باندھ اور جھیل سے زیادہ تر گاؤوں کو پینے اور سینچائی کا پانی سپلائی ہونا تھا، لیکن گنّے کے کسانوں نے پانی کی اِس سپلائی کو پاس کے صرف ۱۹ گاؤوں تک محدود کر دیا۔ نیر کرشنا مائی سے ندی کے پانی کے بہاؤ کی جانب نیچے تقریباً ۸۰ کلومیٹر دور واقع ہے۔


05-SAI_1147-EV-PS-Source the rivers, scams of the rulers.jpg

سَتارا ضلع کی نیر جھیل اور باندھ: یہاں تک کہ پینے کا جو پانی تھا، اسے بھی گنّے کے کسانوں نے پاس کے ۱۹ گاؤوں تک محدود کر دیا


مان اور کھاٹو کے علاوہ، یہاں کی دیگر نہایت خشک ۱۱ تحصیلیں تین ضلعوں ۔۔۔ سَتارا، سانگلی اور شعلہ پور میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان تحصیلوں کے لوگ ہر سال ’دُشکال پریشد‘ (قحط کونسل) بلاتے ہیں۔ ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ میڈیکل آفیسر، ڈاکٹر ماروتی رام کرشن کاتکر اس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’’وہ دیگر چیزوں کے علاوہ ایک ’مان دیش‘ کا مطالبہ کر رہے ہیں، ان ۱۳ تحصیلوں پر مشتمل ایک علاحدہ ’قحط ضلع‘ کی تشکیل۔‘‘

بقول کاتکر،’’ان کے موجودہ ضلعے انہیں اپنی بات کہنے کا کوئی موقع نہیں دیتے۔‘‘ لیکن نئے ضلع کی تشکیل کے لیے علاحدگی سے ان کا کیا فائدہ ہوگا؟ پرانے ضلع انہیں خود سے الگ کرکے خوشی محسوس کریں گے اور ان کی کم جوابدہی بھی ہو جائے گی، واقعی میں؟ وہ نئے ’قحط ضلع‘ تحریک کے لیڈروں میں سے ایک، پروفیسر کرشن اِنگولے، سے ہماری فون پر بات کراتے ہیں۔ اِنگولے کہتے ہیں کہ اس خطہ کے عوام کے مشترکہ مفادات انہیں ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں اور نیا ضلع بننے سے ان کی بات منوانے کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔

’’یہ تحصیلیں سمندر کی سطح سے تقریباً ایک ہزار فیٹ کی اونچائی پر واقع ہیں اور یہاں بارش بھی کم ہوتی ہے،‘‘ کاتکر بتاتے ہیں۔ ’’ہمارے یہاں سال میں ۳۰ دنوں سے بھی کم بارش ہوتی ہے۔ ہمارے علاقے کے زیادہ تر لوگ دوسری جگہوں پر ہجرت کر چکے ہیں۔ مہاجرین میں سونے اور چاندی کے کامگار بھی شامل ہیں، جو پیسہ کماکر واپس بھیجتے ہیں، جس سے مقامی معیشت چل رہی ہے۔‘‘

پانی کا بحران پچھلے ایک یا دو سال کا نہیں ہے۔ نہ ہی یہ کوئی واحد قحط ہے۔ یہ قطح دہائیوں کا نیتجہ ہے، جو کہ انسانی کرتوتوں کی وجہ سے آیا ہے۔ پُنے کے ریٹائرڈ آبپاشی انجینئر شرد مانڈے سوال کرتے ہیں، اس سے نمٹنے کا کوئی طویل مدتی قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ وہ اپنے سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں، ’’باندھوں کی مدت ۸۰۔۹۰ سال ہوتی ہے۔ پائپ لائنوں کی مدت ۳۵۔۴۰ سال ہوتی ہے۔ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی مدت تقریباً ۲۵۔۳۰ سال۔ پمپنگ مشینری کی مدت، ۱۵ سال۔ لیکن وزیر اعلیٰ کی مدتِ کار پانچ سال ہوتی ہے۔ طویل مدتی کارروائی کے لیے آپ کو کوئی کریڈٹ نہیں ملتا۔ صرف اسی کا کریڈٹ آپ کو ملتا ہے، جو آپ فوری طور پر کرتے ہیں۔‘‘

