’’مجھے نہیں معلوم کہ یہ سب کیا ہے، مجھے لگتا ہے یہ سب مودی سے متعلق ہے۔ میں یہاں کھانے کے لیے آتی ہوں۔ اب ہمیں اس بات کی فکر نہیں ہے کہ ہمیں بھوکا سونا پڑے گا،‘‘ ۱۶ سال کی ریکھا کہتی ہے (اس اسٹوری میں مذکور زیادہ تر لوگوں کی طرح، یہ بھی صرف اپنے پہلے نام کا استعمال کرنا پسند کرتی ہے)۔ وہ کچرا چنتی ہے اور ری سائیکل کرنے کے لیے اس میں سے چیزوں کو الگ کرتی ہے، اور سنگھو کے احتجاجی مقام سے تقریباً ۸ کلومیٹر دور، شمالی دہلی کے علی پور میں رہتی ہے۔
وہ ہریانہ- دہلی سرحد پر واقع سنگھو کی ناکہ بندی پر ہے، جہاں کسان ۲۶ نومبر سے سرکار کے ذریعے ستمبر میں پاس کیے گئے تین نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ احتجاجی مظاہروں نے ہزاروں لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے – کسانوں، ان کے حامیوں، متجسس اور کچھ سیدھے سادے بھوکے لوگوں کو، جو کسانوں اور گرودواروں کے ذریعے چلائے جا رہے مختلف لنگروں میں کھانا کھاتے ہیں۔ ان اجتماعی باورچی خانوں میں کام کرنے والے لوگ کھانے کے لیے اپنے پاس آنے والے تمام لوگوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
ان میں آس پاس کے فٹ پاتھوں اور جھگی بستیوں میں رہنے والے کئی کنبے شامل ہیں، جو مظاہرہ کی جگہ پر خاص طور سے لنگر – مفت کھانا – کے لیے آتے ہیں جو دن بھر چلتا ہے، صبح کے تقریباً ۸ بجے سے رات کے ۹ بجے تک۔ چاول، دال، پکوڑے، لڈو، ساگ، مکئی کی روٹی، پانی، جوس – یہ تمام چیزیں یہاں دستیاب ہیں۔ رضاکار بھی مختلف قسم کی ضروری اشیاء جیسے دوا، کمبل، صابن، چپل، کپڑے وغیرہ مفت میں تقسیم کر رہے ہیں۔
رضاکاروں میں سے ایک، پنجاب کے گرداس پور ضلع کے گھومن کلاں گاؤں کے ۲۳ سالہ کسان ہر پریت سنگھ ہیں، جو بی ایس ای کی پڑھائی بھی کر رہے ہیں۔ ’’ہمارا ماننا ہے یہ قانون غلط ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہمارے آباء و اجداد ان زمینوں پر کاشتکاری کرتے تھے اور ان کے مالک تھے اور اب سرکار ہمیں اس سے بے دخل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہم ان قوانین کی حمایت نہیں کرتے۔ اگر ہم روٹی نہیں کھانا چاہتے، تو کوئی ہمیں اسے کھانے کے لیے کیسے مجبور کر سکتا ہے؟ ان قوانین کو ردّ کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز