نئی دہلی – کالکا شتابدی اسپیشل کی سیٹ پر بیٹھتے ہی ٹرین چھوٹ جانے کا خوف بھی ختم ہو چکا تھا۔ ٹرین نے ایک لمبی سیٹی بجائی، ایک لمحہ کے لیے پیچھے کو جھٹکا لیا اور پٹری پر اپنے پہیوں کو آگے کی طرف دوڑانے لگی۔ میرے خیالات کی طرح ہی ارد گرد کی تمام چیزیں اُن پہیوں کی آرام دہ، لیکن پھیکی دُھن میں گم ہونے لگیں؛ سوائے اس کے۔ وہ سکون نام کی چیز سے بے خبر تھی۔ ٹرین کی تیز ہوتی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کی بے چینی بھی رفتار پکڑ رہی تھی۔
پہلے وہ اپنے دادا کے تیزی سے کم ہوتے بالوں میں کنگھی کرنے میں مصروف تھی۔ جب تک ہم کروکشیتر پہنچے، کھڑکی سے باہر نظر آنے والا سورج ڈھلتے ڈھلتے کب غائب ہو گیا، پتہ ہی نہیں چلا۔ اور وہ اپنی ہی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔ اب وہ کرسی کے ہتھے سے کھیل رہی تھی، اسے ایک لمحہ کے لیے اوپر اٹھاتی اور دوسرے لمحہ میں نیچے دھکیل دیتی۔ میں اُس زرد روشنی کو تلاش کر رہا تھا جسے سورج اپنے ساتھ لے جا چکا تھا؛ وہ روشنی جس کے غائب ہوتے ہی اندھیرے نے ہمیں اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔
لیکن، اندھیرے کا اس کی بڑھتی ہوئی توانائی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ جیسے جیسے اندھیرا اپنے پیر پھیلا رہا تھا، اس کی چہل قدمی بڑھتی جا رہی تھی۔ سفید دھاری دار لکیروں والوں گہرے نیلے رنگ کا فراک پہنے وہ اب اپنی ماں کی گود میں کھڑی تھی۔ ماں نے بہتر نظارہ دکھانے کے لیے اسے اوپر اٹھایا ہوا تھا۔ بچی نے اوپر دیکھا اور میں بھی اس کی نگاہوں کا پیچھا کرتے ہوئے اوپر دیکھنے لگا۔ ہماری آنکھوں نے اس کے سر کے اوپر دو سوئچ دیکھے۔ وہ اپنی ماں کی گود سے تھوڑا اوپر اٹھی اور اپنا ہاتھ سوئچ تک لے جانے کی جدوجہد کرنے لگی؛ ایک بار کوشش کی، دوسری بار مزید زور لگایا، اور پھر...یوریکا!
سوئچ آن ہوتے ہی اس کے چہرے پر زرد روشنی بکھر گئی۔ سورج اس کی آنکھوں میں سما گیا تھا؛ گویا ڈوب کر پھر سے اُگ رہا تھا۔ اس نے دوسرا سوئچ دبایا۔ ایک اور کرن اس کے بدن کو روشن کر گئی۔ اس نے زرد بلب کے نیچے اپنا کٹورے جیسا ہاتھ رکھا ہوا تھا، جس میں اتر کر روشنی اس کی آنکھوں کا سفر طے کر چکی تھی اور اس کی مسکراہٹ میں ڈھل گئی تھی، اس کے چہرے پر پھیل گئی تھی۔
ننھی ہم سفر کے مدہوش کر دینے والے اس منظر کو دیکھتے ہوئے، ندا فاضلی کا ایک شعر دستک دینے لگا:
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے
دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ
بھی ہم جیسے ہو جائیں گے