سال ۲۰۰۰ سے ۲۰۱۰ کے بیچ کے سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صوبے کی سینچائی استطاعت میں صرف صفر اعشاریہ ایک فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ وہ بھی، ۷۰ ہزار کروڑ روپے اسی دہائی کے دوران آبپاشی پر خرچ کرنے کے بعد۔ چِتیل کمیٹی کی تحقیقات نے پتہ لگایا کہ اس میں سے آدھے سے زیادہ اُن بیکار اسکیموں پر خرچ کیا گیا ہوسکتا ہے۔

مہاراشٹر میں، سرکاری اور حقِ اطلاع قانون کے تحت حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، باندھ بنانے کو جب منظوری مل جاتی ہے، تو اس کے ایک ماہ کے اندر اس کی لاگت میں ۵۰۰ فیصد تک کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ یا پھر چھ مہینوں کے اندر تقریباً ایک ہزار فیصد کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ کم از کم ۷۷ پروجیکٹوں پر ۳۰ سال سے ’’نفاذ کا عمل‘‘ جاری ہے۔ ان پر لگنے والی کل لاگت، اگر ہندوستان کے چھوٹے صوبوں کے کل بجٹ کو ملا دیا جائے، تو اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔

مہاراشٹر میں زیرِ زمین پانی کی سطح میں بھی لگاتار گراوٹ آ رہی ہے۔ یہاں پر کل آبپاشی کے ۶۵ فیصد کا بنیادی ذریعہ یہی ہے۔ اپریل ۲۰۱۶ میں صوبہ نے بورویل کی کھدائی ۲۰۰ فیٹ سے زیادہ کرنے پر پابندی لگا دی ہے، جو کہ تین دہائیوں کے بعد اتنی دیر سے اٹھایا گیا قدم ہے۔

کرشنا ندی کے آس پاس کے علاقوں میں پینے کے پانی کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن یہ اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اس ندی کا زیادہ تر پانی تعمیراتی کاموں میں خرچ کر دیا جاتا ہے۔ گاؤں سے شہروں کی طرف، اور پھر زراعت سے صنعت کی طرف پانی کے رخ کو موڑا جا رہا ہے۔

زراعت میں بھی، زیادہ تر پانی پر گنّے کا قبضہ ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ نیر جھیل کا پانی، جو پینے کے لیے تھا، اسے بھی اس فصل کو دے دیا گیا۔ مہاراشٹر میں گنے کی کل کھیتی کا دو تہائی حصہ قحط والے علاقوں میں اُگایا جاتا ہے۔ جہاں تک چینی کی فیکٹریوں کا تعلق ہے، ’’پلیز انہیں یہ نہ کہیں،‘‘ مانڈے زور دار آواز میں کہتے ہیں۔ ’’یہ ایم ایل اے فیکٹریاں ہیں، کیوں کہ ان سے وہی پیدا ہوتے ہیں۔‘‘

گنّے کے ایک ایکڑ کھیت میں ایک سال کے اندر ۱۸۰ ایکڑ انچ پانی استعمال ہوتا ہے، یعنی تقریباً ۱۸۰ لاکھ لیٹر پانی، جو کہ معمول کی بارش کے علاوہ ہے۔ دو نسلی جوار کے ایک ایکڑ کھیت کی سینچائی میں اس کے صرف ۱۰ فیصد پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ زیادہ تر لوگ گنّے پر حملہ نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ان کا کہنا ہے کہ گنّے کو ان علاقوں میں اُگائیے، جہاں اس کے لیے پانی موجود ہے، اس علاقے میں نہیں، جہاں پانی کی قلت ہے۔ مہاراشٹر میں کھیتی لائق زمین کے صرف چار فیصد حصے پر گنّا اُگایا جاتا ہے، جب کہ یہ کل آبپاشی کا ۷۰ فیصد پانی جذب کر لیتا ہے۔

مہابلیشور کے یونس نالابند کہتے ہیں، ’’ہمارا یہ کنواں پچھلی چھ دہائیوں میں کبھی نہیں سوکھا۔‘‘ وہ اور رشن اپنی اسٹرا بیریز کو پیک کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ملک بھر میں کل اسٹرابیری کی پیداوار کا ۸۰ فیصد کے قریب مہابلیشور میں پیدا ہوتا ہے۔ دونوں میاں بیوی، ہمیں کچھ اسٹرابیریز تحفے میں دیتے ہیں اور ساتھ ہی کالے شہتوت کے پھل بھی۔

ہمارے سامنے مشکل سے سو گز کی دوری پر کرشنا مائی مندر ہے، جہاں وہ مفت میں پانی سپلائی کرتے ہیں۔ ہمارے پیچھے وہ تین ایکڑ زمین ہے، جس پر وہ اب بھی کھیتی کرتے ہیں۔ لیکن، چونکہ پانی کم ہوتا جا رہا ہے، اس لیے ہو سکتا ہے یہ بھی نہ ہو، اس بیٹلس گانے کے برعکس کہ ’ہمیشہ کے لیے اسٹرا بیری کے کھیت‘۔


06-SAI_1109-PS-Source the rivers, scams of the rulers.jpg

یونس اور روشن قحط سالی کے دنوں میں کھیتی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن اپنے بورویل سے انہیں جتنا پانی ملتا ہے، اس میں سے کچھ پانی وہ کرشنا مائی مندر کو بھی دے دیتے ہیں


(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

ڈاکٹر محمد قمر تبریز ایک انعام یافتہ، دہلی میں مقیم اردو صحافی ہیں، جو راشٹریہ سہارا، چوتھی دنیا اور اودھ نامہ جیسے اخبارات سے جڑے رہے ہیں۔ انہوں نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ میں گریجویشن اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے تبریز اب تک دو کتابیں اور سینکڑوں مضامین لکھنے کے علاوہ متعدد کتابوں کے انگریزی اور ہندی سے اردو میں ترجمے کر چکے ہیں۔ آپ ان سے یہاں رابطہ کر سکتے ہیں: @Tabrez_Alig

پی سائی ناتھ ’پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا‘ کے بانی ایڈیٹر ہیں۔ وہ کئی دہائیوں سے دیہی ہندوستان کے رپورٹر رہے ہیں اور ’ایوری باڈی لوز گُڈ ڈراٹ‘ نامی کتاب کے مصنف ہیں۔ ان سے یہاں پر رابطہ کیا جا سکتا ہے: @PSainath_org

P. Sainath

ପି. ସାଇନାଥ, ପିପୁଲ୍ସ ଆର୍କାଇଭ୍ ଅଫ୍ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆର ପ୍ରତିଷ୍ଠାତା ସମ୍ପାଦକ । ସେ ବହୁ ଦଶନ୍ଧି ଧରି ଗ୍ରାମୀଣ ରିପୋର୍ଟର ଭାବେ କାର୍ଯ୍ୟ କରିଛନ୍ତି ଏବଂ ସେ ‘ଏଭ୍ରିବଡି ଲଭସ୍ ଏ ଗୁଡ୍ ଡ୍ରଟ୍’ ଏବଂ ‘ଦ ଲାଷ୍ଟ ହିରୋଜ୍: ଫୁଟ୍ ସୋଲଜର୍ସ ଅଫ୍ ଇଣ୍ଡିଆନ୍ ଫ୍ରିଡମ୍’ ପୁସ୍ତକର ଲେଖକ।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ ପି.ସାଇନାଥ