ممبئی کی جھگی بستیوں میں جہاں میری پرورش ہوئی، ہمارے پڑوس میں کیرانے کی دکان روزانہ شام کو ۶ بجے کے آس پاس بھر جاتی تھی۔ سال تھا ۲۰۰۰۔ بڑی دکانوں پر چھوٹے خریداروں کی بھیڑ لگ جاتی تھی – ایک پاؤ چاول، ایک روپے میں لال مرچ پاؤڈر اور نمک، ایک یا دو روپے میں کھانے پکانے کا تیل، ۲۵-۵۰ پیسے میں کالی سرسوں اور ہلدی پاؤڈر، ایک یا دو پیاز، ایک پاؤ ارہر کی دال اور گیہوں کا آٹا، اور اسٹوو کے لیے تھوڑا سا مٹی کا تیل کے لیے۔
لوگ اپنی ۱۵۰ روپے کی یومیہ مزدوری سے روزانہ تھوڑا تھوڑا خریدتے تھے۔ ان دنوں ۲۵ اور ۵۰ پیسے کے سکے رائج تھے۔ کیرانے کی دکان پر سب سے سستا چاول ۲۰ روپے کلو اور ارہر کی دال ۲۴ روپے کلو تھی۔ زیادہ تر خریدار دونوں سامان آدھا کلو یا ایک پاؤ لے جاتے تھے۔ مجھے پتہ نہیں کیوں، لیکن راشن کی دکان سے ہمیں صرف چینی، ناریل کا تیل اور مٹی کا تیل ہی مل سکتا تھا۔ باقی سامان ہمیں اس پرائیویٹ کیرانے کی دکان سے خریدنا پڑتا تھا۔
صبح ۸ بجے سے بنا رکے لگاتار کام کرنے کی وجہ سے وہ تب تک کافی تھک جاتے تھے، اس لیے گاہک ۳-۴ لوگوں کی دن بھر کی بھوک مٹانے کے لیے ۷۰-۸۰ روپے کا سامان خریدتے تھے۔ مہینے کے آخر میں مکان کا ماہانہ کرایہ، بجلی اور پانی کے بل کا حساب لگانے کے بعد، وہ اپنی بقیہ کمائی – جو شاید ہی کبھی ۲۰۰۰ روپے سے زیادہ ہوتی تھی – گاؤں میں اپنے اہل خانہ کو بھیجتے تھے، کبھی ڈاک سے اور کبھی گاؤں جا رہے کسی شخص کے ہاتھ سے۔
روز کماؤ، روز خرچ کرو – یہی ان کی زندگی تھی۔ ہمارا گھر بھی یومیہ کمائی سے چلتا تھا – ہری مرچ اور لیموں بیچنے سے۔ میری ماں ہر شام مجھے تھوڑا سا مرچ پاؤڈر، نمک اور چاول خریدنے کے لیے بھیجتی تھیں۔ میں، جو اس وقت نو سال کی تھی، دکان میں بوڑھی دادی کو تب تک گھورتی رہتی جب تک کہ وہ میری طرف مڑ کر یہ نہیں پوچھتیں کہ ’’تمہیں کیا چاہیے؟‘‘
راشن کی دکان پر کئی چہرے مجھ سے شناسا ہو گئے۔ اس لیے ہم بس ایک دوسرے کو دیکھتے اور مسکراتے رہتے۔ ان میں سے بہت سے لوگ مراٹھی نہیں بولتے تھے، جب کہ میں صرف یہی زبان جانتی تھی۔ وہ ہندی میں بولتے تھے، جیسے فلموں میں بولا جاتا ہے۔ مجھے اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ دوسری ریاستوں سے ہیں، مہاراشٹر سے نہیں۔
ہم ۱۰ x ۱۰ فٹ کی کھولی (ایک کمرے کے مکان) میں رہتے تھے۔ اس قسم کی چھوٹی رہائش گاہیں آج بھی اس شہر میں موجود ہیں، جو تنگ نلی جیسی گلیوں میں ایک دوسرے سے چپکی ہوئی ہیں۔ ان کمروں میں سے کچھ میں ۱۰-۱۲ لوگ ایک ساتھ کرایے پر رہتے ہیں، کبھی کبھی وہ سبھی مرد ہوتے ہیں۔ کچھ دیگر کمروں میں، اس چھوٹی سی جگہ میں پوری فیملی ایک ساتھ رہتی ہے۔
’’بھابھی، کھانا ہو گیا؟‘‘ وہ ہمارے گھر سے گزرتے وقت میری ماں سے پوچھتے۔ کبھی کبھی، وہ مجھ سے پوچھتے، ’’ہوم ورک کر لیا؟‘‘ کبھی کبھی، اپنی چھٹی کے دن، وہ دروازے پر بیٹھ کر باتیں کرتے۔ ’’اب کیا کہیں، بھابھی؟ کھیت میں مناسب پیداوار نہیں ہوئی، پینے تک کے لیے پانی نہیں ہے، گاؤں میں کوئی نوکری نہیں ہے۔ اس لیے، میں اپنے دوستوں کے ساتھ بمبئی آ گیا۔ اب، میں اپنے بچوں کو ایک اچھا مستقبل دینا چاہتا ہوں۔‘‘
ہندی فلمیں دیکھنے کی وجہ سے ہم سمجھ لیتے تھے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ پھر میری ماں، اپنی ٹوٹی پھوٹی ہندی میں جواب دیتیں۔ لیکن یہ بات چیت، ایک دوسرے سے سوال جواب کرنے کا سلسلہ کبھی رکتا نہیں تھا۔ ان کے بچے ہمارے ساتھ مراٹھی میڈیم کے اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ ہم ایک ساتھ کھیلتے اور ایک دوسرے کی زبان کو سمجھنا سیکھتے۔
لیکن ایک سال کے بعد وہ چلے جاتے۔
ہمارے یہ سبھی پڑوسی مزدور، مزدوروں کے کنبے تھے۔ بلند و بالا عمارتیں، پرکشش عمارتیں، فلائی اوور، سڑکیں، مختلف کارخانوں میں تیار مال، سب کچھ ان کی کڑی محنت کا نتیجہ تھا اور ہے۔ وہ لگاتار مہاجرت کرتے۔ آج ایک جگہ پر، کل دوسری جگہ پر۔ یہ ممبئی میں یا کسی دیگر شہر میں ہو سکتا ہے – ان کے پاس کبھی استحکام نہیں ہوتا۔
سب کچھ عارضی ہے۔ رہنے سے لیکر کھانے تک۔
ان کا یومیہ خرچ جو دہائیوں پہلے چند روپے تھا، آج وہ سینکڑوں روپے تک پہنچ گیا ہے۔ میرے لیے، ۲۰۲۰ کی یہ کورونا وبا اور لاک ڈاؤن آج بھی ۲۰۰۰ کے اسی سال میں اٹکی ہوئی ہے۔
میرے پڑوس میں مزدور کا چہرہ بدل گیا ہے، لیکن اس کی تکلیف کم نہیں ہوئی ہے۔ یہ آج بھی ویسی ہی ہے جیسی ۲۰ سال پہلے تھی۔ آج وہ یہاں سے نکلا ہے، لیکن کام کی تلاش میں نہیں، جیسا کہ وہ پہلے کیا کرتا تھا۔ اس نے اپنے گاؤں جانے والی سڑک پکڑ لی ہے۔ یہ راستہ خطروں سے، بے بسی سے بھرا ہوا ہے، لیکن اس کے پاس کوئی متبادل نہیں بچا ہے۔
سرکار، انتظامیہ، نظام اور جو لوگ اسے اپنے دفتروں کی چہار دیواری کے اندر سے چلاتے ہیں، انہیں اس کا کوئی علم نہیں ہے – کوئی احساس نہیں ہے کہ خالی پیٹ سینکڑوں کلومیٹر پیدل چلنے سے ہونے والی ناقابل برداشت تکان کا اس انسان پر کیا اثر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ سڑک یا پتھر کی سطح، جس پر وہ آرام کر سکتے ہیں یا سو سکتے ہیں، ان تھکے ہوئے جسموں کے نیچے ایک نرم گدے کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ اور پھر، ان کا آگے کا سفر بھی اسی سخت سطح سے ہوکر جاری رہتا ہے۔ جو بے رحم نظام اور اس اس کے چونکانے والے فیصلوں کے درمیان کچلا جاتا ہے – کہ وہ ’مہاجر مزدور‘ کون ہے۔
خاکہ نگار: انترا رمن نے سرشٹی انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ، ڈیزائن اینڈ ٹیکنالوجی، بنگلورو سے حال ہی میں وژول کمیونکیشن سے گریجویشن کیا ہے۔ ان کی خاکہ نگاری اور ڈیزائن میں تصوراتی خیال اور داستان گوئی کی سبھی شکلوں کا سب سے بڑا اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز