زمین کھسکنے کے سبب پہاڑی کے ایک طرف کا پورا حصہ اُس رات کھسک کر نیچے آ گیا۔
یہ رات کے تقریباً ۱۱ بجے کی بات ہے۔ انیتا باکڑے اس وقت سو رہی تھیں اور ۱۷ رکنی ان کی مشترکہ فیملی کا ہر شخص تب ایک دوسرے سے بالکل سٹاکر بنائے گئے ۴-۵ گھروں میں اپنے اپنے بستروں پر گہری نیند میں تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’تیز گڑگڑاہٹ کی وجہ سے ہماری نیند ٹوٹ گئی اور نیند ٹوٹنے کے فوراً بعد ہی ہمیں اس بات کا احساس ہو گیا کہ کیا ہو رہا تھا۔ ہم گہرے اندھیرے میں ہی ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ کچھ دیر میں ہی ہمارے گھر سے سٹے ہوئے سارے گھر ٹوٹ گئے۔‘‘
میرگاؤں، مہاراشٹر کے ستارا ضلع کے پاٹن تعلقہ میں سہیادری کوہستانی سلسلہ کے درمیان کی جگہ پر واقع ہے۔ میرگاؤں میں جب زمین کھسکنے کا واقعہ پیش آیا، تو انیتا کا گھر کسی طرح بچ گیا۔ لیکن، اس میں کاشت کاری کرنے والی ان کی مشترکہ فیملی کے ۱۱ لوگوں کی جان چلی گئی۔ اس میں ان کے ۷ سالہ بھتیجے یوراج اور ان کی دور کی ایک رشتہ دار یشودا باکڑے، جن کی عمر ۸۰ سال تھی، کی موت ہو گئی۔ زمین کھسکنے میں جان گنوانے والوں میں یہ مشترکہ فیملی کے بالترتیب سب سے کم اور زیادہ عمر کے رکن تھے۔
راحت رسانی ٹیم اگلی صبح ہی وہاں پہنچی اور دوپہر تک انیتا اور گاؤں کے دیگر لوگوں کو تقریباً ۶ کلومیٹر دور واقع کوئنا نگر گاؤں کے ضلع پریشد اسکول میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ میرگاؤں وسیع و عریض کوئنا باندھ اور ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ سے بمشکل ۵ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔
گاؤں کے پولیس کانسٹیبل سنیل شیلر کہتے ہیں، ’’شام ۴ بجے کے آس پاس معمولی سی زمین کھسکنے کے بعد ہم نے شام ۷ بجے کے آس پاس ہی لوگوں کو گاؤں سے نکالنا شروع کر دیا تھا اور ہمیں لگا کہ آگے اور کچھ نہیں ہوگا۔ لیکن، رات میں ۱۱ بجے کے آس پاس یہ خطرناک حادثہ ہوا اور پلک جھپکنے جتنی دیر میں ہمارا پورا گاؤں تباہ ہو گیا تھا۔‘‘
میرگاؤں کے ۲۸۵ باشندوں (۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق)، جن میں سے ۱۱ کی زمین کھسکنے کے دوران موت ہو گئی، کو موسلا دھار بارش اور معمولی زمین کھسکنے کو برداشت کرنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ۲۲ جولائی کو زمین کھسکنے کا واقعہ غیر معمولی اور غیر متوقع تھا۔ متعدد نیوز رپورٹ میں یہ بات درج ہے کہ اس دن کوئنا کے آبی علاقے میں ۷۴۶ ملی میٹر کی ریکارڈ بارش ہوئی تھی اور اس ہفتے مہاراشٹر کے بہت سے علاقوں میں سیلاب کی وجہ سے زبردست تباہی مچی ہوئی تھی۔
ضلع پریشد اسکول پر بات چیت کے دوران ۴۵ سالہ جے شری سپکال نے بتایا، ’’۲۱ جولائی کو دوپہر کے وقت بارش ہوئی۔ ہم اتنے فکرمند نہیں تھے، کیوں کہ ہر سال اس موسم میں بھاری بارش عام بات رہی ہے۔ لیکن، اگلی رات کو ۱۱ بجے کے آس پاس گونجتی ہوئی تیز آواز کی وجہ سے ہماری آنکھ کھل گئی۔ تیز گڑگڑاہٹ پیدا کرتے ہوئے پہاڑ سے چٹان کھسکتے ہوئے آئی اور کچھ منٹ کے درمیان ہی ہمارا گاؤں تباہ ہو گیا۔ ہمارا نصیب ٹھیک تھا کہ ہم بھاگتے ہوئے پاس کے مندر تک جا سکے۔‘‘
۲۱ سالہ کومل شیلر نے اسی میں اپنی بات جوڑتے ہوئے کہا، ’’بھاگتے ہوئے ہمارے گھر آئے گاؤں کے کچھ لوگوں نے بتایا کہ پہاڑ کھسک گیا ہے۔ ہم نے سوچنے سمجھنے میں ایک پل کی بھی دیر نہیں کی اور فوراً گھر سے نکل بھاگے۔ باہر بہت اندھیرا تھا۔ کیچڑ بھرے راستے پر چلتے ہوئے اور کمر تک لگے پانی کے بیچ سے گزرتے ہوئے ہمیں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہم کسی طرح اس مندر تک پہنچ پائے جہاں ہم نے بقیہ رات گزاری۔‘‘
گھروں کے ڈھہنے اور لوگوں کی جان جانے کے علاوہ، بھاری بارش اور زمین کھسکنے کی وجہ سے نہ صرف کھیتوں کو زبردست نقصان پہنچا، بلکہ فصلیں بھی برباد ہو گئیں۔ ۴۶ سالہ روندر سپکال، جن کی مشترکہ فیملی کے ۱۲ گھر اس خطرناک حادثہ میں تباہ ہو گئے، کہتے ہیں، ’’میں نے حادثہ سے کچھ دنوں پہلے ہی دھان کی روپائی کی تھی اور امید کر رہا تھا کہ اس سیزن میں پیداوار اچھی ہوگی۔ لیکن میری کھیتی کی پوری زمین بہہ گئی۔ چاروں طرف بس کیچڑ ہی کیچڑ بچا ہے اب۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اب کیا کروں۔ میری پوری فیملی دھان کی فصل سے امید لگائے بیٹھی تھی۔‘‘
میرگاؤں کے بڑے بزرگوں کے لیے منتقل ہوکر ضلع پریشد اسکول جانا، رہنے کے لیے بسیرا لگانے کے لحاظ سے تیسری بار جگہ بدلنا ہے۔ ۱۹۶۰ کی دہائی کی شروعات میں کوئنا باندھ کا تعمیراتی کام شروع ہونے کے دوران انہیں پہلی بار اپنے رہائشی علاقے سے مشترکہ طور پر اجڑ کر اپنے اوپر گھر کے سایہ کی تلاش میں کہیں اور جانا پڑا تھا۔ کنبوں کو پناہ گاہ کی تلاش میں زیادہ اونچائی پر جانا پڑا اور اصل میں جو میرگاؤں تھا، کچھ وقت بعد وہ پانی میں سما گیا تھا۔ پھر، ۱۱ دسمبر ۱۹۶۷ کو کوئنا باندھ کے آس پاس کے علاقے میں کافی شدت کا زلزلہ آیا اور آس پاس کے گاؤوں کے لوگوں کو راحت کیمپوں میں لے جایا گیا تھا، ان لوگوں کو بھی جو نئے ’میرگاؤں‘ میں رہ رہے تھے۔ اس کے بعد میرگاؤں کے رہنے والے لوگ واپس لوٹ کر اسی جگہ رہنے آ گئے جہاں اس سال ۲۲ جولائی کو زمین کھسکنے کا واقعہ پیش آیا۔
۴۲ سالہ اتم شیلر بتاتے ہیں، ’’جب باندھ بنایا جا رہا تھا، تب سرکار نے کھیتی کے لیے زمین اور نوکریاں دینے کا بھروسہ دلایا تھا۔ اب ۴۰ سال سے بھی زیادہ کا وقت گزر چکا ہے، لیکن ہمیں ایسا کچھ بھی معاوضہ کے طور پر نہیں ملا ہے۔ اگر آپ کوئنا باندھ کے آس پاس سے گزریں، تو آپ کو پہاڑوں پر بڑی بڑی دراڑیں نظر آ جائیں گی۔ اور اگلی بارش میں یہ پہاڑ بھی کھسک کر زمین پر آ جائیں گے۔ ہم لگاتار خطروں اور آفتوں کے خدشہ کے درمیان زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘‘
نیوز رپورٹ کے مطابق، ۲۳ جولائی کو ریاستی حکومت نے مہاراشٹر کے مختلف علاقوں میں زمین کھسکنے کے دوران جان گنوا چکے ہر شخص کی فیملی کو ۵ لاکھ روپے بطور معاوضہ دینے کا اعلان کیا۔ انیتا باکڑے کی فیملی کو معاوضہ کی یہ رقم مل گئی ہے۔ مرکزی حکومت نے بھی ۲ لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا تھا، باکڑے فیملی کو معاوضہ کی اس رقم کے ملنے کا انتظار ابھی بھی جاری ہے۔
لیکن، ابھی تک ان لوگوں کے لیے کسی بھی طرح کے راحت پیکیج کا اعلان نہیں ہوا ہے، زمین کھسکنے میں جن کی زمینیں یا گھر تباہ ہو گئے۔
اپنے کھیتوں میں جمع کیچڑ اور ملبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ۲۵ سالہ گنیش شیلر بتاتے ہیں، ’’ریونیو ڈپارٹمنٹ نے ہم سے ایک فارم بھروایا (۲ اگست کو، معاوضہ کے لیے)، لیکن ابھی تک کسی بھی قسم کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔‘‘ کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کی وجہ سے نوی ممبئی میں میکینکل انجینئرنگ کی اپنی نوکری چھوڑنے کے بعد گنیش دھان کی کھیتی میں فیملی کا ہاتھ بٹانے اپنے گاؤں واپس آ گئے۔ وہ راستے میں ایک جگہ تھوڑا ٹھہر سے جاتے ہیں، کوشش کرتے ہیں کہ آنسو نہ آئیں اور کہتے ہیں، ’’ہماری ۱۰ ایکڑ کی پوری کی پوری قابل کاشت زمین برباد ہو گئی۔ پوری فصل تباہ ہو گئی۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایسے حالات میں ہمیں سرکار کی طرف سے کوئی بھی مدد ملے گی۔‘‘
بہرحال، زمین کھسکنے کے ہفتوں بعد میرگاؤں کے صحیح سلامت بچ گئے لوگ ابھی بھی ضلع پریشد اسکول میں رہ رہے ہیں اور سرکار یا کچھ غیر منافع بخش تنظیموں کی طرف سے مہیا راشن اور دیگر ضروری چیزوں کے سہارے گزر بسر کر رہے ہیں۔ ان سبھی کی آنکھوں میں مناسب اور مستقل بازآبادکاری کی بے چینی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ پولیس کانسٹیبل سنیل شیلر کہتے ہیں، ’’ہمارے گاؤں کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔ ہماری مانگ خطروں سے دور محفوظ جگہ پر بازآبادکاری کی ہے۔‘‘
اس سلسلے میں ہی بات کرتے ہوئے اتم شیلر کہتے ہیں، ’’کوئی بھی گھر (میرگاؤں واقع) واپس نہیں لوٹنا چاہتا۔ اب ہم اس علاقے میں رہنا ہی نہیں چاہتے، ہم پوری طرح محفوظ جگہ پر بازآبادکاری چاہتے ہیں۔‘‘
زمین کھسکنے کے دوران صحیح سلامت بچ گئے انیتا کے خلیرے بھائی سنجے باکڑے کہتے ہیں، ’’سرکار کی طرف سے یوم آزادی سے پہلے عارضی مکان دینے کی بات کی گئی تھی، لیکن ابھی تک سرکار نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا ہے۔ آخر کب تک ہمیں اس اسکول میں رہنا پڑے گا؟ اسکول میں عورتوں کے لیے ٹوائلیٹ کا معقول انتظام نہیں ہے۔ اور تو اور پینے کے لیے پانی کی دستیابی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہم تو منتقل ہوکر دوسرے ضلع میں بھی جانے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن، ہمیں مناسب اور مستقل بازآبادکاری چاہیے۔‘‘
۱۴ اگست کو شام ۴ بجے کے آس پاس اسکول میں رہ رہے لوگ، میرگاؤں میں زمین کھسکنے کے دوران جان گنوا چکے ۱۱ لوگوں کے نام جاننے اور ان کے نام پر کچھ وقت کے لیے خاموشی اختیار کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ ہر کسی کی آنکھیں بند تھیں۔ صرف انیتا کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ شاید وہ فیملی کے ۱۱ ممبران کو کھونے کے بعد ابھی بھی صدمے میں ہیں۔
دیگر لوگوں کی طرح وہ بھی اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ ابھی اسکول میں ہی رہ رہی ہیں۔ دونوں ہی کاشت کاری کا کام کرتے ہیں۔ ہال کے ایک کونے میں اپنے کچھ رشتہ داروں کے ساتھ زمین پر بیٹھے بیٹھے وہ کہتی ہیں، ’’ہم نے اپنی فیملی کھوئی ہے، ہمارا آشیانہ ہم سے چھن گیا ہے، ہمارا سب کچھ ہمارے ہاتھوں سے چلا گیا ہے۔ اب ہم اپنے گاؤں واپس نہیں جائیں گے۔‘‘ ایسا کہتے ہوئے ان کی آنکھیں چھلک پڑتی ہیں اور ان کی زبان سے ایک لفظ بھی نکنا بند ہو جاتا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز