جونالی رائیسونگ ۳۴ سال کی عمر میں ’اپونگ‘ بنانے کی ماسٹر بن چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں کچھ ہی دنوں میں ۳۰ لیٹر سے زیادہ اپونگ بنا سکتی ہوں۔‘‘ زیادہ تر بریوَرز (بیئر کی کشید کرنے والے لوگ) ایک ہفتہ میں کچھ ہی لیٹر بنا سکتے ہیں۔ یہ پورا کام ہاتھ سے کیا جاتا ہے۔
جونالی، آسام کی برہم پتر ندی کے ماجولی جزیرہ پر واقع گرمور قصبہ کے قریب موجود اپنے تین کمروں پر مشتمل گھر اور اس کے پچھلے حصہ کو ہی بیئر بنانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ان کے گھر کے بغل میں ایک چھوٹا سا تالاب ہے، جو طاقتور برہم پتر ندی میں لگاتار آنے والے سیلاب کے پانی سے بن گیا ہے۔
صبح کے ۶ بج رہے ہیں جب ہم لوگ ان سے کام کے وقت ملاقات کر رہے ہیں، اور ہندوستان کے اس مشرقی حصہ میں سورج پوری آب و تاب سے آسمان پر چمکنے لگا ہے۔ جونالی، بیئر کی کشید کا عمل شروع کرنے کے لیے اپنے گھر کے پچھلے حصے میں آگ جلانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ ان کے اوزار اور سامان گھر کے اندر رکھے ہوئے ہیں۔
اپونگ ایک خمیر شدہ مشروب ہے۔ اسے میسنگ کمیونٹی (جسے آسام میں درج فہرست قبیلہ کا درجہ حاصل ہے) کے لوگ تیار کرتے ہیں۔ اسے کھانے کے ساتھ پیا جاتا ہے، اور جیسا کہ میسنگ بھرت چندی کہتے ہیں، ’’اگر اپونگ نہیں ہے، تو ہم میسنگ لوگ کوئی پوجا یا تہوار کی رسمیں ادا نہیں کر سکتے۔‘‘ چندی، گرمور مارکیٹ میں ماجولی کچن کے نام سے بنے ایک گھریلو طرز کے ریستوراں کے مالک ہیں۔
چاول اور جڑی بوٹیوں سے بنا ہلکے زرد رنگ کا یہ مشروب خصوصی طور پر جونالی جیسی میسنگ خواتین کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے، جو اسے گرمور کی دکانوں اور ہوٹلوں میں فروخت کرتی ہیں۔ جونالی ہنستے ہوئے کہتی ہیں، ’’مردوں کو یہ کام کرنا اچھا نہیں لگتا۔ انہیں لگتا ہے کہ جسمانی طور پر یہ کام محنت طلب ہے اور جڑی بوٹیاں اور پتے اکٹھا کرنے سے آدمی تھک جاتا ہے۔‘‘
ان کے گھر سے پانچ منٹ چلنے کے بعد، بازار والے علاقہ میں جونالی کے شوہر، اُربور رائیسونگ کی ایک دکان ہے۔ ان کا ۱۹ سال کا بیٹا مِریدو پابونگ رائیسونگ، جورہاٹ میں ہوٹل مینجمنٹ کی پڑھائی کر رہا ہے۔ وہاں جانے کے لیے اسے فیری (کشتی) سے ایک گھنٹہ کی دوری طے کرکے برہم پتر ندی پار کرنی پڑتی ہے۔
جونالی کو ان کی ساس، دیپتی رائیسونگ نے اپونگ بنانا سکھایا تھا۔ اس کی دو قسمیں ہیں: نونگزِن اپونگ، جس کا بنیادی مرکب صرف چاول ہوتا ہے؛ اور پورو اپونگ، جسے دھان کی جلی ہوئی پرالی کو ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔ ایک لیٹر اپونگ ۱۰۰ روپے میں فروخت ہوتا ہے، اور بنانے والے کو اس میں سے تقریباً آدھی رقم ملتی ہے۔
ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک اس کی مشق کرنے کے بعد، جونالی کو اب اس کے روٹین کا پتہ چل گیا ہے۔ پاری نے جب ماجولی ضلع کے کملا باڑی بلاک میں واقع ان کی بستی میں ان سے ملاقات کی تھی، تب وہ پورو اپونگ بنا رہی تھیں۔ انہوں نے یہ کام ساڑھے ۵ بجے صبح میں ہی شروع کر دیا تھا، اور اپنے گھر کے پچھواڑے میں ٹن کی ایک چادر پر ۱۵-۱۰ کلو دھان کی پرالی میں آگ لگا کر اسے دھیرے دھیرے جلنے کے لیے رکھ دیا تھا۔ ’’اسے جلنے میں ۴-۳ گھنٹے لگتے ہیں،‘‘ وہ ہمیں بتاتی ہیں اور دوسری طرف جا کر چاول پکانے کے لیے آگ جلانے لگتی ہیں۔ بعض دفعہ وہ اس کام کو اور بھی پہلے شروع کر دیتی ہیں، اور پرالی کو رات بھر دھیرے دھیرے جلنے کے لیے رکھ دیتی ہیں۔
جس جگہ پرالی سے دھواں نکل رہا ہے، وہاں جونالی پانی سے بھری ایک بڑی کڑھائی کو آگ پر رکھتی ہیں۔ اس میں اُبال آ جانے کے بعد، وہ اس کا ڈھکن اٹھاتی ہیں اور تھوڑا تھوڑا کرکے اس میں ۲۵ کلو چاول ڈالتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس کام کو کرتے وقت میری کمر میں تھوڑا درد ہونے لگتا ہے۔‘‘
آسام کے تہواروں – ماگھ بیہو، بوہاگ بیہو اور کاٹی بیہو – کے دوران بڑی مقدار میں بیئر کی مانگ بڑھنے پر جونالی کافی مصروف ہو جاتی ہیں، تب انہیں بعض دفعہ ایک ہی دن میں اسے دو بار بنانا پڑتا ہے
دو جگہ آگ جل رہی ہے، اس لیے جونالی کو تیزی سے کام کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرف وہ ابلتے ہوئے چاول پر دھیان دیتی ہیں، تو دوسری طرف جلتی ہوئی پرالی کو لکڑی کے ایک ڈنڈے سے پھیلاتی ہیں تاکہ اس میں چاروں طرف آگ برابر لگے۔ اُبلتے ہوئے ۲۵ کلو چاول کو ہلانا آسان نہیں ہے، اسی لیے جونالی ایسا کرتے وقت تھوڑا ناراض بھی ہو جاتی ہیں۔ یہ چاول راشن کی دکان سے خریدا گیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ہم چاول بھی اُگاتے ہیں، لیکن اسے اپنے کھانے کے لیے رکھ لیتے ہیں۔‘‘
چاول کو پکنے میں تقریباً ۳۰ منٹ لگیں گے، اور جب یہ تھوڑا ٹھنڈا ہو جائے گا، تو جونالی اس میں جلی ہوئی پرالی کی راکھ ملا دیں گی۔ یہ عمل آسان لگتا ہے، لیکن ابلتے ہوئے چاول کو گرم راکھ کے ساتھ اچھی طرح ملانا اور گوندھنا بہت مشکل کام ہے۔ وہ اپنے ننگے ہاتھوں سے یہ کام کریں گی اور پھر اسے بانس کی ٹوکری میں پھیلا دیں گی۔ ’’اس ٹوکری میں یہ تیزی سے ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ راکھ اور چاول کو گرم رہتے ہوئے ہی آپس میں ملانا پڑتا ہے، ورنہ یہ آپس میں ملے گا نہیں،‘‘ جونالی بڑی مشکل سے اپنی ہتھیلیوں سے انہیں آپس میں ملاتے ہوئے کہتی ہیں۔
گوندھتے وقت، جونالی اس میں اپونگ کے لیے پہلے سے تیار کی گئی جڑی بوٹیاں بھی ڈالتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’اس میں سو جڑی بوٹیاں اور پتے ڈالے جاتے ہیں۔‘‘ وہ سبھی کے نام نہیں بتانا چاہتیں، البتہ اتنا ضرور کہتی ہیں کہ کچھ پتے میسنگ کمیونٹی کے درمیان بلڈ پریشر کو کم کرنے اور ہاضمہ کو بہتر کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ لیکن وہ اس سے زیادہ کچھ بھی بتانے کو تیار نہیں ہیں۔
جونالی دن میں گرمور میں ادھر ادھر گھوم کر اپنی ضرورت کے پتے اور جڑی بوٹیاں چنتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں انہیں سُکھا کر مکسی [مکسر گرائنڈر] میں پیستی ہوں اور پھر اس کے پاؤڈر سے چھوٹا گولا [مٹھی کے سائز کا] بنا لیتی ہوں۔ میں اپنے اپونگ میں جڑی بوٹیوں کو سُکھا کر اس کے پاؤڈر سے تیار کردہ تقریباً ۱۶-۱۵ گولے استعمال کرتی ہوں۔‘‘ جونالی اپنے سسرال سے بمشکل ایک کلومیٹر دور، پھٹوکی بستی میں پیدا ہوئی تھیں، اس لیے وہ اس علاقے کو اچھی طرح جانتی ہیں۔
بانس کی ٹوکری میں رکھا مرکب ٹھنڈا ہو جانے کے بعد، اسے پلاسٹک کی تھیلیوں میں بھر کر جونالی کے گھر میں رکھ دیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’تیار ہونے پر اس کی [خمیر کی] خوشبو سے مجھے پتہ چل جائے گا۔‘‘ اس کے بعد بیئر کشید کرنے کا آخری مرحلہ آتا ہے: راکھ، پکے ہوئے چاول اور جڑی بوٹیوں کے خمیر شدہ مرکب کو کیلے کے پتے سے ترتیب دی ہوئی ایک مخروطی ٹوکری میں رکھ کر ایک برتن کے اوپر لٹکا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ٹوکری میں پانی ڈالا جاتا ہے، اور مرکب سے بننے والی بیئر نیچے کے برتن میں ٹپکنے لگتی ہے۔ ۲۵ کلو چاول سے تقریباً ۳۴-۳۰ لیٹر اپونگ حاصل ہوگا۔
آسام کے تہواروں – جنوری میں ماگھ بیہو، اپریل میں بوہاگ بیہو اور اکتوبر میں کاٹی بیہو – کے دوران بڑی مقدار میں بیئر کی مانگ بڑھنے پر جونالی کافی مصروف ہو جاتی ہیں، تب انہیں بعض دفعہ ایک ہی دن میں اسے دو بار بنانا پڑتا ہے۔
جونالی صرف بیئر بنا کر بیچنے سے ہی نہیں کماتی ہیں، بلکہ وہ پاس کے ایک ہوٹل کے کپڑے دھونے، میسنگ کھانا پکانے اور پروسنے، انڈوں کے لیے ۲۰۰ مرغیاں پالنے، اور قریب کے چھوٹے موٹے رہائشی ہوٹلوں میں بالٹی سے گرم پانی سپلائی کرنے کا بھی کام کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اپونگ بنانے سے ان کی کمائی بڑے آرام سے ہو جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر میں اس میں ۱۰۰۰ روپے لگاؤں، تو ۳۰۰۰ روپے کی کمائی کر سکتی ہوں۔ اسی لیے مجھے یہ کام پسند ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز